فلسطین:اسماعیل ہنیہ خاندان کی عزیمت اور سوشل میڈیا

232

عید الفطر مبارک ہو!

ویسے تو عید الفطر کے تین ایام کو گزرے بھی دو دن ہوگئے ہیں تاہم یہ پورا مہینہ ہی ایسے ہی مبارک باد دیتے گزرتا ہے۔رب کریم روزہ داروں ، عبادت گزاروں کے معمولات قبول فرمائے اور اپنے بہترین

انعامات سے نوازے ۔ پیدا شدہ تقویٰ کی صفت کے مظاہر کو معاشرت میں بھی نمایاں کرے ۔غزہ ، سوڈان، برما، چین ، کشمیر، یہ پانچ خطے مسلمانوں کے لیے جیل اور عقوبت خانے کی مثال بن چکے ہیں۔

غزہ میں اسرائیلی درندگی کا چھٹاماہ ہے ، سوڈان میں خانہ جنگی کی صورتحال ناقابل بیان حد تک جا چکی ہے،مسلم ممالک نہ اسرائیل سے نمٹ رہے ہیں نہ سوڈان میں مسلمان فوجی جرنیلوں کے درمیان لڑائی ختم کرا پا رہے ہیں۔ اُمت کی صورتحال بحیثیت مجموعی غفلت کے اظہار کی شکل ہے۔سوشل میڈیا پر غزہ میں عید کے عجیب مناظر ،وڈیوز و تصاویر، تاثرات ناقابل بیان تھے۔ملبے کے درمیان نماز جمعۃ الوداع پھر نماز عید کے مناظر، بچوں کے قرآن دہراتے، عید کی تکبیرات دہراتے مناظر عجیب ایمانی لذت دے رہے تھے ۔

اسماعیل استعمال ہوگئے:
غزہ پر چھ ماہ سے مسلط حملوں سے متعلق سوشل میڈیا مباحث پر میں مستقل اَپ ڈیٹ کر رہاہوں ۔ ٹوئٹر کی بندش پاکستان میں آج بھی جاری ہے ۔بہرحال سوشل میڈیا پر جاوید غامدی کے داماد کا ایک کلپ بہت وائرل ہوا۔ اس کلپ میں انہوں نے فلسطین سے متعلق نئے لبادے میں جاوید غامدی کا بیانیہ ہی دہرایا اور زخموں پر نمک بلکہ مرچ لگائی۔ 6 ماہ قبل جب اسرائیلی حملے شروع ہوئے تھے تو بھی جاوید غامدی نے یہی بیانیہ پیش کیا تھا کہ ’اسرائیل کو 1947 میں تسلیم کر لیاجاتا تو یہ خون خرابا نہیں ہوتا ۔‘اب حسن الیاس نے اس صورتحال کو ریشنل بنیادوں پر یوں بیان کیا کہ’’عالمی طاقت کے سامنے لڑنا ،کھڑا ہونا اگر جہاد ہے تو یہ تو دینی فریضہ ہے اس میں شرمانا کیسا، جنگ بندی کا مطالبہ کیسا؟ فلسطینیوں پر ظلم کی بات کیسے کی جا سکتی ہے کیونکہ ایسے فریضے کی ادائیگی میں آزمائش تو باعث مسرت و اطمینان ہونا چاہیے کہ میں نے اپنے رب کے لیے قربانی دی۔جنگ تو جنگ کے اصول پر ہوگی اس میں تکلیف آنے پر رونا کیسا؟ ایک جتھا ہے جو دنیا میں مسلمانوں کی حالت پہچاننے سے انکاری ہے ۔دنیا کا نظم عالمی طاقت کے پاس ہے جس نے ایک ریاست کو وجود دیا ہے تو بدمعاش سے دامن بچاتے ہوئے ، بد مست طاقتور سے لڑنے جائیں گے تو ہاریں گے ۔ جو کچھ تمہیں 47 میں تھا 67 میں کھو دیا اب جو کچھ ہے وہ بھی چلا جائیگا ۔ جو کچھ تم کر رہے ہو یہ تمہاری نادانی کا نتیجہ ہے ۔ اِس کا حاصل تو اس نتیجے کے سوا کچھ نہیں۔ تو اب رونا دھونا کیسا ۔ علما اگر کنونشن سینٹر میں جذباتی تقریر کرتے ہوئے جنگ بندی کی مخالفت ان کی عسکری ومالی و جانی مدد کو دینی فریضہ قرار دیتے ہیں توٹھنڈے کمروں سے نکلیں اوربچوں کے ساتھ جائیں اور مدد کریں۔مزاحمتی تنظیم کی پوری قیادت عرب ممالک میں شاہانہ زندگی گزار رہی ہے۔ ‘‘میں اس سے زیادہ ان کا بیانیہ تحریر نہیں کر سکتا ، اگلی کسی تحریر میں کرونگا مگر یہاں اِس لیے یہ بیانیہ نقل کیا کہ ’’جس مزاحمتی قیاد ت کے عرب ممالک میں شاہانہ زندگی‘‘کا ذکر کیا گیا اُس قیادت کے ’’استعمال‘‘ہونے کا معاملہ کیا ہے۔

