خاندان کو جوڑیں

69

آج خاندان کا صدیوں پرانا مستحکم ادارہ اور اس میں عورت کا مقام کمزور ہوتا چلا جارہا ہے۔ عورت کی ترقی کا راز خاندان کے استحکام اور اس کے ساتھ وابستگی میں پنہاں ہے۔ مغرب اس راز کو اپنے خاندانی نظام کے ٹوٹ پھوٹ کر بکھر جانے کے بعد جان گیا۔ ہمیں اس سے پہلے ہی اس کا ادراک کرلینا چاہیے۔

عدل واحسان: ارشادِربانی ہے ’’اللہ عدل، احسان اور صلۂ رحمی کاحکم دیتا ہے۔‘‘ (النحل:90)

ہمارے خاندانی نظام میں سسر گھر کا سربراہ ہے اور ساس اس کی معاون۔ اِن دونوں کا فرض ہے کہ بیٹے کی غیر موجودگی میں بھی بہو کے حقوق کا خیال رکھیں، اُس کی طاقت سے بڑھ کر بوجھ اُس پر ہرگز نہ ڈالیں۔ نندوں، دیور اور جیٹھ کو اس کے احترام پر مجبور کریں۔ اس بات کا خاص خیال رکھیں کہ تمام اہلِ خانہ اس کی عزتِ نفس کو ناحق مجروح کرنے سے گریز کریں۔

والدین اپنے بیٹے سے بات منوانے کا حق رکھتے ہیں، نیز اپنی اولاد کے غلط و صحیح رویّے کے بارے میں وہ اللہ کے ہاں بھی جواب دہ ہیں۔ ان کا فرض ہے کہ بیٹے کو بیوی کے حقوق ادا کرنے کی ترغیب دیں۔

نئی دلہن: اس حقیقت کو کشادہ دلی کے ساتھ تسلیم کرنا چاہیے کہ شادی کے بعد بیٹے کی زندگی میں ایک نئی شخصیت داخل ہوگئی ہے، وہ اس کی رفیقۂ حیات اور ہم سفر ہے۔ اللہ نے ان دونوں میں غیر معمولی الفت و محبت رکھ دی ہے۔ لہٰذا ان میں دوری دونوں کے لیے بھی تباہ کن ہے اور اللہ کی نظرمیں بھی انتہائی ناپسندیدہ ہے۔ لیکن بدقسمتی سے ہمارے ہاں ماں باپ جب یہ دیکھتے ہیں کہ بیٹا بہو کو بہت زیادہ چاہ رہا ہے اور اُس سے غیر معمولی محبت کررہا ہے تو خود لڑکے سے بدظن ہونے لگتے ہیں اور بہو کو حریف سمجھ بیٹھتے ہیں۔ اپنی بیٹیوں کے لیے تو والدین کے دل نہایت ہی نرم اور شفیق ہوتے ہیں، ان کی ہر کوتاہی کے لیے عذر تراش لیتے ہیں۔ بہو بھی تو کسی کی لاڈلی اور پیاری ہے۔ کسی ماں باپ کی طویل محنت کا ثمر ہے جنہوں نے آپ سب پر اعتماد کرکے اپنے جگر کا ٹکڑا پیش کیا ہے۔ وہ اپنا سب کچھ چھوڑکر نئے گھر آئی ہے۔ آخر بچی ہے، ناتجربہ کار ہے۔ نئے گھر اور نئے ماحول میں آئی ہے۔ دل لگتے لگتے بھی ٹائم لگتا ہے۔ یہ ضروری نہیں کہ پہلے روز ہی سسرال کے رنگ میں رنگ جائے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس کی غلطیوں اور کوتاہیوں کو نظرانداز کرکے اس کے اندرکی خوبیوں کو نکھرنے کا موقع دیا جائے۔ بڑی سے بڑی تادیبی کارروائی بعض اوقات اتنی مفید ثابت نہیں ہوتی جتنا وضاحت کے ساتھ نہایت ہی نرم لہجے میں سمجھا دینے سے خاطر خواہ نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔ شروع کے دنوں میں آپ اس کا سہارا بن جائیں، اللہ نے چاہا تو تمام عمر خدمت گزار رہے گی۔

حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں سے پوچھا ’’جانتے ہو قیامت کے روزکون لوگ سب سے پہلے پہنچ کر اللہ کے سائے میں جگہ پائیں گے؟‘‘ عرض کیا گیا ’’اللہ اور اللہ کا رسولؐ ہی بہتر جانتے ہیں۔‘‘

