غریبی برائے فروخت

163

غریبی نے کئی خطوں کو ایک زمانے سے یوں جکڑ رکھا ہے کہ گلو خلاصی کی کوئی صورت نکل نہیں پارہی۔ جنوبی ایشیا می بھی غربت یا غریبی کم نہیں۔ یہاں بھی ایک مدت سے غریبی ختم کرنے کے نام پر غریب کو ختم کرنے کا عمل جاری ہے۔ غریب بھی بڑے سخت جان ہیں، ختم ہونے کا نام نہیں لے رہے۔ حکومتیں اپنی سی کوششیں کرتی رہی ہیں اور کئی بار اپنا سا منہ لے کر رہ گئی ہیں۔

اب ہر معاملے میں سوشل میڈیا کا غلغلہ ہے۔ معاملات سوشل میڈیا پورٹل سے شروع ہوکر وہیں ختم ہو رہے ہیں۔ ہم تاریخ کے اُس عجیب موڑ پر کھڑے ہیں جہاں ہر معاملے کو، ہر چیز کو صرف hits، views اور likes کی کسوٹی پر دیکھا اور پرکھا جارہا ہے۔ صرف وہ چیز معیاری اور مقبول ہے جو زیادہ سے زیادہ hits اور likes بٹورنے میں کامیاب رہے۔ ویب سائٹس کا دھندا ہی یہ ہے کہ جو چیز زیادہ چلے وہ پیش کی جائے۔ رہے اخلاقی معیارات تو اُن کی کِسے پڑی ہے، وہ بھاڑ میں جاتے ہیں تو جائیں۔

سوشل میڈیا پر بہت سی چیزیں چل رہی ہیں۔ شرارت آمیز وڈیوز بہت مقبول ہیں۔ اِن وڈیوز میں، جو یقیناً اسکرپٹیڈ ہوتی ہیں، چالاکی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کسی کو بے وقوف بناتے ہوئے دکھایا جاتا ہے۔ بعض ایسی وڈیوز بھی مقبول ہیں جن میں کسی کو بے وقوف بنانے کی کوشش کرنے والا خود بے وقوف بن جاتا ہے۔ اِن شارٹ وڈیوز کو دیکھنے والے کروڑوں ہیں۔

گھریلو وڈیوز بھی بہت تیزی سے بنائی جارہی ہیں اور مقبول بھی ہو رہی ہیں۔ اِن وڈیوز میں میاں بیوی، ساس بہو، باپ بیٹا، ماں بیٹی اور بھائی بہن کے درمیان مختلف سماجی معاملات پر نوک جھونک دکھائی جاتی ہے۔ یہاں تک تو بات ٹھیک ہے مگر بیشتر وڈیوز میں اخلاقی معیارات کا خیال نہیں رکھا جاتا۔ بزرگوں کا احترام ملحوظِ خاطر رکھنے کی روایت بھی تیزی سے دم توڑ رہی ہے۔ یہ سب کچھ انتہائی خطرناک ہے۔ معاشرے اِسی طور تباہی سے دوچار ہوا کرتے ہیں۔

ایک خطرناک رجحان یہ ہے کہ بچے بھی ٹِک ٹاک اور دیگر شارٹ وڈیو میکنگ ایپس کے ذریعے وڈیوز بنانے کے شوقین ہوچکے ہیں۔ اس کے نتیجے میں اُن کی تعلیم شدید متاثر ہو رہی ہے۔ اور معاملہ تعلیم تک محدود نہیں۔ اُن کی ثقافتی یا تہذیبی تربیت بھی داؤ پر لگ چکی ہے۔ سوشل میڈیا کی شارٹ وڈیوز دیکھنے اور بنانے کے شوقین بچے اور لڑکے بزرگوں کا احترام بھولتے جارہے ہیں۔ والدین بھی اس معاملے کو نظر انداز کر رہے ہیں۔ والدین یا خاندان کے بزرگوں کا تمسخر اڑاتی ہوئی لاکھوں وڈیوز وائرل ہوں گی تو ایسا ہی ہوگا۔

