خطرناک مہم

66

گرمیوں کی چھٹیاں ہوں تو لوگ شمالی علاقوں کی جانب سیاحت کیلئے نکل کھڑے ہوتے ہیں۔ اسکولوں کی چھٹیوں سے پہلے جمال اور کمال نے اپنے والدین سے کہا کہ کیوں نہ ان چھٹیوں کو ملک کے بلند، سر سبز و شاداب اور ٹھنڈے علاقوں میں گزارا جائے۔ ان کی یہ بات سن کر جب والد کے سوچ میں ڈوب جانے کا وقفہ زیادہ طویل ہونے لگا تو دونوں نے انھیں اپنی جانب متوجہ کرنے کے لیے سوچ میں ڈوب جانے سبب دریافت کیا۔ والد صاحب کہنے لگے کہ ارادہ تو میرا بھی کچھ ایسا ہی ہے لیکن میں دو ہفتوں سے قبل آفس سے چھٹیاں نہ لے سکوں گا۔ جمال اور کمال نے کہا ٹھیک ہے۔ پھر تھوڑی دیر کے بعد انھوں نے اپنے والد سے کہا کہ وہ بھی ان چھٹیوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کچھ ایجاد کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس کیلئے انھیں بھی کچھ وقت اور اچھی خاصی رقم کی ضرورت پڑے گی۔ والد صاحب نے گردن اٹھا کر ان دونوں کی جانب سوالیہ نظروں سے دیکھا تو دونوں بیک وقت بولے کہ ہمارے ذہن میں جس چیز کو ایجاد کرنے خیال آ رہا ہے، اگر ہم ایسا کرنے میں کامیاب ہو گئے تو یہ ایک حیران کن اور انوکھی ایجاد ہو گی۔ اس سے پہلے کہ آپ دریافت کریں کہ ہم کیا چیز ایجاد کرنا چاہتے ہیں تو ہمارا جواب ہوگا کہ جب تک ہم اس کو بنا نہیں لیتے اس وقت تک اس کے بارے میں آپ کو نہیں بتائیں گے اور ہمیں امید ہے کہ آپ بھی ہم سے معلوم کرنے پر زور نہیں دیں گے۔ والد صاحب نے کہا کہ کیا اس کے لیے بڑی رقم کی ضرورت پڑے گی تو دونوں اثبات میں سر ہلایا لیکن ساتھ ہی ساتھ کہا کہ ہمیں جو بھی رقم درکار ہوگی اس کا انتظام سمجھ لیں ہو چکا ہے۔ یہ سن کر جمال اور کمال کے والد صاحب نے بہت غور سے ان پر نظر ڈالی اور الجھے ہوئے لہجے میں کہا کہ کیا مطلب؟۔ بقول تمہارے، تجربے کیلئے تمہیں کافی خطیر رقم بھی چاہیے اور تمہارے پاس اس کا انتظام بھی ہے، مگر کیسے۔ جمال کہنے لگا کہ ہمارے ذہن میں جب ایک شے کے بنائے جانے کے شوق نے سر ابھارا تو ہم نے اس کا ذکر انسپکٹر حیدر علی کے سامنے رکھا اور ان کو قائل کیا کہ جس قسم کی مہمات ہمیں درپیش رہتی ہیں اس میں ہماری یہ ایجاد ایک اہم کردار ادا کر سکتی ہے لیکن پہلے تجربے سے لیکر اس کے کچھ اور سیٹ بنانے تک کے اخراجات بہت زیادہ آ سکتے ہیں نیز اس کو عملی شکل دینے اور ہماری ڈزائن کے مطابق اسے بنانے کے لیےایک جانب وہ سب سامان جو درکار ہے، اس کو حاصل کرنے کے لیے ہمیں مقتدر ادارے کے اجازت نامے کی ضرورت پڑے گی۔ حیدر علی ہماری بات سن کر کچھ دیر کے لیےخاموش سے ہو گئے۔ پھر کچھ وقفے کے بعد کہنے لگے کہ ہمارے اعلیٰ ادارے تم دونوں سے اچھی طرح واقف ہیں اور تمہاری صلاحیتوں کے معترف بھی ہیں۔ میں ذاتی طور پر پوری کوشش کرونگا کہ ان کے علم میں تمہاری تجویز کو ان کے سامنے رکھوں۔ مجھے امید ہے کہ اس میں میں کامیاب بھی ہو جاؤں گا اور ممکن ہے کہ ادارہ بھی تمہارے تجربے کے لیے مناسب رقم کا انتظام کر سکے۔ میں یہ بھی چاہوںگا کہ تمہاری ان سے ملاقات بھی ہو جائے تو وہ اور بھی اچھا رہے گا کیونکہ جو چیز تمہارے ذہن میں ہے اور اس کو جس شکل میں تم دیکھنا چاہتے ہو، اس کو تم زیادہ بہتر طریقے سے سمجھا سکتے ہو۔ جب حیدر علی نے ایک بیٹھک ان کے ساتھ کروائی اور ہم نے پورے اعتماد و یقین کے ساتھ ان کے سامنے پوری تفصیل سے اپنا مؤقف پیش کیا تو انھوں نے اس بات کا وعدہ کیا وہ جب بھی اپنی ایجاد کو عملی جامہ پہنانا چاہیں پہنائیں لیکن اس کے لیےاپنے گھر کی بجائے ہم جگہ فراہم کریں گے اور اگر کسی قسم کی مدد چاہیے ہوگی، وہ بھی فراہم کی جائے گی۔ اب کیونکہ چھٹیاں بھی ہیں اور ہمارے کہنے کے مطابق ہر قسم کا مطلوبہ سامان فراہم کر دیا گیا ہے اس لئے ہم اپنا زیادہ وقت گھر سے باہر ہی گزاریں گے۔ ہمارے اندازے کے مطابق اس کام میں دو یا تین ہفتے لگ جائیں گے۔ اس طرح ہماری ایجاد بھی مکمل ہو جائے گی اور آپ بھی آفس کے ضروری کام مکمل کرکے دو تین ہفتوں کی چھٹیاں منظور کرانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔

دو ہفتوں کی رات دن کی محنت کے بعد ادارہ اپنے ہی کارخانے میںایک ایسا لباس بنانے میں کامیاب ہو گیا۷۷ جیسا جمال اور کمال نے ڈیزائن کیا تھا۔ یہ لباس ایک ”کور آل” یا ”ڈانگری” کی شکل کا تھا۔ بظاہر بہت ہلکا پھلکا لیکن اپنے اندر کئی حیران کن راز لئے ہوئے تھا۔ ادارہ کیونکہ اس لباس میں چھپے رازوں کو راز ہی رکھنا چاہتا تھا اس لئے کھلے عام اس کا مظاہرہ کرنے کی بجائے ادارے کے جوانوں نے کئی خفیہ مقامات پر اس کے تجربے کرکے اس کی آزمائش کی جو سو فیصد کامیاب رہی۔ ادارے کے ذمے داروں کو حیرت تھی کہ جمال اور کمال کے ذہنوں میں ایسی ایجاد کی ایک مکمل شکل آئی کیسے۔ سب بہت خوش تھے اور فخریہ نظروں سے جمال اور کمال کی سوچ کے مطابق ایجاد کئے گئے لباس کو دیکھ رہے تھے۔ بلا شبہ یہ ایک ایسی ایجاد تھی جو اہم مہمات ہی میں نہیں، کئی خطرناک مہمات میں بھی کام آ سکتی تھی۔ (جاری ہے)

حصہ