کامیابی کا آفاقی آئین

90

ہم میں سے کون ہے جو اپنے شعبے میں بھرپور کامیابی نہیں چاہتا؟ کامیابی ایک ایسا لفظ ہے جس کا ہر انسان سے کسی نہ کسی طور تعلق بنتا ہی ہے۔ ہم زندگی بھر یہ لفظ سنتے ہیں اور اس حوالے سے بہت کچھ سوچتے بھی رہتے ہیں۔ یہ سب کچھ فطری ہے۔ ہر انسان کسی نہ کسی حوالے سے کچھ ہٹ کر، بہتر انداز سے کرنا چاہتا ہے اور اِسی کو وہ کامیابی سمجھتا ہے۔ مگر کامیابی محض کچھ خاص یا ہٹ کر کرنے تک محدود نہیں بلکہ اِس سے کہیں آگے کی منزل ہے۔ آپ جو کچھ بھی کرتے ہیں اُس کا کوئی نہ کوئی مقصد ضرور ہوتا ہے۔ کسی مقصد کے بغیر کوئی کچھ بھی نہیں کرتا۔ کم از کم نارمل انسانوں کا تو ایسا ہی معاملہ ہے۔ اگر کوئی شخص کسی واضح مقصد کے بغیر کچھ یا بہت کچھ کرتا ہے تو اُسے نفسی امور کے کسی ماہر سے رابطہ کرنا چاہیے کیونکہ مقصد متعین کیے بغیر کچھ کرنا ابنارمل ہونے کی واضح ترین علامات میں سے ہے۔

آپ نے بھی مشاہدہ کیا ہوگا کہ عام طور پر کسی بھی شعبے میں نمایاں اور بے مثال کامیابی سے ہم کنار وہ لوگ ہوتے ہیں جو اس حوالے سے ذہن بناتے ہیں اور پوری توجہ کے ساتھ محنت کرتے ہیں۔ معاشرے میں ان لوگوں کو الگ ہی دیکھا، پہچانا اور پرکھا جاسکتا ہے جو کامیابی کی راہ پر گامزن ہوتے ہیں۔ بھرپور کامیابی اسی وقت ممکن ہو پاتی ہے جب کوئی اس کے لیے باضابطہ فیصلہ کرنے کے بعد پوری تیاری کے ساتھ اس کے حصول کے لیے کوشاں ہوتا ہے۔ میدان علم و ادب کا ہو، کھیلوں کا یا پھر ٹیکنالوجی کا … جسے بے مثال کامیابی حاصل کرنی ہو اُسے بہت کچھ کرنا ہی پڑتا ہے۔

یہ بات بھی صاف محسوس کی جاسکتی ہے کہ بھرپور کامیابی کا حصول جتنی محنت کا طالب ہوتاہے اُسے برقرار رکھنے کے لیے اُس سے کہیں زیادہ محنت کرنا پڑتی ہے۔ فی زمانہ ہر شعبے میں غیر معمولی کامیابی کے لیے دن رات محنت کرنا پڑتی ہے کیونکہ ذرا سی کوتاہی کی صورت میں برسوں کی محنت پر پانی پھر سکتا ہے اور پھر دوسروں کو آگے بڑھنے کا موقع مل سکتا ہے جو کامیابی کی راہ پر آگے بڑھنے کے لیے موزوں موقع کے منتظر ہوتے ہیں۔ اور یہ نکتہ بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کہ کامیابی کی راہ پر بڑھتے رہنے کے لیے اپنے آپ کو اپ ڈیٹ ہی نہیں، اپ گریڈ بھی کرتے رہنا پڑتا ہے۔ ہر شعبے میں تحقیق اور ندرت کا بازار گرم ہے۔ جو لوگ اپنے شعبے میں آگے بڑھنے کے خواہش مند ہیں اُنہیں بہت کچھ نیا سیکھتے رہنا پڑتا ہے۔ ایسا کیے بغیر وہ اپنے اور دوسروں کے لیے زیادہ کارآمد ثابت نہیں ہوسکتے۔

