یہ عید فتح و نصرت کی نوید لائے گی

173

دنیا کی تمام اقوام اور مذاہب کے پیروکار سال کے مخصوص ایام میں اجتماعی خوشیاں مناتے ہیں۔ اس میں نئے کپڑے، انواع و اقسام کے کھانے، میلے ٹھیلوں اور دیگر تفریحات سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ یہ مخصوص ایام کسی نہ کسی اہم قومی، مذہبی واقعات کی یادگار ہوتے ہیں، اور ہر قوم اور مذہب سے تعلق رکھنے والے اپنی ملکی آزادی اور انقلاب کی کامیابی کو بھی یادگار کے طور پر مناتے ہیں۔

لیکن مسلمانوں کی عید جس کو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے منانے کا حکم دیا، اُس کی نوعیت بڑی منفرد اور اعلیٰ و ارفع ہے۔ یہ عجب بات ہے کہ مسلمانوں کے سال کا اختتام حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ایک آزمائش پر پورا اترنے کے بعد ہوتا ہے۔ تاریخ کا ہر طالب علم یہ بات جانتا ہے کہ ابراہیم علیہ السلام کو ایمان لانے کے بعد سے ہی اللہ نے آزمانا شروع کردیا۔ پہلے آگ میں ڈالے گئے، پھر اپنے ملک کو خیرباد کہنا پڑا، اس کے بعد اہلیہ حضرت ہاجرہ اور شیرخوار بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو مکہ کی سنگلاخ وادیِ بے آب و گیاہ میں تنہا چھوڑ کر جانا پڑا۔ اس دوران حضرت ہاجرہ نے بیٹے کی پیاس بجھانے کے لیے صفا و مروہ کی سعی کی، جس کو اللہ تعالیٰ نے رہتی دنیا تک کے لیے حج اور عمرہ کا رکن بنا دیا۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام کا بار بار خواب میں اسماعیل علیہ السلام کو قربان کرتے دیکھنا، اور پھر صالح اور خدا شناس حضرت اسماعیلؑ کا قربان ہوجانے پر راضی ہونا اور اس آزمائش میں پورا اترنا اہلِ ایمان کی خوشیوں والا دن عید الاضحی قرار پایا۔ صدیاں گزر گئیں آج تک اہلِ ایمان اس دن اللہ کی راہ میں نماز شکرانہ ادا کرتے ہیں اور کروڑوں اُن جانوروں کی قربانی کرتے ہیں جن کی اجازت شریعت میں دی گئی ہے، اور پھر تین دن تک پوری دنیا کے مسلمان اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ ان اَیامِ خوشی کو تزک و احتشام سے مناتے ہیں۔ یہ خوشی اور عید کا دن دیگر اقوام اور مذاہب کے پیروکاروں کی خوشیوں کی طرح نہیں۔ مسلمانوں کی عید اللہ کے دربار میں سربسجود ہوکر منانے کا نام ہے۔

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ’’تم مجھے یاد کروگے تو میں تمہیں یاد کروں گا، تم میری نعمتوں کا شکر ادا کرو، کفرانِ نعمت نہ کرو۔‘‘ (البقرہ۔ 152)

یہ رب کی رضا ہے کہ اس نے حضرت ابراہیم علیہ السلام، حضرت اسماعیل علیہ السلام اور حضرت ہاجرہ کے ہر ایثار و قربانی کو شعائر اسلام بناکر ہماری خوشیوں کا سامان اور عبادت کا قرینہ بنادیا۔

دوسری عید ہے عیدالفطر، جس کو مسلمانانِ عالم پیار سے میٹھی عید بھی کہتے ہیں۔ یہ اتنی منفرد اور خوشیوں بھری ہے کہ اس عید میں مسلمان پھولے نہیں سماتے۔ مگر یہ خوشی ایک ایسی عبادت اور فتح و نصرت کے بعد رب العالمین کی جانب سے عطا کی گئی ہے کہ اس کی تفصیل دلوں میں تراوٹ اور ایمان میں تازگی پیدا کردیتی ہے۔

مکہ کے 13 سالہ جاں گسل حالات اور ایمان کی بھٹی میں تپ کر کندن بن جانے کے بعد اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے خود ہجرتِ مدینہ کی اور آپؐ کے اصحابؓ بھی باری باری مدینہ پہنچے۔ جب کہ مدینہ میں اسلام کا نور پھیل چکا تھا اور اہلِ مدینہ نے دیدہ و دل فرشِ راہ کرکے آپؐ کا استقبال کیا۔ ایک طرف مدینہ منورہ نورِ رسالت سے روشن ہوا تو دوسری جانب مشرکینِ مکہ کے ارمانوں پر اوس پڑ گئی۔

