لال گائے اور سوشل میڈیا

350

ٹرانسمشن جاری ہیں:
نجی چینلوں پر ریٹنگ اور ناظرین کی تعداد بڑھانے کی خاطرپیش کی جانے والی ’رمضان ٹرانسمشن ‘روز اول سے ہی فتنہ و فساد کا سبب رہی ہیں۔آج بھی اُن کے بارے میں اِس رائے میں کوئی فرق ماسوائے اس کے نہیں آیا کہ یہ ہر سال مزید بدترین صورت اختیار کر جاتی ہیں۔اِمسال ’جیو‘ چینل پر یہ ٹرانسمشن مخصوص انداز سے نشر نہیں ہوئیں ۔ دیگر چینلز میں اب اس پر صرف ’اے آر وائی ‘ہی اس نشریات کے پورے تام جھام کے ساتھ پہلے نمبر پر کھڑا ہے۔ گو کہ اس موقع پر ’ عامر لیاقت‘ کی شرمناک موت کو بھلا کر ، رمضان ٹرانسمشن کے گناہ جاریہ کے نام پر اس کو بھی یاد کیا گیا مگر چونکہ اصل چیز ’ریٹنگ‘ ہے تو وہ بھی اس کی ہی نظر ہو گیا۔یہ سب اس لیے بھی خطرناک ہےکہ تمام مکاتب فکر کے علما کا متفق علیہ موقف کے کہ ’افطار کا وقت انتہائی بابرکت، مغفرت کی تقسیم اور قبولیت دعا ‘ کا ہے ، اس موقع پر ٹی وی اسکرین پر جو کچھ افطار کے 10-15منٹ قبل سے چلنا شروع ہوتا ہے اس کودیکھتے ہوئے مغفرت ملنے، قبولیت کے چانس کم سے ختم کی طرف ہی جاتے نظر آتے ہیں۔

باقی چینلز میں بھی ڈراموں کے اَداکار، اداکارائیں بطور میزبان یہ خطرناک کام انجام دیتے نظر آئے ۔ اِن سب میں ایک ہی دوڑ لگی ہے کہ او ل تا آخر مقصد ناظرین کو اپنی جانب متوجہ کرنا ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ (اشتہار کی صورت ) مال آسکے ۔ اِس کے کئی بھیانک پہلو ہم نے اِن نشریات کے درمیان رونما ہوتے دیکھے ہیں۔ اِن میں سب سے خطرناک کام ’جہلا‘ کے ہاتھوں ’دینی موضوعات ‘ کو زیر بحث لانا تھا، جس نے دین کا فہم پھیلانے کے بجائے مزید خرابی پیدا کی۔اِس کے ذیل میں مختلف مکاتب فکر کے علما کو ساتھ بٹھا کر جو کچھ موضوعات ، جس بھونڈے انداز سے زیر بحث لائے جاتے ہیں وہ بلا شبہ بدترین عمل ہے۔ اِس چلتی ہوئی گفتگو کو میزبان کی جانب سے ’وقفے کی اطلاع ‘ یا ’وقت ختم ‘ ہونے کے نام پر ہوتا ہے۔سوشل میڈیا پر یہ سارے جھگڑے ، مباحث اب کلپس کی صورت وائرل ہوجاتے ہیں اس لیے ہمیں بھی آسانی سے معلوم ہوجاتا ہے کہ کیا تباہی مچائی گئی ہے ۔