اس مرحلے پر ایک اہم سوال یہ ہے کہ کیا بھرپور انفرادی ترقی ذاتی دلچسپی کا معاملہ ہے یا کوئی اور بھی اِس حوالے سے بھرپور کردار ادا کرسکتا ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ کامیابی کی خواہش خالص ذاتی معاملہ ہے۔ جنہیں کچھ کرنا ہو وہ اس کے لیے اپنا ذہن بناتے ہیں اور پھر اس حوالے سے کام کرتے چلے جاتے ہیں۔ زندگی بھر دوسروں کو بہتر کام کی تحریک دینے والے مصنفین اور مقررین میں ڈیل کارنیگی، نپولین ہل، نارمن ونسنٹ پیل، ابراہیم میسلو، رالف والڈو ایمرسن، ڈاکٹر میکسویل میلز، ڈینس ویٹلی، براین ٹریسی، انتھونی رابنز، رھونڈا برن، اسٹیفن کووی، ڈاکٹر دیپک چوپڑا، ڈیوڈ جے شوارٹرز، ڈاکٹر رابرٹ انتھونی، ڈیوڈ ہنری تھورو، نوئیل وٹیکر، مائک پراکٹر، جم ران، رابن شرما، کریم حاجی، زگ زگلر، ارندم چوہدری وغیرہ نمایاں ہیں۔

بہتر زندگی اور بھرپور کامیابی کی راہ پر گامزن ہونے میں لوگوں کی غیر معمولی مدد کرنے والوں میں نپولین ہل کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ انہوں نے اخبارات کے لیے مضامین لکھنے سے اپنے کیریئر کی ابتداء کی اور پھر معروف صنعت کار اینڈریو کارنیگی کے ساتھ مل کر کم و بیش 20 سال تحقیق کی۔ یہ تحقیق کامیاب ترین افراد سے ملاقاتوں اور ان سے بھرپور کامیابی کے راز جاننے سے متعلق تھی۔ نپولین ہل نے اینڈریو کارنیگی کی مدد سے کم و بیش 500 کامیاب اور معروف و مقبول شخصیات سے طویل اور کبھی کبھی تو کئی نشستوں پر مبنی گفتگو کی اور پھر اس گفتگو سے کامیابی کے راز کشید کرکے عام آدمی کے لیے کتابی شکل میں پیش کیے۔ نپولین ہل نے اپنی تحقیق Law of Success کی شکل میں دنیا والوں کے سامنے رکھی۔ اس کتاب میں انہوں نے یہ بتایا کہ کسی بھی شعبے میں غیر معمولی اور قابلِ رشک کامیابی یقینی بنانے کے لیے 16 اصولوں کا خیال رکھنا لازم ہے۔ اُنہوں نے ہر اصول خاصی شرح و بسط سے بیان کیا تاکہ بھرپور کامیابی کا حصول یقینی بنانے کی خواہش رکھنے والوں کو کسی بھی مرحلے پر کسی غیر ضروری مشکل، الجھن یا پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔

