آخر شب کے ہم سفر

159

(14)

آمار پرانیرآرام مونیرآنند
بی اے پریویس کے امتحانات ختم ہوچکے تھے۔ مگر دیپالی موسیقی کے ایک اعلیٰ امتحان کی تیاری کے سلسلے میں مزید چند ہفتوں کے لیے شانتی نکیتن میں ٹھہری ہوئی تھی۔ ساری درس گاہ تقریباً سنسان تھی۔

آخر مئی کی ایک گرم شام وہ کلابھون کے باغ میں گھاس میں ڈوبے گوتم بدھ کے مجسمے کے نیچے بیٹھی قدم راگوں کے ایک ’’شجرے‘‘ پر سر کھپا رہی تھی۔ جب درختوں میں سے نکل کر انل کمار داس اُس کے سامنے نمودار ہوا۔ انل ایک خوش مزاج لڑکا تھا۔ ہر وقت باچھیں کھلیں رہتی تھیں۔ سامنے آکر نمسکار کرنے کے بعد اس نے ایک کتاب دیپالی کو دی۔

دیپالی نے کتاب کھولی۔ اس میں سے حسب توقع ایک پرچہ نکلا۔ دیپالی کا دل بڑے زور سے دھڑک اُٹھا۔ پرچے میں لکھا تھا۔

’’پیاری بچی‘‘۔
معاف کرنا تم کو اتنے طویل عرصے تک کوئی خیر خبر نہ بھجوا سکا۔ (اندازِ تحریر کس قدر غیر شخصی تھا۔ کمال کی تکنیک ہے۔ واقعی دیپالی نے سوچا) تم نے اس بار ہمیں خاص بُری طرح لیٹ ڈائون کر دیا۔ مگر ظاہر ہے کوئی زبردست مجبوری رہی ہوگی۔ بہرحال۔ اب انل تم سے جو کہتا ہے اس پر جلد از جلد عمل کرو۔ اس میں تمہارا بہت فائدہ ہے۔ فقط‘‘۔

’’ریحان دا دسمبر کے مہینے سے کھلنا اور اس کے بعد سے نواکھالی میں تھے۔ آج کل وہ خاص الخاص سندربن میں ایک جگہ چھپے ہوئے ہیں۔ میں اُن کے پاس سے کل ہی واپس آیا ہوں۔ ریڈیو کی نئی بیڑی لے کر گیا تھا…‘‘۔ انل اطمینان سے گھاس پر بیٹھ گیا۔

’’مگر ریحان دا نے مجھے کیا کرنے کو کہا ہے‘‘۔ دیپالی نے پوچھا۔
’’بتاتا ہوں دیدی۔ بتاتا ہوں۔ میں تو سمجھا تھا کہ آپ ڈھاکے واپس گئیں۔ مگر راستے میں معلوم ہوا کہ آپ ابھی…‘‘
’’انل بات بتائو‘‘۔ دیپالی نے ذرا جھنجھلا کر کہا۔
’’بات…؟ بات کچھ بھی نہیں…‘‘ انل نے کھیسیں نکال کر جواب دیا۔ ’’ریحان دا نے آپ کو سندر بن بلایا ہے‘‘۔
’’کیا…؟‘‘
’’ہیں۔ دیدی۔؟‘‘

’’مجھے سندر بن کیوں بلایا ہے؟ وہاں پہنچنا آسان ہے؟ اور کس لیے؟‘‘

’’پہنچنا آسان بالکل نہیں ہے۔ بڑا خطرناک سفر ہے دیدی اور کیوں بلایا ہے۔ یہ مجھے کیا معلوم۔ صرف اتنا ہی کہا تھا۔ اپنی دیپالی دی کو فوراً یہ سندیسہ دو کہ ایک بے حد اہم میٹنگ میں ان کی شرکت ضروری ہے‘‘۔

’’اور کون کون جارہا ہے‘‘۔
’’دادا نے کہا تھا دیپالی کو بتادینا کہ سربندردا، محفوظ الرحمن میاں، اور ان کی بیوی عائشہ آپا آئیں گے۔ باریسال سے۔ یہاں سے آپ ہوں گی اور محمود الحق دا ڈھاکے سے پہنچیں گے۔ کانفرنس ہے۔ اور انہوں نے تھوڑی سی چیزیں بھی منگوائی ہیں۔ لیتی جائیے گا‘‘۔ انل نے کُرتے کی جیب سے ایک فہرست نکال کر تھمادی۔ فہرست میں چند نئے اخباروں اور برطانوی رسالوں کے نام لکھے تھے۔

’’دادا کو بس ان کتابوں کے علاوہ اور کچھ نہیں چاہیے؟‘‘ دیپالی نے تعجب سے پوچھا۔ ’’اُن کا دل کبھی اچھے کھانے کھانے کو بھی تو چاہتا ہوگا۔ میں…‘‘

