توبہ و استغفار کے آداب

223

-1توبہ کی قبولیت سے کبھی مایوس نہ ہوں، کیسے ہی بڑے بڑے گناہ ہوگئے ہوں، توبہ سے اپنے نفس کو پاک کیجیے اور اللہ سے پر امید رہیے، مایوسی کافروں کا شیوہ ہے۔ مومنوں کی تو امتیازی خوبی ہی یہ ہے کہ وہ بہت زیادہ توبہ کرنے والے ہوتے ہیں اور کسی حال میں اللہ سے مایوس نہیں ہوتے۔ گناہوں کی زیادتی سے گھبرا کر مایوسی میں مبتلا ہونا اور توبہ کی قبولیت سے ناامید ہونا ذہن و فکر کی تباہ کن گمراہی ہے۔ اللہ نے اپنے محبوب بندوں کی یہ تعریف نہیں فرمائی ہے کہ ان سے گناہوں کا صدور نہیں ہوتا بلکہ فرمایا ان سے گناہ ہوتے ہیں لیکن وہ اپنے گناہوں پر اصرار نہیں کرتے۔ صفائی سے ان کا اعتراف کرتے ہیں اور خود کو پاک کرنے کے لئے بے چین ہوتے ہیں:

’’اور اگر کبھی ان سے کوئی فحش کام سرزد ہوجاتا ہے یا وہ اپنے اوپر کبھی زیادتی کر بیٹھتے ہیں تو معاً انہیں خدا یاد آجاتا ہے اور وہ اس سے اپنے گناہوں کی معافی چاہتے ہیں اور اللہ کے سوا کون ہے جو گناہوں کو معاف کرسکتا ہے؟ اور جانتے بوجھتے اپنے کئے پر ہرگز اصرار نہیں کرتے‘‘(آل عمران: 135/3)

اور دوسرے مقام پر فرمایا:
’’فی الواقع جو لوگ اللہ سے ڈرنے والے ہیں ان کا حال یہ ہوتا ہے کہ کبھی شیطان کے اثر سے کوئی برا خیال اگر انہیں چھو بھی جاتا ہے تو وہ فوراً چوکنے ہوجاتے ہیں اور پھر انہیں صاف نظر آنے لگتا ہے کہ صحیح روش کیا ہے‘‘ (الاعراف: 201/7)

اور نبیؐ نے ارشاد فرمایا:
’’سارے کے سارے انسان خطاکار ہیں اور بہترین خطاکار وہ ہیں جو بہت زیادہ توبہ کرنے والے ہیں‘‘ (ترمذی)

قرآن پاک میں اللہ نے اپنے بندوں کی یہ امتیازی خوبی بیان فرمائی ہے کہ وہ سحر کے اوقات میں اللہ کے حضور گڑ گڑاتے ہیں اور توبہ و استغفار کرتے ہیں اور مومنوں کو تلقین فرمائی ہے کہ وہ توبہ و استغفار کرتے رہیں اور یہ یقین رکھیں کہ اللہ ان کے گناہوں پر عفوودر گزر کا پردہ ڈال دے گا اس لئے کہ وہ بڑا ہی معاف فرمانے والا اور اپنے بندوں سے انتہائی محبت کرنے والا ہے‘‘ (ہود:90)

’’اور اپنے پروردگار سے مغفرت چاہو اور اس کے آگے توبہ کرو۔ بلاشبہ میرا رب بڑا ہی رحم فرمانے اور بہت ہی محبت کرنے والا ہے‘‘(ہود:90/11)

-2 اللہ کی رحمت سے ہمیشہ پرامید رہیے اور یہ یقین رکھیے کہ میرے گناہ خواہ کتنے ہی زیادہ ہوں اللہ کی رحمت اس سے کہیں زیادہ وسیع ہے۔ سمندر کی جھاگ سے زیادہ گناہ کرنے والا بھی جب اپنے گناہوں پر شرمسار ہوکر اللہ کے حضور گڑ گڑاتا ہے تو اللہ اس کی سنتا ہے اور اس کو اپنے دامن رحمت میں پناہ دیتا ہے۔

