توبہ و استغفار کے آداب

150

(دوسرا اور آخری حصہ)

جب میری باری آئی تو نبیؐ نے مجھ سے کہا۔ کہو تمہیں کس چیز نے روک دیا تھا؟ میں نے دیکھا کہ آپؐ کی مسکراہٹ میں غصہ کے آثار ہیں اور میں نے صاف صاف بات کہہ ڈالی۔ اے اللہ کے رسولؐ! واقعہ یہ ہے کہ مجھے کوئی عذر نہ تھا، میں صحت مند تھا، خوش حال تھا، سواری بھی میرے پاس موجود تھی، بس میری سستی اور غفلت نے مجھے اس سعادت سے محروم رکھا۔

میری صاف صاف بات سن کر نبیؐ نے فرمایا اچھا جائو اور انتظار کرو کہ خدا تمہارے معاملہ میں کوئی فیصلہ فرمائے۔ میں اٹھا اور اپنے قبیلے کے لوگوں میں آبیٹھا۔ قبیلے کے لوگوں نے مجھے برا بھلا کہنا شروع کیا کہ تم نے کوئی بات کیوں نہ بنادی، تم ہمیشہ دین کے کاموں میں پیش پیش رہے ہو، لیکن جب مجھے یہ معلوم ہوا کہ میرے دو اور ساتھیوں نے بھی اسی طرح کی سچی بات کہی ہے تو میرا دل مطمئن ہوگیا اور میں نے طے کرلیا کہ میں اپنی سچائی پر جما رہوں گا۔

اس کے بعد نبیؐ نے عام اعلان فرمایا کہ ہم تینوں سے کوئی بات نہ کرے۔ یہ اعلان ہوتے ہی میرے لئے مدینے کی زمین بالکل بدل گئی اور میں اپنوں میں بے یارو مددگار بالکل اجنبی بن کر رہ گیا۔ کوئی بھی معاشرے میں مجھ سے سلام کلام نہ کرتا۔ ایک دن جب میں بہت زیادہ اکتا گیا اور طبیعت بہت گھبرائی تو میں اپنے بچپن کے دوست اور چچازاد بھائی ابوقتادہؓ کے پاس گیا۔ میں نے جاکر سلام کیا لیکن اس اللہ کے بندے نے سلام کا جواب تک نہ دیا۔ میں نے پوچھا، ابوقتادہ! میں تمہیں اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں بتائو کیا مجھے اللہ اور رسولؐ سے محبت نہیں ہے؟ وہ خاموش رہے۔ میں نے پھر پوچھا لیکن انہوں نے جواب نہیں دیا، تیسری بات جب میں نے قسم دے کر پوچھا تو بس انہوں نے اتنا کہا: ’’اللہ اور اللہ کے رسولؐ ہی بہتر جانتے ہیں‘‘۔ میرا دل بھر آیا اور میری آنکھوں سے آنسو ٹپکنے لگے اور میں اپنا غم لئے ہوئے واپس آگیا۔

انہی دنوں بازار میں شام کے ایک تاجر نے مجھے ’’شاہ غسان‘‘ کا ایک خط دیا۔ عیسائیوں کے اس بادشاہ نے لکھا تھا۔ ہم نے سنا ہے کہ تمہارے صاحب تم پر بہت زیادہ ستم توڑ رہے ہیں، تم کوئی ذلیل آدمی تو ہو نہیں۔ تمہاری قدر ہم جانتے ہیں تم ہمارے پاس آئو۔ ہم تمہارے مرتبے کے لائق سلوک کریں گے۔ خط دیکھتے ہی میری زبان سے نکلا، یہ ایک اور مصیبت نازل ہوئی، اور اسی وقت اس خط کو میں نے چولہے میں جھونک دیا۔ چالیس دن اس حالت میں گزر چکے تھے کہ نبیؐ کا فرستادہ نبیؐ کا یہ حکم لے کر آیا کہ اپنی بیوی سے بھی علیحدہ ہوجائو۔ میں نے پوچھا طلاق دے دوں؟ جواب ملا نہیں، بس الگ ہو رہو اور میں نے اپنی بیوی کو میکے روانہ کردیا اور اس اللہ کی بندی سے کہہ دیا کہ اب تم بھی اللہ کے فیصلے کا انتظار کرتی رہو۔