فرمایا ’’وہ جن کا حال یہ تھا کہ جب ان کے آگے حق پیش کیا گیا تو انہوں نے قبول کرلیا، جب اُن سے حق مانگا گیا تو انہوں نے ادا کردیا اور دوسروں کے معاملے میں ان کا فیصلہ وہی کچھ تھا جو اپنی ذات کے معاملے میں تھا۔‘‘ (مسنداحمد)

ہمارے اکثرگھروں میں سسرال والوں کے رویّے میں بہو کے لیے وقعت و عزت کی کوئی جھلک نہیں ہوتی تو بہو کے دل میں محرومی کا ایسا خلا پیدا ہوجاتا ہے جو محض پراگندہ خیالات اور بیمار جذبات ہی سے پُر ہوتا ہے۔ رات دن وہ انہی میں گھری رہتی ہے جو اس کی زندگی اجیرن کردیتے ہیں۔ اس طرح وہ اکثر غصیلی، بدمزاج، نافرمان اور زبان دراز بن جاتی ہے۔ جو دوسروں کے لیے جتنی آسانیاں فراہم کرے گا اللہ اس کی زندگی کو اسی قدر سہل بنادے گا۔ ارشادِ نبویؐ ہے ’’اللہ تعالیٰ خود مہربان ہے، نرمی اور مہربانی کرنا اس کو محبوب بھی ہے، نرمی پر وہ اتنا دیتا ہے جتنا سختی پر نہیں دیتا، اور جتنا نرمی کے سوا کسی چیز پر بھی نہیں دیتا۔‘‘ (مسلم شریف)

اللہ رب العزت نے انسان کو آزاد پیدا کیا ہے۔ ہر ایک کی پسند اور مزاج دوسرے سے مختلف ہے۔ اصول ضائع نہیں ہونے چاہئیں لیکن فروعی معاملات میں بہرحال نرمی برتنے ہی میں حکمت ہے۔ ہرمعاملے میں بے جا، بے موقع مداخلت اور بات بات پر کیوں، کیا، کیسے، کہاں، کب جیسے جملوں کی بھرمار سے اکثرگھرکا ماحول خراب ہوتا ہے۔ خدا کے لیے ایسا رویہ ہرگز اختیار نہ کریں کہ آپ کی بہوئیں آپ کی موت کا انتظارکرنے لگیں۔ آج وطنِ عزیز میں ایسے بزرگوں کی کمی نہیں جو اپنی حماقت کے باعث اچھی خاصی زحمت بن چکے ہیں۔ حضرت علیؓ کا فرمان ہے ’’زبان ایک درندہ ہے، چھوڑ دو تو کاٹ کھائے۔‘‘

بہو آنے والی نسلوں کی ماں ہے، اگر اس سے تعلقات درست نہ رہ سکے تو پوتے پوتیوں کی تربیت میں کمی رہ جائے گی اور ان کے دل میں کبھی سچی محبت پیدا نہ ہوسکے گی۔ مزید برآں بیٹے کی صحت پر لازماً برے اثرات مرتب ہوں گے۔

چھپا ہوا ظلم: ہمارے ہاں گھرکی خاتون خواہ کتنی ہی عمدہ اور بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرے، اس کی حوصلہ افزائی نہیں کی جاتی۔ انسان کام کی زیادتی سے اتنا نہیں تھکتا جتنا حوصلہ شکنی سے تھک جاتا ہے۔ صنفِ نازک ہونے کے باعث عورت اس سے زیادہ متاثر ہوتی ہے اور بعض حالات میں اعصابی اور ذہنی مریض بن جاتی ہے۔ ارشادِ نبویؐ ہے ’’جس نے لوگوں کا شکر ادا نہیں کیا اُس نے اللہ کا بھی شکر ادا نہیں کیا۔‘‘ ہمارے چند بولوں سے کسی بیٹی کا دل خوش ہوجائے اور اس کی زندگی میں بہار آجائے تو یہ کس قدر خوش نصیبی ہے۔

طلاق کی کثرت: جدید تہذیب آندھی اور طوفان کی طرح حیا کا چلن اور آغوشِ مادر کی ٹھنڈی چھاؤں ہم سے چھین لینے کے درپے ہے۔ دوسری طرف جاہلانہ رسوم و رواج عورت کو اس کے بنیادی حقوق سے بھی محروم کررہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ طلاق کی شرح خوف ناک حد تک بڑھتی چلی جارہی ہے۔ میاں بیوی کے رشتے کا ٹوٹنا شیطان مردود کے لیے سب سے زیادہ خوش گوار ہے۔ لہٰذا خاندان کو جوڑنے کے لیے ہر طرح کی کوشش کرنی چاہیے۔

حصہ