آخر شب کے ہم سفر

156

کالٹین…؟ پادری بنرجی ہکا بکا رہ گئے…’’روزی بیٹا…‘‘ انہوں نے ہڑبڑا کر کہا… ’’میری ناک کا تو خیال کرو۔ میری بچی… لوتھر بڑا اچھا لڑ…‘‘

’’نہیں…نہیں…نہیں…‘‘ روزی نے بچوں کی طرح مچل کر روتے ہوئے ان کی بات کاٹی۔

’’اور پھر کیا کرے گی… احمق…‘‘ پادری بنرجی کو ایک دم غصہ آگیا۔ ’’کسی ہندو سے شادی کرے گی؟۔ یہ ارادہ ہے تیرا؟ مسلمان سے بیاہ رچائے گی؟ اپنی ماں کا حشر بھول گئی۔ بدبخت؟‘‘ انہوں نے گرج کر کہا اور ان کو بالکل خیال نہ رہا کہ دروازہ کھلا ہوا ہے اور سٹنگ روم تک آواز جارہی ہے۔ انہیں اپنی پرسکون زندگی میں ایسا قیامت خیز وقت بھی دیکھنا پڑا۔ اور اپنی اولاد کے ہاتھوں۔ خداوند۔ میں نے تیرا کیا گناہ کیا تھا۔ خداوند…؟

پادری بنرجی کو پتا بھی نہ چلا کہ مسز میری بسواس پیچھے آن کر کھڑی ہوگئی ہیں اور باپ بیٹی کا سارا مکالمہ سن چکی ہیں۔ ایستھر بنرجی سہمی ہوئی ان کے عقب میں کھڑی تھیں۔ مسز بسواس کو دیکھ کر روزی فرش سے اُٹھی اور تیر کی طرح غسل خانے میں گھس کر دروازہ زور سے بند کرلیا۔ پادری بنرجی نے مڑ کر مسز بسواس کو دیکھا اور سکتے کے عالم میں کھڑے رہ گئے۔

چند لمحوں تک مکمل سکوت طاری رہا۔ اس کے بعد مسز بسواس نے زہر میں بجھی ہوئی آواز میں کہا۔ ’’اچھا تو ہم کالٹین ہیں… ہنری‘‘۔ انہوں نے سِٹنگ روم کی طرف مارچ کرتے ہوئے للکارا۔ ’’ہم اپنی اِنسلٹ کروانے لدھیانے سے آئے تھے۔ چلو اُٹھو‘‘۔

ایستھر بنرجی روتی ہوئی ان کے پیچھے لپکیں۔ سٹنگ روم میں آکر انہوں نے کہا۔ ’’بہن خدا باپ کے لئے ہمیں معاف کردیجئے۔ روزی بڑی ضدی لڑکی ہے۔ آج کل کی اولاد ہے۔ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ آپ سے کیا کہوں‘‘۔

اس دوران میں پادری ہنری بسواس اور مسٹر بسواس صمٌ بکمٌ کھڑے باقی لوگوں کو تَک رہے تھے۔ مسز بسواس بلائوز کی آستین میں سے رومال نکال کر ناک سنکتے ہوئے صوفے پر بیٹھ گئیں۔ اور شعلہ بار نگاہوں سے میزبان خاتون کو گھورا۔ پادری بنرجی اس اثنا میں سٹنگ روم سے گزرتے ہوئے جا کر برآمدے کے ایک در میں کھڑے ہوگئے تھے اور سرجھکا کر فرش کو دیکھ رہے تھے۔

اب مسز بسواس نے رومال آنکھوں پر رکھ لیا اور آنسو بہانے پر آمادہ ہوئیں۔

’’چلو ڈیر… واپس چلیں…‘‘ پادری بسواس نے آگے بڑھ کر نرمی سے ان کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔ مسز بسواس نے غصہ سے ان کا ہاتھ جھٹک دیا اور چلاتے ہوئے بولیں… ’’ہم امیر لوگ نہیں ہیں۔ لدھیانے سے چل کر راج کماری کو دیکھنے آئے۔ آپ نے خود بلایا تھا۔ چار آدمیوں کا انٹر کلاس کا کرایہ‘‘۔

’’اوہ شٹ اَپ مائی ڈیر…‘‘ پادری بسواس نے کوفت کے ساتھ کہا۔ لوتھر بسواس چھت کو تَک رہا تھا۔

’’چار آدمیوں کا انٹر کلاس کرایہ۔ لدھیانے سے ڈھاکے… ہم امیر نہیں ہیں۔ آپ کی طرح چرچ فنڈ کا روپیہ نہیں کھاتے‘‘۔