پچاسویں دن میں فجر کی نماز کے بعد اپنی جان سے بیزار نہایت ہی مایوس اور غمزدہ اپنے مکان کی چھت پر بیٹھا ہوا تھا کہ یکایک کسی نے پکار کر کہا: ’’کعب! مبارک ہو‘‘ یہ سنتے ہی میں سمجھ گیا اور اپنے اللہ کے حضور سجدے میں گر پڑا۔ پھر تو لوگوں کا تانتا بندھ گیا۔ فوج در فوج میرے پاس مبارک باد دینے کے لئے لوگ آنے لگے۔ میں اٹھا اور سیدھا نبیؐ کے پاس مسجد میں پہنچا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ نبیؐ کا چہرہ خوشی سے چمک رہا ہے۔ میں نے آگے بڑھ کر سلام کیا تو نبیؐ نے فرمایا: ’’کعب! مبارک ہو یہ تمہاری زندگی کا سب سے بہترین دن ہے‘‘۔ میں نے کہا حضورؐ! معافی آپؐ کی طرف سے ہے یا اللہ کی طرف سے! فرمایا اللہ کی طرف سے اور سورہ توبہ کی یہ آیتیں پڑھ کر سنائیں۔

-5توبہ کرنے میں کبھی تاخیر نہ کیجئے زندگی کا حال کسی کو معلوم نہیں، کب مہلت عمل ختم ہوجائے۔ کچھ خبر نہیں کہ اگلا لمحہ زندگی کا لمحہ ہے یا موت کا، ہر وقت انجام کا دھیان رکھیے اور توبہ و استغفار کے ذریعے قلب و روح اور ذہن و زبان کو گناہوں سے دھوتے رہیے۔

نبیؐ کا ارشاد ہے:
’’خدا رات میں اپنے ہاتھ پھیلاتا ہے کہ جس شخص نے دن میں کوئی گناہ کیا ہے وہ رات میں اللہ کی طرف پلٹ آئے اور دن میں اپنے ہاتھ پھیلاتا ہے تاکہ رات میں اگر کسی نے کوئی گناہ کیا ہے تو وہ دن میں اپنے رب کی طرف پلٹے اور گناہوں کی معافی مانگے یہاں تک کہ سورج مغرب سے طلوع ہو‘‘(مسلم)

اللہ کے ہاتھ پھیلانے سے مراد یہ ہے کہ وہ اپنے گنہگار بندوں کو اپنی طرف بلاتا ہے اور اپنی رحمت سے ان کے گناہوں کو ڈھانپنا چاہتا ہے اگر بندے نے کسی وقتی جذبے سے مغلوب ہوکر کوئی گناہ کرلیا ہے تو اسے چاہئے کہ وہ اپنے رحیم و غفور اللہ کی طرف دوڑے اور ذرا تاخیر نہ کرے کہ گناہ سے گناہ پیدا ہوتا ہے اور شیطان ہر وقت انسان کی گھات میں لگا ہوا ہے اور اس کو گمراہ کرنے کی فکر سے کسی وقت بھی بے فکر نہیں ہے۔

-6 نہایت سچے دل سے خلوص کے ساتھ توبہ کیجئے جو اپ کی زندگی کی کایا پلٹ دے اور توبہ کے بعد آپ ایک دوسرے انسان نظر آئیں۔

