کامیابی کا آفاقی آئین:کچھ بننے،کردکھانے کا شوق

195

دوسرا باب
اگر آپ اپنی زندگی کو حقیقی معنویت سے ہم کنار کرنا چاہتے ہیں، کچھ بننا اور کچھ کر دکھانا چاہتے ہیں تو آپ کو کسی نہ کسی طور اپنے اندر کام کرنے کی بھرپور لگن پیدا کرنا پڑے گی۔ جب آپ پوری لگن، صلاحیت اور سکت کے ساتھ میدانِ عمل میں داخل ہوں گے تو کامیابی آپ کے قدم چومے گی اور آپ وہ سب کچھ حاصل کرنے میں کامیاب ہوں گے جس کے خواب آپ نے اپنی آنکھوں میں سجا رکھے ہیں۔

زندگی کو زیادہ سے زیادہ معنویت اور مقصدیت کے ساتھ بسر کرنے کے خواہش مند ہر انسان کے لیے لازم ہے کہ وہ کام کرنے کے حوالے سے ملنے والی تحریک کو عمدگی سے اور بروقت بروئے کار لانے کی کوشش کرے۔ اس معاملے میں کوتاہی اور تن آسانی انسان کو کسی واضح مقصد کے حصول میں کامیاب نہیں ہونے دیتی۔ اس دنیا میں کروڑوں انسان ایسے ہیں جو کچھ نہ کچھ کرنے کی تحریک ضرور پاتے ہیں مگر عملی سطح پر ایسا کچھ بھی کرنے سے مجتنب رہتے ہیں جس سے زندگی کا معیار بلند ہو اور کامیابی کی طرف بڑھنا ممکن ہو۔

کامیابی حاصل کرنے کی تحریک :
بہتر کام کرنے اور کچھ دکھانے کی تحریک کسی بھی چیز سے مل سکتی ہے اور عام طور پر مل ہی جاتی ہے۔ اگر انگریزی میں کہیں تو سوال How to get motivated? سے کہیں بڑھ کرHow to remain motivated? کا ہے۔ یعنی کچھ بہتر کرنے اور کچھ بننے کی جو تحریک ملی ہے وہ برقرار کس طور رکھی جائے۔ یومیہ بنیاد پر کوئی بھی بات آپ کو متاثر کرسکتی ہے اور آپ میں ایک جذبہ سا بیدار ہوتا ہے کہ کچھ کیا جائے مگر پھر چند ہی لمحات میں یہ جذبہ دم توڑ دیتا ہے، بے تیل کے دِیے کی طرح بجھ کر رہ جاتا ہے۔ ایسا اس لیے ہوتا ہے کہ ہم بہت سی باتوں سے متاثر ضرور ہوتے ہیں مگر عمل کی دنیا میں کچھ کرنے کے حوالے سے ذہن نہیں بناتے۔ ہماری کوشش ہوتی ہے کہ اپنے اپنے ’’کمفرٹ زون‘‘ میں رہتے ہوئے جو تھوڑا بہت ہوسکتا ہے وہ کر گزریں۔ ہر انسان جو زندگی بسر کر رہا ہے اُس میں وہ زیادہ راحت محسوس کرتا ہے۔ کسی بھی نئے شعبے میں قدم رکھنا یا کام کا دائرہ وسیع کرتے ہوئے بہتر زندگی کی طرف بڑھنا اُس کے لیے بہت دشوار ہوتا ہے۔ جو کام انسان برسوں سے کرتا آیا ہو اُس میں غیر معمولی سکون محسوس کرتا ہے۔ اُس کی کوشش ہوتی ہے کہ آرام ہاتھ سے نہ جائے۔ جو کام آسانی سے کرلیا جاتا ہے وہ انسان کے لیے ’’کمفرٹ زون‘‘ کا درجہ رکھتا ہے۔ اور کوئی بھی اپنے کمفرٹ زون سے باہر قدم رکھتے ہوئے ڈرتا ہے۔ سوال صرف ناکامی کے خوف کا نہیں، سکون سے محرومی کا بھی ہے۔ کوئی بھی اپنا سکون غارت نہیں کرنا چاہتا۔ اگر کسی غلط کام کے لیے اپنا سکون غارت کرنے سے کوئی ڈرتا ہے تو بات سمجھ میں آتی ہے مگر مسئلہ یہ ہے کہ بہت سے، بلکہ بیشتر لوگ کسی ارفع مقصد کے لیے بھی اپنا سکون داؤ پر لگانے پر آمادہ نہیں ہوتے۔ لوگ نفع و نقصان سے کہیں زیادہ اس بات کو اہمیت دیتے ہیں کہ کہیں سکون غارت نہ ہو جائے۔ ایک بنیادی مخمصہ یہ ہے کہ انسان بہت کچھ پانا بھی چاہتا ہے اور راحت و سکون سے ہاتھ دھونے کے لیے بھی تیار نہیں ہوتا۔ اِسے کہتے ہیں مخالف سمت سفر کرنے والی دو کشتیوں میں سوار رہنا یعنی رند کے رند بھی رہیں اور جنت بھی ہاتھ سے نہ جائے۔