’’یہ کچھ نہیں بتایا۔ لے جائیے ایک آدھ اچار چٹنی‘‘۔
’’اور میں جائوں گی یہاں سے کس طرح؟‘‘

’’آپ یہاں سے رانا گھاٹ اسٹیشن تک اکیلی جائیے۔ ریحان دا کا ایک آدمی آپ کو رانا گھاٹ اسٹیشن پر ملے گا۔ وہ آپ کو جیسور کے راستے سے کُھلنا پہنچائے گا۔ وہاں سے ایک اور آدمی آپ کو باگھیر ہاٹ تک لے جائے گا۔ باگھیر ہاٹ سے…‘‘ اگلے پندرہ منٹ اس نے دیپالی کو ریحان تک پہنچنے کا پیچ دار راستہ سمجھانے میں صرف کیے اور ایک تنکے سے مٹی پر دریائوں اور ٹرینوں کا نقشہ بنایا۔ دیپالی آنکھیں پھیلائے نقشہ سمجھنے کی کوشش کرتی رہی۔

پھر انل جلدی سے اُٹھا اور مداری کی طرح جیب سے نکال کر دو سو کے نوٹ اسے تھمادیئے۔

’’یہ کیا ہے؟‘‘

’’ریحان دا نے بھجوائے ہیں کرائے کے لیے وہ کہہ رہے تھے۔ دیپالی سے کہنا آج کل ہم بہت سخت رئیس ہورہے ہیں۔ اسی لیے تم لوگ جلدی سے آکر جنگل میں تھورا سا جشن منا جائو۔ پھر پیسے ختم ہوجائیں گے۔ اور اس کے بعد اور بھی نہ جانے کیا ہوجائے‘‘۔

’’یہ بیکار کی بات ہے‘‘۔ دیپالی نے متانت سے کہا۔ ’’تمہارے ریحان دا بعض مرتبہ ایسی میلو ڈریمٹک باتیں کیوں کرنے لگتے ہیں‘‘۔ اُس نے نوٹ اپنے بیگ میں رکھ لیے۔

’’اچھا اب میں بھاگتا ہوں دیدی۔ آپ کو جس دن روانہ ہونا ہو، مجھے ایک پوسٹ کارڈ ڈال دیجئے گا۔ میں آپ کو یہاں سے رانا گھاٹ جانے والی ٹرین پر بٹھادوں گا…‘‘ انل سر سے اوپر ہاتھ اُٹھا کر اسے نمسکار کرتے ہوئے لمبے لمبے ڈگ بھرتا سڑک کی طرف چلا گیا۔ دیپالی گوتم بدھ کے کالے اونچے مجسمے کے پیروں کو غور سے دیکھنے لگی۔ کلابھون کے جس فن کار نے یہ مجسمہ بنایا تھا وہ واقعی بڑا زبردست ماہر اناٹومی تھا کیوںکہ پائوں کی ایک ایک انگلی کا ایک ایک جوڑ اور ناخن بے حد حقیقی معلوم ہورہا تھا۔ سامنے دوسرے شیاملی جھونپڑوں کی دیواروں پر بنے ہوئے سیاہ مجسمے بھی بڑے جاندار سے دکھائی دے رہے تھے۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ میگھ دُوت کے اسٹیج پر وسط میں کھڑی ہے۔ اور ڈیکور کی مورتیاں اُسے گھور کر دیکھ رہی ہیں۔ اُس نے سر اُٹھا کر دیکھا۔ سیاہ بادل خلیج بنگال اور سندر بن کے اوپر سے بہتے بیربھوم کی سمت بڑھتے چلے آرہے تھے۔ اس نے آنکھوں پر زور ڈال کر دھیان سے دیکھا تو سیاہ بادلوں میں ایک سفید بگلہ اُوپر اُڑتا جارہا تھا۔ وہ دل ہی دل میں خوب مسکرائی اور اس کا چہرہ بھی تبسم تھا۔ پھر اس نے جلدی جلدی ہوسٹل کی سمت قدم بڑھانے شروع کیے۔

رات کو اپنے کمرے میں لیمپ کے سامنے بیٹھ کر خود سے کہا۔ اب میں اپنے باپ کو ایک اور زبردست دھوکا دیتی ہوں۔ اُس نے لکھا… بابا۔ یہاں سے لوک گیت جمع کرنے والوں کی ایک ٹولی سنتھال پر گنہ کے گائووں میں جارہی ہے۔ انہوں نے مجھے بھی ساتھ چلنے کے لیے کہا ہے۔ کیونکہ یہ ٹور میری تھیوری آف میوزک کے دوسرے پرچے کے لیے بہت کار آمد ثابت ہوگا۔ میں جلد ہی گھر پہنچنے کی کوشش کروں گی۔ آپ فکر نہ کیجئے… آپ کی بیٹی دیپالی۔