اللہ کا فرمان ہے:
’’اے مومنو! اللہ کے آگے سچی اور خالص توبہ کرو۔ امید ہے کہ تمہارا پروردگار تمہارے گناہوں کو تم سے دور فرمادے گا، اور تمہیں ایسے باغوں میں داخل فرمادے گا جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی۔ اس دن اللہ اپنے رسولؐ کو اور ان لوگوں کو جو ایمان لاکر اسؐ کے ساتھ ہولئے ہیں رسوا نہ کرے گا‘‘(التحریم: 8/66)

یعنی ایسی توبہ کیجئے کہ پھر قلب و ذہن کے کسی گوشے میں بھی گناہ کی طرف پلٹنے کا کوئی شائبہ باقی نہ رہ جائے۔ ایسی توبہ کے تین یا چار اجزا ہیں، اگر گناہ کا تعلق اللہ کے حق میں سے ہے تو توبہ کے تین اجزا ہیں:

(1) انسان واقعی اپنے گناہوں کے احساس س شرمسار ہو۔
(2) آئندہ گناہ سے بچنے کا پختہ عزم رکھے۔
(3) اور اپنی زندگی کو سنوارنے اور سدھارنے میں پورے انہماک اور فکر کے ساتھ سرگرم ہوجائے اور اگر اس نے کسی بندے کی حق تلفی کی ہے تو توبہ کا چوتھا جزیہ ہے کہ:
(4)بندے کا حق ادا کرے یا اس سے معاف کرائے۔

یہی وہ توبہ ہے جس سے واقعی انسان گناہوں سے دھل جاتا ہے۔ اس کا ایک ایک گناہ اس کی روح سے ٹپک کر گر جاتا ہے اور وہ اعمال صالحہ سے سنور کر آراستہ زندگی کے ساتھ اللہ کے حضور پہنچتا ہے اور اللہ اس کو اپنی جنت میں ٹھکانا بخشا ہے۔

نبیؐ کا ارشاد ہے:
’’بندہ جب کوئی گناہ کرتا ہے تو اس کے قلب میں ایک سیاہ داغ پڑ جاتا ہے‘‘۔ اب اگر وہ گناہ سے باز آجائے، اپنے گناہوں کے احساس سے نادم ہوکر بخشش کا طلب گار رہے اور اللہ کی طرف پلٹ کر گناہ سے بچنے کا عزم مصمم کرے تو اللہ اس کے قلب کو جلا بخش دیتا ہے اور اگر وہ پھر گناہ کر بیٹھے تو اس سیاہ داغ میں اضافہ کردیا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ پورے دل پر چھا جاتا ہے، یہی وہ زنگ ہے جس کا ذکر اللہ نے اپنی کتاب میں فرمایا ہے:

’’ہرگز نہیں بلکہ اصل بات یہ ہے کہ ان کے قلوب پر ان کے برے کرتوتوں کا زنگ چڑھ گیا ہے‘‘ (مطففین: 14/83)

-7 اپنی توبہ پر قائم رہنے کا پختہ عزم کیجئے اور شب و روز دھیان رکھیے کہ اللہ سے کئے ہوئے عہد و پیمان کے خلاف کوئی حرکت نہ ہونے پائے اور اپنی روز افزوں پاکیزگی اور اصلاح حال سے اپنے عزم کا اندازہ کرتے رہیے اور اگر اپنی ساری کوششوں کے باوجود بھی آپ پھسل جائیں اور پھر کوئی خطا کر بیٹھیں تب بھی مایوس ہرگز نہ ہوں، بلکہ پھر اللہ کے دامن مغفرت میں پناہ تلاش کیجیے اور اللہ کے حضور گڑ گڑایئے کہ پروردگار! میں بہت کمزور ہوں، لیکن تو مجھے اپنے در سے ذلت کے ساتھ نہ نکال اس لئے کہ میرے لئے تیرے در کے سوا اور کوئی در نہیں ہے کہاں جاکر میں پناہ لوں۔

حضرت شیخ سعدیؒ نے فرمایا ہے:
باز آباز آن چہ ہستی باز آگر کافر و کبر بت پرستی باز آ