مزاحمتی تحریک کے لیڈر:
سب نے سوشل میڈیا پر دیکھا کہ مزاحمتی تحریک کے رہنما ، قطر کے ہسپتال میں زیر علاج فلسطینی بھائیوں کی عیادت کر رہے تھے کہ اُن کو اپنے بچوں اور پوتوں کی شہادت کی اطلاع موصول ہوئی تو اُن کے کیا جذبات تھے ۔میرے پاس تو اس کیفیت کے لیے الفاظ نہیں ہیں۔ البتہ امیر جماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمٰن نے اسمائیل ہنیہ سے فون پر رابطہ بھی کیا اور تعزیت بھی کی ۔ٹوئیٹ کرتے ہوئے انہوں نے لکھا کہ ،’’دیکھیں اسماعیل ھنیہ نے اپنے 3 بیٹوں اور متعدد پوتوں کی شہادت پر تبصرہ کرتے ہوئے کیا کہہ رہے ہیں۔ ہمارے تمام لوگوں اور غزہ کے رہائشیوں کے تمام خاندانوں نے اپنے بچوں کے خون کی بھاری قیمت ادا کی ہے اور میں ان میں سے ایک ہوں۔ میرے خاندان کے تقریباً 60 افراد تمام فلسطینیوں کی طرح شہید ہوئے، اور ان میں کوئی فرق نہیں ہے۔ قابضین کا خیال ہے کہ لیڈروں کے بیٹوں کو نشانہ بنانے سے یہ ہمارے لوگوں کے عزم کو توڑ دے گا۔ ہم قابضین سے کہتے ہیں کہ یہ خون ہمیں اپنے اصولوں اور اپنی سرزمین پر قائم رہنے میں مزید ثابت قدم بنائے گا۔ دشمن اپنے مقاصد میں کامیاب نہیں ہو گا، اور قلعے گر نہیں سکیں گے۔ جو دشمن قتل و غارت، تباہی اور فنا کے ذریعے نکالنے میں ناکام رہا، وہ مذاکرات میں نہیں لے گا۔ دشمن وہم میں مبتلا ہے اگر وہ یہ سمجھتا ہے کہ میرے بیٹوں کو مار کر ہم اپنی پوزیشن بدل لیں گے۔ میرے بیٹوں کا خون غزہ میں ہمارے شہید ہونے والوں کے خون سے زیادہ قیمتی نہیں ہے کیونکہ یہ سب میرے بیٹے ہیں۔‘‘ ایک اور دل دوز وڈیو تھی جس میں شہید حازم اسماعیل ہنیہ (ابو عمر) کی اہلیہ اور شہداء امانی حازم اور مونا حازم ہنیہ کی والدہ اپنے شوہر کو الوداع کہہ رہی ہیں، جو ان کے بچوں کے ساتھ ساتھ اس کے بھائیوں عامر اور محمد اور ان کے بچوں کے ساتھ شہید ہوگیا تھا۔شہدا کی تدفین کے وقت خاتون جسموں پر ہاتھ رکھ کر دُنیا کو یہ پیغام دے رہی تھیں کہ ۔’’رسول کو سلام۔ تمام شہداء کو سلام ۔ کہو، اللہ کی مرضی، اللہ کی مرضی سے، ہم صبر کرنے والوں میں سے ہیں۔ پیاروں میں نے تمہیں اللہ کے حضور پیش کیا۔اللہ مجھے میری مصیبت میں جزا دے اور اس کی جگہ اس سے بہتر چیز عطا فرمائے۔امانی اور مونا اور آپ کے چاہنے والے آپ کے ساتھ ہیں، ان کا خیال رکھنا، اللہ آپ پر رحم فرمائے۔ اے عامر اور محمد۔اللہ آپ کے لیے آسانیاں کرے گا۔ ابو عمرو، اے قرآن حفظ کرنے والے، اے امام۔وہ ناکام رہے، حازم زندہ ہے، وہ نہیں مرا۔ اللہ کی راہ میں مرنے والوں کو مردہ نہ سمجھو، کیونکہ وہ اپنے رب کے پاس زندہ ہیں، رزق پا رہے ہیں، اللہ کی مرضی سے تم اپنے ٹھکانے میں چلے گئے اور نعمتوں والی خوشی پاگئے ۔شہید کی ماں کی وصیت، شہداء کی ماں، اور شہید کی بیوی: کوئی بھی عربوں سے اپیل نہ کرے، وہ وہی ہیں جنہیں ہماری ضرورت ہے، ہمیں ان کی ضرورت نہیں، وہ مردہ ہیں، اور ہم زندہ ہیں تم زندہ ہو اور وہ مردہ ہیں۔ ابو عمرو اللہ تم پر رحم کرے۔‘‘