خط بند کرکے وہ باہر آئی۔ نیم تاریک روشوں اور سنسان باغ میں سے گزرتی سڑک تک پہنچی۔ اور آنکھیں بند کرکے خط لیٹر بکس میں گرادیا۔

(15)
سُندر بن
سندر بن کا سلسلہ جنوبی بنگال میں چوبیس پرگنہ سے لے کر باقر گنج اور کھُلنا کے اضلاع تک پھیلا ہوا ہے۔ ان گھنے اور پُرخطر جنگلوں میں مشہور عالم رائل بنگال ٹائیگر اور چیتے اور ہرن دوڑتے پھرتے ہیں۔ اور دن کے وقت رات کا سا اندھیرا چھایا رہتا ہے۔ لاتعداد ندیوں اور جزیروں اور سمندری کھاڑیوں اور دلدلوں اور سندری درختوں کی اس لرزہ خیز حسین و جمیل کائنات میں اِکّا دُکّا مچھیروں اور لکڑہاروں کی بستیاں گھنے جھرمٹوں میں پوشیدہ ہیں۔ سندر بن کا یہ وسیع و عریض علاقہ دُنیا کے حسین ترین اور خطرناک ترین خطوں میں سے ہے۔

دیپالیؔ سرکار کی کشتی باگھیر ہاٹ سے روانہ ہو کر ایک نامعلوم منزل کی طرف بہتی جارہی تھی۔ دیپالیؔ چاروں طرف کے ہیبت ناک حد تک خوبصورت مناظر کو دیکھ دیکھ کر سکتے میں بیٹھی تھی۔ اور اُس کا دل دھڑک رہا تھا۔ وہ ریحان دا سے ملنے جا رہی ہے۔

ریحان دا… چپّوئوں کی چپ شپ اور کائنات کی اس آبی اور سبز سمفنی میں یہی نام مرتعش تھا… وہ ریحان دا سے ملنے جارہی ہے۔

دن بھر چلتے رہنے کے بعد کشتی شام کو ایک گائوں کے گھاٹ پر پہنچی۔ سنسان جیٹی پر ایک بوڑھا مسلمان جس کی سفید داڑھی ہوا میں لہرا رہی تھی لالٹین ہاتھ میں لیے کھڑا تھا۔ دیپالی اپنا اٹیچی کیس (یہ تاریخی اٹیچی کیس) اور تھیلا اُٹھا کر بانس کی جیٹی پر اُتری۔ ملّاح نے کھُلنا کی ساحلی بنگلہ میں بوڑھے مولوی سے کوئی بات کہی۔ مولوی نے لالٹین اُٹھا کر دیپالیؔ سے کہا۔ ’’میرے ساتھ آئو بیٹی‘‘۔

کشتی پانی پر واپس چلی گئی۔ دیپالی اب ہُو کے عالم میں اس ازلی جنگل میں تنہا کھڑی تھی۔ میں کہاں سے کہاں آگئی۔ اس نے حیرت اور خوف کے ساتھ سوچا۔ لیکن ریحان اس راستے کے سرے پر موجود ہیں۔ میں محفوظ ہوں۔

بوڑھے نے اس کا بکس اور تھیلا اُٹھا کر کندھے پر رکھ لیا۔ وہ اس کے ساتھ جیٹی پر سے اتر کر پگڈنڈی پر آگئی۔ بوڑھا بلا کی پھرتی سے قدم اُٹھا رہا تھا۔ شاید اس بوڑھے نے اپنی ساری عمر اِسی جگہ پر گزاری ہے۔ اور اسی جگہ اسی حالت میں مرجائے گا۔ ہم نے اس کے لیے کیا کیا ہے اور کیا کرپائیں گے؟ یہ سوچ کر دیپالی نے حسب عادت نئے جوش کے ساتھ اپنی رفتار تیز کردی۔

’’باقی لوگ آگئے؟‘‘ دیپالی نے بوڑھے سے پوچھا۔

وہ چُپ رہا۔ دیپالی کو ایک لخت ڈر سا لگا۔ پھر اس نے سوچا۔ شاید یہ میرا شہری لہجہ نہیں سمجھ سکا۔ اس نے اپنا سوال دُہرایا۔ ’’دوسرے لوگ جو آنے والے تھے‘‘۔

بوڑھے نے نفی میں سر ہلادیا۔ دیپالی متفکر ہوگئی۔ مگر… کیا ہوسکتا تھا۔ اب کچھ نہیں ہوسکتا مگر میں اتنی دہشت زدہ کیوں ہورہی ہوں۔ حد ہے۔ اگر میں نے کوئی حماقت کی ہے تو۔ تو اُسے بھگتنا پڑے گا… ادماں… ادماں… ماں… دیپالی نے بے طرح ہڑبڑا کر دیوی سے دُعائیں مانگنا شروع کردیں۔

