عورت: حیا و حجاب کا پیکر

231

چند دنوں قبل خلیجی ملک میں کیٹ واک ہوئی، خوب صورت ہینڈ بیگ لٹکائے، عبایا پہنے خواتین پُروقار اور خوب صورت لگ رہی تھیں۔ سب سے اچھی بات اس کیٹ واک میں صرف باحجاب خواتین تھیں، مرد حضرات نہیں تھے تو تقریب اور بھی پُروقار لگی۔

’’عورت‘‘ جس کے معنی ہی چھپی یا ڈھکی ہوئی ہونا ہے تو یہ لفظ حیا کے زمرے میں آکر بنتا ہے۔ شرم یا جھجک، کراہیت یا ناپسندیدہ عمل، تامل اور بے چینی پیدا ہو، تو یہ حیا ہے۔

شرم و حیا ایک سادہ سا لفظ، جو انسان کے دل میں کسی برے یا فحش کام یا خیال اور خلافِ فطرت کام کے لیے رکاوٹ بنے۔ برا کام کرنا تو درکنار اس کا محض خیال ہی دل میں احتجاج پیدا کردے۔ مگر اس کا دینی مفہوم بہت گہرا اور بااثر ہے۔ اسلام کے پانچ ارکان میں توحید اور ایمان باللہ کے بعد نماز ہے، اور حدیث ہے کہ ’’نماز بے حیائی سے روکتی ہے۔‘‘

قرآن میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ’’مسلمان مردوں اور عورتوں سے کہو کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں‘ اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں۔‘‘

حضور ؐ نے ارشاد فرمایا ’’حیا ایمان کا پھل ہے۔‘‘ (صحیح بخاری مسلم)

حیا مرد عورت دونوں کا وصف ہے۔ ایک لڑکے کے الفاظ ہیں کہ میں بس اسٹاپ پر کھڑا تھا، ایک خوب صورت لڑکی مغربی لباس میں ملبوس ہاتھ میں فائلیں لیے کھڑی تھی، وہ یقینا دفتر سے واپس آرہی تھی۔ اسٹاپ پر اُسے دیکھ کر میں خود کو نہ سنبھال سکا اور لاشعوری طور اُس کا پیچھا کرتے ہوئے بس پر سوار ہوا۔ مسلسل میری نظریں اُس لڑکی پر تھیں۔ جب اس کی منزل آئی، وہ اتری تو بس اسٹاپ پر اس کی ماں اس کی منتظر تھی، وہ اس کے ہمراہ ہوگئی اور ایک بوسیدہ گھر میں داخل ہوگئی۔ لڑکیاں کبھی مجبوری میں گھروں سے نکلتی ہیں۔ پھر مجھے خیال آیا کہ میری امی بھی تو میری بہن کو یونیورسٹی سے واپسی پر خود لینے جاتی ہیں اور میں بھی متوسط گھرانے سے تعلق رکھتا ہوں۔ آج میں کسی کا پیچھا کررہا ہوں، کل کوئی میری بہن کا بھی پیچھا کرسکتا ہے۔ شرمندگی اور ندامت کے اس احساس نے میرے جسم و جان کو پارہ پارہ کردیا اور میں فوراً پلٹا، نماز میں رو رو کر اللہ سے معافی مانگی۔

عورتوں کے لیے حکم ہے ’’اے نبیؐ! مومن عورتوں سے کہہ دو کہ اپنی نظریں بچا کر رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں اور بناؤ سنگھار نہ دکھائیں بجز اس کے کہ جو خود ظاہر ہوجائے، اور اپنے سینوں پر اپنی اوڑھنیوں کے آنچل ڈالے رہیں، وہ اپنے بناؤ سنگھار نہ ظاہر کریں مگر اُن لوگوں کے سامنے (مکمل فہرست محرم رشتوں کی)، وہ اپنے پاؤں زمین پر مارتی ہوئی نہ چلا کریں کہ اپنی جو زینت انہوں نے چھپا رکھی ہو اس کا لوگوں کو علم ہوجائے۔‘‘(سورۃ النور۔ 31:34)

ایک مرتبہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے ان کی بھتیجی حفصہ رضی اللہ عنہا بنتِ عبد الرحمن ملنے آئیں، انہوں نے باریک سی اوڑھنی اوڑھ رکھی تھی۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے ان کی اوڑھنی پھاڑ دی اور انہیں واپس جاتے ہوئے ایک موٹی چادر اوڑھا دی۔‘‘

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ’’وہ عورتیں جو لباس پہنے ہوئے بھی عریاں ہیں، وہ خود بھی حق سے ہٹ چکی ہیں اور دوسروں کو بھی حق سے ہٹاتی ہیں‘ وہ جنت میں داخل نہیں ہوں گی اور اس کی خوشبو بھی نہیں پائیں گی، حالانکہ جنت کی خوشبو پانچ سو برس کی مسافت سے آتی ہے۔‘‘

اگرچہ عورت کی زندگی میں اخلاقی خوبی کی بڑی اہمیت ہے اور اسلام نے حیا کو مرد اور عورت دونوں کے ایمان کا جزو بنایا ہے، مگر عورت کی زندگی میں اُس کی اہمیت بہت زیادہ ہے، یہ وصف اس کے فطری مزاج کے قریب ہے اور معاشرے میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے، یہی مشرقیت ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا کہ ’’یہ (عورتیں) نازک آبگینے ہیں۔‘‘ عورت گھر کی ملکہ ہے۔ مسلم عورت کو اپنے ایمان کی حفاظت کے لیے کم از کم ان شرعی حدود کی پابندی کرنا لازم ہے جو ستر، حجاب، غضِ بصر اور دیگر معاملات میں بیان ہوئے۔

ظاہر وباطن کی حیا مل کر ہی انسان کو پیکرِ انسانیت میں ڈھالتی ہے، اسی لیے توکہا جاتا ہے ’’حیا مرد کی زینت اور عورت کا زیور ہے۔‘‘ حیا کے مقصد کو سمجھ کر اس کا اپنی زندگیوں میں اطلاق کریں۔

حصہ