’’اے میرے وہ بندو! جو اپنی جانوں پر زیادتی کر بیٹھے ہو۔ اللہ کی رحمت سے ہرگز مایوس نہ ہونا یقیناً خدا تمہارے سارے کے سارے گناہ معاف فرما دے گا، وہ بہت ہی معاف فرمانے والا اور بڑاہی مہربان ہے اور تم اپنے رب کی طرف رجوع کرو اور اس کی فرمانبرداری بجالائو اس سے پہلے کہ تم پر کوئی عذاب آپڑے اور پھر تم کہیں سے مدد نہ پاسکو‘‘ (الزمر: 54,53/39)

-3زندگی کے کسی حصے میں گناہوں پر شرمساری اور ندامت کا احساس پیدا ہو اسے اللہ کی توفیق سمجھیے اور توبہ کے دروازے کو کھلا سمجھیے۔ اللہ اپنے بندوں کی توبہ اس وقت تک قبول فرماتا ہے جب تک ان کی سانس نہیں اکھڑتی، البتہ سانس اکھڑنے کے بعد جب انسان دوسرے عالم میں چھانکنے لگتا ہے تو توبہ کی گنجائش ختم ہوجاتی ہے۔

نبیؐ کا ارشاد ہے:
’’اللہ اپنے بندے کی توبہ قبول کرتا ہے مگر سانس اکھڑنے سے پہلے پہلے‘‘ (ترمذی)

حضرت یوسف علیہ السلام کے بھائیوں نے ان کو اندھیرے کنویں میں دھکیل کر پنی دانست میں انہیں ختم کردیا۔ گویا وہ نبیؑ کے قتل کا گناہ کر بیٹھے اور ان کا کُرتا خون میں رنگ کر اپنے باپ یعقوبؑ کو یقین دلانے کی کوشش کرنے لگے کہ یوسفؑ مرگئے اور ان کو بھیڑیئے نے اپنی غذا بنالیا، لیکن ایسے عظیم گناہ کا ارتکاب کرنے کے کئی برس بعد جب ان میں اپے جرم کا احساس ابھرتا ہے اور وہ شرمسار ہوکر اپنے والد سے درخواست کرتے ہیں کہ ابا جان! ہمارے لئے اللہ سے دعا کیجئے کہ اللہ ہمارے گناہ کو معاف فرمادے تو اللہ کے پیغمبر حضرت یعقوب علیہ السلام یہ کہہ کر انہیں مایوس نہیں کرتے کہ تمہارا گناہ بہت عظیم ہے اور اس عظیم ترین گناہ پر اب برسوں گزر چکے ہیں، لہٰذا اب معافی کا کیا سوال؟ بلکہ وہ ان سے وعدہ کرتے ہیں کہ میں ضرور تمہارے لئے اپنے پروردگار سے دعائے مغفرت کروں گا اور انہیں یہ یقین دلاتے ہیں کہ خدا ضرور تمہیں معاف فرمادے گا اس لئے کہ وہ بہت زیادہ درگزر کرنے والا اور بڑا ہی رحم فرمانے والا ہے۔

’’ان سب نے کہا: ’’ہمارے گناہوں کی بخشش کے لئے دعا کیجئے۔ واقعی ہم بڑے خطاکار تھے‘‘(یوسف:97/12)

’’حضرت یعقوب علیہ السلام نے کہا: میں اپنے رب سے تمہارے لئے ضرور معافی کی دعا کروں گا۔ (اور وہ تمہیں ضرور معاف فرمادے گا) یقیناً وہ بڑا ہی معاف کرنے والا اور انتہائی رحم فرمانے والا ہے‘‘(یوسف:98/12)

