عید ایسے گزری

150

عیدمبارک رشید بھائی اور سنائیں عید کیسی گزری۔
عید کیسے گزری!یہ نہ ہی پوچھو تو اچھا ہے۔
کیا مطلب ؟کوئی مسئلہ ہےکیا؟

کوئی ایک مسئلہ ہو تو بتاؤں یہاں تو مسائل کی پوری گٹھڑی ہے۔

رشید بھائی وبائی امراض تو آتے جاتے رہتے ہیں ان سے گھبرانے کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ مقابلہ کرنا پڑتا ہے اپنے اعصابی نظام کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہوتی یہ سب ٹھیک ہو جائے گا جب بھی موسم تبدیل ہوتا ہے نزلہ کھانسی اور گلے کا انفکشن جسے امراض میں مبتلا افراد کی تعداد میں اضافہ ہو جاتا ہے پریشان نہ ہوں انشاءاللہ جلد جان چھوٹ جائے گی۔

میں کسی ایک بیماری یا وبائی امراض کی بات نہیں کر رہا میں تو ان مسائل کا ذکر کر رہا ہوں جن کی وجہ سے مجھ جیسا شخص ہر آنے والے دن کے ساتھ ایک ایسی کھائی میں گرتا جا رہا ہے جس سے نکلنا ممکن نہیں۔

اچھا اچھا میں سمجھا کہ آپ موسمی وائرس کی وجہ سے پریشان ہیں۔

یہ پریشانی اپنی جگہ میں تو حکمرانوں اور اداروں کی جانب سے دی جانے والی ٹینشن پر ماتم کر رہا ہوں۔

وہ تو برسوں سے دی جاری ہے اب ایسا نیا کیا ہو گیا؟

کیاہوگیا؟یوں کہوں میاں کیا نہیں ہوا! عید سے تین روز قبل دی جانے والی اذیت میں اب تک مبتلا ہوں۔

لیکن عید گزرے ہوئے تو دو دن ہو چکے ہیں اس مطلب ہے کہ آپ ایک ہفتے سے ٹیشن میں ہیں۔

ہاں ہاں تم بالکل ٹھیک کہہ رہے ہو۔

لیکن تم نے اب تک یہ نہیں بتایا کہ بات کیا ہوئی۔

ہائے میاں کہاں تک سنو گے کہاں تک سناؤں،ہمارے علاقے میں سپلائی کیا جانے والا پانی عید سے تین روز قبل بند کر دیا گیا اور خیر سے اب تک بند ہی ہے۔

یہ تو بہت زیادتی ہے بلکہ انتہائی ظالمانہ فعل ہے لیکن ایسا کیا ہوا میرا مطلب ایسی کیا خرابی ہوئی جس کی وجہ سے پانی کی سپلائی بند کردی گئی؟جبکہ تہواروں پر پانی،بجلی جیسی بنیادی ضروریات زندگی کا توخاص خیال رکھا جاتا ہے۔

نہیں نہیں ایسا نہیں ہے عید ہو یا کوئی دوسرا تہوار ہمارے علاقے خاص طور پر سیکٹر 36/بی میں ہمیشہ یہی صورتحال رہتی ہے کبھی لوڈشیڈنگ کا بہانہ بنا کر تو کبھی دھابے جی پمپنگ اسٹیشن میں خرابی کے نام پر،کبھی لائنوں کی مرمت کا کہہ کر،تو کبھی پانی کی سپلائی میں کمی کی گردان سنا کر،پانی بند کردیا جاتا ہے بار بار دھرائی جانے والی مشق کو دیکھ کر میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ یہ سب پیسے کا چکر ہے واٹر بورڈ کے افسران اور عملہ ہر تہوار پر اسی طرح کے دھندے کیا کرتا ہے افسرسے لے کر کلرک تک اور سپروائزر سے لے کر والو مین تک سب مال کمانے میں مصروف ہوتے ہیں اب تو یہ کرپشن اس قدر بڑھ چکی ہے کہ نہ صرف ہماراعلاقہ بلکہ پورے شہر کا یہی حال ہے ہاں کہیں کمی بھی ہو سکتی ہے لیکن ہمارے یہاں تو واٹر بورڈ کے عملے کی جانب سے کی جانے والی ان کارروائیوں میں مسلسل اضافہ ہی دیکھنے کو مل رہا ہے اب پچھلی عید پر ڈالی جانے والی کاروائی کو ہی دیکھ لو میرا مطلب ہمارے علاقے 36/بی لانڈھی میں گزری پچھلے سال عید پر بند کی جانے والی پانی کی سپلائی پر واٹر بورڈ کی جانب سے دیے جانے والے موقف کو ہی نظر ڈال لیجئے اس وقت واٹر بورڈ کے والو مین نے یہ کہہ کر پورے علاقے کا پا نی بند کر دیا تھا کہ اس علاقے کا پانی یہاں رہنے والوں کے لیے بطور سزا بند کیا گیا ہے لہٰذا ہمارے ادارے سے منسلک کوئی بھی شخص کسی صورت بھی اس سیکٹر کی سپلائی بحال نہیں کرے گا۔