نشریات کی حرکیات:
سما ٹی وی ایک نیوز چینل ہے ، اس کے پاس کوئی زیادہ منجن نہیں ہے ، دن میں تو وہ اپنی مارننگ ٹرانسمشن کر ہی رہا ہوتا ہے ، افطار کے وقت نے اِس بار ’ساحل عدیم ‘ کو مہمان کے طور پر بلالیا۔ جس ’ریٹنگ‘ کی نیت سےبلایا گیا تھا وہ محض تین دن میں ہی عیاں ہوگئی ۔ اَب ’ساحل عدیم ‘کی روٹین سے ہٹ کر بے باک گفتگو تو دوسری جانب دیگر مہمانان ، پھر یہی نہیں اس میں علما کو بھی مقابلے پر لے آئے ۔ دیکھنے والے جانتے ہونگے کہ میزبان جان بوجھ کر ساحل کو زیادہ مواقع دیتے رہے تاکہ معاملہ گرم رہے۔ سوشل میڈیا پر ساحل کا ہی نام لکھ کر ہی کلپس ڈالے گئے چاہے اس کلپ میں ساحل موجود ہی نہ ہو۔ سوشل میڈیا پر ان میں ایک کلپ یہ بھی خوب چلا کہ ڈراموں میں ہونے والی شادیاں حقیقی نکاح ہوتی ہیں۔ اسی طرح پی ایس ایل کے بائیکاٹ کے حوالے سے ساحل عدیم کے جاندار موقف والے کلپس بھی وائرل رہے۔اب یہ سب کچھ کیوں، کس لیے ہورہا تھا یہ الگ سے سمجھانے کی ضرورت نہیں ۔سوشل میڈیا پر شیئر ہونے والے کلپس بتا دیتے ہیں کہ دیگر چینل پر جو رمضان میں دین کے فروغ کے نام پر مباحث ڈسکس ہو رہے ہوتے ہیں وہ کسی طور دین کے فروغ کے لیے نہیں ہوتے۔ایسے میں کچھ لکھ کر سمجھاؤ تو لوگ فوراً ’متبادل ‘ کا شرمناک سوال کرتے ہیں۔ ارے بندہ خدا۔ کیسا متبادل ،کونسا متبادل ؟ تم مانگ کیا رہے ہوکبھی سوچا؟ تم سے کہا کس نے ہے کہ رمضان کے بابرکت ایام، اسکی اہم ترین گھڑیاں ٹی وی اسکرین یا موبائل اسکرین کے سامنے وڈیوز دیکھ کر گزارو۔ متبادل تو اللہ و اسکے رسول ﷺ ،صحابہ کرام ، تابعین تبع تابعین نے رمضان میں اپنے اعمال سے دے ہی دیا ہے ۔ اَب اُس عمل سے روکنے کے لیے ہی تو یہ ’شیطانی اسکرینوں ‘ نے اپنا جال بچھایا ہے ، تمہاری توجہ اپنی جانب کرنے کےلیے ۔یہ جو امسال سوشل میڈیا پر دوبارہ 8 اور 20 رکعت تراویح کا موضوع ہر رمضان کی طرح گھومتا نظرآیا وہ سب کیا ہے ؟ تمہیں دین سے ہٹانے کے لیے ہی تو ہےناں۔ 8 رکعت جس مکبہ فکر کی مساجد میں پڑھی جاتی ہے وہاں کبھی جا کر 8 رکعت تراویح کی نماز ادا تو کرو، سب حقیقت پتا چل جائے گی۔

معصومیت بھی بیچی دی جاتی ہے:
کچھ دن قبل یہ خبر گرم رہی کہ گلگت سے تعلق رکھنے والے 5-6سالہ کمسن بھائی بہن شیراز اور مسکان کو امریکہ میں گوگل اور یوٹیوب نے سیمینار میں شرکت کےلیے بلا لیا ہے۔بے شک دونوں بچے انتہائی معصوم ہیں اور ان کی تمام وڈیوز عمومی وی لاگز کی طرز پر اپنے ماحول، گاؤں اور اطراف کو متعارف کرانے سےتعلق رکھتی ہیں۔چینل تو 2سال قبل بنا تھا مگر اس میں بچوں کی وڈیوز کو صرف ایک مہینہ ہوا ہے جس میں چینل پر کوئی 8 لاکھ سبسکرائبر ہو چکے ہیں۔ تمام وڈیوز کے ویوز بتا رہے ہیں کہ اِس سے بھی خاصی آمدنی اُن کے گھر والوں کو حاصل ہو رہی ہے۔بچوں کے والد بھی یہی کام کرتے ہیں اور غالب امکان ہے کہ دونوں بچوں نے اُن سے ہی سیکھا ہے یا وہی اُن کے پروڈیوسر و ڈائریکٹر ہیں ۔ ویسے یہ کوئی پہلا بچہ نہیں ہے ، اس سے قبل خیبر پختونخوا سے ’احمد‘ اور اس کے بھائی بھی ایسے ہی معصوم جملوں کی وجہ سے مشہور ہوئے تھے۔ ان سب بچوں کااولین خریدار ’اے آروائی ‘بنا ہے ۔وائرل ہونے پر ان بچوں کا شکار بھی ’اے آروائی‘ نے کیا ۔ اِن بچوں کو انکے آبائی دیہی علاقے سے نکال کر بھاری معاوضوں کے لالچ میں لایا جاتا ہے ۔شہرت کی خطرناک چاٹ لگا ر شہر کی چکا چوند و رنگینی میں مختلف تماشے کرواکر ’انٹرٹینمنٹ ‘ کے نام پرخوب بیچا جاتا ہے ۔ اب حال یہ ہے کہ گوگل اور یو ٹیوب ان بچوں کو اپنا نمائندہ بنا کر دنیا بھر میں بیچیں گے ۔اے آر وائی کی ٹیم نے گلگت پہنچ کر ان کے والدین کو راضی کیا ، یہ نہیں معلوم کہ ڈیل کتنے عرصے کی ہوئی ، کس قیمت پر ہوئی ، مگر یہ ضرور ہے کہ یہ ڈیل اچانک سے ختم ہو گئی ، جس کی کوئی تفصیل ظاہر نہیں کی گئی۔وی لاگر تہمینہ نے اپنے وی لاگ میں یہ انکشاف کیا کہ والدین کو محسوس ہوا کہ اُن کے بچوں کی معصومیت کا بدترین مذاق بنایا جا رہا ہے ، جس کی وجہ سے والدین نے معاہدہ ختم کردیا۔ میزبان وسیم بادامی نے بھی اس کی ملتی جلتی وضاحت کی تھی کہ ہم بچوں کے ساتھ بالکل ایسا سلوک کرتے ہیں جیسا اپنی اولاد کے لیے کرتے ہیں۔ یہ نشریات دوپہر 2 بجے سے مغرب بعد تک جاری رہتی ہیں پھر کوئی 9 بجے تک انعامات کے لالچ ‘‘ کی صورت جاری رہتی ہے۔بہرحال گلگت والے بچے 9 دن میں چلے گئے ، باقی احمد شاہ وغیرہ موجود ہیں، کیونکہ وہ رمضان نشریات کے علاوہ کھیلوں کی نشریات میں بھی استعمال ہوتے ہیں۔بچوں کو تو جو شہرت ملنی تھی وہ مزید مل گئی کیونکہ بات نشریات پر ختم نہیں ہوئی ، ان معصوم بہن بھائی کو پھر وزیر اعظم شہباز شریف نے اس ہفتہ وزیر اعظم ہاؤس بھی بلایا ، اس نے وہاں بھی وی لاگ بنایا۔بچے جب گاؤں پہنچے تو وہاں انکا شاہانہ استقبال بھی ویسے ہوا جیسے کوئ ملک فتح کرکے آرہے ہوں۔ پوری انسانی تاریخ میں بچوں کی معصومیت کاکبھی کوئی مول نہیں تھا ،مگر سوشل میڈیا کے اٹینشن اکنامی بن جانے کے بعد وہ جس طرح خوب فروخت ہو رہا ہے۔دیکھنے ،سننے میں ظاہر میں تو خوب پیسہ برستا ہے ، اچھے کپڑے ، مال و دولت کی ریل پیل ہو جاتی ہے مگر اس کے بدلے جو چیز بیچی جاتی ہے وہ انتہائی شرمناک ہے۔