’’اوہ کیپ کوائٹ ماما…‘‘ لوتھر بسواس نے انتہائی خفت اور جھنجھلاہٹ کے ساتھ والدہ کو خاموش کرنا چاہا۔

’’تم چپ رہو جی… میں ان سے مسز بنرجی سے بات کررہی ہوں۔ آپ نے ہمیں خط لکھا۔ آپ نے مسز برکت مسیح کے ذریعے ہمیں کہلوایا کہ آکر لڑکی دیکھ جائو‘‘۔

’’اوہ شٹ اَپ… ماما… پلیز…‘‘ لوتھر بسواس نے پسینہ پسینہ ہوتے ہوئے دوبارہ استدعا کی۔
’’یُو شٹ اَپ ایڈیٹ… ڈیم فول…‘‘ مسز بسواس اب ہسٹریکل ہونے والی تھیں۔ ادھر ایڈتھ نے۔ ’’اِٹ واز اِن دی آئیل آف کیپری ریٹ آئی فائونڈہر…‘‘ کا دقیانوسی ریکارڈ گراموفون پر لگا رکھا تھا جو ریں ریں کئے جارہا تھا۔ لوتھر بسواس نے اُٹھ کر غصے کے ساتھ ریکارڈ پر سے سوئی ہٹادی اور بہن کو گھور کر دیکھتا ہوا کرسی پر آن بیٹھا۔

’’ہم نے انکوائری کی…‘‘ مسز بسواس کہے گئیں۔ ’’میں نے ڈھاکے اپنی سسٹر ان لا کو… ہنری کے کزن برادر کی وائف کو خط لکھا کہ لڑکی کے حالات معلوم کرو۔ انہوں نے ہم کو لیٹر لکھا میں نے ہنری کو بولا۔ مارجری سسٹر نے لکھا ہے لڑکی کی شہرت اچھی نہیں ہے لڑکی کے ہندو بوائے فرینڈ ہیں۔ لڑکی کانگریسی کمیونسٹ ہوگئی ہے‘‘۔
’’اوہ ماما… پلیز…‘‘

’’مگر یہ گدھے کا بچہ… مس صاحب پر لٹو ہوچکا تھا… کیا آگرہ۔ کیا سیالکوٹ۔ کیا لاہور۔ ہر جگہ سے اس کے لئے رشتے آرہے تھے۔ مسٹر ایڈورڈ منور خان تو ڈپٹی کلکٹری ہیں میرٹھ میں۔ ان کی لڑکی آئی ٹی کالج میں پڑھ رہی ہے۔ اس تک کی بات آئی تھی۔ ایسا میرا ہیرا بیٹا ہے۔ آپ کی لڑکی میں ہے کیا… ذرا سنوں تو…؟‘‘

پادری بنرجی کمر کے پیچھے ہاتھ باندھے برآمدے میں کھڑے رہے۔ ایک دم ان کی کمر جھک سی گئی تھی۔
مسز بسواس کی تقریر جاری رہی۔ ’’ہم تو اس گدھے کے بچے کی ضد پوری کرنے اتنی دور چل کر آئے۔ ہے کیا آپ کے پاس… یہ فقِٹا گھر…میرا بیٹا تو سینٹ جانز کالج میں لیکچرر ہونے والا ہے۔ ایم ایس سی پاس ہے، کسی خچر پادری مشن اسکول میں نہیں پڑھاتا‘‘۔ (حالانکہ وہ خچر پادری مشن اسکول ہی میں پڑھا رہا تھا)

’’مائی ڈیر‘‘۔ پادری بسواس نے کہنا چاہا۔
’’ماما…‘‘ ایڈتھ نے آواز نکالی۔
’’دیکھوں تو کون سا آئی سی ایس مل جائے گا آپ کی لڑکی کو، جو ان کے لچھن ہیں ڈھاکے آکر سن لئے‘‘۔
’’میری… کیوں اپنی حیثیت خراب کرتی ہو…‘‘ پادری بسواس نے پھر احتجاج کیا۔

’’بڑا لِلی کاٹج کا شہر سنا تھا۔ دیکھ لی آکر لِلی کاٹج… میں تو اپنے گھر میں ایک دن بھی ایسا سڑا ہوا فرنیچر نہ رکھوں اور بھئی ہم کوئی دیسی پادری کی تنخواہ پر گذر تھوڑے ہی کرسکتے ہیں۔ ہماری تو گھر کی زمینداری بھی ہے۔ خدا باپ کا ہر طرح سے فضل ہے۔ مس صاحب اگر آتیں ہمارے ہاں، نصیبہ کھل جاتا۔ رانی بن کر رہتیں‘‘۔ مسز بسواس یہ بالکل بھول گئیں کہ صرف چند منٹ قبل انہوں نے اپنی غربت کا شکوہ کیا تھا۔ مگر اب پھر انہیں اپنا مالی نقصان یاد آگیا۔ اور انہوں نے چلا کر کہا۔ ’’پانچ سو روپیہ خرچ ہوگیا ہمارا‘‘۔ اتنے میں لوتھر بسواس جلدی سے باہر جا کر گھوڑا گاڑی لے آیا تھا۔ اس نے اندر آکر پہلی بار غصے سے بات کی۔