اینڈریو کارنیگی نے ہنری فورڈ، تھامس ایڈیسن، جان ڈی راک فیلر، الیگزینڈر گراہم بیل اور دوسری بہت سی کامیاب شخصیات سے نپولین ہل کی ملاقاتوں کا اہتمام کیا۔ ان ملاقاتوں میں نپولین ہل کو ایسا بہت کچھ سیکھنے کو ملا جس کی بنیاد پر انہوں نے اپنا باضابطہ فلسفۂ کامرانی تشکیل دیا۔ نپولین ہل سے پہلے بھی بہت سے لکھنے والوں نے کامیابی کے بنیادی اصولوں کے بارے میں لکھا تاکہ عام آدمی کو ڈھنگ سے زندگی بسر کرنے کی تحریک ملے اور وہ اپنی صلاحیت اور سکت کو عمدگی سے بروئے کار لانے کے قابل ہوسکے۔ نپولین ہل نے اس حوالے سے واضح فرق پیدا کرنے کی کوشش کی۔ انہوں نے جو کچھ بھی لکھا اُس میں جامعیت کا عنصر نمایاں تھا۔ وہ کسی بھی نکتے کو محض سرسری انداز سے پیش نہیں کرتے تھے بلکہ ان کی بھرپور کوشش ہوتی تھی کہ بات کو زیادہ سے زیادہ وضاحت اور جامعیت کے ساتھ پیش کیا جائے تاکہ پڑھنے والے کے ذہن میں کوئی بھی نکتہ تشنہ نہ رہ جائے۔ جو کچھ لکھا اُسے پڑھ کر کروڑوں افراد کی زندگی میں انقلاب برپا ہوا۔ نپولین ہل کی تحریروں سے مستفید ہونے والوں نے اپنے اندر کام کرنے کی لازوال لگن محسوس کی اور پھر بہتر زندگی بسر کرنے کے لیے جو کچھ بھی کرنا چاہیے وہ سب کچھ کرنے کی طرف مائل ہوئے۔

Law of Success نپولین ہل کا بنیادی کارنامہ اور شاہکار ہے۔ یہ کتاب 1928 میں شائع ہوئی۔ اِسے ذاتی کامیابی و خوش حالی کے فلسفے کی بنیاد رکھنے والی کتاب کا درجہ حاصل ہے۔ اس ایک کتاب کو بنیاد بناکر نپولین ہل اور اُن کے رفقاء نے کئی کتابیں تیار کیں۔ نپولین ہل نے اپنی اس ضخیم تصنیف کا نچوڑ Think and Grow Rich میں پیش کیا جس کی بے حد پذیرائی کی گئی۔ چالیس سے زائد زبانوں میں اس کتاب کی دو کروڑ سے زائد کاپیاں فروخت ہوچکی ہیں۔ کروڑوں انسانوں کی زندگی کا رخ بدلنے میں اس ایک کتاب نے کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ بعد میں Grow Rich with Peace of Mind شائع کی گئی جس میں نپولین ہل نے یہ بتانے کی کوشش کی کہ کامیابی کا محض حصول کافی نہیں بلکہ اِس کے نتیجے میں آپ کی زندگی میں غیر معمولی تبدیلیاں بھی رونما ہونی چاہئیں۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ آپ کو ذہنی سکون حاصل ہونا چاہیے۔ ان شاہکار تصنیفات ہی کی بدولت آج نپولین ہل کو کامیابی کے موضوع پر کامیاب ترین مصنف کا درجہ حاصل ہے۔