ابھی سال گزرا کہ دوسرے سال پے درپے اسلام کی سربلندی کی نوید الٰہی آنا شروع ہوگئی۔ تحویلِ قبلہ، تحویلِ امامت یعنی بنی اسرائیل سے امامت بنی اسماعیل کے سپرد کر دی گئی۔ روزے کی فرضیت، جہاد کی فرضیت کی آیات حکم نامے کی صورت نازل ہونا شروع ہوئیں۔

مدینہ میں سالارِ اعظم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سربراہی میں سرفروشانِ دینِ اسلام کا ایک جتھہ ہر طرح کی قربانی دینے کو تیار ہوچکا تھا۔

اللہ کی مشیت دیکھیے کہ مشرکینِ مکہ کی تباہی کا سامان تجارتی قافلے کے لٹ جانے کے خوف سے شروع ہوا، اور اہلِ مکہ کا غرور اُن کو میدانِ بدر میں لایا، اور دنیا نے دیکھا کہ 313 نفوسِ قدسیہ نے ہزار کے لشکرِ خونخوار کو کس ذلت و رسوائی سے دوچار کرکے انقلابِ اسلامی کیا کہ دس سال بعد مدینہ کی 30 مربع میل کی ریاست دورِ فاروقیؓ میں 33 لاکھ مربع میل تک پھیل گئی، شرق تا غرب اسلام کا پرچم سربلند ہوگیا۔

دشت تو دشت ہے دریا بھی نہ چھوڑے ہم نے
بحرِ ظلمات میں دوڑا دیے گھوڑے ہم نے

حق و باطل کی یہ پہلی جنگ 17 رمضان المبارک کو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سالاری میں لڑی گئی اور مشرکین مکہ کے تمام مغرور سرداروں کی گردنیں کاٹ کر رکھ دی گئیں۔ 70 جہنم واصل ہوئے اور 70 ہی قیدی بنے۔ اس دن کو اللہ نے قرآن مجید میں ’’یوم فرقان‘‘ قرار دیا، یعنی یہ دن حق و باطل کے فرق کو واضح کرنے والا دن ہے۔

عیدالفطر نہ صرف روزوں کی ادائی کے بعد رب العالمین کے حضور نمازِ شکرانہ ادا کرنے کا دن ہے بلکہ اس ماہِ مبارک میں وہ تمام خوشیاں ملی ہیں جو کسی قوم کو نہیں ملیں۔ یہ جشنِ نزولِ قرآن کا مہینہ ہے۔ یہ جہاد اور تمام بڑی فتوحات کا مہینہ ہے۔ بخشش، مغفرت، جہنم سے نجات اور رب کو راضی کرنے کا مہینہ ہے۔ یہ غربا و مساکین کے دکھ درد بانٹنے کا مہینہ ہے۔ نیکیوں اور بھلائیوں کا ایک ایسا مبارک مہینہ جو اپنے دامن میں خوشیوں کے انبار لے کر آتا ہے۔ اس ماہِ مبارک کے اختتام پر مسلمانانِ عالم اپنے رب سے اپنی مزدوری حاصل کرنے کے لیے نمازِ شکرانہ ادا کرنے عیدگاہ جاتے ہیں اور ادائیگیِ نماز کے بعد خوشیاں مناتے ہیں۔ عید کا یہ دن دیگر اقوام سے منفرد اور ممتاز ہوتا ہے۔

مگر آج من حیث القوم ملّتِ اسلامیہ شرق تا غرب یہود ونصاریٰ اور اہلِ ہنود کے اتحادِ خبیثہ کی سفاکی کا شکار ہے اور خون میں ڈوبی ہوئی ہے، جہاں ایک جانب 57 اسلامی ملکوں کے حکمرانوں کی بے حسی نے ان کی عزت و توقیر کا جنازہ نکال دیا ہے تو دوسری جانب سرفروشانِ دین اسلام نے جہاد کے علَم کو صبر و استقامت کے ساتھ تھام کر نہ صرف عالمی طاغوت بلکہ اُس کے تمام مسلم ممالک میں موجود ایجنٹ حکمرانوں کو بھی ہلکان و پریشاں کردیا ہے۔ اسی مستقبل کو دیکھ کر علامہ اقبال نے کہا:

دنیا کو ہے پھر معرکہِ روح و بدن پیش
تہذیب نے پھر اپنے درندوں کو ابھارا
اللہ کو پامردیِ مومن پہ بھروسا
ابلیس کو یورپ کی مشینوں کا سہارا
تقدیر امم کیا ہے کوئی کہہ نہیں سکتا
مومن کی فراست ہو تو کافی ہے اشارہ

اہلِ غزہ اور مجاہدین ِحماس و فلسطین اور عالمی طاغوت کے سربراہ اسرائیل کے درمیان سرزمین غزہ کے مسمار شدہ مکانات، مساجد، اسپتالوں، اسکولوں اور کالجوں کے ملبے زیر زمین مجاہدین کے لشکر کی قیادت میں لڑی جا رہی ہے اور اس یقین کے ساتھ لڑی جا رہی ہے کہ اللہ کی نصرت و تائید اہلِ غزہ کو بہت جلد اس ماہِ مبارک میں حاصل ہوگی اِن شاء اللہ، کیوں کہ اللہ کا وعدہ سچا ہے۔

ارشادِ باری تعالیٰ ہے ’’جنہوں نے کہا اللہ ہمارا رب ہے اور اس پر قائم رہے تو فرشتے ان پر اترتے ہیں اور ان سے کہتے ہیں کہ نہ گھبراؤ، نہ غم کرو، اور تمہارے لیے جنت کی بشارت ہے جس کا وعدہ کیا گیا تھا۔ اس دنیا اور آخرت میں بھی ہم تمہارے ساتھ ہیں۔‘‘ (سورۃ حم السجدہ۔ 30)

تاریخ شاہد ہے کہ رمضان المبارک میں لڑی جانے والی تمام جنگوں میں مسلمانوں کو فتح و نصرت ملی ہے۔ پہلا غزوہ جو سالارِاعظم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی قیادت میں 17 رمضان المبارک 2 ہجری کو ہوا، اس میں مسلمانوں کی تعداد کفار کے مقابلے میں ایک تہائی تھی اور سامانِ حرب بھی نہ ہونے کے برابر تھا، پھر بھی مسلمان فتح یاب ہوئے۔ وکی پیڈیا پر رمضان المبارک میں لڑی گئی جنگوں کی فہرست موجود ہے جسے دیکھ کر ہم یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ اِن شاء اللہ جہاں جہاں جہاد جاری ہے بالخصوص فلسطین، کشمیر، شام اور برما… اللہ اپنی نصرت و تائید سے مسلمانوں کو نوازے گا یا پھر فتح ونصرت کی راہیں کشادہ ہوں گی۔

٭غزوہ بدر، کفر اور اسلام کی پہلی جنگ:13 مارچ 624ء بمطابق 17 رمضان المبارک 2 ہجری۔

٭غزوہ خندق:مارچ 627ء بمطابق 5 ہجری ذوالقعدہ، مگر مسلمانوں نے خندق کی کھدائی رمضان المبارک میں شروع کی تھی۔

٭غزوہ تبوک: 630ء بمطابق 9 ہجری، جس میں رومی لڑائی کے بغیر بھاگ گئے تھے۔

٭فتح مکہ: 20 رمضان المبارک، 10 ہجری۔

٭رہوڈس، اندلس، جنگ عسقلان فتوحات رمضان المبارک میں ہوئیں، اور تو اور راجا داہر کا دیبل بھی 10 رمضان المبارک کو مسمار ہوا اور سندھ ’’باب الاسلام‘‘ بنا۔

٭جنگ حطین: 4 جولائی 1187ء، بیت المقدس صلاح الدین ایوبی کے ہاتھوں فتح ہوا۔

٭جنگ عین جالوت: 1260ء، رمضان المبارک کے مہینے میں مسلمانوں نے منگولوں کی پوری فوج کو گاجر مولی کی طرح کاٹ کر رکھ دیا، اس کے بعد منگول پھر سر نہ اٹھا سکے اور تاتاری فتنہ اُس وقت مکمل ختم ہو گیا جب برقا خان مسلمان ہوگیا۔

