کمائی کا سیزن

110

’’آپ کے پاس لال شربت ہے؟‘‘
’’نہیں۔‘‘
’’کیا بات ہے کسی کے پاس بھی نہیں! کہاں سے ملے گا؟‘‘
’’اگلی دکان پر معلوم کرلیں۔‘‘
………
’’بھائی آپ کے پاس لال شربت کی چھوٹی بوتل ہے؟‘‘
’’جی ہاں، یہ لیجیے۔‘‘
’’کتنے پیسے؟‘‘
’’پانچ سو روپے۔‘‘

’’پانچ سو روپے! ارے اتنی چھوٹی سی بوتل اتنی مہنگی؟ رمضان سے قبل اس کی قیمت تین سو بیس روپے تھی، اور پھر یہ تو اس طرح کی بوتل میں نہیں آتا، لگتا ہے پلاسٹک کی یہ بوتلیں تم نے خود بھری ہیں۔‘‘

’’ہاں ہاں یہ پیکنگ ہم نے ہی کی ہے، شکر کرو یہ بھی مل رہا ہے، تھوڑے دن ٹھیر جاؤ، ذرا گرمی اور بڑھنے دو، خالی بوتلیں ہی ملیں گی۔‘‘

’’خدا کا خوف کرو، اُس کے عذاب سے ڈرو، اس قدر ظلم! وہ بھی رمضان المبارک کے بابرکت مہینے میں!‘‘

’’میں نے کوئی انوکھا کام نہیں کیا، دکانوں پر تمام مشروب اسی طرح فروخت ہورہا ہے، بلکہ اب تو مارکیٹ میں دستیاب بھی نہیں۔ شکر کرو تمہیں مل رہا ہے، اگر لینا ہے تو لو، ورنہ آگے بڑھو۔‘‘

’’بڑے افسوس کی بات ہے، ایک تو چوری، اوپر سے سینہ زوری… خود مارکیٹ سے سامان غائب کرکے مہنگے داموں فروخت کرنا کہاں کی انسانیت ہے! تم جیسے لوگوں نے ہی مصنوعی بحران پیدا کررکھا ہے۔ جب سے رمضان المبارک آیا ہے تم جیسے لوگوں نے تو شیطان کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ سنا تھا اِس ماہِ مقدس میں شیطان کو قید کردیا جاتا ہے، لیکن تمہاری حرکتیں دیکھ کر لگتا ہے تم جیسے لوگوں میں شیطان سرایت کرجاتا ہے۔ اللہ کے عذاب سے ڈرو، کب تک… آخر کب تک ایسا کرو گے؟ ایک دن خدا تمہیں ضرور پوچھے گا۔‘‘

’’جناب میں نے کہا ہے اگر آپ کو مشروب چاہیے تو لے لیں، ورنہ جائیں۔ یہاں کھڑے ہوکر ہمیں بددعائیں نہ دیں، ہم نے کوئی چیز مہنگی نہیں کی، سارا زمانہ جانتا ہے کہ کراچی کی تمام بڑی مارکیٹوں میں بھی اشیاء خورونوش کی قیمتیں بڑھ چکی ہیں۔ ہم تو چھوٹے دکان دار ہیں، خود جاکر دیکھیں… بولٹن مارکیٹ، جوڑیا بازار سمیت تمام مارکیٹوں میں یہی صورتِ حال ہے، یہاں تک کہ اشیاء خورونوش کی سپلائی بھی بند ہے۔ کوئی ٹرانسپورٹ نہیں۔ اگر کوئی گاڑی ملے بھی، تو ڈرائیور منہ مانگا کرایہ وصول کرتے ہیں۔ یہ ہم ہی جانتے ہیں کس طرح اور کہاں کہاں جاکر سامان اکٹھا کرتے ہیں۔ جب چیزیں پیچھے سے ہی مہنگی ملیں گی تو ہم بھی زیادہ نرخوں پر ہی فروخت کریں گے۔ ہم سے جھگڑا کرنے سے بہتر ہے انتظامیہ سے شکایت کریں۔ جو مل رہا ہے صبر شکر کریں۔‘‘

’’کیا ہوا شبیر بھائی! دکان دار سے کس بات پر بحث کررہے ہیں؟‘‘

’’خدا کا خوف نہیں اِنہیں، ہر چیز مہنگی کردی ہے۔ کل تک جو اشیا کوڑیوں کے مول ملا کرتی تھیں رمضان المبارک میں مہنگے داموں فروخت کی جارہی ہیں۔ بازاروں میں آگ لگی ہوئی ہے۔ نہ صابن، سرف ملتا ہے اور نہ ہی کھانے پینے کی چیزیں مل رہی ہیں۔ پاکستان میں تو رمضان دکان داروں کے لیے ایک ایسا تہوار بن کر آتا ہے جسے یہ لوگ کمائی کا سیزن سمجھتے ہیں۔ انتظامیہ نے محض سرکاری نرخ نامہ چھاپ کر اپنا فرض ادا کردیا، بازاروں کی کیا صورتِ حال ہے ان کی بلا سے۔ عوام پر کیا گزر رہی ہے کوئی پوچھنے والا نہیں۔‘‘

