شوال کے اہم واقعات

256

شوال کے نام کی وجہ تسمیہ واضح نہیں ملتی‘ مختلف جگہوں پر مختلف وضاحتیں لکھی ہوئی ہیں جس کی مختصر تفصیل لکھی جارہی ہے:

’’شوال‘‘ کا لفظ عربی زبان کے مقولے ’’شالت الابل باذنابہا للطراق‘‘ سے ماخوذ ہے اور یہ اس وقت بولا جاتا ہے جب اونٹ جفتی کے لیے اپنی دم اُٹھائے، اس کی جمع ’’شواویل‘‘، ’’شواول‘‘ اور ’’شوالات‘‘ آتی ہیں ۔

بعض جگہ لکھا ہے کہ ’’شوال ’’شول‘‘ سے ماخوذ ہے جس کا معنی اونٹنی کا دُم اٹھانا (یعنی سفر اختیار کرنا ہے۔)

کہا جاتا ہے کہ اس مہینے عرب سیروسیاحت کے لیے اُٹھ جاتے تھے یعنی کہ باہر چلے جاتے تھے۔ ایک جگہ لکھا ہے کہ شوال ’’شائیلہ‘‘ سے نکلا ہے۔ یاد رہے کہ شائیلہ اُس اونٹنی کو کہتے ہیں جو سات آٹھ ماہ کے حمل کے دوران اپنا دودھ دینا بند کردیتی ہے۔ ایام جاہلیت میں یہ ایسے موسم میں آتا تھا جب کہ اونٹنیوں کا دودھ اُٹھ جا تا تھا‘ لہٰذا اسے ’’شوال‘‘ کا نام دیا گیا۔

شوال کے روزہ:
شوال میں عید کے دوسرے دن سے چھ روزے رکھنے کا بڑا ثواب ہے۔ حضرت ابو ایوب انصاریؓ سے روایت ہے کہ آنحضرت ؐنے ارشاد فرمایا کہ ’’جس آدمی نے رمضان المبارک کے روزے رکھے او پھر ان کے ساتھ چھ روزے ملائے تو اس نے گویا تمام عمر روزہ رکھا۔‘‘( یہ روزہ مستحب ہیں)

اللہ کے رستے میں پہلی تیراندازی:
سریہ عبید ہ ؓ بن حارث بن عبد المطلب (ایک ہجری بمطابق623ء) انہی کی قیادت میں ہجرت کے 8 ماہ بعد بطن رابغ بھیجا گیا۔ اس میں حضرت سعد ؓ بن ابی وقاص نے اللہ کی راہ میں پہلا تیرچلایا۔ اس سریہ میں 60 افراد تھے جو سب کے سب مہاجرین تھے۔

حضرت عائشہؓ کی رخصتی:
ہجرت کے چھ ماہ بعد اُم المومنین حضرت عائشہ ؓ کی رخصتی عمل میں آئی ان کا سن مبارک اس وقت 9 برس تھا۔ حضرت عائشہ ؓ کا نبی اقدسؐ سے عقد قبل ازیں 10 شوال میں ہجرت سے تین سال قبل ہو چکا تھا اس وقت ان کی عمر چھ برس تھی۔ ایک قول کے مطابق رخصتی 2ھ کو ہو ئی۔ بہرحال شوال ہی کا مہینہ تھا۔ رحصتی تک عمر میں اختلاف پایاجاتا ہے۔

نماز عیدالفطر :
شوال 2ھ میں پہلی دفعہ عیدالفطر کی نماز ادا کی گیٔ۔

مولد حضرت عبد اللہؓ بن زبیر:
شوال میں مسلمان مہاجرین میں سب سے پہلی ولادت حضرت عبد اللہؓ کی ہجرت کے پہلے سال ہوئی۔

غزوہ قینقاع 2ھ :
بنو قینقاع یہودیوں کی ایک جماعت کانام ہے‘ اُن کی عہد شکنی کی وجہ سے رسولؐ مدینہ منورہ میں ابو البابہ بن نذرکو اپنا قائم مقام بنا کر نکلے اور ان کے قلعہ کا پندرہ روز تک محاصرہ کیا اور ان کے سردار کوگرفتار کر کے جلا وطنی کا حکم دیا۔

غزوہ احد:
بروز ہفتہ شوال 3ھ (23 مارچ625ء) یہ غزوہ تمام غزوات میں سب سے زیادہ دشوار ثابت ہوا۔ آنحضرتؐ ایک ہزار اشخاص کی معیت میں نکلے، راستے ہی میں عبداللہ بن اُبی ٔ (رئیس المنافقین) تین سو منافقین کو ساتھ لے کر واپس لوٹ گیا۔ اس طرح آپؐ کے ہمراہ صرف سات سو اشخاص رہ گئے۔ لشکر میں صرف دو گھوڑے تھے۔ مشرکوں کی تعداد تین ہزار تھی جن میں سات سو زرہ بند، دو سو گھوڑے اور کافی اونٹ تھے۔ اس غزوہ میں 70 مسلمان شہید ہوئے جن میں عم رسول حضرت حمزہؓ بھی تھے ۔

غزوہ حمراہ الاسو د:
جنگ اُحد سے واپس ہوتے ہوئے دشمن اپنی جماعت کے ہمراہ مدینہ منورہ سے آٹھ میل کے فاصلے پر دوبارہ جمع ہو گئے تھے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تین سو ساٹھ صحابہ کے ہمراہ مقابلے کے لیے نکلے لیکن ابو سفیان اور اس کے لشکر پر اللہ نے ایسا رعب ڈالا کے وہ بھاگ کھڑے ہوئے اور مقابلہ نہیں ہوا۔