ہماری یومیہ سرگرمیاں یا مصروفیات مختلف مراحل سے گزرتی ہوئی ہمیں بہت کچھ کرنے کی تحریک دیتی ہیں، زندگی کا رخ بدلنے کی طرف مائل کرتی ہیں۔ وسیع تر تناظر میں بات کیجیے تو اندازہ ہوگا کہ ہمارے ماحول میں جو کچھ بھی ہے وہ ہمیں بہت کچھ کرنے کی تحریک دے رہا ہوتا ہے۔ جو لوگ ماحول پر نظر رکھتے ہیں اور کچھ کرنے کا جذبہ اپنے اندر محسوس کرتے ہیں وہ کچھ نہ کچھ بن ہی جاتے ہیں۔ انسان جو کچھ بھی بنتا ہے اپنے ماحول ہی سے بنتا ہے۔ عام مشاہدہ ہے کہ ماحول غیر اخلاقی ہو تو انسان غیر اخلاقی سرگرمیوں کو اپناتے ہوئے پست معیار کی زندگی بسر کرتا ہے۔ پست ماحول میں کچھ لوگ بہت اعلٰی معیار کی زندگی بسر کرتے ہوئے پائے جاتے ہیں۔ یہ بھی ماحول ہی کا اثر یا نتیجہ ہوتا ہے! بات یہ ہے کہ کچھ لوگ باطنی طور پر اس قدر مضبوط ہوتے ہیں کہ ماحول کی خرابی اُن میں ایک ضد سی پیدا کرتی ہے اور وہ طے کرلیتے ہیں کہ ماحول کو شکست دے کر دم لیں گے۔ اُن کی نظر میں ماحول کی شکست اِسی صورت ممکن ہے کہ وہ اخلاقی اقدار کا پرچم بلند رکھتے ہوئے اعلٰی معیار کی زندگی بسر کریں۔

آئیے، اس بات کا جائزہ لیں کہ کچھ بننے اور کچھ بہتر کرنے کی تحریک ہمیں کن کن ذرائع سے مل سکتی ہے۔

٭ گھر کے بزرگ :
تقریباً ہر بچہ اپنے والد کو سُپر مین سمجھتا ہے۔ بچوں سے پوچھیے کہ اُن کے والد اُن کی نظر میں کیا ہیں تو وہ فوراً کہیں کہ وہ اُنہیں سُپر مین سمجھتے ہیں۔ ہر بچہ یہ سمجھتا ہے کہ اُس کے والد اُس کے لیے کچھ بھی کرسکتے ہیں بلکہ دنیا کا کوئی بھی کام اُن کے لیے ناممکن نہیں۔ ایسے میں والد کی ذمہ داری بھی بڑھ جاتی ہے۔ جو لوگ کچھ بننا اور کچھ کرنا چاہتے ہیں وہ اپنے والد اور مجموعی طور پر والدین سے غیر معمولی تحریک پاتے ہیں۔ اگر کوئی شخص اپنی اولاد کی ذہنی تربیت کے حوالے سے بیدار مغز ہو یعنی اُسے اپنی ذمہ داریوں کا اندازہ ہو تو معاملات تیزی سے درست ہوتے جاتے ہیں۔ باپ اچھی عادات کا حامل، محنتی اور پُرجوش ہوگا تو یہی بات بچوں میں بھی آئے گی۔ ہر بچہ جب ہوش سنبھالتاہے اور اُسے یہ احساس ستانے لگتا ہے کہ بھرپور کامیابی کے لیے اُسے بہت کچھ کرنا پڑے گا تو وہ اپنے ماحول پر نظر ڈالتا ہے اور اگر اُسے اپنے والد میں ایک باصلاحیت، محنتی اور پُرجوش انسان دکھائی دے تو وہ بھی کچھ نہ کچھ کرنے کا جذبہ اپنے اندر موجزن محسوس کرتا ہے۔ بچے جب والد کو پڑھتے ہوئے دیکھتے ہیں تو اُن میں بھی مطالعے کا شوق پروان چڑھتا ہے۔ وہ جب یہ دیکھتے ہیں کہ والد سگریٹ نہیں پیتے یا کوئی اور لت نہیں پالتے تو وہ بھی کسی بھی ایسی ویسی چیز کی لت پالنے سے گریز کرتے ہیں۔ بچے جب والد کو وقت کا بہتر استعمال کرتے ہوئے دیکھتے ہیں تو وہ بھی اپنے وقت کو زیادہ سے زیادہ بار آور بنانے پر خاص توجہ دیتے ہیں۔ گھر کے بزرگوں میں والد اور علاوہ کے علاوہ دادا اور دادی بھی شامل ہیں۔ اگر اُن کی شخصیت میں جاذبیت ہو تو بچے بہت کچھ سیکھتے ہیں۔ اگر دادا کا گھر میں فعال کردار ہو یعنی وہ گھر کے فیصلے کرتے ہوں اور انصاف کا دامن ہاتھ سے نہ جانے دیتے ہوں، گھر کی ذمہ داریاں نبھانے میں ہاتھ بٹاتے ہوں تو بچے بھی اپنی زندگی کا معیار بلند کرنے کے حوالے سے اچھی خاصی تربیت مفت حاصل کرلیتے ہیں۔

