بزم نگار ادب پاکستان کے زیر اہتمام تقریب پذیرائی اور مشاعرہ

310

نگارِ ادب پاکستان کے زیر اہتمام اردو ڈکشنری بورڈ گلشن اقبال کراچی میں معروف شاعر افسر علی افسر کے شعری مجموعے ’’سرِ نیم شب‘‘ کی تقریب اجرا اور مشاعرے کا اہتمام کیا۔ یہ پروگرام افطار ڈنر کے ساتھ بعد نماز مغرب شروع ہوا مجلس صدارت میں گلنار آفرین اور شاداب احسانی شامل تھے۔ سلمان صدیقی اور زیب اذکار حسین‘ اختر سعیدی مہمانان خصوصی تھے۔ سحر تاب روزمانی مہمان اعزازی اور مہمان توقیری میں بشیر احمد سوموزئی اور راقم الحروف ڈاکٹر نثار شامل تھے۔ تنویر سخن نے نظامت کی‘ وقار زیدی نے نعت رسولؐ کی سعادت حاصل کی۔ قاری حسین احمد نے منقبت پیش کی۔ ناظم تقریب تنویر سخن نے تلاوتِ کلام مجید پیش کرنے کے ساتھ ساتھ سب سے پہلے مقرر معراج جامعی کو دعوتِ کلام دی۔ انہوں نے کہا کہ آج کے پروگرام کے صاحبِ اعزاز افسر علی افسر بنیادی طور پر ملتان کے رہائشی ہیں لیکن وہ کراچی شفٹ ہو گئے ہیں‘ بینکاری کے علاوہ وہ ادبی منظر نامے میں بھی اپنی پہچان بنا رہے ہیں‘ ان کے لب و لہجے میں رجاعیت ہے‘ وہ جدید لفظیات اور خوب صورت استعاروں سے اپنی شاعری کو سجا رہے ہیں۔ انہوں نے مشکل الفاظ کے بجائے آسان اور سہل لفظوں میں اپنا مافی الضمیر بیان کیا ہے جس کی وجہ سے ان کے اشعار کا ابلاغ ہو رہا ہے۔ انہوں نے زندگی کے مختلف رویوں کو اپنی شاعری میں ڈھالا ہے۔ انہوں نے قانونِ فطرت اور زمینی حقائق سے منہ نہیں موڑا ہے‘ وہ اپنے اشعار کے ذریعے ہمیں زندہ رہنے کے ہنر بتا رہے ہیں۔ ان کی زندگی کی پریشانیوں کا تذکرہ بھی ملتا ہے۔ میں سمجھتا ہوںکہ مجموعی طور پر افسر علی افسر ایک کامیاب شاعر ہیں‘ میں انہیں ان کے شعری مجموعے کی اشاعت پر مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ سلمان صدیقی نے کہا کہ وہ افسر علی افسر سے اکثر مشاعروں میں ملے ہیں اگرچہ انہیں اسپیچ تھراپی کی ضرورت ہے تاہم وہ اپنے اشعار کو سامعین تک پہنچا رہے ہیں۔ ان کی شاعری میں ان کے ذاتی مشاہدات و تجربات کے علاوہ معاشرتی طرب اور غم موجود ہے انہوں نے اپنے اردگرد جو بھی دیکھا اسے شاعری بنا کر پیش کیا میں سمجھتا ہوں کہ ان کی شاعری میں شعری محاسن موجود ہیں‘ ان کا منفرد لب و لہجہ انہیں اپنے ہم عصر شعرا میں ممتاز کر رہا ہے۔ ان کے ہاں قدیم اور کلاسیکی غزل گوئی نظر آتی ہے لیکن ندرت بیان اور تازہ کاری ان کے کلام میں موجزن ہے۔

زیب اذکار حسین نے کہا کہ افسر علی افسر نے 1984ء میں پہلا مشاعرہ پڑھا تھا ان کے پہلے استاد اسلم یوسفی تھے۔ 1990ء میں انہوں نے نیشنل بینک ملتان میں ملازمت کا آغاز کیا۔ 2007ء میں انہوں نے کراچی میں رہائش اختیار کی اور کراچی کے ادبی حلقوں میں اپنا کلام پیش کیا۔ آج ہم ان کے پہلے شعری مجموعے کی تعارفی تقریب میں موجود ہیں۔ ان کی شاعری میں تہہ در تہہ الفاظ اور معنی کی خوب صورت اشکال نمایاں ہیں ان کی شاعری متاثر کن ہے‘ انہوں نے زندگی کے زندہ جذبوں کو اپنی شاعری میں جگہ دی ہے‘ وہ اپنے لب و لہجے میں منفی روّیوں سے گریز کرتے ہیں‘ ان کے ہاں مزاحمتی رنگ بھی نظر آتا ہے‘ وہ غزل میں نئے امکانات تلاش کر رہے ہیں‘ وہ ایک حوصلہ مند شاعر ہیں انہوں نے اپنی زندگی میں جو آبلہ پائی ہے اس کے اثرات ان کے اشعار میں نظر آتے ہیں۔ مجھے امید ہے کہ افسر علی افسر کی ترقی کا سفر جاری رہے گا۔