7 اکتوبر 2023ء کو حماس کی جانب سے طوفان الاقصیٰ کے بعد سے شروع ہونے والی جنگ 180 دن گزر جانے کے باوجود پوری توانائی اور اسرائیلی غرور کو خاک میں ملانے کے بعد جاری ہے۔ 35 ہزار شہادتوں کا تمغائِ جنت حاصل کرنے کے بعد اہلِ غزہ مسرور و شاداں ہیں، تمام تر ناکامیوں کے بعد اب امریکی اور یورپی حواری جنگ بندی کی قرارداد کو منظور کرنے پر بادلِ ناخواستہ راضی ہوگئے ہیں۔ اب غالب گمان ہے کہ مصر میں ہونے والے جنگ بندی کے مذاکرات حماس کی شرائط پر کامیاب ہوں گے۔

تکمیلِ پاکستان کے لیے 76 سال سے جاری جہادِ کشمیر پاکستانی حکمرانوں کی امریکی کاسہ لیسی اور بھارت سے خوف زدگی کی وجہ سے کمزور ہوتا ہوا نظر آرہا ہے، مگر ’’موج ہے دریا میں اور بیرونِ دریا کچھ نہیں‘‘ کے مصداق بدلتے حالات میں حکمتِ عملی سے جاری ہے اور کشمیر کے ہر گھر سے یہی آواز آتی ہے کہ:

خونِ مسلم میں ڈوبے ہوئے پرچم لے کر
مجھ سے ظلم کی شاہی نے وفا مانگی ہے
صبح کے نور پہ تعزیر لگانے کے لیے
شب کی سنگین سیاہی نے وفا مانگی ہے
اور یہ چاہا ہے میں قافلہ آدم کو
ٹوکنے والی نگاہوں کا طرف دار بنوں
جس تصور سے چراغاں ہے سر جادہ زیست
اس تصور کی ہزیمت کا گنہگار بنوں
ظلم پروردہ تادیب کے ایوانوں سے
بیڑیاں تکتی ہیں زنجیر صدا دیتی ہے
طاقِ تعذیب سے انصاف کے بت گھورتے ہیں
مسندِ عدل سے شمشیر صدا دیتی ہے
مگر اے عظمتِ انساں کے سنہرے خوابو!
میں کسی تاج کے ستوط کا پرستار نہیں
میرے افکار کے عنوانِ ارادت تم ہو
میں تمہارا ہوں لٹیروں کا وفادار نہیں
(شاعر سے معذرت کے ساتھ)

منافقین اور بزدل حکمرانوں اور عوام میں موجود کفر کے آلہ کار لوگ جنگِ احزاب کی طرح خوف زدگی اور مایوسی پھیلا رہے ہیں جیسا کہ پرویزمشرف جیسے جرنیل نے نائن الیون کے بعد پاکستان کو امریکا کے حوالے کیا تھا۔ مگر طالبان کے جہاد کے باعث امریکی ظالموں کو ذلت ورسوائی کے ساتھ افغانستان میں اپنے ارمانوں کی غلیظ چادر چھوڑ کر بھاگنا پڑا۔
حماس، مجاہدینِ کشمیر اور پوری دنیا کے جہادیوں کا ترانہ ہے:

خدا سے بت کدے میں نعرۂ مستانہ مانگا ہے
حکیمانہ تفکر جذبۂ رندانہ مانگا ہے
بیابانِ سیاست میں جنوں پیشہ قلندر نے
خلوص مومنانہ، حوصلۂ مردانا مانگا ہے
دماغِ آمرِ گستاخ میں ہے خوں آشامی
علاجِ تمکنت کے واسطے ویرانہ مانگا ہے
بھٹکتے پھرتے ہیں ہر کس و ناکس تلون میں
حقیقت کو سمجھنے کا حسیں پیمانہ مانگا ہے
تڑپ اٹھیں جسے پڑھ کر مسلمانانِ عالم سب
رسولِ ہاشمیؐ سے حکم کا پروانہ مانگا ہے
چلو بدر و احد کے معرکے پھر سے کریں برپا
شہادت کی تمنا دل سے یہ دیوانہ مانگا ہے
اِن شاء اللہ یہ عید نوید فتح و نصرت لے کر آئے گی۔
دیکھیے رنگیں قبا میں ہے کتنا بانکپن
جب کبھی اپنے لہو میں تر بتر ہو جایئے
دشمنوں سے ما نگیے کیوں عمر بھر جینے کی بھیک
سر کٹا کر اس سے بہتر ہے امر ہو جایئے

حصہ