’’ماما… کم اَن… ڈونٹ کری ایٹ اے سین، بی ہیویور سیلف پلیز… اب بس کرو‘‘۔

اپنی ماما کا ہاتھ پکڑ کر انہیں تقریباً کھینچتا ہوا وہ باہر لے گیا اور گاڑی میں بٹھادیا۔ پادری ہنری بسواس سر جھکائے ان کے پیچھے پیچھے باہر آئے، ایڈتھ بسواس نے میز پر سے اٹیچی کیس اٹھایا، جس میں سنہری بیل لگی ریشمی ساری اور منگنی کی انگوٹھی مقفل تھی۔ باہر آکر وہ اُچک کے گاڑی میں سامنے کی سیٹ پر بیٹھ گئی۔ پادری بسواس واپس پلٹے اور برآمدے کے در میں کھڑے پادری بنرجی سے ہاتھ ملایا۔ ’’سوری ریورنڈ… آئی ایم ویری سوری… ناٹ یور فالٹ…‘‘ انہوں نے رسان سے کہا۔ پادری بنرجی ہاتھ پیچھے باندھے سرجھکائے خاموش کھڑے رہے۔ ایستھر بنرجی سٹنگ روم کے دروازے سے لگی کھڑی تھیں۔ ان کی آنکھوں سے آنسوئوں کا سیلاب جاری تھا لوتھر بھی جچے تلے قدم رکھتا برآمدے کی سیڑھی پر آیا اور سرخم کرکے کہا۔ ’’آئی ایم سَوری انکل۔ پلیز ڈونٹ مائینڈ مائی مدر… گڈبائی‘‘۔

’’گوڈبلیس یُو مائی سن…‘‘ پادری بنرجی نے آہستہ سے جواب دیا۔
لوتھر جلدی سے واپس لوٹا اور گاڑی میں ایڈتھ کے برابر بیٹھ گیا۔ مشن کمپائونڈ کے سارے بچے اور عورتیں گاڑی سے ذرا فاصلے پر جمع ہوگئے تھے۔ ڈیزی کے ذریعہ خبر سارے کمپائونڈ میں پھیل چکی تھی۔ کل تک ڈھاکے کی نیٹو کرسچین سوسائٹی میں نشر ہوجائے گی۔

گھوڑا گاڑی لِلی کاٹج کا چکر کاٹ کر پھاٹک کی طرف بڑھی۔ لوتھر بسواس کھڑکی میں سے سر نکال کر تازہ ہوا نتھنوں میں داخل کرنے کی کوشش کررہا تھا۔ جب گاڑی کمپائونڈ سے باہر جانے لگی تو اس نے دیکھا کہ روزی بنرجی للی کاٹج کے پچھواڑے اپنے غسل خانے کی سیڑھیوں پر سنگی مورت کی مانند ساکت بیٹھی ہے۔ لوتھر بسواس نے احمقوں کی طرح ہاتھ اٹھا کر اسے دیو کرنا چاہا۔ مگر ہاتھ مفلوج سا ہوگیا تھا۔ گاڑی چرخ چوں کرتی کچی سڑک پر آگئی۔

للی کاٹج کے اندر پادری بنرجی اپنے کمرے میں جا کر ایک کونے میں بیٹھے پھوٹ پھوٹ کر رو رہے تھے۔ انہیں روزی کے انکار سے زیادہ اس انکشاف سے دھکا لگا تھا کہ انہیں معلوم بھی نہیں ہوا مگر دنیا بدل چکی ہے۔ ہمیشہ کی طرح صابر و شاکر گری بالا بنرجی آنسو خشک کرکے چائے کا سامان سنگوانے میں مصروف ہوگئیں۔
(12)
شانتی نکیتن
اپریل ۱۹۴۱ء دیپالی سرکار سری سدن کے سامنے گھاس پر بیٹھی تھرڈایر کے آخری پرچے کی تیاری میں مصروف تھی۔ جب ایک لڑکی نے قریب سے گزرتے ہوئے چند لفافے اس کے سامنے گرادیئے۔ روزانہ جب ڈاک آتی تھی۔ اس کا دل دھڑک اُٹھتا تھا۔ اس شام کے بعد سے وہ ایسا غائب ہوا کہ اس کی طرف سے نہ کوئی خط آیا۔ نہ کوئی سندیش، نہ کوئی بادل، نہ کوئی راج ہنس اور جب انل کمار داس نے چارلس بارلو کے متعلق دریافت کیا تو وہ کچھ نہ بتاسکی۔ کیونکہ روزی بنرجی نے ڈھاکے سے کسی خط کا جواب نہ دیا تھا۔ اس کے لیے اتنا غم، اتنی فکر، اتنی پریشانی سب بے کار ہے نا۔ آج اتنے مہینے گزر گئے۔ ستمبر میں اس شام کو چھ مہینے گزر گئے۔