سخاوت علی نادر نے کہا کہ انہوں نے 1990ء میں ادبی تنظیم قائم کی تھی جس کے تحت وہ شعر و سخن کی آبیاری کر رہے ہیں انہوں نے بے شمار مشاعرے اور مذاکروں کے علاوہ تنقیدی نشستیں بھی سجائی ہیں اور قابل قدر قلم کاروں کی پزیرائی کے لیے بھی تقریبات کا اہتمام کیا ہے۔ وہ ادبی گروہ بندیوں کے خلاف ہیں‘ وہ چاہتے ہیں کہ ہم سب مل کر اردو زبان و ادب کی ترقی کے لیے کام کریں۔ میں حکومت سندھ سے التماس کرتا ہوں کہ جن قلم کاروں کی حق تلفی ہو رہی ہے انہیں زندگی کی سہولیات فراہم کی جائیں۔ سخاوت علی نادر نے مزیدکہا کہ شعری مجموعے سر نیم شب کے خالق افسر علی افسر نے اپنے کلام میں زندگی کے تلخ و شیریں روّیے بیان کیے ہیں‘ وہ کسی شعر میں اپنے محبوب کی تعریف کرتے ہیں تو کہیں کہیں وہ اپنے محبوب کے روّیوں سے دلبرداشتہ نظر آتے ہیں‘ ان کے اشعار میں گیرائی اور گہرائی کے ساتھ سات تمام شعری محاسن پائے جاتے ہیں‘ ان کے اشعار غنائیت سے بھرپور ہیں۔

تقریب کے دوسرے دور میں مشاعرہ ترتیب دیا گیا جس کی صدارت اختر سعیدی نے کی۔ پروگرام کے صاحبِ اعزاز افسر علی افسر نے کہا کہ وہ نگار ادب پاکستان کے شکر گزار ہیں کہ اس ادارے نے میرے لیے پروگرام آرگنائز کیا۔ اس موقع پر افسر علی افسر نے اپنی نظمیں اور غزلیں سنا کر خوب داد سمیٹی۔ نگار ادب پاکستان کی جانب سے انہیں شیلڈ پیش کی گئی جب کہ تنویر سخن نے انہیں اجرک پیش کیا۔ ڈکشنری بورڈ کراچی کے طارق بن زیاد نے کہا کہ ان کا ادارہ ادبی پروگرام کی ترویج و ترقی کے لیے اپنے دفتر میں تمام ادبی اداروں کومخصوص شرائط کے ساتھ پروگرام کرنے کی سہولت فراہم کر رہا ہے۔

صدر مشاعرہ اختر سعیدی نے اپنا کلام سنانے سے قبل کہا کہ وہ سخاوت علی نادر کو مبارک باد پیش کرتے ہیں کہ انہوں نے اپنے ساتھیوں کے تعاون سے ایک شان دار پروگرام ترتیب دیا‘ میں آج کے صاحبِ اعزاز افسر علی افسر کی شاعرانہ صلاحیتوں کا اعتراف کرتا ہوں ‘ ان کے اشعار میں زندگی رواں دواں ہے۔ اختر سعیدی سے پہلے زیب اذکار حسین‘ سلمان صدیقی‘ سحر تاب رومانی‘ ڈاکٹر نثار‘ سکندر علی سولنگی‘ افسر علی افسر‘ زاہد حسین جوہری‘ سخاوت علی نادر‘ دلشاد خیال ایڈووکیٹ‘ قمر عاصی‘ تنویر سخن‘ ضیا حیدر زیدی‘ کشور عدیل جعفری‘ گل افشاں‘ شاہ فہد کشور عروج اور خضرت حیات نے اپنے کلام پیش کیے۔

خضر حیات نے کلماتِ تشکر ادا کیے انہوں نے کہا کہ جینوئن قلم کاروں کی پزیرائی ہماری تنظیم کے منشور کا حصہ ہے‘ ہم اپنی مدد آپ کے تحت شعر و سخن کی خدمت کر رہے ہیں‘ ہم طویل عرصے سے اردو زبان و ادب کی ترقی کے لیے کوشاں ہیں۔ فنون لطیفہ کی تمام شاخوں میں شاعری سب سے زیادہ مؤثر آواز ہے۔

حصہ