نپولین ہل نے Law of Success کی اشاعت پر کہا تھا کہ اس کتاب کی اشاعت کا بنیادی مقصد عام آدمی کو یہ بتانا ہے کہ کامیابی اور ناکامی فطری ہوتی ہے نہ موروثی بلکہ یہ تو اپنی مرضی کا سَودا ہے یعنی کوئی اگر کچھ بننا چاہے تو بن سکتا ہے اور اپنی مرضی کے مطابق کامیابی حاصل کرکے انتہائی پُرسکون اور پُرمسرّت زندگی بسر کرسکتا ہے۔ کسی بھی شعبے میں مہارت کا حصول اور مہارت کی بنیاد پر کیریئر میں بہتر امکانات کا حصول ہر انسان کے لیے ممکن ہے۔ شرط صرف یہ ہے کہ انسان مثالی لگن کے ساتھ ان تھک محنت کے لیے ذہنی اور جسمانی طور پر تیار ہو۔ جو جتنی محنت کرے گا وہ اتنا ہی پائے گا۔ اِس دنیا میں کام کرنے والوں کا احترام کرنے والوں کی کمی نہیں۔ اگر کوئی شخص غیر معمولی مہارت اور لگن کے ساتھ محنت کرنے پر بھی صلہ نہیں پارہا تو ہوسکتا ہے کہ وہ غلط جگہ، ناموزوں ماحول میں کام کر رہا ہو۔ نپولین ہل نے اپنی عظیم کاوش کے ذریعے عام آدمی کو یہ سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ اگر وہ کچھ بننا اور کچھ کرنا چاہتا ہے تو اُسے بہت سی باتوں کا خیال رکھنا پڑے گا اور اپنی زندگی کا پورا ڈھانچا بدلنا پڑے گا۔ نُور اور ظلمت کے لیے ساتھ ساتھ سفر ممکن نہیں۔ نیکی اور بدی بھی ساتھ ساتھ نہیں چل سکتیں۔ سُستی اور چُستی کے لیے بھی ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر چلنا ممکن نہیں۔ ایسے میں ہم یہ کیسے فرض کرلیں کہ کوئی شخص کامیابی کی شدید خواہش رکھتے ہوئے بھی کامیاب ہوسکتا ہے جبکہ وہ کامیابی کو یقینی بنانے کے لیے لازم سمجھے جانے والے افکار و اعمال کو گلے لگانے کے لیے تیار نہ ہو؟

نپولین ہل کہتے ہیں کہ جب بھی کوئی انسان اپنے آپ کو بھرپور کامیابی کے لیے تیار کرنا چاہتا ہے تو پہلے مرحلے میں لازم ٹھہرتا ہے کہ وہ اپنی زندگی کے موجودہ ڈھانچے کا جائزہ لے۔ اگر وہ چند ایک بُری عادات کو اپنائے ہوئے ہے تو پہلے اُن بُری عادات سے چھٹکارا پانا ہوگا۔ ایسا کیے بغیر آگے نہیں بڑھا جاسکتا۔ اور بُری عادات سے چھٹکارا پانا ہی کافی نہیں۔ چند اچھی عادات کو اپنانا بھی پڑے گا۔ اچھی عادات کو اپنانے ہی سے زندگی میں وہ توازن پیدا ہوتا ہے جو حقیقی کامیابی اور مسرّت کو یقینی بنانے کے لیے درکار ہوا کرتا ہے۔

نپولین ہل کو چاہنے اور اُن کا احترام کرنے والوں میں دو امریکی صدور بھی شامل ہیں۔ دنیا بھر میں کاروباری دنیا کے ساتھ ساتھ کھیل، شوبز، ادب اور دیگر شعبوں کی ہزاروں نمایاں شخصیات نے بھی نپولین ہل کو کھل کر سراہا ہے۔ ان کی عظیم تصنیف اشاعت کے 89 سال بھی مثالی مقبولیت سے ہم کنار ہے۔ آج بھی دنیا بھر میں لاکھوں افراد اس عظیم کتاب کے مطالعے کی مدد سے اپنی زندگی کا رخ بدلنے اور کچھ کر دکھانے کی لگن کو بروئے کار لانے میں مصروف ہیں۔ اگر کوئی شخص اپنی زندگی میں کوئی عظیم، قابل رشک تبدیلی لانا چاہتا ہے تو ابتدائی مرحلے میں اُسے ذہنی تیاری کے لیے نپولین ہل کی کتاب سے زیادہ مدد کسی بھی کتاب سے نہیں مل سکتی۔ یہ ایک کتاب اُس کی سوچ کا رخ بدل سکتی ہے اور وہ اب تک ناکارہ سمجھے جانے والے تصورات کو گلے لگانے کے لیے تیار ہوسکتا ہے۔