ایں درگہ مادرگہ نومیدی نیستصد باز اگر توبہ شکستی باز آ

’’پلٹ آ اللہ کی طرف، پلٹ آ تو جو کچھ اور جیسا بھی ہے اللہ کی طرف پلٹ آ۔ اگر تو کافر، آتش پرست اور بت پرست ہے تب بھی اللہ کی طرف پلٹ آ۔ہمارا یہ دربار مایوسی اور ناامیدی کا دربار نہیں ہے اگر تونے سو بار بھی توبہ کرکرکے توڑ دی ہے تب بھی پلٹ آ‘‘۔

اللہ کو سب سے زیادہ خوشی جس چیز سے ہوتی ہے وہ بندے کی توبہ ہے، توبہ کے معنی ہیں پلٹنا، رجوع ہونا، بندہ جب فکر و جذبات کی گمراہی میں مبتلا ہوکر گناہوں کے دلدل میں پھنستا ہے تو وہ اللہ سے بچھڑ جاتا ہے اور بہت دور جا پڑتا ہے گویا کہ اللہ سے وہ گم ہوگیا اور جب وہ پھر پلٹتا ہے اور شرمسار ہوکر اللہ کی طرف متوجہ ہوتا ہے، تو یوں سمجھیے کہ گویا اللہ کو اپنا گم بندہ پھر مل گیا۔ اس پوری کیفیت کو نبیؐ نے انتہائی بلیغ تمثیل میں یوں بیان فرمایا ہے۔ آپؐ نے فرمایا:

’’اگر تم میں سے کسی شخص کا اونٹ ایک بے آب و گیاہ صحر امیں گم ہوگیا ہو اور اس شخص کا کھانے پینے کا سامان بھی اسی گم ہونے والے اونٹ پر لدا ہوا ہو اور وہ شخص چاروں طرف اس لق و دق صحرا میں اپنے اونٹ کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر مایوس ہوچکا ہو پھر وہ زندگی سے بے آس ہوکر کسی درخت کے نیچے موت کے انتظار میں لیٹ رہا ہو، ٹھیک اسی حالت میں وہ اپنے اونٹ کو سارے سامان سے لدا ہوا اپنے اس کھڑا دیکھے تو تصور تو کرو اس کو کیسی خوشی ہوگی! تمہارا پروردگار اس شخص سے بھی کہیں زیادہ اس وقت خوش ہوتا ہے جب تم میں سے کوئی بھٹکا ہوا بندہ اس کی طرف پھر پلٹتا ہے اور گمراہی کے بعد پھر وہ فرمانبرداری کی روش اختیار کرتا ہے (ترمذی)

ایک اور موقع پر آپؐ نے اسی حقیقت کو ایک اور تمثیل میں واضح فرمایا ہے جو نہایت ہی اثر انگیز ہے:

’’ایک موقع پر کچھ جنگی قیدی گرفتار ہوکر آئے۔ ان میں ایک عورت بھی تھی جس کا دودھ پیتا بچہ چھوٹ گیا تھا۔ وہ مامتا کی ماری ایسی بے قرار تھی کہ جس چھوٹے بچے کو پالیتی اپنی چھاتی سے لگا کر دودھ پلانے لگتی، اس عورت کا یہ حال دیکھ کر نبیؐ نے صحابہؓ سے پوچھا کیا تم توقع کرسکتے ہو کہ یہ ماں اپنے بچے کو خود اپنے ہاتھوں سے آگ میں پھینک دے گی؟‘‘ صحابہؓ نے کہا: ’’یا رسولؐ اللہ! خود پھینکنا تو درکنار، وہ اگر گرتا ہو تو یہ جان کی بازی لگا کر اس کو بچائے گی‘‘۔ اس پر نبیؐ نے ارشاد فرمایا:

’’اللہ اپنے بندوں پر اس سے زیادہ رحم اور مہربان ہے جتنی یہ ماں اپنے بچے پر مہربان ہے‘‘۔

