فطرت

143

اسلامی فکر بتاتی ہے کہ اس کائنات میں ہر طرف اللہ تعالیٰ کی نشانیاں بکھری ہوئی ہیں۔ چنانچہ انسان کو چاہیے کہ وہ ان پر غور کرے تاکہ اپنے رب کو پہچان سکے اور اس کا قرب حاصل کرسکے۔ لیکن جدید علوم و فنون بالخصوص جدید سائنس کا ’’کمال‘‘ یہ ہے کہ اس نے کائنات کو مادے کے ڈھیر اور اس کے پھیلائو میں تبدیل کردیا ہے، اور کائناتی مظاہر کی علامتی اہمیت عرصہ ہوا معدوم ہوچکی ہے۔ جدید دنیا میں آسمان صرف آسمان ہے، وہ کسی چیز کی علامت نہیں ہے۔ سورج فقط سورج ہے، اس کا کسی علامتی نظام سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ روسی خلا نورد جب پہلی بار خلا میں گئے تھے تو انہوں نے زمین پر واپسی پر فرمایا تھا کہ ہم نے خلا میں ہر طرف گھوم کر دیکھ لیا، ہمیں کہیں خدا نظر نہیں آیا۔ اسٹیفن ہاکنگ جدید طبیعات کے اماموں میں سے ایک تھا، بعض لوگ اسے آئن اسٹائن کی سطح کا سائنس دان کہتے ہیں۔ اس کا کہنا بھی یہی تھا کہ مجھے وسیع کائنات میں کہیں خدا کی موجودگی کے آثار نظر نہیں آتے۔

مغرب نے خدا کا انکار کیا تو انسان کو خدا بنادیا۔ چنانچہ مغرب میں پوری کائنات انسانی مظاہر کی کائنات بن کر رہ گئی، یہاں تک کہ الیگزینڈر پوپ نے کہہ دیا:Proper Study of mankind is man یعنی انسان کا بہترین مطالعہ خود انسان ہے۔ مطلب یہ کہ انسان کو سمجھنے کے لیے کائنات یا فطرت کی طرف دیکھنے کی ضرورت نہیں، انسان کو خود انسانی مظاہر کی روشنی ہی میں سمجھا جانا چاہیے۔ اس طرح سماجی دائرے میں بھی فطرت انسان کی زندگی سے تقریباً خارج ہوگئی۔ شہروں کے پھیلائو اور اہمیت نے ایک طرف شہروں اور دیہات کی آبادی کی نسبت کو بدل دیا، اور دوسری جانب شہری زندگی اور شہری تمدن نے انسان کو فطرت کے مظاہر سے تقریباً کاٹ کر رکھ دیا۔ بظاہر دیکھا جائے تو ہمارے زمانے میں سیاحت کو غیر معمولی فروغ حاصل ہوا ہے، لیکن اب انسان پہاڑوں، دریائوں، سمندر اور چاند ستاروں کو بچوں کی سی حیرت کے ساتھ دیکھتے ہی نہیں۔ چنانچہ انہیں فطری مظاہر کے درمیان رہتے ہوئے بھی مذہبی یا مابعد الطبیعاتی معنوں میں کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ اکثر لوگ فطری مظاہر کے درمیان تھکن اتارنے اور شہری زندگی کی کوفت دور کرنے جاتے ہیں، اور انسان کو وہی کچھ ملتا ہے جس کی وہ کوشش کرتا ہے۔ اس صورت ِ حال نے انسان کی، فطرت سے مذہبی استفادے کی اہلیت کو زبردست نقصان پہنچایا ہے۔ یہاں تک کہ مذکورہ اسباب کی وجہ سے بہت سے مذہبی لوگ بھی فطرت کو اللہ تعالیٰ کی نشانیوں کی کتاب کی طرح نہیں لیتے۔ یہاں سوال یہ ہے کہ ہماری تہذیب میں فطری مظاہر کی مذہبی اہمیت و معنویت کیا ہے؟

جوش ملیح آبادی کا ایک شعر ہے ؎

ہم ایسے اہلِ نظر کو ثبوتِ حق کے لیے
اگر رسول نہ ہوتے تو صبح کافی تھی

ہماری تہذیب میں صبح حق کی علامت ہے، اور جن لوگوں نے سورج کو حقیقی معنوں میں افق پر طلوع ہوتے دیکھا ہے وہ جانتے ہیں کہ سورج ہر روز ایک معجزانہ شان کے ساتھ طلوع ہوتا ہے، اور سورج کے طلوع کے ساتھ روشنی حق کی طرح لمحہ بہ لمحہ پیش قدمی کرتی ہے، جس کے نتیجے میں اندھیرا باطل کی طرح پسپا ہوتا ہے، یہاں تک کہ سورج کی روشنی ہر طرف پھیل جاتی ہے۔ گویا حق پوری دنیا پر غالب آجاتا ہے۔ اس تجربے میں جو بیک وقت عقلی بھی ہوتا ہے اور حسی بھی، خدا، رسالت اور وحی کا شعور موجود ہوتا ہے، چنانچہ صبح خدا کے وجود کی ایک بہت بڑی گواہ بن کر سامنے آتی ہے۔ اسی طرح ہمارا ایک شعر ہے ؎