٭ خاندان کے بزرگ :
بہتر زندگی کی تحریک دینے میں خاندان کے بزرگ بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ نوجوانوں کے لیے اس بات کی بہت اہمیت ہے کہ اُن کے خاندان میں ایسے لوگ ہوں جو اپنے شعبے میں نمایاں کارکردگی کے حامل رہے ہوں اور دوسروں کے لیے بھی بامقصد زندگی کی تحریک کا ذریعہ ثابت ہوئے ہوں۔ ایسے بزرگوں سے گفتگو میں نوجوانوں کو بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملتا ہے۔ وہ اپنے شعبے کی پیچیدگیوں اور اُن سے نمٹنے کے طریقوں کے بارے میں بتاکر نوجوانوں کی مفت ذہنی تربیت کا اہتمام کرتے ہیں۔ اُنہوں نے اپنی بھرپور کامیابی یقینی بنانے کے لیے جو کچھ کیا ہوتا ہے اُس کا بیان نوجوانوں کے لیے مشعلِ راہ ثابت ہوتا ہے۔ سوال شہرت اور مقبولیت کا نہیں، کامیابی کا ہے۔ ہر کامیاب انسان سیلیبریٹی نہیں ہوتا۔ بہت سے شعبوں میں مقبول اور معروف ہونے کی کچھ زیادہ گنجائش نہیں ہوتی۔ مثلاً آٹو انڈسٹری کے انجینئرز بہت اچھی تنخواہ پاتے ہیں اور اُن کا معیار زندگی خاصا قابلِ رشک ہوتا ہے مگر عوام اُنہیں نہیں جانتے۔ اِس کے برعکس کوئی معمولی سا اداکار بھی لوگوں کو یاد رہتا ہے کیونکہ ٹی وی اسکرین پر اُس کا چہرہ دکھائی دیتا رہتا ہے۔

خاندان کے بزرگ اپنی عملی زندگی کے تجربات نوجوانوں کے گوش گزار کرکے اُن میں بہتر زندگی کی تیاری کا جذبہ پیدا کرسکتے ہیں۔ وہ نوجوانوں کے اخلاق درست رکھنے میں بھی کلیدی کردار ادا کرسکتے ہیں۔ بزرگوں کی معیاری زندگی نئی نسل کو بہت کچھ سیکھنے کا موقع فراہم کرتی ہے اور وہ بھی اپنے اندر کچھ کرنے کا عزم محسوس کرنے لگتے ہیں۔

٭ والد کا حلقۂ احباب :
کسی بھی بچے کی بہتر نفسی و اخلاقی تربیت کے لیے والد کا حلقۂ احباب بھی کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ بچے جب اپنے والد کو پڑھے لکھے، بہتر اطوار والے اور کامیاب افراد کے درمیان پاتے ہیں تو وہ بھی عمومی سطح سے بلند ہوکر جینے کے بارے میں سوچتے ہیں۔ بچوں کی نظر میں والد کا حلقۂ احباب بہت اہم ہوتا ہے کیونکہ وہ خود بھی یہ اندازہ لگانے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں کہ اُن کے والد کیسے لوگوں میں زندگی بسر کرتے ہیں۔ اگر والد کے دوست اچھے ہوں تو بچے بھی اچھے بچوں سے یا اچھے لوگوں کے بچوں سے دوستی کرتے ہیں اور اپنا زیادہ وقت اُن کے ساتھ گزارتے ہیں تاکہ کچھ سیکھنے اور کچھ بامقصد کرنے کی تحریک ملتی رہے۔

والد کے حلقۂ احباب میں سلجھے ہوئے لوگ ہوں تو بچے اُن سے بہتر زندگی کے گُر بھی سیکھتے ہیں اور اپنے والد کو زیادہ احترام کی نظر سے دیکھتے ہیں۔