’’اچھا اچھا غصہ مت کیجیے، بات ختم کریں اور گھر چلیں۔‘‘

’’رفیق! یہ صورتِ حال دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے۔ دنیا بھر کے دوسرے ممالک میں بھی تو رمضان المبارک کا مہینہ ہے۔ ساری دنیا خصوصاً غیر مسلم ممالک… ہر جگہ اِس ماہِ مبارک کی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے تمام اشیاء کی قیمتوں میں 50 فیصد کمی کردی گئی ہے، یہی نہیں بلکہ مسلمانوں کے ہر تہوار پر اسی طرح ڈسکاؤنٹ دیا جاتا ہے۔ یہاں تو عذاب آیا ہوا ہے۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ مسلمان ہونے کے باوجود ہم میں کوئی خوفِ خدا نہیں!‘‘

’’جی ہاں آپ بالکل ٹھیک کہہ رہے ہیں، لیکن سارے دکان دار بھی ایک سے نہیں ہوتے، اچھے برے لوگ ہر جگہ پائے جاتے ہیں۔ میں ایسے لوگوں کو بھی جانتا ہوں جنہوں نے اپنا مال بغیر منافع کے فروخت کیا، جنہیں دیکھ کر یہ اطمینان ہوتا ہے کہ ابھی چند لوگوں میں خوفِ خدا باقی ہے۔ شبیر بھائی! یہ سچ ہے کہ رمضان المبارک آتے ہی اشیاء خورونوش کے دام آسمان کی بلندیوں کو چھو رہے ہیں، لیکن یہ صرف کراچی کا مسئلہ نہیں بلکہ ملک بھر میں یہی صورتِ حال ہے۔ حکومت کی جانب سے عوام کو ریلیف دینے کے احکامات جاری ہونے کے ساتھ ہی ذخیرہ اندوزوں نے اپنی مرضی کے ریٹ لگانے شروع کردیے تھے، جس سے نہ صرف مہنگائی کا طوفان آیا ہوا ہے بلکہ تمام اشیاء ضروریہ کا ملنا مشکل ہوگیا ہے۔ دالوں کی قیمتیں ہی دیکھ لیں، دال چنا تیس سے چالیس روپے فی کلو مزید مہنگی کردی گئی، چنے کی دال کے بجائے مٹر کا بیسن فروخت کیا جارہا ہے۔ یہ سب اُن پرچوں اور ہول سیلرز کی ملی بھگت کا نتیجہ ہے جن میں احساس نام کی کوئی چیز نہیں، ان کے نزدیک پیسہ ہی سب کچھ ہے، بلکہ میں تو یہاں تک کہوں گا کہ یہ سب کچھ پرائس کنٹرول مجسٹریٹ کی سرپرستی میں ہی ہورہا ہے۔‘‘

’’رفیق! میں بھی تو اسی بات کا رونا رو رہا ہوں۔ دیکھو کتنے افسوس کی بات ہے کہ ایک طرف بجلی اور گیس کے بھاری بلوں نے کمر توڑ رکھی ہے تو دوسری جانب ذخیرہ اندوز اپنی مرضی کے ریٹ لگا کر عوام کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہے ہیں۔ اگر یہی کچھ ہوتا رہا تو مستقبل قریب میں بھوک اور افلاس کی وجہ سے بھیانک قسم کے حالات پیدا ہوسکتے ہیں۔ تم نے ٹھیک کہا کہ سارے ملک میں یہی صورتِ حال ہے۔ کل رات میرے کزن وحید کا فون آیا تھا، وہ بتا رہا تھا کہ پنجاب جہاں عموماً سبزیاں کم قیمت پر فروخت ہوتی تھیں اب ان کے ریٹ ڈیڑھ سو سے دو سو روپے فی کلو تک پہنچ گئے ہیں۔ حکومت نے جب سے فی من گندم کی قیمت میں چار سو روپے کمی کی ہے ذخیرہ اندوزوں کی ملی بھگت کے باعث گندم مارکیٹ سے غائب ہوگئی ہے۔ گندم، دستیاب نہ ہونے کے باعث اب چار ہزار روپے من سے بھی زیادہ میں فروخت کی جارہی ہے۔ اس کے علاوہ سبسڈی والا آٹا بھی مارکیٹ سے غائب ہے جس کے باعث شہری سخت مشکلات کا شکار ہیں۔ چکی مالکان نے بھی آٹے کے ریٹ بڑھا دیے ہیں، کوئی 180روپے تو کوئی200 روپے فی کلو فروخت کررہا ہے۔ وحید کا کہنا تھا کہ مارکیٹ میں آٹا نہیں مل رہا اس لیے عوام چکی سے مہنگا آٹا خریدنے پر مجبور ہیں۔ خربوزہ اور تربوز 200 روپے، جبکہ کیلا 2 سے ڈھائی سو روپے درجن فروخت ہورہا ہے۔‘‘