گھر کو کسی طرح سے سہی لوٹ آئیں گے
خود پر نہیں تو کیا ہے بھروسہ ہے شام پر

شام ہوتی ہے تو پرندے آشیانوں اور انسان گھروں کی طرف لوٹتے ہیں۔ گھر ایک سطح پر مرکز کا استعارہ ہے، دوسری سطح پر سلامتی کی علامت ہے، تیسری سطح پر اس میں حصار کا مفہوم پنہاں ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ مرکز، سلامتی اور حصار بیک وقت روحانی اور جسمانی یعنی Physical ہے۔ چنانچہ شام انہی دونوں معنوں میں انسانوں کے لیے ایک ایسا ’’پیغام‘‘ ہے، جسے کوئی انسان نظرانداز نہیں کرپاتا۔ شام کے ڈھلتے ہی قدم خود بہ خود گھر کی طرف اٹھنے لگتے ہیں۔ ان معنوں میں شام ایک کائناتی سطح کا تجربہ بن جاتی ہے اور اس میں ایک مابعد الطبیعاتی شان خود بہ خود پیدا ہوجاتی ہے، اور مابعد الطبیعات کا تصور خدا کے بغیر ممکن ہی نہیں۔ شام کے تجربے کا ایک پہلو ایسا ہے جو مذکورہ پہلو کے برعکس ہے۔ ہماراایک اورشعر ہے ؎

سورج کے ڈوبنے سے دل ڈوبتا ہے ایسے
جیسے کہیں پہ لاحق اک شام ہے ہمیں بھی

کہنے کو سورج کا طلوع اور غروب ایک خارجی عمل ہے، لیکن اس عمل میں ایک ایسی تاثیر ہے جو انسان کے قلب پر اثرانداز ہوتی ہے۔ ہر حساس انسان کا تجربہ ہے کہ سورج کے ڈوبنے سے دل بھی ڈوبنے لگتا ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سورج ظاہر کا دل ہے، اور دل باطن کا سورج ہے، اور ان دونوں میں ایک ربطِ باہمی ہے۔ ہماری تہذیب میں دل دارالحکمت ہے، حق کی جلوہ گاہ ہے۔ لیکن یہ تو صرف تین شعروں کا قصہ ہے۔ اقبال کی شاعری میں فطری مظاہر کی مذہبی معنویت کثرت اور شدت سے ظاہر ہوئی ہے۔ اقبال کی مشہورِ زمانہ نظم ’’ہمالہ‘‘ کا ایک بند ہے:

لیلیٰٔ شب کھولتی ہے آکے جب زلفِ رسا
دامنِ دل کھینچتی ہے آبشاروں کی صدا
وہ خموشی شام کی جس پر تکلم ہو فدا
وہ درختوں پر تفکر کا سماں چھایا ہوا
کانپتا پھرتا ہے کیا رنگِ شفق کہسار پر
خوشنما لگتا ہے یہ غازہ ترے رخسار پر

اقبال کی یہ نظم ہمالہ کی عظمت کے بیان میں ہے اور اسے وطن پرستی کے اظہار پر مبنی نظم خیال کیا جاتا ہے، اور اس رائے میں بڑی صداقت ہے، مگر اس بند میں اقبال کا ہمالہ منقلب ہوکر انسانی تشخص یا انسانی اوصاف اختیار کرلیتا ہے، یہاں تک کہ آخری شعر میں وہ ایک دلہن کا روپ اختیار کرلیتا ہے، اور اس طرح ’’ارضیت‘‘ میں ایک طرح کی ’’ماورائیت‘‘ درآتی ہے۔ اقبال کی نظم ’’ابر کہسار‘‘ کا ایک بند ہے:

مجھ کو قدرت نے سکھایا ہے دُر افشاں ہونا
ناقۂ شاہدِ رحمت کا حدی خواں ہونا
غم زدائے دلِ افسردۂ دہقاں ہونا
رونقِ بزمِ جوانانِ گلستاں ہونا
بن کے گیسو رخِ ہستی پہ بکھر جاتا ہوں
شانۂ موجۂ صرصر سے سنور جاتا ہوں