استقامت کا پہاڑ یا رونا دھونا:
اب یہ الفاظ نہیں یہ مانند استقامت و عزیمت کا ناقابل تسخیر پہاڑ قیامت ہیں اُن اسرائیلی درندوں پر، اُن اسرائیل کے یاروں پر جو کہتے ہیں کہ تحریک مزاحمت کے رہنما تو مزے سے گھوم پھر رہے ہیں۔ جو کہتے ہیں کہ تحریک مزاحمت کے رہنما تو استعمال ہوگئے ۔اُن سے سوال ہے کہ دیں جواب کہ مزاحمتی تحریک کہاں کیسے کھڑی ہے؟ میں تو صرف ایک سادہ سا سوال کرتا ہوںکہ بس یہ بتائیں کہ وہ کون سی قوت ہے جس نے 25 لاکھ اہل غزہ کو اس وقت بھی 6 ماہ کی بدترین بمباری، 37 ہزار لاشوں ،70ہزار زخمیوں کے بعد بھی ’تحریک مزاحمت‘ سے جوڑا ہوا ہے ۔ وہ تو بدظن نہیں ہورہے ، اُنہوں نے تو ایک بار بھی “کلمہ “شکوہ بیان نہیں کیا، سب کچھ لٹانے کے بعد بھی وہ خوش ہیں، مطمئن ہیں، رو نہیں رہے، بلکہ الٹا کہہ رہے ہیں کہ ’عربوں کو مت پکارو‘۔ جاوید غامدی صاحب،آج بھی اُن کا بچہ بچہ کہہ رہا ہے ، ’انا دمی فلسطینی ‘ آپ تو عربی کی زبان کے اندر مائیکرواسکوپ ڈال کر جھانکتے ہیں ، ذرا دنیا کو بتائیے کہ یہ کوئی ’رونے دھونے ‘کا نعرہ ہے یا نہیں ۔

