گم گشتہ سویاں 

64

’’اس سال عید کے ناشتے میں نانی اماں کی طرح کی ہاتھ کی سویاں بناؤں گی، امی! آپ مجھے ان کی ترکیب بتا دیجیے گا۔‘‘
میں تلاوتِ قرآن میں مصروف تھی، بہو کی بات سن کر بے اختیار مسکرا دی۔ میں نے قرآن شریف کو بند کرکے جزدان میں لپیٹ کر رکھا۔ اتنی دیر میں وہ میرے قدموں میں آکر بیٹھ گئی اور بے اختیار اپنا سر میرے گھٹنے پر رکھ کر سستانے لگی۔
وہ بے چاری روزے کی حالت میں عید کے خوانوں کا سامان لینے نکلی تھی۔ مجھے یقین ہے کہ راستے بھر میرے بیٹے قاسم نے اپنی بچپن کی سویوں کی قصیدہ خوانی کرکے اس کو پُرعزم کردیا تھا۔
’’امی! قاسم کہہ رہے تھے کہ ترکیب تو امی کی بھی وہی ہے، تم ان سے پوچھ لینا، لیکن نانی اماں کی طرح مٹی کے پیالوں میں پیش کرنا… اتنے سال ہوگئے ہیں، میں اُن سویوں کے لیے ترس رہا ہوں جو ہم نانی کی زندگی میں اُن کے گھر جا کر کھاتے تھے۔‘‘
مجھے نہ جانے کیوں ان دونوں میاں بیوی کی معصومیت پر پیار سا آگیا۔
میں نے بے اختیار اپنی بہو کا سر سہلاتے ہوئے کہا ’’ترکیب تو وہی ہے جو میں بناتی ہوں، میں آپ کو بھی ضرور سکھا دوں گی اور مٹی کے پیالوں میں آپ پیش بھی کردیں گی، لیکن اس کا ذائقہ پھر بھی وہ نہیں آسکے گا، کیوں کہ اس میں خلوص کی وہ آمیزش، محبت کی وہ چاشنی ہم آج کے دور میں نہیں دے سکتے۔
پتا ہے بیٹا! اللہ بخشے میرے والد مرحوم کو، وہ گاؤں کے تمام بچوں کو قرآن شریف پڑھاتے تھے، عید کی صبح نماز کے بعد وہ پیپل کے گھنے درخت کے نیچے پتّے سمیٹ کر پانی کا چھڑکاؤ کرتے جس سے فضا سوندھی ہوجاتی تھی۔ پھر فرش پر چٹائی کا دسترخوان بچھایا جاتا، اطراف کی چارپائیوں پر اماں کے ہاتھوں کی بنی رلیاں بچھاکر رنگ بکھیر دیے جاتے۔ اسی اثنا میں محلے کے تمام بچے استادِ محترم کو سلام کرنے پہنچ جاتے اور دستر خوان پر براجمان ہوجاتے۔
اماں اپنے ہاتھوں سے ہر ایک کے پیالے میں سویاں نکال کر اس کے اوپر میووں کا برادہ چھڑکتی جاتیں اور دعاؤں کے ہمراہ دیتی جاتیں۔ بچے پیالہ تھامے اپنی جگہ پر منتظر بیٹھے رہتے، جیسے ہی تمہارے نانا ابا اپنے پیالے سے کھانا شروع کرتے، بچے بھی شروع ہوجاتے اور منٹوں میں وہ پیالہ چٹ کرجاتے۔ پھر ابا جان اپنے گاؤ تکیے کے نیچے سے سب کے ناموں کے حساب سے عیدی کے رنگین لفافے نکالتے اور عیدی کے ساتھ ساتھ سر پر ہاتھ رکھ کر دعاؤں سے بھی نوازتے جاتے۔
پھر اس دسترخوان پر خاندان والوں کا عید کا ناشتا سجتا اور سب مل کر عید مناتے۔ گھر میں موجود ہر خاتون ایک ڈش بناتی اور سب مل کر کھاتے، کیوں کہ اس دستر خوان کی زینت بنتے وہ خلوص، پیار، محبت اور بھائی چارگی، جو خاندانی نظام کی جڑوں کو مضبوط کرتے ہیں۔ اس ناشتے میں لوگوں کے ساتھ پیپل کے درخت سے پرندے بھی شریک ہوتے تھے۔ مٹی کی وہ سوندھی خوشبو اور بے غرض پیار ہم کہاں سے لائیں گے اس شیر کے پیالے میں جو برسوں پہلے ہم اپنے ماں باپ کی دہلیز پر چھوڑ آئے ہیں۔‘‘
آنسوؤں کی نہ رکنے والی جھڑی شروع ہوگئی تھی۔
میں نماز کے لیے اٹھ گئی اور بہو میرا منہ تکتی رہ گئی۔ میں اس کو کیا بتاتی کہ آج کل کے دستر خوانوں میں بھی ہم اُس خوان کی خوشبو نہیں پا سکتے جو اصلی عید کا اصلی خوان ہوتا تھا۔ مل بیٹھ کر کھانے والی سویاں، خالص سویاں جو صرف اپنوں کے ساتھ کھائی جاتی تھیں، سوشل میڈیا کے ساتھ نہیں۔

حصہ