اور نبیؐ نے امت کو مایوسی کی تباہی سے بچانے کے لئے صحابہؓ کو ایک عجیب و غریب قصہ سنایا جس سے یہ سبق ملتا ہے کہ مومن عمر کے جس حصے میں بھی اپنے گناہوں پر شرمندہ ہو سچے دل سے اللہ کے حضور گڑگڑائے گا تو وہ اپنے دامن مغفرت میں ڈھانپ لے گا اور کبھی نہیں دھتکارے گا۔

نبیؐ نے فرمایا کہ پچھلی قوم میں ایک شخص تھا، جس نے ننانوے خون کئے تھے، اس نے لوگوں سے معلوم کیا کہ دنیا میں سب سے بڑا عالم کون ہے؟ لوگوں ے اس کو ایک اللہ والے راہب کا پتا دیا۔ وہ اس راہب کے پاس گیا ور بولا۔ حضرت! میں نے ننانوے خون کئے ہیں کیا میری توبہ بھی قبول ہوسکتی ہے؟ راہب نے کہا نہیں تمہاری توبہ قبول ہونے کی اب کوئی صورت نہیں۔ یہ سنتے ہی اس شخص نے مایوسی میں اس راہب کو بھی قتل کردیا اور اب وہ پورے سو افراد کا قاتل تھا۔ اب اس نے پھر لوگوں سے دریافت کرنا شروع کیا کہ روئے زمین میں دین کا سب سے بڑا عالم کون ہے۔ لوگوں نے اس کو ایک راہب کا پتا دیا۔ اب وہ توبہ کی غرض سے اس راہب کی خدمت میں پہنچا اور اس کو اپنی حالت بتاتے ہوئے کہاکہ حضرت! میں نے سو قتل کئے ہیں، یہ بتایئے کیا میری توبہ قبول ہوسکتی ہے؟ اور میری بخشش کی بھی کوئی صورت ہے۔ راہب نے کہا کیوں نہیں۔ بھلا تمہارے اور توبہ کے درمیان میں کون سی چیز رکاوٹ بن سکتی ہے، تم فلاں ملک میں جائو۔ وہاں اللہ کے کچھ برگزیدہ بندے اللہ کی عبادت میں مصروف ہیں تم بھی ان کے ساتھ اللہ کی عبادت میں لگ جائو اور پھر کبھی اپنے وطن لوٹ کر نہ آنا کیونکہ اب یہ جگہ دینی لحاظ سے تمہارے لئے مناسب نہیں ہے (یہاں تمہارے لئے توبہ پر قائم رہنا اور اصلاح حال کی کوشش کرنا بہت مشکل ہے)۔ وہ شخص روانہ ہوا۔ ابھی آدھے راستے تک ہی پہنچا تھا کہ موت کا پیغام آگیا۔ اب رحمت اور عذاب کے فرشتے باہم جھگڑنے لگے۔ رحمت کے فرشتوں نے کہا، یہ گناہوں سے توبہ کرکے اور اللہ کی طرف متوجہ ہوکر ادھر آیا ہے۔ عذاب کے فرشتوں نے کہا، نہیں! ابھی اس نے کوئی بھی نیک عمل نہیں کیا ہے۔ یہ باتیں ہورہی تھیں کہ ایک فرشتہ انسان کی صورت میں آیا، ان فرشتوں نے اس کو اپنا حکم بنالیا کہ وہ ان دونوں کے درمیان کوئی فیصلہ کردے۔ اس نے کہا، دونوں طرف کی زمین ناپو اور دیکھو کہ وہ جگہ یہاں سے قریب ہے جہاں سے یہ شخص آیا ہے یا وہ جگہ یہاں سے قریب ہے جہاں اس شخص کو جانا تھا۔ فرشتوں نے زمین کو ناپا تو وہ جگہ قریب نکلی جہاں اس شخص کو جانا تھا اور جاتے ہوئے راہ میں فرشتہ رحمت نے اس کی روح قبض کرلی اور اللہ نے اس کو بخش دیا (بخاری، مسلم)