-8 توبہ اور استغفار برابر کرتے رہیے۔ صبح سے شام تک انسان سے نہ معلوم کتنی خطائیں ہوتی رہتی ہیں اور بعض اوقات خود انسان کو ان کا شعور نہیں ہوپاتا۔ یہ نہ سوچیے کہ کوئی بڑا گناہ ہوجانے پر ہی توبہ کی ضرورت ہے، انسان ہر وقت توبہ و استغفار کا محتاج ہے اور قدم قدم پر اس سے کوتاہیاں ہوتی رہتی ہیں۔ خود نبیؐ دن میں ستر ستر بار اور سو سو بار توبہ و استغفار فرماتے تھے (بخاری، مسلم)

-9 جو گناہ گار توبہ کرکے اپنی زندگی کو سدھارلے اس کو کبھی حقیر نہ سمجھیے۔ حضرت عمران بن الحصینؓ دور رسالت کا ایک واقعہ بیان فرماتے ہیں کہ قبیلہ جہینہ کی ایک عورت نبیؐ کی خدمت میں حاضر ہوئی جو بدکاری کے نتیجہ میں حاملہ ہوگئی تھی۔ کہنے لگی یا رسولؐ اللہ! میں زناکاری کی سزا کی مستحق ہوں۔ مجھ پر شرعی حد قائم فرمایئے اور مجھے سزا دیجیے۔ نبیؐ نے اس عورت کے ولی کو بلایا اور اس سے کہا تم اس کے ساتھ اچھا سلوک کرتے رہو، اور جب بچہ یپدا ہوجائے تو اس کو میرے پاس لے کر آنا۔ ولادت کے بعد جب وہ عورت آئی تو آپؐ نے حکم دیا کہ اس کے کپڑے اس کے جسم پر باندھ دیئے جائیں (تاکہ سنگسار ہوتے وقت کھل نہ جائیں اور بے پردگی نہ ہو) پھر اس کو سنگسار کرنے کا حکم دیا اور وہ سنگسار کردی گئی۔ پھر نبیؐ نے اس کے جنازے کی نماز پڑھی، تو حضرت عمرؓ نے نبیؐ سے کہا۔ یا رسولؐ اللہ! آپؐ اس کے جنازے کی نماز پڑھ رہے ہیں یہ تو بدکاری کرچکی ہے، اس پر نبیؐ نے فرمایا اس نے توبہ کرلی اور ایسی توبہ کہ اگر اس کی توبہ مدینے کے ستر آدمیوں پر تقسیم کردی جائے تو سب کی نجات کے لئے کافی ہوجائے۔ تم نے اس سے افضل کسی کو دیکھا ہے جس نے اپنی جان اللہ کے حضور پیش کردی۔

-10 سید الاستغفار کا اہتمام کیجیے۔ نبیؐ نے حضرت شداد بن اوسؓ کو بتایا کہ سید الاستغفار یعنی سب سے عمدہ دعا یہ ہے:

(ترجمہ)’’الٰہی! تو میرا پروردگار ہے، تیرے سوا کوئی اور معبود نہیں، تو نے مجھے پیدا کیا اور میں تیرا بندہ ہوں، اور میں نے تجھ سے بندگی اور اطاعت کا جو عہد و پیمان باندھا ہے اس پر اپنے بس بھر قائم رہوں گا اور جو گناہ بھی مجھ سے سرزد ہوئے ان کے نتائج بد سے بچنے کے لئے میں تیری پناہ گاہ کا طالب ہوں، تو نے مجھے جن جن نعمتوں سے نوازا ہے ان کا بھی اقرار کرتا ہوں، اور مجھے اعتراف ہے کہ میں گنہگار ہوں، پس اے میرے پروردگار! میرے جرم کو معاف فرمادے، تیرے سوا میرے گناہوں کو اور کون معاف کرنے والا ہے‘‘(بخاری، ترمذی)

حصہ