لال گائے :

قرآن مجید کی دوسری اور سب سے طویل سورۃ ’’البقرۃ‘‘ کا مطلب گائے ہے۔ اس سورۃ میں اللہ کی طرف سے بنی اسرائیل کی بدترین غلطیوں کے کفارے کے طور پر ایک خاص نشانیوں والی سرخ گائے کی قربانی کا حکم دیا گیا تھا جسے کرنے میں وہ بہت کسمسا رہے تھے۔رمضان میں یہ سورۃ دوبارہ مطالعے سے گزری ۔ اسی دوران ترکی ٹیلی ویژن کی جاری کردہ ایک وڈیو رپورٹ سوشل میڈیا پر شیئر ہوئی ۔ اس کا موضوع بھی سرخ گائے کی قربانی تھا۔وڈیو کے مطابق سوال اٹھایا گیا کہ ’کیا ٹیکساس کی گائے 2024 میں مشرق وسطیٰ میں قیامت برپا کر سکتی ہے اور اس کافلسطینی غزہ میں اسرائیل کی جنگ سے کیا تعلق ہے؟اسرائیل کے وحشیانہ حملے کے 100 دن مکمل ہونے پر غزہ میں حماس کے ترجمان ابو عبیدہ نے ایک ویڈیو جاری کی تھی۔جس میں 7 اکتوبر کے حملے کے پیچھے محرکات، فلسطین پر اسرائیل کے ناجائز قبضے کا بھی ذکر کیا تھا۔اسی وڈیو میں اُنہوں نے مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں سرخ گائےاوردائیں بازو کے متعدد اسرائیلی گروپوں کے منصوبوں کا بھی حوالہ دیا جو یہ سمجھتے ہیں کہ مسجد اقصیٰ پر قبضے سے قبل ایک سرخ گائے کو قربان کیا جانا چاہیے۔