بہاولنگر :
بہاولنگر بھارتی سرحد سے قریب ہی ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہے۔سوشل میڈیا کس طرح خبروں کا استحصال کرتا ہے ، یہ کیس اسکی اچھی مثال ہے۔ لوگ مستقل کنفیوژ رہتے ہیں، مستقل درست خبر کی تلاش رہتی ہے۔ ہر طرف سے درست خبر آرہی ہوتی ہے جو سب سے مختلف ہوتی ہے۔کوئی نتیجہ اخذ نہیں کر پا رہا ہوتا۔ ٹرینڈ کے پیچھے چلنے والے اندھادھند چلتے رہتے ہیں اور ناظرین میں مستقل ’اسٹریس‘ ، ’اینگزائٹی‘ اور ’ڈپریشن‘ کی سطح بلند کرتے رہتے ہیں۔ بہاولنگر کیس اس دلیل کی تازہ مثال ہے۔عیدسے قبل ہی ضلع بہاولنگر میں پولیس اور پاکستان آرمی کے اہلکاروں کے درمیان ،ہونے والے معمول کے جھگڑے کو پنجاب پولیس کے وضاحتی بیان کے بعد حل ہوتا دیکھا گیا۔ مگر واقعے سے متعلق سوالات کم ہونے کے بجائے مزید پیدا ہوگئے ۔ دونوں اداروں یعنی پاکستان فوج اور پولیس کے افسران نجی محفلوں اور میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے اگرچہ محتاط ہیں لیکن وہ اپنے اپنے محکموں کا دفاع کرتے نظر آتے ہیں جو سوشل میڈیا پر ظاہر ہوتا ہے تو معاملہ گڑ بڑ ہی دکھائی دیتا ہے۔بنیادی واقعہ ہے کیا ۔ یہ مختصر و جامع الفاظ میں جان لیں،

ایک حاضر سروس فوجی اہلکار کے گھر پر چھاپے اور گرفتاری سے یہ بات شروع ہوئی ۔بعدازاں پولیس اہلکاروں پر تھانے میں گھس کر فوجی اہلکاروں کی جانب سے تشدد کی ویڈیوز وائرل ہونے پر یہ موضوع بن گیا۔وائرل وڈیوز نے خود سے توکچھ بولنا نہیں تھا اس لیے جس نے جیسا چاہا رنگ دے دیا۔سوشل میڈیا پر وائرل ویڈیوز کے بعد پولیس اور فوج کے افسران نے دس اپریل کو ایک ساتھ بیٹھ کر صلح صفائی بھی کر لی اور یہی کہا کہ’ بہاولنگر میں پیش آنے والے معمولی واقعے کو سوشل میڈیا پر سیاق و سباق سے ہٹ کر اور بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا،جس نے صورتحال کو خراب کیا۔اب آپ اعلیٰ سطح پر اس واقعے سے متعلق مواد کی کیفیت نوٹ کریں ‘مونس الہی نے ٹوئیٹ کرتے ہوئے کہاکہ ’’بہاولنگر میں جو ذلالت ہوئی ہے اس پہ بیانیہ بنایا جا رہا ہے کہ پہلے پولیس نے گھر میں گھس کر ہراساں کیا اور رشوت مانگی ۔ جناب پی ٹی آئی ورکرز کے گھروں میں بھی ایسے ہی ہوا تھا۔‘‘سابق ڈپٹی اسپیکرقاسم سوری نے لکھا کہ،’’پنجاب پولیس کے افسران بالخصوص ٹاوٹ آئی جی نے اپنےہی جونیئرز کے اوپر ہونے والے بدترین تشدد، تضحیک اور پولیس فورس کی توہین پر سمجھوتہ کرکے نہ صرف پنجاب پولیس فورس کا جنازہ پڑھایاہے بلکہ تمام صوبوں کی پولیس فورسز کا مورال پست کر دیاہے، یہ تمغہ بیغیرتی کا بھی حقدار ہے۔‘ مبینہ طور پر پنجاب پولیس اہلکار نے استعفیٰ دیتے ہوئے وردی کو آگ لگا دی اور وڈیو بھی اپلوڈ کردی۔پولیس کے بعض افسران کی رائے ہے کہ بہاولنگر واقعے سے پولیس فورس کا مورال ڈاؤن ہوا ہے۔ اس کا ذمہ دار چاہے ایس ایچ او ہے یا ضلع بہاولنگر کا ڈی پی او ہو، لیکن پولیس اہلکاروں کو تھانے کے اندر جا کر مارنے پیٹنے تک بات نہیں جانی چاہیے تھی۔ آئی جی پنجاب کا استعفی – مریم نواز اور ٹک ٹاک گروپ اتنے بڑے سانحہ پر کیوں خاموش تھے اس پر مستقل سوال اٹھائے جاتے رہے کیونکہ معاملے کو سیاسی رنگ دیا جا چکا تھا۔ اب یہ کتنی مضحکہ خیز بات ہے کہ پولیس و فوج دونوں غیر سیاسی ادارے ہوتے ہیں لیکن تصادم ہوتے ہی سیاسی رنگ غالب آگیا۔