خیر، یہ ساری بحث پھر کبھی سہی۔ بات ہو رہی ہے غریبی کی۔ علامہ اقبالؔ نے اپنے بیٹے جاوید سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا تھا ؎

مِرا طریق امیری نہیں، فقیری ہے
خودی نہ بیچ، غریبی میں نام پیدا کر

قوم نے علامہ کی نصیحت دانتوں سے پکڑ لی ہے اور اب غریبی میں نام پیدا کرنے پر تُلی ہوئی ہے۔

جنوبی ایشیا اور جنوب مشرقی ایشیا کے تقریباً تمام ہی پس ماندہ معاشروں میں سوشل میڈیا پر ایسی وڈیوز کو زیادہ پسند کیا جارہا ہے جن میں کسی نہ کسی حوالے سے پریشان حال لوگوں کو پیش کیا جاتا ہے، اُن کی مدد کی جاتی ہے، اُنہیں تسلی دی جاتی ہے۔ برِصغیر یعنی پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش اور سری لنکا وغیرہ میں وی لاگرز ایسی اسکرپٹیڈ وڈیوز بڑی تعداد میں بنارہے ہیں جن میں کسی غریب آدمی کی مشکلات پیش کرنے کے ساتھ ساتھ اُس کی مدد بھی کی جاتی ہے۔

کسی غریب کی مدد کرنا ہر اعتبار سے قابلِ تحسین رویہ ہے اور اِس کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے مگر مسئلہ یہ ہے کہ سوشل میڈیا پر جب کوئی چیز چل جاتی ہے تو سب اُسی طرف چل پڑتے ہیں۔ بھیڑ چال والے معاشروں میں ایسا ہی ہوتا ہے۔

پاکستان اور بھارت میں اِس وقت شارٹ وڈیوز کے حوالے سے غریبی اور غریب دونوں ہی ٹرینڈنگ کر رہے ہیں۔ اس دریا میں سبھی ڈُبکیاں لگانے پر تُلے ہوئے ہیں۔ لڑکیاں شرم و حیا کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ایسی وڈیوز بنارہی ہیں جن کا مقصد غریب کی غریبی کو کم اور اپنی خوبصورتی کو زیادہ دِکھانا ہوتا ہے۔ کئی لڑکیاں ایسی وڈیوز بنارہی ہیں جن میں اُنہیں کسی مفلوک الحال شخص کو کھانا، مشروب یا کپڑے وغیرہ دیتے ہوئے دکھایا جاتا ہے۔ ایک وی لاگر جوڑا وہ بھی ہے جس میں لڑکا ملنگ کے بھیس میں ہوتا ہے۔ وڈیوز میں دکھایا جاتا ہے کہ وہ ملنگ کسی ٹھیلے سے بن کباب، پھل یا شربت سے بھرا ہوا گلاس اٹھانے لگتا ہے تو ٹھیلے والا اُسے جھڑک دیتا ہے۔ ایسے میں ایک جوان لڑکی آگے بڑھ کر ٹھیلے والے کو روکتی ہے اور اپنے پرس سے پیسے نکال کر دیتی ہے۔ گویا غریبی اور حُسن دونوں کے امتزاج سے مال بٹورا جارہا ہے۔

بھارت کی ایسی ہزاروں شارٹ وڈیوز موجود ہیں جن میں لڑکیاں سڑک پر پھل، شربت اور کھانا بیچنے والوں کے ٹِھیوں (ڈھابوں) پر جاکر کوئی نہ کوئی ’’اسٹوری‘‘ بیان کرتی ہیں اور کسی غریب کی مدد کرتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ اِس میں غریب کی مدد سے زیادہ اپنی وڈیو پر likes بڑھانے کے لیے خوبصورتی کا بہت خوبصورتی سے سہارا لیا جاتا ہے۔