’’یہ کیا بات ہوئی؟یہ کون سی منطق تھی یہ تو ریاست کے اندر ریاست ہوئی‘‘۔

’’ریاست کے اندر ریاست ہی تو ہے یہاں ہر دوسرے محکمے کا یہی حال ہے عوام کے نوکروں نے اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے اداروں کواپنی اپنی ریاستیں بنا رکھا یے اور کوئی پوچھنے والا نہیں سیاسی گھرانوں سے تعلقات رکھنے والے ان با اثر افسران کی وجہ سے ہم جیسے غریب عوام در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں کسی بھی ادارے میں چلے جاؤ اعلی عہدوں پر فائز یہ لوگ بادشاہ بنے ہی دکھائی دیتے ہیں‘‘۔

’’اب وہ منطق بھی سن لو جس کو جواز بنا کر سیکٹر 36 بی ایریا لانڈھی کو پانی جیسی نعمت سے محروم کر دیا گیا تھا عید سے تین روز قبل ہمارے علاقے کے قریبی سیکٹر،کے،ایریا ڈبل روم سے تعلق چند نوجوانوں نے اپنے علاقے کی جانب جاتی لائن پر نصب والو کو کھلوانے کے لیے علاقے والومین اور پمپنگ اسٹیشن پر تعینات آپریٹرز اور دیگر عملے کو تشدد کا نشانہ بنایا تھا اس کے نتیجے میں عملے کے کچھ لوگ زخمی ہوئے یہ سیدھا سا بلوا کیس تھا ان نوجوانوں کی جانب کیے جانے والے اس اقدام کی کوئی بھی شخص حمایت نہیں کرسکتا اس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے یہ سیدھا سیدھا پولیس کیس تھا اس تشدد پر قانون کو حرکت میں آنا چاہیے تھااور جن لوگوں نے بھی یہ زیادتی کی انہیں گرفتار کر کے قانون کے مطابق سزا دینی چاہیے تھی بجائے اس کے کہ ان نوجوانوں کے خلاف واٹر بورڈ کی جانب سےکوئی قانونی کارروائی عمل میں لائی جاتی اور نتیجے کا انتظار کیا جاتا صرف علاقہ تھانے میں شکایت درج کروا کر خود منصف بن کر ہمارے سیکٹر سمیت مختلف علاقوں کا پانی بند کر دیا گیا میں پہلے کہہ چکا ہوں کہ واٹر بورڈ عملے پر کیا جانے والا تشدد قابل مذمت ہے لیکن سوال تو یہ بھی ہے کہ آخر ایسا کیا ہوا تھا جس کی بنیاد پر ایک علاقے کے نوجوان تشدد جیسے رستے پر نکل آئے آخر ایسا کیا ہوا جس نے انہیں اس انتہائی اقدام بھی جانب دھکیل دیا تھا بات سیدھی سی ہے جس کے گھر والے پانی کی بوند بوند کو ترسیں ایسے لوگوں کی کیفیت جاننا کوئی راکٹ سائنس نہیں ظاہر ہے جسے پانی جیسی نعمت میسر نہ ہواس سےخیر کی توقع کس طرح کی جا سکتی ہے پانی زندگی ہے لوگ رات بھرجاگ کر اپنی ضرورت کے لیے تھوڑا بہت پانی اسٹور کرلیتے ہیں اور اگر وہ بھی میسر نہ ہو تو ایسی صورت میں تنگ آمد و جنگ آمد کے فارمولے پر عمل کیا جاتا ہے شاید اسی لیے ہی کہا جاتا ہے کہ مستقبل میں مختلف ممالک کے درمیان ہونے والی جنگیں پانی کے حصول کے لیے ہی ہوں گی خیر بات کہاں سے کہاں نکل آئی جس دن سے یہ ہنگامہ ہوا تھا اسی روز سے ہمارے علاقے سے پانی دو پانی دو کی صدائیں بلند ہوتی سنائی دینے لگیں بلکہ اب تک جاری ہیں‘‘۔

’’اب تو خاصا عرصا گزر چکا ہے بلکہ سال بھر گیا ہے کیا اب تک کوئی بہتری نہیں آئی؟‘‘