غزوہ خندق:
4 یا 5ھ کو غزہ خندق ہوئی جسے’’غزوہ احزاب‘‘ بھی کہتے ہیں۔ حضرت سلما ن ؓ فارسی نے خندق کھودنے کا مشورہ دیا جو کہ تقریباً پانچ کلو میٹر لمبی اور سوا دو سے ڈھائی میٹر گہری اور اتنی چوڑی تھی کہ ایک گھڑ سوار جست لگا کر بھی پار نہیں کر سکتا تھا۔ یہ خندق بیس دنوں میں مکمل ہوئی تھی۔ مسلمانوں کی تعداد تین ہزار اور اور مشرکین کی تعداد دس ہزار سے زیادہ تھی جو قریش، عظفان، قریظتہ، نصیر اور دیگر قبائل سے جمع ہوئے تھے۔ اس غزوہ میں چھ مسلمان شہید اور چار مشرک قتل ہوئے۔

غزوہ حنین:
6شوال 8ھ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ سے گیارہ میل دور بارہ ہزار لشکر کے ہمراہ بنو ہوازن سے مقابلہ کے لیے تشریف لے گئے۔ اس غزوے میں مسلمانوں کے چار آ دمی شہید ہوئے جب کہ کافروں کی تعداد جو 70تھی تمام کے تمام واصل جہنم ہوئے۔

غزوہ طائف:
شوال8 ھ کو جنگ حنین سے فارغ ہو کر مالِ غنیمت تقسیم کیے بغیر جعرانہ سے طائف روانہ ہوئے۔ یہاں ثقیف آباد تھے ان کے قلع کا بیس روز تک محاصرہ کیا۔ اس غزوہ میں پہلی بار ’’منجنیق‘‘ گولہ باری کیلئے نصب کی گئی۔ اس میں بارہ مسلمان شہید اور متعدد کافر قتل ہوئے۔ قلع فتح نہ ہو پایا اور آپؐ واپس جعرانہ تشریف لے آئے۔ بعد میں بنو ثقیف مسلمان ہو کر وہیں حاضرِ خدمت ہوئے۔

مولود امام بخاریؒ:
پیدائش بعد نماز جمعہ 13شوال 194ھ ( 19 جولائی۔810) وفات 256ھ۔ اصل نام محمد‘کنیت ابوعبد اللہ‘ محمد بن اسماعیل بن ابراہیم بن مغیرہ تھا۔ امام بخاریؒ کے پردادا مغیرہ حاکم بخارا امام جعفر کے ہاتھوں مشرف بہ اسلام ہوئے تھے ۔

ان کی کتاب ’’الجامعہ المسند الصحیح المختصر من امور رسول اللہؐ و سنتہ و ایامہ ۔ صحیح بخاری کے نام سے مشہور ہے‘‘ جو کہ ان کے استاد اسحق بن راہویہ کی خواہش پر لکھی گئی۔ اس بخاری شریف میں چھ لاکھ حدیثوں میںسے بغیر تکرار چا رہزارحدیثیں شامل ہیں ۔ امام بخاری ؒ نے بخاری شریف تقریباً چھ سال حجاز میں قیام کے دوران لکھی۔
دوسری کتاب ’’ تاریخ کبیر‘‘ جو کہ ان کے قول کے مطابق ’’یہ کتاب مسجد النبویؐ میں روضہ اطہر کے جوار میں بیٹھ کر چاندنی راتوں میں لکھی۔ حافظ ابن حجر لکھتے ہیں کہ امام بخاریؒ اٹھارہ سال کی عمر میں مدینہ منورہ پہنچے اور اسی سفر میں انہوں نے تاریخ کبیر کا مسودہ تیار کرلیا تھا۔ امام بخاریؒ دنیا کے چار کبارحفاظ حدیث میں سے ایک تھے۔

مولو دشاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ :
عہد مغلیہ کے مشہور عالم دین شاہ ولی اللہ محد ث دہلویؒ چار شوال 1114َْْْْْْْْْْْْھ بمطابق 1703ء کو مظفر نگر(انڈیا) میں پیدا ہوئے اور 63سال کی عمر میں آپ کا انتقال ہوا۔ شاہ صاحب ؒ کی شہرت تفسیر و ادب میں ہے لیکن آپ حدیث فہمی میں بھی درجہ اجتہار کے مالک تھے۔ آپ کاشمار مجتہدین میں ہوتا ہے۔ کمال و ادب جو عربیت کابہت بڑا جوہر ہے اس میں آپ کو بہت بڑا کمال حاصل تھا ۔’’کتا ب حجہ اللہ البا لغہ‘‘ آپ کے اس کمال پر بین شاہد ہے۔ لوگو ں نے انہیں گیارہویں صدی کے نامور شعرا میں بھی ممتاز مقام دیا ہے۔ آپ کے اشعار عشقِ خدا وندی سے سرشار تھے۔ آپ کے دو صاحبزادے شاہ عبدالعزیز (جن کی وجہ سے برصغیر میں علم حدیث پھیلا ) دوسرے شاہ رفیع الدین (جن کی وجہ سے اردو میں قرآن کا پہلا ترجمہ ہوا)

حصہ