اِن اسکرپٹیڈ شارٹ وڈیوز یا وژیوئل پیکیجز کے ذریعے کیا دکھانا مقصود ہے؟ کیا یہ کہ غریبوں کی مدد کی جائے، اُن کا سہارا بنا جائے؟ یہ بات بجائے خود لطیفے سے کم نہیں کہ پاکستانی معاشرے میں غریبوں کے لیے امدادی سرگرمی پر مبنی وڈیوز دکھاکر لوگوں کو تحریک دی جارہی ہے کہ وہ بھی زیادہ سے زیادہ خیرات کریں۔ ہمارے ہاں خیرات اور امداد کم کب رہی ہے؟ لوگ صرف رمضان ہی میں خیرات زیادہ نہیں دیتے بلکہ عام دنوں میں بھی دِل کھول کر غریبوں کی مدد کی جاتی ہے۔ اور سچ تو یہ ہے کہ ہمارے عمومی سطح پر سخاوت اس قدر پائی آتی ہے کہ ملک بھر میں محض ہاتھ پھیلاکر کھانا پینا اور پیسے بٹورنے والوں کا ایک پورا طبقہ پیدا ہوچکا ہے۔

بہت سی وڈیوز میں کسی کو سڑک پر بیٹھ کر کچھ بیچنے والے کا سارا مال خریدتے ہوئے دکھایا جاتا ہے۔ کسی وڈیو میں کسی بچی سے سارے غبارے خریدنے کا عمل دکھایا جاتا ہے۔ ٹریفک سگنلز پر گلدستے اور گجرے وغیرہ بیچنے والے بچوں سے بھی خریداری دکھانے والی وڈیوز بڑے پیمانے پر وائرل ہو رہی ہیں۔

یہ سب تو ٹھیک ہے مگر غریبی کو تھیم بنانا کیوں لازم ہوگیا؟ دین تو یہ کہتا ہے کہ کسی کی مدد کرنی ہے تو اس طور کرو کہ دائیں ہاتھ سے کچھ دو تو بائیں ہاتھ کو علم نہ ہو پائے۔ یہاں تو نہ صرف یہ کہ دکھا دکھاکر مدد کرنے پر زور دیا جارہا ہے بلکہ اِس معاملے کو وائرل کرنے پر بھی اچھا خاصا زور ہے۔

غریبی کو تماشا بنانے والی بعض ایسی وڈیوز بھی وائرل ہو رہی ہیں جنہیں دیکھ کر انسان سوچتا ہی رہ جاتا ہے کہ آخر اِن میں ایسا کیا تھا کہ لاکھوں لوگ دیکھیں اور پسند بھی کریں۔ بھارت کی ایک شارٹ وڈیو میں ایک شخص کسی ڈھابے والی کے پاس پہنچتا ہے اور اُسے دو ہزار روپے کے کھانے کا آرڈر دیتا ہے۔ سب کچھ ختم ہونے پر ہے، بس ڈھابا بند ہی کیا جانے والا تھا کہ وہ شخص آگیا۔ خاتون بچے کھچے کھانے کی مدد سے ایک تھالی تیار کرکے اُسے دیتی ہیں اور کہتی ہیں ’’دو ہزار روپے کا آرڈر تو میں پورا نہیں کرسکتی مگر بھائی، تمہیں خالی پیٹ بھی واپس نہیں جانے دوں گی۔ لو، کھاؤ۔‘‘

معروف جریدے ’’انڈیا ٹوڈے‘‘ کی ویب سائٹ نے اِس وڈیو پر مبنی خبر شائع کی ہے جس میں views اور likes کی تعداد ۸۰ لاکھ بتائی گئی ہے۔ اِس وڈیو سے منسلک تبصروں میں خاتون کو ’’دریا دِلی‘‘ پر خوب خراجِ تحسین پیش کیا گیا ہے۔ لوگوں نے اس بات پر خاتون کو خوب سراہا ہے کہ کھانا ختم ہوجانے اور آرڈر نہ لینے پر بھی خاتون نے متعلقہ شخص کو تھالی بناکر پیش کی۔ آپ سوچتے ہی رہ جائیں گے کہ آخر اِس خاتون نے ایسی کون سی دریا دِلی دکھائی کہ وڈیو کے ۸۰ لاکھ ویوز ہوں۔ معاملہ صرف بھیڑ چال کا ہے۔ لوگ دیکھا دیکھی وڈیوز دیکھتے بھی ہیں اور لائک بھی کرتے ہیں۔ جو چیز چل پڑتی ہے وہ پھر چل ہی پڑتی ہے۔