اس کے بعد یہ بات موضوع بن گئی، ظاہر ہے کہ ابو عبیدہ یہودیوں کے درمیان ہی بستے ہیں تو اُن کے عقائد ، توہمات وغیر ہ سے واقف ہونا کوئی اچنبھے کی بات بھی نہیں۔ یہودیوں کو مسجد اقصیٰ کو منہدم کرنے اور اس کی جگہ تیسرا ہیکل تعمیر کرنے کے منصوبے کو آگے بڑھانے کا کسی حکم سرخ گائے کی قربانی سے جڑا ہوا ہے۔یہ ایک سازشی نظریہ کی طرح لگ سکتا ہے لیکن شدت پسند سرائیلی گروپ “دی ٹیمپل انسٹی ٹیوٹ” پہلے ہی ٹیکساس سے 5 لاکھ ڈالرکی لاگت سے پانچ سرخ اینگس نسل کی گائے خرید کر درآمد کی ہیں ۔وہ 2022 سے مقبوضہ مغربی کنارے کے’ کبوت ‘میں چر رہی ہیں اور یہ اطلاعات ہیں کہ قربانی 2024 میں ہونے کا منصوبہ ہے۔ سرخ گائے کی قربانی کی جڑیں تورات اور تلمود میں بھی نظر آتی ہیں اور یہ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ رسم یہودیوں کو پاک کرنے کے لیے ضروری ہے تاکہ وہ مسجد اقصیٰ میں نماز ادا کر سکیں۔قربانی مبینہ طور پر زیتون کے پہاڑ پر کی جائے گی جس کا سامنا مسجد الاقصی کی طرف ہے ۔

ایک پوسٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ،ان کے پاس اپریل کے پہلے سات دن ہونگے جسے وہ سرخ گائے کی قربانی یا شبہات کہتے ہیں ۔اس کے ساتھ ہی انکا عقیدہ ’ماسایا دجال‘‘ کی آمد کے لیئے جلنے والی سرخ گائے کی راکھ کو تمام ان ہڈیوں کو مقدس کیا جائے گا ۔‘

گائے کی نشانیاںیوں بتائی گئی ہیں کہ گائے کنواری ہو اور اسکو اپنے کھروں سمیت مکمل طور پر سرخ ہونا چاہیے اور قربانی کے وقت اس کی عمر 3 سال کے لگ بھگ ہونی چاہیے۔ قربانی کے بعد گائے کی راکھ کو پانی میں ملا کر منتخب یہودی پادریوں اور ان کے پیروکاروں کو پاک کرنے کے لیے استعمال کیا جانا ہے۔ایک اور پوسٹ میں یہ بتایا گیا کہ ــ’’تورات کے مطابق یہ اختتامی اوقات کا آغاز ہے۔ سرخ گائے کی قربانی۔ اوزار کو صاف کریں۔ الاقصیٰ کو مسمار کرنا۔ ہیکل کی تعمیر۔ جھوٹے مسیحا کی آمد۔ ‘‘

1967 میں مشرقی یروشلم پر قبضے کے بعد سےدائیں بازو کے صہیونی مسجد الاقصیٰ کی جگہ تیسرا ہیکل تعمیر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔جب کہ ابتدائی طور پر صرف فرنج گروپوں کا ہدف تھا جیسے کہ ٹیمپل انسٹی ٹیوٹ اس منصوبے کو حالیہ برسوں میں مرکزی دھارے میں لایا ہے۔ جس میں یہودی آباد کاروں کے گروپ باقاعدگی سے مسلم کمپاؤنڈ پر حملہ کرتے رہے ہیں اور متعدد سیاست دانوں اور مبصرین کی حمایت حاصل کرتے رہے ہیں۔ ہیکل کی تنظیموں نے ہیکل کی تعمیر کے لیے بلیو پرنٹس بھی جمع کرائے ہیں اور وہ زیورات بھی تیار کیے ہیں جو پچھلے سال رمضان کے مہینے میں رکھے جائیں گے۔ اس تحریک کے کارکن کو اس وقت گرفتار کیا گیا جب وہ اور یہودی انتہا پسندوں کے ایک گروپ نے ایک بکرے کو ایک رسمی قربانی کے لیے الاقصیٰ کے احاطے میں لانے کی کوشش کی۔ مسجد الاقصی کے نیچے دہائیوں سے جاری اسرائیلی کھدائی کی بین الاقوامی ماہرین آثار قدیمہ نے بھی مذمت کی ہے اور متعدد افراد نے اس کی مذمت کی ہے۔حکام جو کہتے ہیں کہ یہ مسجد کی بنیادوں کو کمزور کرنے کا ذریعہ ہیں تاکہ اسے گرانے میں آسانی ہو۔ اگر اسرائیل اس مسجد کو منہدم کرنے کی کوشش کرتا جو اسلام کا پہلا مقدس ترین مقام ہے۔ اس سے عرب اور مسلم دنیا میں غم و غصہ پھیل جائے گا۔تاہم اگر یہ دائیں بازو کے یہودی گروہ مسماری کے ساتھ آگے بڑھنے سے قاصر ہیں تو بہت سے لوگوں کو خدشہ ہے کہ قربانی اس قبضے کے لیے یہودیوں میں جذبہ اور حوصلہ افزائی دے سکتی ہے۔ بہرحال اپریل شروع ہو چکا ہے ، اب مزید ہمارے لیے بدتر کیا ہونا رہ گیا ہے وہ بھی دیکھ لیتے ہیں۔

حصہ