٭ بصری مواد (فلمیں، ڈرامے)
کوئی معیاری فلم یا ڈراما دیکھ کر بھی آپ اپنی زندگی کا رخ بدلنے کی تحریک پاسکتے ہیں۔ فی زمانہ ایسی بہت سے فلمیں آسانی سے دستیاب ہیں جو تفریح کا مقصد پورا کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے اندر اصلاح کا پہلو بھی رکھتی ہیں۔ بیدار مغز فلم میکرز ایسی فلم بنانے کو ترجیح دیتے ہیں جس میں لوگوںکا دل بہلانے کے ساتھ ساتھ کوئی نہ کوئی اہم پیغام بھی ہو تاکہ شائقین کے فکر و عمل میں کسی حد تک تبدیلی کی راہ بھی ہموار ہو۔ ہمارے ہاں ماضی میں ایسی بہت سی فلمیں تیار کی گئیں جن کا بنیادی مقصد محض تفریح فراہم کرنا نہیں تھا بلکہ فلم میکرز معاشرے کو کچھ نہ کچھ دینا چاہتے تھے یعنی لوگوں کے لیے پیغام ہوتا تھا کہ وہ اپنی زندگی کا معیار بلند کریں۔ بہت سی فلموں میں رشتوں کے تقدس پر زور دیا جاتا تھا اور کہانی کا انجام کچھ اِس نوعیت کا رکھا جاتا تھا کہ لوگ جب فلم دیکھ کر ہال سے باہر نکلیں تو اُن کے ذہن میں رشتوں کے حوالے سے نئی سوچ ہو اور وہ اہم اور مقدس رشتوں کو اُتنا احترام دیں جتنا دیا جانا چاہیے۔ ایسی فلمیں بھی ہمارے ہاں بنائی گئیں جن میں نوجوانوں کے لیے واضح پیغام ہوا کرتا تھا کہ وہ وقت ضائع کرنے کے بجائے کچھ بن کر دکھائیں اور معاشرے کے لیے مفید ثابت ہوں۔ کہانیوں کی بُنت ایسی ہوتی تھی کہ فلم دیکھنے والے نوجوانوں کے ذہنوں میں عزتِ نفس کا تصور درست ہو جاتا تھا اور وہ عملی سطح پر بہت کچھ کرنے کا عزم اپنے اندر پیدا یا بیدار ہوتا ہوا محسوس کرتے تھے۔ فی زمانہ ایسی فلمیں خال خال بنائی جارہی ہیں جن میں معاشرے کی اصلاح کے حوالے سے کوئی واضح پیغام ہو۔

کسی بھی ڈراما سیریز یا سیریل کا بنیادی مقصد ناظرین کو زیادہ سے زیادہ محظوظ کرنا ہوتا ہے۔ ڈائریکٹر، مصنف، اداکار، اداکارہ، لائٹ مین، کیمرا مین، سیٹ ڈیزائنر، ساؤنڈ ریکارڈسٹ، موسیقار اور دیگر تکنیکی عملے کو اِسی کام کے پیسے دیے جاتے ہیں۔ مصنف اور ڈائریکٹر مل کر اگر تھیم یعنی مرکزی خیال پر اضافی توجہ دیں اور کہیں نہ کہیں سے بہتر زندگی کی تحریک دینے کا پہلو بھی نکال لیں تو ایسا کرنے میں کچھ ہرج نہیں۔ اگر کوئی ڈراما سیریز یا سیریل تفریح کا فرض ادا کرنے کے ساتھ ساتھ کوئی پیغام بھی دے جائے تو اِسے سونے پر سہاگہ کہیے۔ ہمارے ہاں تیار کیے جانے والے بیشتر ڈراموں میں اس وقت معاشرے کی اصلاح کا پہلو دب کر رہ گیا ہے۔ ماضی میں اس بات کا خاص خیال رکھا جاتا تھا کہ ڈراموں کے ذریعے لوگ اپنی اصلاح کی تحریک ضرور پائیں۔ معاشرے کی مسلّم اقدار کو داؤ پر لگانے سے گریز کیا جاتا تھا۔ کہانیاں بھی ایسی الجھی ہوئی اور متنازع موضوعات کی نہیں ہوتی تھیں کہ لوگ ڈرامے دیکھ کر مزید الجھ جائیں۔