کبھی اشیائے خور و نوش کی قیمتوں کا دکھاکر وڈیوز کو وائرل کرانے کا ٹرینڈ چلا تھا۔ اب ٹھیلوں، پتھاروں اور ڈھابوں کو دکھا دکھاکر اپنا اپنا وی لاگ مقبولیت سے ہم کنار کرنے کی دوڑ سی لگی ہے۔

بہت سے وی لاگرز یومیہ بنیاد پر ایسی وڈیوز بنارہے ہیں جن میں وہ کسی ٹھیلے والے کو ہزار بارہ سو روپے دے کر اُس کا سارا مال اٹھالیتے ہیں یا وہاں موجود بچوں میں بانٹ دیتے ہیں۔ ایسی وڈیوز کو پسند کرنے والوں کی تعداد بہت زیادہ ہے کیونکہ معاملہ نیکی اور سخاوت کا ہے جو ہر انسان کو فطری طور پر پسند ہی آتی ہے۔

جہاں بھیڑ چال ہوتی ہے وہاں ذہن سے کام لینے کی روایت کمزور پڑ جاتی ہے۔ وی لاگرز بھی اُنہی معاملات پر وی لاگ بناتے ہیں جو سوشل میڈیا کی مارکیٹ میں ٹرینڈنگ کر رہے ہوتے ہیں۔ وہ ڈھنگ کے کسی بھی ایسے موضوع کو ہاتھ نہیں لگاتے جس پر زیادہ views نہ آسکتے ہوں۔ مال کے مایا جال میں پھنس کر تو اِنسان ایسا ہی سوچتا ہے۔ متواتر مشق سے عام آدمی کا ذہن ایسا بنادیا گیا ہے کہ وہ منفی معاملات کی طرف زیادہ جھکتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں بہت کچھ مثبت بھی ہے مگر معاشرے کے مثبت معاملات اور پہلوؤں کو دبوچ کر ایک طرف ہٹادیا جاتا ہے اور ہر اُس معاملے کو اُچھالا جاتا ہے جس کے وائرل ہونے کا زیادہ ہو۔

کل تک اخبارات کو ایسی خبروں کی تلاش رہتی تھی جن کی مدد سے قارئین کو اپنی طرف اچھی طرح متوجہ کیا جاسکے۔ ہمارے ہاں منفی معاملات کو اُچھالنے کا رجحان ہر دور میں رہا ہے۔ اخبارات کی نسبتی اہمیت بہت زیادہ کم ہو جانے پر یہ کام ٹِک ٹاکرز اور وی لاگرز نے سنبھال لیا ہے۔ وہ خبروں کو سُونگھتے پھرتے ہیں اور ہر منفی معاملے کو اُچھال کر اپنا اپنا اُلّو سیدھا کرنے میں لگے رہتے ہیں۔

ہمارے ہاں سب سے پہلے کامیڈین رنگیلا مرحوم نے اپنے وجود کا تمسخر اڑاکر کمانے کا ٹرینڈ متعارف کرایا تھا۔ وہ اپنے آپ کو گدھا کہلواکر فلموں کے ناظرین سے hits اور likes بٹورا کرتے تھے۔ اپنی جسمانی ساخت اور کم صُورتی کو اُنہوں نے جی بھرکے کیش کرایا۔ بعد میں لاہور، کراچی اور دیگر شہروں کے اسٹیج ڈراموں میں بھی یہی ٹرینڈ در آیا۔ بھدے جسم، بھدی آواز کے حامل اور ’’کم رُو‘‘ فنکاروں، فنکاراؤں نے اپنے وجود کا تماشا کھڑا کرکے گھر چلائے۔