اس بند میں ابرِکہسار کہہ رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے موتی بکھیرنے والا اور اپنی رحمت کی روشنی کا حدی خواں بنایا ہے۔ اس شعر نے پہاڑ پر چھائے ہوئے بادل کو ماورائی جہت عطا کردی ہے اور بند کے آخری شعر میں موجۂ صرصر دستِ خداوندی کی علامت بن کر سامنے آتی ہے۔ اقبال کی ایک نظم ’’شمع اور پروانہ‘‘ ہے۔ اس نظم میں اقبال شمع سے پروانے کے تعلق کو بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں:

گرنا ترے حضور میں اِس کی نماز ہے
ننھے سے دل میں لذتِ سوز و گداز ہے
کچھ اس میں جوشِ عاشقِ حسنِ قدیم ہے
چھوٹا سا طُور تُو، یہ ذرا سا کلیم ہے
پروانہ، اور ذوقِ تماشائے روشنی
کیڑا ذرا سا، اور تمنائے روشنی

شمع اور پروانہ فطری مظاہر کی دنیا کے معمولی سے کردار ہیں لیکن ہماری تہذیب میں انہیں انتہائی بلند خیالی کے ابلاغ کا ذریعہ بنایا گیا ہے۔ اقبال کے ان شعروں میں شمع اللہ تعالیٰ کے جمال کا ایک مظہر ہے اور اقبال نے پروانے کو ’’چھوٹا سا کلیم‘‘ کہہ کر اسے پیغمبرانہ عظمت کا شریک بنادیا ہے۔ انسان اپنی تہذیبی میراث سے جڑا ہو تو اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ فطری مظاہر اُسے کہاں سے کہاں لے جاسکتے ہیں۔ اقبال کی نظم ’’انسان اور بزمِ قدرت‘‘ کا ایک شعر ہے ؎

گل و گلزار ترے خلد کی تصویریں ہیں
یہ سبھی سورۂ ’’والشمس‘‘ کی تفسیریں ہیں

ہماری عصری زندگی میں گلزار اور سبزہ زار وغیرہ محض ’’دلکش جگہیں‘‘ اور ’’پکنک اسپاٹس‘‘ ہیںاور ان میں کوئی عظمت نہیں۔ لیکن اقبال نے گل و گلزار کو جنت کی یاد دلانے والی چیزیں اور سورۂ والشمس کی تفسیر بناکر زمین سے آسمان پر پہنچا دیا ہے۔ اقبال کی نظم ’’رخصت اے بزمِ جہاں ‘‘کے دو اشعار ہیں ؎

لیٹنا زیر شجر رکھتا ہے جادو کا اثر
شام کے تارے پہ جب پڑتی ہو رہ رہ کر نظر
علم کے حیرت کدے میں ہے کہاں اس کی نمود
گل کی پتّی میں نظر آتا ہے رازِ ہست و بود

میر تقی میرؔ نے کہا ہے ؎

آنکھ ہو تو آئنہ خانہ ہے دہر
منہ نظر آتے ہیں دیواروں کے بیچ

بظاہر درخت کے سائے میں لیٹ کر شام کے ستارے کو دیکھنے میں کوئی خاص بات نہیں۔ انسان کے پاس نظر ہو تو اتنا معمولی سا مشاہدہ اس پر معنی کے کئی بند در کھول سکتا ہے۔ یہاں تک کہ اقبال نے کہا ہے کہ پھول کی پتی کے مشاہدے سے انسان کو زندگی کے جو راز سمجھ میں آتے ہیں، مجرد علم یا خالی خولی خیال آرائی اس کا تصور بھی نہیں کرسکتی۔

اس تناظر میں دیکھا جائے تو فطرت سے دوری عہدِ حاضر کے انسان کا بڑا المیہ بن گئی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ فطرت کے مظاہر میں مذہبیت اس طرح موجود ہے کہ یہ مذہبیت انسان کا مشاہدہ، اس کا تجربہ، اس کا شعور اور اس کا احساس بن جاتی ہے اور انسان اسے پوری زندگی فراموش نہیں کرسکتا۔ جو لوگ کائنات کو صرف مادی حقیقت سمجھتے ہیں، فطرت سے دوری ان کے لیے زیادہ نقصان کا باعث نہیں۔ لیکن المناک بات تو یہ ہے کہ مذہبی لوگ بھی یا تو فطرت سے دور ہوگئے ہیں یا وہ بھی فطری مظاہر کو مادہ پرستوں کی طرح دیکھنے کے عادی ہوگئے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ مذہب ہمارے لیے اب کوئی واردات یا تجربہ نہیں ہے بلکہ محض ایک خیال یا تصور ہے جس سے ذہن کی تسکین ہوجاتی ہے۔ بدقسمتی سے ہم نے صرف ذہن کی تسکین کو پورے وجود کی تسکین سمجھ لیا ہے۔ لیکن پورے وجود کی تسکین صرف اسی صورت میں ہوسکتی ہے جب کائنات میں ہر طرف ہمیں خدا کا جلوہ نظر آئے۔

حصہ