-4 صرف اللہ کے حضور اپنے گناہوں کا اقرار کیجئے، اسی کے حضور گڑ گڑایئے اور اسی کے سامنے اپنی عاجزی، بے کسی اور خطاکاری کا اظہار کیجئے۔ عجز و انکساری انسان کا وہ سرمایہ ہے جو صرف اللہ ہی کے حضور پیش کیا جاسکتا ہے اور جو بدنصیب اپنے عجز و احتیاج کا یہ سرمایہ اپنے ہی جیسے مجبور بے بس انسانوں کے سامنے پیش کرتا ہے تو پھر اس دیوار لئے کے پاس اللہ کے حضور پیش کرنے کے لئے کچھ نہیں رہ جاتا اور وہ ذلیل و روا ہوکر ہمیشہ کے لئے در در کی ٹھوکریں کھاتا ہے اور کہیں عزت نہیں پاتا۔

اللہ کا ارشاد ہے:
’’اور آپ کا پروردگار گناہوں کو ڈھانپنے والا اور بہت زیادہ رحم فرمانے والا ہے، اگر وہ ان کے کرتوتوں پر ان کو فوراً پکڑنے لگے تو عذاب بھیج دے مگر اس نے (اپنی رحمت سے) ایک وقت ان کے لئے مقرر کر رکھا ہے اور یہ لوگ بچنے کے لئے اس کے سوا کوئی پناہ گاہ نہ پائیں گے‘‘ (الکہف: 58/18)

اور سورۂ شوری میں ہے:

’’اور وہی تو ہے جو اپنے بندوں کی توبہ قبول کرتا ہے اور ان کی خطائوں کو معاف فرماتا ہے اور وہ سب جانتا ہے جو تم کرتے ہو‘‘ (الشوری: 25/42)
دراصل انسان کو یہ یقین رکھنا چاہیے کہ فوز و فلاح کا ایک ہی دروازہ ہے۔ اس دروازہ سے جو دھتکار دیا گیا پھر وہ ہمیشہ کے لئے ذلیل اور محروم ہوگیا۔ مومنانہ طرز فکر یہی ہے کہ بندے سے خواہ کیسے بھی گناہ ہوجائیں اس کا کام یہ ہے کہ وہ اللہ ہی کے حضور گڑگڑائے اور اسی کے حضور اپنی ندامت کے آنسو ٹپکائے۔ بندے کے لئے اللہ کے سوا کوئی اور دروازہ نہیں جہاں اسے معافی مل سکے۔ حد یہ ہے کہ اگر آدمی اللہ کو چھوڑ کر رسولؐ کو خوش کرنے کی کوشش بھی کرے گا تو اللہ کے دربار میں اس کی اس کوشش کی بھی کوئی قیمت نہ لگے گی اور وہ دھتکار دیا جائے گا۔ رسولؐ بھی اللہ کا بندہ ہے اور وہ بھی اسی در کا فقیر ہے، اسے بھی جو عظیم مرتبہ ملا ہے اسی در سے ملا ہے اور اس کی عظمت کا راز بھی یہی ہے کہ وہ اللہ کا سب سے زیادہ عاجز بندہ ہوتا ہے اور عام انسانوں کے مقابلہ میں کہیں زیادہ اللہ کے حضور گڑگڑاتا ہے۔

نبیؐ کا ارشاد ہے:
’’لوگو! اللہ سے اپنے گناہوں کی معافی چاہو اور اس کی طرف پلٹ آئو، مجھے دیکھو میں دن میں سو سو بار اللہ سے مغفرت کی دعا کرتا رہتا ہوں (مسلم)
منافقوں کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
’’یہ منافقین آپ کے سامنے قسمیں کھائیں گے کہ آپ ان سے راضی ہوجائیں۔ اگر آپ ان سے راضی ہو بھی گئے تو اللہ ہرگز ایسے بے دینوں سے راضی نہ ہوگا‘‘ (توبہ: 96/9)