دیپالی نے پہلا لفافہ کھولا۔ جہاں آراء کا خط تھا۔ دُرگا پوجا کی چھٹیوں میں جب وہ ڈھاکے گئی۔ جہاں آراء اپنے علاقے پر فرید پور گئی ہوئی تھی۔ روزی کے متعلق معلوم ہوا تھا کہ پادری صاحب نے اسے چھٹیاں گزارنے اپنی بہن کے پاس لال منیر ہاٹ بھیج دیا ہے۔ ادما دیبی کلکتے میں تھیں۔ دیپالی نے ساری چھٹیاں اپنے بھائیوں کے ساتھ لوڈو کھیلنے میں گزار دی تھیں۔ اب امتحان کے بعد گرمیوں کی تعطیلات شروع ہوں گی۔ اور پھر وہ چندر کنج واپس جائے گی۔ جولائی میں کالج کھلے گا۔ پھر یہاں آجائے گی۔ اگلے سال بی اے کرے گی۔ اس کے بعد کیا ہوگا؟

جہاں آراء نے لکھا تھا:۔
’’روزی کا قصہ تو اب خاصا پرانا ہوگیا۔ جب ملو گی پوری داستان سنائوں گی۔ مسز بنرجی امی کے پاس آکرو رونا رو رہی تھیں۔ روزی تو اس بات کا بالکل ذکر ہی نہیں کرتی۔ لال منیر ہاٹ سے واپس آکر پڑھائی میں مصروف ہوچکی ہے۔ خیر تھرڈ ایئر کی ایسی پڑھائی بھی کیا۔ تم لوگ مجھ پر خواہ مخواہ رعب جھاڑتے ہو۔ بڑی آئیں بے چاریاں بی اے اسٹوڈنٹس… اور بھئی ہم نے جو کہا تھا انٹر کے بعد گھر بیٹھے مزے کررہے ہیں۔ مزے کیا کررہے ہیں دیپالی، یہ تو بالکل غلط ہے۔ مگر ابا کا حکم کیسے ٹالا جاسکتا ہے۔ ابا اعلیٰ تعلیم کے حامی نہیں تو پھر ایف اے تک ہی کیوں پڑھایا تھا۔ پچھلے سال مارچ میں جب ابا مسلم لیگ کے اجلاس کے لیے لاہور گئے تھے نا جب پاکستان ریزولیوشن پاس ہوا تھا۔ تو لاہور سے واپسی پر علی گڑھ ہوتے آئے تھے۔ اور آکر کہنے لگے کہ میں تم کو بی اے کے لیے علیٰ گڑھ بھیج دوں گا۔ مگر اس کے بعد پھر ارادہ بدل دیا۔ جانے ابا کے دل میں میرے لیے کیا پروگرام ہے۔ ان سے کون پوچھ سکتا ہے۔

’’مگر روزی نے کمال کردیا۔ مسٹر لوتھر بسواس بے چارے کو ہری جھنڈی دکھادی۔ میں نے روزی سے کہا کہ تم میں دونوں اپنے اپنے ماحول کے پروردہ ہیں۔ تم بغاوت کرکے کہاں جائو گی اور یہ اُونچی ذات کے بنگالی کرسچین اگر قدامت پرست ہونے پر آئیں تو ان کا کوئی جواب نہیں۔ کہنے لگی۔ سولیڈرٹی مجھے سہارا دے گی۔ میں نے اپنے آپ کو سولیڈرٹی کے لیے وقف کردیا ہے۔ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ تم اور روزی کس قسم کی باتیں کرتی ہو۔ اور کیا کرنے والی ہو۔ اللہ تم لوگوں کی عقلیں ٹھکانے پر رکھے۔

’’باقی ڈھاکے کے حالات بدستور ہیں۔ تمہاری ادما رائے کلکتہ ہی میں ہیں۔ ایک خبر یہ ہے کہ نیئر بھائی کی منگنی ہوگئی۔ وہ شمسہ خالہ نہیں ہیں۔ امی کی پرانی سہیلی، جو سگن بگیچے میں رہتی ہیں ان کی جیٹھ کی لڑکی سے۔
(جاری ہے)

حصہ