شہروز شبیر چوہان ایڈووکیٹ وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’تعزیراتِ پاکستان فوج کے افسران و اہلکاروں اور غیر ملکی سفیروں پر لاگو نہیں ہوتا۔ اُنہیں نہ تو تعزیرات پاکستان کے تحت گرفتار کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی سزا ہوسکتی ہے۔ قانونی کارروائی کرنی ہے تو ملٹری پولیس اس کے لیے بہترین فورم ہے۔‘ وائس آف امریکہ سوشل میڈیا وڈیوز کے بارے میں رپورٹ کرتا ہے کہ ، واقعے کی متعدد ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہیں جس پر صارفین تبصرے کر رہے ہیں۔ ان میں ایک کلپ جوکہ سب سے زیادہ بار دیکھا گیا وہ اس عنوان کے تحت ہے،’’ بہاولنگر پولیس اہلکار نماز عید ادا کر رہے ہیں اور فوج کے جوان ان کی سکیورٹی پر موجود ہیں۔‘‘اس کلپ میں پولیس یونیفارم میں نظر آنے والے تین پولیس اہلکاروں کو جو کہ گھٹنوں کے بل زمین پر بیٹھے ہیں اور ان کی نگرانی کے لیے آرمی یونیفارم میں ملبوس دو افراد نظر آرہے ہیں جن کے ہاتھوں میں اسلحہ بھی ہے۔ قریب ہی آرمی کی ایک گاڑی بھی کھڑی ہے جس کے قریب بھی تین اہلکار فوجی لباس میں ملبوس ہیں، یوں لگتا ہے کہ یہ کلپ وہاں سے گزرنے والے کسی شخص نے بنایا ہے۔کچھ کلپس میں پولیس اہلکار اپنے جسموں پر لگے زخموں کو دکھا رہے ہیں اور یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ انہیں مبینہ طور پر مارا پیٹا گیا۔ ان کے دعوؤں کی آزادانہ طور پر تصدیق نہیں ہو سکی ہے۔

اب نوٹس لینے کی اسپیڈ دیکھیں تو لوگ سوشل میڈیا پر سوال اٹھا رہے تھے کہ ’’سینئر صوبائی وزیر پنجاب مریم اورنگزیب کی ہدایت پر محکمہ وائلڈ لائف نے سرگودھا میں کارروائی کرتے ہوئے50 افراد کے خلاف مقدمہ درج کرلیا۔یہ افراد سرگودھا کے نواحی علاقے نہنگ میں عید کے موقع پر سور اور کتوں کی غیر قانونی لڑائی کا سرعام انعقاد کر رہے تھےاور لڑائی دیکھنے کے لیے تماشائیوں کی بڑی تعداد موجود تھی۔‘‘

اس صورتحال کا اگر کوئی جامع تبصرہ و تجزیہ ہو سکتا ہے تو اُس کا نام ہے،’مستقل ناظرین کو اسکرین کے ساتھ اُلجھا کر رکھو‘۔

حصہ