قرآن پاک میں حضرت کعب بن مالکؓ کا عبرت انگیز واقعہ ہمیشہ کے لئے سبق ہے کہ بندہ سب کچھ سہے، ہر آزمائش برداشت کرے لیکن اللہ کے در سے اٹھنے کا تصور تک دل میں نہ لائے، دین کی راہ میں آدمی پر جو کچھ بیتے اور اللہ کی طرف سے اس کو جتنا بھی روندا جائے وہ اس کی زندگی کو چمکانے اور اس کے درجات کو بلند کرنے کا ذریعہ ہے۔ بے عزتی دائمی عزت کا یقینی راستہ ہے اور جو اللہ کے دروازے کو چھوڑ کر کہیں اور عزت تلاش کرتا ہے اس کو کہیں بھی عزت میسری نہیں آسکتی۔ وہ ہر جگہ ذلیل ہوگا اور زمین و آسمان کی کوئی ایک آنکھ بھی اس کو عزت کی نظر سے نہیں دیکھ سکتی۔

’’اور ان تینوں کو بھی اللہ نے معاف کردیا جن کا معاملہ ملتوی کردیا گیا تھا جب زمین اپنی ساری وسعتوں کے باوجود ان پر تنگ ہوگئی اور ان کی جانیں بھی ان پر بار ہونے لگیں اور انہوں نے جان لیا ک اللہ سے بچنے کے لئے کوئی پناہ گاہ نہیں ہے سوائے اس کے کہ خود اسی کی پناہ لی جائے تو اللہ اپنی مہربانی سے ان کی طرف پلٹا تاکہ وہ اس طرف پلٹ آئیں بلاشبہ وہ بڑا معاف فرمانے والا اور انتہائی مہربان ہے‘‘ (التوبہ: 117/9)

ان تین بزرگوں سے حضرت کعب بن مالکؓ، حضرت مرارہ بن ربیعؓ اور حضرت ہلال بن امیہؓ مراد ہیں اور ان تینوں کی مثالی توبہ رہتی زندگی تک کے لئے مومنوں کے لئے مشعل راہ ہے۔ حضرت کعب بن مالکؓ جو بڑھاپے میں نابینا ہوگئے تھے اور اپنے صاحبزادے کے سہارے چلا کرتے تھے، انہوں نے خود اپنی مثالی توبہ کا نصیحت آموز واقعہ اپنے بیٹے سے بیان کیا تھا جو حدیث کی کتابوں میں محفوظ ہے۔

غزوۂ تبوک کی تیاری کے زمانے میں جب نبیؐ مسلمانوں کو غزوہ میں شریک ہونے پر ابھارا کرتے تھے۔ میں بھی ان صحبتوں میں شریک رہتا۔ میں جب بھی آپ کی باتیں سنتا دل میں سوچتا کہ میں ضرور جائوں گا لیکن واپس جب گھر آتا تو سستی کرجاتا اور سوچتا ابھی بہت وقت ہے، میرے پاس سفر کا سامان موجود ہے، میں صحت مند ہوں، سواری اچھی سے اچھی مہیا ہے پھر روانہ ہوتے کیا دیر لگے گی، اور بات ٹلتی رہی یہاں تک کہ سارے مجاہدین میدان جنگ میں پہنچ گئے اور مدینہ میں بیٹھا ارادہ ہی کرتا رہا۔

اب خبریں آنے لگیں کہ نبیؐ واپس آنے والے ہیں اور ایک دن معلوم ہوا کہ آپ واپس آگئے اور حسب معمول مسجد میں ٹھہرے ہوئے ہیں۔ میں بھی مسجد میں پہنچا، یہاں منافقین حضور کی خدمت میں پہنچ رہے تھے اور لمبی چوڑی قسمیں کھا کھا کر اپنے عذرات پیش کررہے تھے۔ نبیؐ ان کی بناوٹی باتیں سن کر ان کے ظاہری عذر قبول کررہے تھے اور فرماتے جاتے خدا تمہیں معاف کرے۔

(جاری ہے)

حصہ