آدھ گھنٹے میں وہ لوگ درختوں کے ایک جُھرمٹ میں پہنچ گئے۔ جس کے ایک طرف ندی بہہ رہی تھی۔ سائیکلون کے تھپیڑوں سے شکستہ لیکن خوبصورت بانس کا جھونپڑا سامنے کھڑا تھا۔ برآمدے پر پھولوں کی بیلیں چڑھی ہوئی تھیں اور طاق میں دیا جل رہا تھا۔ مولوی نے بکس اور تھیلا برآمدے کے کچے فرش پر رکھ کر آواز دی۔ ’’زینب!‘‘

ایک بوڑھی عورت پیوندوں سے بھری اُودی ساری لپیٹے اندر سے نکلی۔ اس نے جھک کر دیپالیؔ کو غور سے دیکھا اور مسکرائی۔ ’’آئو… آجائو۔‘‘
دیپالیؔ نے اسے نمسکار کیا اور اس کے پیچھے پیچھے تین کمروں کے صاف ستھرے جھونپڑے میں داخل ہوئی۔

’’تمہاری کھاٹ میں نے اپنی کوٹھری میں بچھا دی ہے۔ برابر والے کمرے میں مولوی صاحب اور میرے دونوں بیٹے رہتے ہیں۔ وہ دونوں کام سے کھُلنا گئے ہوئے ہیں‘‘۔
دیپالیؔ کھاٹ پر بیٹھ گئی۔

’’تم کو بھوک لگی ہوگی۔ راستے میں کچھ کھایا تھا؟ یہ لو…‘‘ بوڑھی عورت نے بھُنے ہوئے چاول کے میٹھے لڈو ایک رکابی میں رکھ کر اسے پیش کیے اور پانی کا گلاس اس کے سامنے رکھا۔ یہ غربت اور یہ مہمان نوازی… دیپالی کے حلق میں کوئی چیز آ اٹکی۔ اس کی ہچکچاہٹ دیکھ کر بوڑھی عورت نے کہا… ’’ریحان میاں باہر ندی پر بیٹھے ہیں اُدھر…‘‘

دیپالی نے غربت کا دور سے مطالعہ کیا تھا۔ وہ سفید پوش طبقے کی ناداری سے واقف تھی جو اس کی اپنی ناداری تھی۔ اس نے شہر کے غرباء کا افلاس دیکھا تھا مگر ایسی غربت اسے آج تک نظر نہیں آئی تھی۔ اس نے پلٹ کر پیچھے دیکھا۔ مولوی صاحب زینب بی بی کے شوہر برآمدے میں چٹائی بچھا کر مغرب کی نماز میں محو ہوچکے تھے۔ اس نے زینب بی بی سے چند باتیں کیں۔ ایک لڈو دانتوں سے کُترا اور لالٹین ہاتھ میں لے کر پچھلے برآمدے میں نکلی۔ جس کے عین نیچے ندی رواں تھی۔

ندی کے کنارے، جھونپڑے کی طرف پشت کئے وہ بیٹھا تھا۔

وہ آہستہ سے نیچے اُتری اور اس کے قریب جا کر بیٹھ گئی۔ وہ کہنی پر سر رکھے اپنی سوچ میں ڈوبا ہوا تھا۔ آہٹ پر اس نے سر اُٹھایا اور مسکرا کر کہا۔ ’’شوکتی! آگئیں‘‘۔
’’ہاں‘‘۔
وہ اُسے شاباشی دینے کے انداز میں مسکرایا۔ ’’گُڈگرل۔ بریولِٹل گرل‘‘۔

اُس کے چہرے سے داڑھی غائب تھی۔

’’آپ نے…‘‘ دیپالی نے اپنے چہرے پر انگوٹھا اور اُنگلی پھیری۔

’’ہاں بھائی۔ دو ڈھائی برس سے کسی طرح اس کمبخت داڑھی سے پیچھا ہی نہیں چھٹتا تھا۔ مسلمان داڑھی۔ ہندو داڑھی۔ بے حد جھاڑ جھنکاڑ ہوگئی تھی۔ یہاں اس کی ضرورت نہیں ہے۔ آزادی سے سارے میں گھومتا ہوں۔ آج صبح تمہارے آنے کی تقریب میں مولوی صاحب کے بڑے لڑکے سے اُسترا لے کر شیو کیا۔ دیکھو ٹھیک ہے نا‘‘۔ اُس نے اپنی ٹھوڈی پر ہاتھ پھیرا۔ اس کے ایک بائیں رُخسار پر اُسترے کا خفیف ساز خم تھا اور خون کی بوند جم گئی تھی۔
(جاری ہے)

حصہ