’’میں نے پہلے بھی بتایا ہے واٹر بورڈ کا عملہ مختلف بہانے بناکر آ ئے دن پانی کی سپلائی متاثر کرتا رہتا ہے جبکہ جھگڑے کا مسئلہ تو قانونی طور پر حل کیا جاسکتا تھا اسے جان بوجھ کر بڑھایا گیا تھا ہاں اتنا عرصہ گزر جانے کے بعد ہوا یہ ہے کہ صورت حال پہلے سے زیادہ خطرناک ہوچکی ہے پہلے پانی بند تھا اس کے بعد سے اب تک گندے نالے کے بدبودار سیوریج ذدا پانی کی سپلائی کی جاتی ہے یعنی اب انتہائی زہریلا پانی سپلائی کرکے لوگوں کی زندگی چھیننے کی سازش کی جارہی ہے‘‘۔

’’یہ تو انتہائی دکھ بھری داستان ہے‘‘۔

’’نہ صرف دکھ بھری بلکہ جیبیں خالی کرنے والی داستان بھی ہے گزشتہ سال کی چھوڑو اس مرتبہ کی سنو اس عید پر ہمارے گھر میں ایک قطرہ پانی بھی نہیں تھا ہم رات بھر پانی کی تلاش میں گھومتے رہے اور ناکام رہے عید کا دن اور گھر میں پانی نہ ہو اس سے بڑا اورکیا مسئلہ ہو سکتا ہے بھائی صبح اٹھتے ہی ایک مرتبہ پھر پانی کی تلاش میں نکل پڑے خیر سے تھوڑی دیربعد ہی واپس آگئے اس مرتبہ خوشی خبر یہ تھی کہ وہ پانی کا بندوبست کر کے آئے تھے یعنی آٹھ ہزار روپے سکہ رائج الوقت ‏ادا کر کے پانی کا ایک ٹینکر ساتھ لے کر آئے تھے بات یہیں ختم نہیں ہوئی بلکہ ابھی پرسوں ایک ٹینکر اور ڈلوایا گیا ہے اس طرح ایک ہفتے میں واٹر بورڈ سے جڑے ٹینکر مافیا نے ہماری جیب پر پانی کے نام پر سولہ ہزار روپے کا ڈاکہ ڈالا ہمارا گھرانہ متواسط طبقے سے تعلق رکھتا ہے ہم میں روزمرہ کے استعمال کے لیے پانی کا ایک ٹینکر خریدنے کی بھی طاقت نہیں یہ دن تو گزر گئے آنے والے دن کیسے گزرے گے یہی بات سوچ سوچ کر دل پریشان ہوتا ہے واٹر بورڈ کی جانب سے کیے جانے اقدام نے دور یزیدیت کی یاد تازہ کردی میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ یزیدیت ایک ایسا کردار ہے جو کسی بھی وقت اور کہیں بھی کسی بھی علاقے میں کسی بھی شخص میں پایا جاسکتا ہے یعنی یزید ہر دور میں موجود ہوتا ہے‘‘۔

کتنے افسوس کی بات ہے کہ2کروڑ سے زائد آبادی کے شہر کراچی کے باسیوں اور اقتصادی سرگرمیوں کے لیے درکار پانی کی طلب بڑھ رہی ہے جب کہ دستیاب پانی کی مقدار میں ہر آنے والے دن ساتھ کمی آ رہی ہے،کراچی میں پانی کی قلت کا اندازہ اس سے لگایاجاسکتا ہےکہ تقریباً شہر کےہر دوسرے شخص کو اس کی ضرورت کا پانی نہیں مل پا رہا، ایک طرف اگر روز مرہ استعمال کےپانی کی قلت ہے تودوسری جانب پینے کے صاف پانی کی دستیابی ہے گزشتہ دو دہائیوں سے شہر کی آبادی تیزی سے بڑھتی رہی لیکن کسی نے بھی یہاں کی ضروریات کے مطالق پانی کی فراہمی میں کوئی اضافہ نہیں کیا،اور نہ ہی کوئی منصوبہ مکمل کیا گیا یہی وجہ ہے کہ بڑھتی ہوئی اس قلت کے باعث پانی فروخت کا کاروبار بڑھنےلگا جس کے باعث آج یہ صورت حال ہے کہ شہری پانی کے حصول کے لیے اپنا سکون، وقت اور پیسہ تینوں ہی صرف کرنے پر مجبور ہیں ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ 19برسوں سے شہر کی آبادی میں سالانہ اوسطاً 2.4فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے لیکن اس کے باوجودشہر میں پانی کی فراہمی میں کوئی اضافہ نہیں کیا گیا جس کے باعث اب صورت حال یہاں تک خراب ہو چکی ہے کہ شہر کو اپنی ضرورت سے 56فیصد پانی کم فراہم کیا جارہاہے۔

حصہ