اب خیر سے ایسی وی لاگر جوڑیوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے جو اپنے موٹاپے، دُبلے پن، کم صورتی، بھدی آواز اور دیگر ظاہری خرابیوں یا خامیوں کو کیش کرانے پر تُلی ہوئی ہیں۔ بھارتی کامیڈین سُدیش لہری اور اُس کی بیوی، بیٹیاں بھی اِسی راہ پر گامزن ہیں۔ یہ فیملی ایک دوسرے کا تمسخر اُڑاتی ہوئی شارٹ وڈیوز یومیہ بنیاد پر اپ لوڈ کرتی ہے اور چاہنے والوں کی مہربانی سے جیبیں بھر رہی ہے۔

لوگ ایسی وڈیوز کو زیادہ پسند کرتے ہیں جن میں کوئی اپنے آپ کو یا دوسروں کو کسی نہ کسی جسمانی خرابی کی بنیاد پر ہدفِ استہزا بنا رہا ہو۔ وسیع تر تناظر میں دیکھیے اور سوچیے تو کسی غریب کو منظرِعام پر لانے والی اور اُس کی مدد پر مشتمل وڈیوز بھی اِسی ذیل میں آتی ہیں۔

کوئی اس گمان کا شکار نہ ہو کہ وی لاگرز اور ٹِک ٹاکرز غریبوں سے ہمدردی کا جذبہ پروان چڑھارہے ہیں اور لوگوں کو سخاوت پر مائل کر رہے ہیں۔ وہ کیا کسی کو سخاوت سکھائیں گے، یہ معاشرہ پہلے ہی دریا دِلی اور سخاوت کا امین ہے۔ وی لاگرز تو کسی کے ہاتھ میں ہزار بارہ سو روپے ٹِکاکر اپنی وڈیوز اور وی لاگز کے لیے ہزاروں views اور likes کا اہتمام کر رہے ہوتے ہیں! یہ ٹرینڈ اس قدر مستحکم ہوچکا ہے کہ اب تو بہت سے مفلوک الحال لوگ وی لاگرز اور ٹِک ٹاکرز سے چُھپتے پھرتے ہیں!

بہت سے سطحی اور برساتی مینڈک ٹائپ خیراتی اور امدادی اداروں نے خیرات کے نام پر پریشان حال لوگوں کو دنیا کے سامنے تماشا بنانے میں کیا کوئی کسر چھوڑی تھی کہ اب یہ ٹِک ٹاکرز اور وی لاگرز بھی کمر کس کر میدان میں آگئے ہیں۔

مستند امدادی اور فلاحی اداروں کی کامیابی دیکھ جن لوگوں کے منہ میں پانی بھر آتا ہے وہ بھی غریبوں کی مدد کے نام پر چندہ بٹورنے کے لیے میدان میں آجاتے ہیں اور دریا دِل لوگ ایسے اداروں کو نوازنا شروع کردیتے ہیں۔ ٹِک ٹاکرز اور وی لاگرز نے بھی یہی حکمتِ عملی اپنائی ہے۔ غریبوں کو کیش کرانے کا ٹرینڈ چونکہ کامیاب ہے اِس لیے سبھی اِس راہ پر گامزن ہوئے جاتے ہیں۔

پریشان حال لوگوں کی مدد کرنا کتنا ہی مستحسن سہی، اس عمل کے نام پر اُنہیں مفت کے ٹکڑوں کا عادی بنانا کسی بھی درجے میں کوئی مستحسن عمل نہیں۔ شارٹ وڈیوز سے لوگ صرف مدد کرنا سیکھ رہے ہیں یعنی خیرات و صدقات دینا۔ ضرورت اِس سے کہیں آگے جاکر کچھ کرنے کی ہے یعنی پریشان حال لوگوں کو ہنر سیکھنے اور زیادہ محنت پر مائل ہونے کی تحریک دینا ہے۔ مثبت چیزوں، مثبت معاملات کی ٹرینڈنگ یقینی بنانے کی ضرورت ہے تاکہ معاشرہ فضولیات سے گرداب سے نکلے۔

حصہ