٭ سمعی مواد (کتابیں، بالمشافہ گفتگو، مباحث وغیرہ) :
دنیا بھر میں سمعی مواد تیزی سے مقبولیت حاصل کر رہا ہے۔ لوگ کار چلاتے وقت یا بس میں سفر کے دوران ہیڈ فون لگاکر آڈیو بکس سُننا پسند کرتے ہیں۔ مشہور کتابوں کے آڈیو ورژنز بھی دستیاب ہیں۔ اپنی پسند کے موضوع پر تیار کی جانے والی آڈیو بکس کے ذریعے بھی آپ کچھ کرنے کی تحریک پاتے ہیں۔ سفر کے دوران وقت کو ضائع کرنے سے بہتر یہ ہے کہ آپ کچھ ایسا سنتے ہوئے دفتر یا گھر پہنچیں کہ آپ میں کام کرنے کی لگن بیدار ہو اور کچھ کر دکھانے کا جذبہ پروان چڑھے۔ کچھ لوگ اپنی پسند کے، اعلٰی معیار کے گانے سنتے ہوئے سفر کرنا پسند کرتے ہیں۔ ایسا کرنے میں بھی کچھ ہرج نہیں۔ موسیقی بھی ذہن کو سکون بخشتی ہے اور یوں انسان زیادہ تازہ دم ہونے کے بعد زیادہ سکت کے ساتھ کام کرنے لگتا ہے۔ مگر ہر وقت موسیقی ہی آپ کو کچھ کرنے کی تحریک نہیں دے سکتی۔ بڑے ذہنوں میں ابھرنے والی بڑی باتیں جب آڈیو سسٹم کے ذریعے آپ کے کانوں سے ہوتی ہوئی ذہن تک پہنچتی ہیں تب آپ اپنے اندر کام کرنے کی نئی لگن، صلاحیتوں پر نکھار اور سکت میں اضافہ محسوس کرتے ہیں۔ ایم پی تھری ڈیوائسز کے ذریعے آپ اپنی پسند کا سمعی مواد کہیں بھی سن سکتے ہیں۔ سفر کے دوران یونہی بیٹھے رہنے سے کہیں بہتر ہے کہ آپ کوئی کام کی بات یا چیز سنیں۔ اعلٰٰی درجے کے خیالات اور اعلٰی درجے کی موسیقی دونوں ہی میں آپ کو کام کے لیے تیار کرنے کی بھرپور صلاحیت اور سکت پائی جاتی ہے۔

بالمشافہ گفتگو یعنی انٹرویو کے ذریعے بھی ہم بہت کچھ سیکھتے ہیں۔ کسی کامیاب اور معروف شخصیت سے جب اُس کی کامیابیوں کے بارے میں جامعیت سے گفتگو کی جاتی ہے تو وہ بیان کرتی ہے کہ بھرپور کامیابی کے حصول کے لیے اُس نے کتنی مشکلات پر قابو پایا اور کن کن مراحل سے گزر کر اپنا آپ منوایا ہے۔ یہ ایک فطری سی بات ہے کہ انٹرویو کے دوران کوئی بھی شخصیت خاصا غیر رسمی انداز اختیار کرتی ہے۔ ایسے میں اُس کی زبان سے ایسی بہت سی باتیں بھی بیان ہو جاتی ہیں جو وہ عام طور پر نہیں کہنا نہیں چاہتی۔ یہی سبب ہے کہ بیشتر انٹرویوز یا تو کسی تنازع کو جنم دیتے ہیں یا پھر تنازع کی وضاحت کرتے ہیں۔

انٹرویو میں جب کوئی کامیاب انسان اپنی کامیابی کی داستان بیان کرنے پر آتا ہے تو ایسا بہت کچھ بیان کر جاتا ہے جو نوجوانوں کے لیے بہت کام کا ہوتا ہے۔ غیر معمولی کامیابی کے لیے جو کچھ کرنا لازم ہوتا ہے اور جن صلاحیتوں اور سکت کو پروان چڑھانا ہوتا ہے وہ معروف شخصیات کے انٹرویوز سے بخوبی معلوم کی جاسکتی ہیں۔ کامیابی کی منزل تک پہنچنے والے چاہتے ہیں کہ اُن سے کوئی پوچھے کہ وہ کس طور کامیاب ہوئے۔ جب کوئی ڈھنگ سے پوچھتا ہے تو وہ کھل کر بیان کرتے ہیں کہ اُنہوں نے کن کن مراحل سے گزر کر وہ فقید المثال کامیابی حاصل کی ہے جس کی بنیاد پر اب لوگ اُن کے انٹرویوز پڑھنے میں دلچسپی لیتے ہیں۔

پینل ڈسکشن میں بھی بہت سی ایسی باتیں کھل کر سامنے آتی ہیں جو عام طور پر دبی رہتی ہیں۔ اگر پینل جاندار ہو یعنی سوال کرنے والوں میں ذہانت اور مہارت پائی جاتی ہو تو اُن کے سوالوں کے جواب دینے والوں کو بھی بہت کچھ بیان کرنے کی تحریک ملتی ہے اور وہ سامعین کے سامنے دل کی بات کھل کر بیان کرتے ہیں اور اپنی کامیابی کی داستان سناتے وقت وہ تمام اغلاط، لغزشیں اور حماقتیں بھی بیان کرتے ہیں جن کا سامنا اُنہیں مختلف مراحل میں کرنا پڑا ہو۔

٭ دستاویزی پروگرام اور فلمیں:
فی زمانہ ایسی بہت سے دستاویزی فلمیں ٹی وی اور انٹر نیٹ پر دستیاب ہیں جنہیں دیکھ کر کسی کو بھی بہتر زندگی بسر کرنے کی بھرپور تحریک مل سکتی ہے۔ دستاویزی فلمیں اپنے موضوع کو جامعیت کے ساتھ پیش کرتی ہیں۔ مثلاً کسی بھی شعبے کی معروف اور کامیاب شخصیت کے بارے میں بنائی جانے والی دستاویزی فلم ہمیں بتاتی ہے کہ اُس شخصیت نے کامیابی کے مختلف مراحل کس طور طے کیے اور مقبولیت کی بلندی تک کیسے پہنچی۔ متعلقہ شخصیت کے حالاتِ زندگی سے واقف ہوکر ہم بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اپنی صلاحیت اور سکت کو کس طور بروئے کار لانا چاہیے اور زیادہ سے زیادہ کامیابی اور مقبولیت کے لیے کس طرح مصروفِ کار رہنا چاہیے۔