’’شبیر بھائی! گرمیِ بازار اور ذخیرہ اندوزوں پر نظر رکھنا حکومت کا کام ہے۔ ہم کب تک لوگوں سے لڑتے رہیں گے، کب تک اپنی جان ہلکان کرتے رہیں گے! زیادہ پریشان ہونے سے اعصاب کمزور ہوسکتے ہیں یا کوئی اور مرض لاحق ہوسکتا ہے، لہٰذا لوگوں سے بحث کرکے اپنے ذہن پر بوجھ ڈالنے سے بہتر ہے کہ اپنی صحت کا خیال کیا جائے، بازار کی تمام تر ذمہ داریاں بچوں کے سپرد کرکے گھر میں رہ کر آرام کیاجائے۔ ویسے کل رات وزیراعظم کی جانب سے عوام کو دیے جانے والے ریلیف پیکیج کی خبر سن کر تھوڑی امید جاگی ہے، شاید وہ کچھ ایسا کردیں جس سے غریب عوام کا کچھ بھلا ہوسکے۔‘‘

’’رفیق! تم کس جہاں میں رہتے ہو، سراب کے پیچھے بھاگنے سے پانی نہیں ملتا۔ تصورات کی دنیا سے باہر نکلو اور حقائق جانو۔ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے ملک میں حکمران عوام کے ووٹوں سے منتخب نہیں ہوتے بلکہ نظریۂ ضرورت کے تحت مسلط کیے جاتے ہیں۔ ہمارا ماٹو اتحاد، ایمان اور تنظیم تو ہے لیکن اس پر عمل نہیں ہوتا۔ ہمارے حکمران مختلف اعلانات تو کردیتے ہیں لیکن ان کے ثمرات غریبوں تک نہیں پہنچتے، یعنی یہ صرف اعلان تک ہی محدود رہتے ہیں۔ میرے نزدیک مہنگائی، بے روزگاری، ذخیرہ اندوزی سمیت معاشی، معاشرتی اور سیاسی حالات کی ابتری کے پیچھے ملک میں رائج نظامِ حکومت ہے، میرا مطلب ہے کہ ان تمام مسائل کی جڑ اُس نظریے کی نفی ہے جو اس مملکت کے قیام کی بنیاد تھا، یعنی اسلامی ریاست کا قیام۔ کون نہیں جانتا کہ پاکستان لا الٰہ الااللہ کی بنیاد پر وجود میں آیا، لیکن جب پاکستان وجود میں آگیا تو بدقسمتی سے اس کی باگ ڈور ایسے لوگوں کے ہاتھوں میں چلی گئی جو اسلام کا محض نام ہی جانتے تھے، اسلام کے بارے میں انہیں کچھ علم نہیں تھا، جس کی وجہ سے پاکستان میں اسلامی نظام نافذ نہ ہوسکا اور پاکستان کو انہی مغربی قوانین کے مطابق چلایا جانے لگا جو انگریز ہمیں دے کر گئے تھے۔ انگریزوں نے جو نظام ہمیں دیا تھا ظاہر ہے کہ وہ اسلامی نظام تو ہوگا نہیں۔ ہمارے حکمرانوں نے عوام کو دھوکا دینے کے لیے اس کے اندر کچھ اسلامی شقیں ڈال دیں کہ کوئی قانون قرآن و سنت کے خلاف نہیں بنایا جائے گا۔ یوں ہم نے اسے اسلامی جمہوریت کا نام دے دیا جو سراسر مغربی جمہوریت ہے۔ یہ عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے سوا کچھ نہ تھا، بس عوام کو یہی یقین دلایا جاتا رہا کہ ہمارے ہاں اسلامی نظام ہے اور یہ اسلامی جمہوریت ہے۔ حالانکہ ہر ذی شعور انسان اس بات سے خوب واقف ہے کہ جمہوریت ایک الگ نظام ہے جو سراسر کفار کا وضع کردہ مغربی نظام ہے، جس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ یوں ہر آنے والے دن کے ساتھ ہم نہ صرف پستی کی جانب چل پڑے بلکہ ذلت و رسوائی کے ایسے گڑھے میں جاگرے کہ ساری دنیا کے سامنے ہاتھ پھیلانے پر مجبور ہیں، در در کشکول لیے گھومنا ہمارا مقدر بن گیا ہے۔ ہمیں سوچنا ہوگا خاص طور پر اربابِ اختیار کو ان حالات سے نجات کے لیے فیصلہ کرنا ہوگا کہ بس بہت ہوگیا، اب وقت آگیا ہے کہ اسلام کے نام پر وجود آنے والی مملکت میں مغرب کے فرسودہ نظام کے بجائے قرآن کا نظام کریں۔ یہی ہماری کامیابی اور نجات کا راستہ ہے۔‘‘

حصہ