کوئی بھی شخص اپنے بارے میں بیان کرتے وقت بہت سے نکات بھول جاتا ہے یا اُن پر خاطر خواہ توجہ نہیں دے پاتا۔ جب کسی کامیاب اور معروف شخصیت کے بارے میں دوسروں سے تحقیق کے لیے کہا جاتا ہے تو وہ بہت سی ایسی باتوں کو بھی عمدگی سے بیان کرتے ہیں جو متعلقہ شخصیت کی نظر سے چُوک جاتی ہیں یا پھر وہ اُن پر زیادہ توجہ نہیں دیتی۔ محققین جب کسی شخصیت کے بارے میں دادِ تحقیق دیتے ہیں تو اُس کے تمام پہلوؤں کو خاصی تفصیل اور جامعیت کے ساتھ قارئین، ناظرین اور سامعین کے سامنے رکھتے ہیں۔ کسی بھی بڑی شخصیت کی کامیابی کے مختلف مراحل کو سمجھنے کے لیے ان پر بنائی جانے والی دستاویزی فلمیں کلیدی کردار ادا کرتی ہیں۔

کسی موضوع پر بنائی جانے والی دستاویزی فلم بتاتی ہے کہ اُس موضوع کے حوالے سے کون کون سی پیچیدگیاں پائی جاتی ہیں اور اُنہیں کس طور دور کیا جاسکتا ہے۔ کسی بھی شعبے میں بہتر کارکردگی کا حصول یقینی بنانے کے حوالے سے پیش آنے والی مشکلات کو رفع کرنے کے لیے جو کچھ کرنا لازم ہے وہ ہم دستاویزی فلموں کے ذریعے دیکھ اور سیکھ سکتے ہیں۔ دستاویزی فلمیں عام طور پر خاصی تحقیق کے بعد تیار کی جاتی ہیں اس لیے اِن میں سیکھنے کے لیے بہت کچھ ہوتا ہے۔ جو لوگ کسی شعبے کو اپنانا یا اس میں آگے بڑھنا چاہتے ہیں وہ اُس شعبے سے متعلق دستاویزی فلمیں دیکھ کر بھی بہت کچھ سیکھتے ہیں، اپنی خامیوں پر قابو پاتے ہیں اور بہتر کارکردگی یقینی بنانے کے طریقے اپناتے ہیں۔

٭ فکشن (ناول، کہانیاں وغیرہ):
مطالعہ بھی انسان کو بہت کچھ سکھاتا ہے۔ جب ہم کسی کتاب میں گم ہوتے ہیں تو دراصل ایک الگ دنیا کا حصہ بن جاتے ہیں۔ ہم جیسے جیسے پڑھتے جاتے ہیں، ماحول سے ہمارا تعلق پس منظر کی نذر ہوتا چلا جاتا ہے اور پھر ایک وقت ایسا بھی آتا ہے جب ہم کتاب میں مکمل طور پر گم ہوکر اپنے ماحول کو بھول ہی جاتے ہیں۔ لکھنے والا اگر باکمال ہو تو پڑھنے والے کو اُس کے اپنے ماحول سے کاٹ کر اپنے قلم سے پیدا کردہ ماحول کا حصہ بنادیتا ہے۔ فکشن رائٹرز یعنی ناول اور کہانیاں وغیرہ لکھنے والوں یہ کمال خوب پایا جاتا ہے۔ دنیا بھر میں لوگ فکشن پڑھتے ہیں اور کچھ نہ کچھ سیکھتے ہیں۔ اپنی پسند کے موضوع کا فکشن پڑھ کر انسان کام کرنے کی تحریک پاتا ہے اور کچھ کر دکھانے کا جذبہ اُس میں موجزن رہنے لگتا ہے۔

پاکستان میں بھی ایسے فکشن رائٹرز کی کمی نہیں جو اپنے قاری پر سِحر طاری کردیتے ہیں۔ ابن صفی، ایچ اقبال، احمد اقبال، علامہ راشد الخیری، ایم اسلم، عبدالحلیم شررؔ، شوکت صدیقی، محی الدین نواب، ڈاکٹر ساجد امجد، اختر ابن آس، اثر نعمانی، ش م جمیل، صغیر ملال، رضیہ بٹ، اے آر خاتون، بُشرٰی رحمٰن، نسیم حجازی، اے حمید، اشفاق احمد، اشتیاق احمد اور دوسرے بہت سے لکھنے والے اپنے فن کے ذریعے ایک ایسا سماں پیدا کرتے ہیں جس میں قاری گم ہوکر رہ جاتا ہے۔ پاکستان میں ڈائجسٹ کے مصنفین نے پڑھنے والوں کا ایک پورا طبقہ پیدا کیا ہے۔ سمعی و بصری مواد کی بہتات کے اس دور میں بھی لوگ ڈائجسٹ کے سِحر سے آزاد نہیں ہوسکے ہیں۔ ڈائجسٹ کے روایتی لکھاری آج بھی تازہ ترین موضوعات پر قلم اٹھاتے ہیں اور عموماً موضوع کا حق ادا کرنے میں کامیاب بھی رہتے ہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ فکشن رائٹرز ایک ایسی خیالی دنیا تیار کرتے ہیں جن میں سب کچھ اچھا چل رہا ہوتا ہے اور بہت سے بظاہر ناممکن کام بھی آسانی سے کرلیے جاتے ہیں اور فکشن پڑھنے والوں میں بھی یہ چیز آتی جاتی ہے یعنی وہ خیالی دنیا ہی میں رہنا شروع کردیتے ہیں۔ یہ تو ہوئی ایک حقیقت۔ دوسری حقیقت یہ ہے کہ بہت سے فکشن رائٹرز کسی بھی موضوع پر طبع آزمائی کرتے وقت اس بات کا خاص خیال رکھتے ہیں کہانی کی بُنت میں کہیں کوئی پیغام ضرور ہو تاکہ قاری کی اصلاح ہو اور وہ ناول یا کہانی پڑھنے کے بعد محسوس کرے کہ اُسے کچھ کرنا ہے، کچھ کر دکھانا ہے۔ جو فکشن رائٹرز کسی خاص مقصد کو ذہن نشین رکھ کر لکھتے ہیں وہ زیادہ کامیاب رہتے ہیں کیونکہ اُن کی تحریر کوئی نہ کوئی پیغام دے رہی ہوتی ہے اور یہ بات قارئین کو زیادہ پسند آتی ہے۔ معاشرے کی خرابیوں کو اجاگر کرنے کے ساتھ ساتھ اُن کا کوئی نہ کوئی قابل قبول حل بتانا بھی فکشن رائٹرز کی ذمہ داری ہے۔ اس حوالے سے کوئی اُنہیں پابند تو نہیں کرسکتا مگر یہ ذمہ داری اُنہیں خود محسوس کرنی ہے۔ جن فکشن رائٹرز کو اپنی اخلاقی ذمہ داریوں کا احساس ہوتا ہے وہ اپنی بات زیادہ موثر طریقے سے قارئین تک پہنچاتے ہیں۔ دیکھا گیا ہے کہ وہ اپنی کہانیوں اور ناولوں میں کسی عظیم تر مقصد کا ابلاغ یقینی بنانے کی بھی کوشش کرتے ہیں۔

٭ نان فکشن (عمومی کتب، سوانح اور خود نوشت) :
کامیابی کی طرف مائل کرنے کے لیے جو کتابیں لکھی جاتی ہیں اُن سے ہٹ کر بھی ایسی بہت سی کتابیں دستیاب ہیں جنہیں پڑھ کر آپ کچھ کر دکھانے کی تحریک پاسکتے ہیں۔ کسی مشہور شخصیت کی آپ بیتی پڑھنے سے بھی آپ میں مشکلات پر قابو پانے کا حوصلہ پیدا ہوسکتا ہے اور آپ یہ بھی سیکھ سکتے ہیں کہ قدم قدم پر راہ میں دیوار بن جانے والی مشکلات سے کس طور نمٹا جاسکتا ہے۔

کامیاب شخصیات کے حالاتِ زندگی اِس انداز سے ضبطِ تحریر میں لائے جاتے ہیں کہ عام آدمی اُنہیں پڑھے تو اپنا کھویا ہوا اعتماد دوبارہ پائے یعنی بحال کرے اور کچھ بننے یا کردکھانے کا بھرپور ولولہ اُس میں پیدا ہو۔ کسی بھی معروف اور کامیاب شخصیت کے بارے میں یا اُس کی اپنی لکھی ہوئی کوئی کتاب آپ کو زندگی کے نئے پہلوؤں سے آشنا کرسکتی ہے۔ ایسی صورت میں آپ بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرنے کی بھرپور لگن اپنے اندر محسوس کریں گے۔ دنیا بھر میں کامیاب اور معروف ہستیوں کے حالاتِ زندگی احسن طریقے سے رقم کرنے کا چلن عام ہے کیونکہ عام آدمی ایسی کتابیں بہت شوق سے پڑھتا ہے جس میں کسی معروف اور کامیاب شخصیت کی زندگی کے مختلف گوشے بے نقاب کیے گئے ہیں۔ ایسی کتابوں سے عام آدمی کو بہتر زندگی بسر کرنے کے حوالے سے خاصی تحریک ملتی ہے۔

دنیا بھر میں سوانح پر مبنی کتابیں اور خود نوشت بہت شوق سے پڑھی جاتی ہیں۔ عام آدمی جاننا چاہتا ہے کہ کوئی بھی کامیاب اور مقبول شخصیت کس طور محنت کرتی ہوئی کامیابی اور مقبولیت کے بام عروج تک پہنچی ہے۔ انٹرویو کی طرح خود نوشت میں بھی انسان اپنے دل کی باتیں کھل کر بیان کرتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ اُس کے بارے میں لوگ زیادہ سے زیادہ جانیں اور سمجھیں۔ وہ خود بھی چاہتا ہے کہ اُس کی بھرپور کامیابی کے راز لوگوں پر منکشف ہوں اور اُنہیں کچھ نہ کچھ کرنے کی تحریک ملے۔

٭ معمولات :
ہم یومیہ بنیاد پر جن تجربات سے گزر سکتے ہیں اُن میں سے کوئی بھی تجربہ ہمارے لیے کسی بڑی تبدیلی کا ذریعہ ثابت ہوسکتا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ آپ برسوں سے کچھ کرنے کی لگن محسوس کرنے کی منزل سے بہت دور ہوں مگر پھر اچانک کوئی ایسا واقعہ رونما ہو جو آپ کی زندگی میں شاندار تبدیلی کی راہ ہموار کرنے کا ذریعہ بن جائے۔ بہت سے لوگ کھیلوں کے مقابلے دیکھ کر کچھ نیا اور شاندار کرنے کی تحریک پاتے ہیں۔ کسی کو موسیقی نئے امکانات تلاش کرنے کا حوصلہ عطا کرتی ہے۔ مگر خیر، یہ سب بعد کی باتیں ہیں۔ جب آپ کچھ بننے اور دوسروں سے ہٹ کر کچھ کر دکھانے کی خواہش اور لگن اپنے اندر محسوس کرتے ہیں تب لازم ٹھہرتا ہے کہ آپ کسی سے مشاورت کریں۔ جس شعبے میں آپ آگے بڑھنا چاہتے ہیں اُس کے ماہرین اور کامیاب افراد سے ملنا آپ کے لیے بہت سی الجھنوں کو سلجھن میں تبدیل کرنے کا ذریعہ ثابت ہوسکتا ہے۔ اور سوال صرف ماہرین یا معروف و کامیاب افراد سے ملنے تک محدود نہیں رہنا چاہیے بلکہ آپ کو اپنے نزدیک ترین ماحول میں موجود اُن تمام افراد سے ملاقات کرکے معلومات حاصل کرنی چاہئیں جن کے شعبے کو آپ اپنانا چاہتے ہیں۔ مثلاً اگر آپ ڈاکٹر بننے کے خواہش مند ہیں تو دنیا بھر کے ڈاکٹرز اور طریق ہائے علاج کے بارے میں کچھ یا بہت کچھ پڑھنے سے بہت پہلے آپ کو اپنے جاننے والوں میں ڈاکٹرز تلاش کرنے چاہئیں اور ان کے ساتھ بیٹھ کر تفصیلی گفتگو کرنی چاہیے تاکہ طبی تعلیم کے حصول کے دوران پیش آنے والی مشکلات کا اندازہ ہوسکے۔ ڈاکٹرز آپ کو بہتر انداز سے بتاسکتے ہیں کہ طبی تعلیم کے حصول کے دوران پیش آنے والی مشکلات سے عملی طور پر کس طور نمٹا جاسکتا ہے اور کس طرح اپنی تعلیم و تربیت کا معیار بلند کیا جاسکتا ہے۔

اگر کوئی معلم بننا چاہتا ہے تو اُسے دیکھنا پڑے گا کہ فی زمانہ تدریس کے حوالے سے نئے رجحانات اور طریقے کیا ہیں۔ جو لوگ پہلے سے اس شعبے میں ہیں اور کامیابی کے مختلف مراحل طے کرچکے ہیں اُن سے مشاورت کے ذریعے اپنے لیے ایک اچھا راستہ چُنا جاسکتا ہے۔ اِسی مرحلے میں آپ کو یہ بھی طے کرنا پڑے گا کہ آپ معلم زیادہ کمانے کے لیے بننا چاہتے ہیں یا معاشرے میں بہتری لانا آپ کا مقصد ہے۔ اس حوالے سے بھی اگر آپ متعلقہ شعبے کے تجربہ کار لوگوں سے مشاورت کریں تو راہ کا تعین کرنا آسان ہوجائے گا۔

آپ جو کچھ بھی بننا چاہتے ہیں اُس شعبے کے لوگوں سے رابطہ کرکے اُن سے بنیادی معلومات حاصل کرنا آپ کا فرض ہے۔ اس مرحلے سے گزر کر ہی آپ کچھ کرنے کا ذہن بنا پائیں گے۔

حصہ