کامیابی کا مفہوم :
بھرپور کامیابی کی خواہش رکھنے والوں کے لیے پہلے مرحلے میں یہ لازم ہے کہ وہ کامیابی کے مفہوم کو سمجھیں۔ جب تک ذہن میں کامیابی کا مفہوم واضح نہ ہو تب تک کامیابی کا حصول ممکن نہیں بنایا جاسکتا۔ کامیابی کا کوئی ایک مفہوم متعین نہیں۔ ہر انسان کے نزدیک کامیابی الگ مفہوم رکھتی ہے۔ کسی کو زیادہ سے زیادہ دولت کے حصول میں کامیابی دکھائی دیتی ہے۔ کوئی یہ سمجھتا ہے کہ پُرسکون زندگی بسر کرنا ہی کامیابی ہے۔ کسی کا یہ خیال ہے کہ جو لوگ اپنی دولت صرف اپنی زندگی کا معیار بلند کرنے پر صرف کرتے ہیں وہی حقیقی کامیابی سے ہم کنار ہیں۔ کسی کا یہ خیال ہے کہ اپنی دولت سے اپنی ذات کے ساتھ ساتھ دوسروں کو بھی فائدہ پہنچانا حقیقی کامیابی ہے۔ کوئی چاہتا ہے کہ زندگی بھر دوسروں کی مدد کرتا رہے۔ اِسی کو وہ حقیقی کامیابی تصور کرتا ہے۔ کوئی زیادہ سے زیادہ علم کے حصول کو کامیابی گردانتا ہے۔ کسی کا یہ خیال ہے کہ زیادہ سے زیادہ علم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ اُسے دوسروں تک پہنچانا بھی کامیابی کی نمایاں ترین علامات میں سے ہے۔ کسی کے نزدیک علم کی کوئی وقعت نہیں۔ صرف دولت، شہرت اور مقبولیت کا حصول ہی حقیقی کامیابی ہے۔

کامیابی کا کوئی ایسا مفہوم متعین نہیں کیا جاسکتا جس سے غیر معمولی کامیابی کی خواہش رکھنے والے تمام افراد متفق ہوں۔ اس دنیا میں ہر شخص بہت کھ پانا چاہتا ہے۔ بہت کچھ پانے اور سب کچھ پانے میں بہت فرق ہے۔ کچھ لوگ چاہتے ہیں کہ اُنہیں پوری دنیا مل جائے۔ یہ تو ممکن نہیں۔ ہاں، اِس کوشش میں اپنے وجود کی کشتی ڈوب جانے کا خطرہ البتہ موجود ہے۔ جو لوگ مرحلہ وار آگے بڑھتے ہیں وہ زیادہ کامیاب رہتے ہیں۔ انہیں اپنی کمزوریوں اور خامیوں کا بھی اندازہ ہوتا ہے۔ ہر انسان میں کچھ طاقت اور کچھ کمزوری ہوتی ہے۔ چند ایک معاملات میں وہ دوسروں سے زیادہ باصلاحیت اور بعض دوسرے معاملات میں دوسروں سے خاصا کم باصلاحیت ہوتا ہے۔ جہاں اُس کی صلاحیت زیادہ ہو وہاں اُسے دوسروں کے کام آنا چاہیے اور جہاں اُس میں کم صلاحیت ہو وہاں اُسے دوسروں سے مستفید ہونا چاہیے۔ اِسی کا نام زندگی اور کامیابی ہے۔ ہم اگر بھرپور کامیابی حاصل کرنا چاہتے ہیں تو گفتگو اور مطالعے کے ذریعے سمجھنا پڑے گا کہ حقیقی کامیابی کیا ہے اور ہماری مذہبی تعلیمات اس حوالے سے کیا کہتی ہیں۔ اگر انسان مذہبی ہو یا مذہبی عقائد اور تصورات کے معاملے میں راسخ ہو تو اُسے اپنی ذاتی کامیابی کا مفہوم متعین کرتے ہوئے ان عقائد اور تصورات کو بھی ذہن نشین رکھنا ہوگا۔

زیادہ سے زیادہ دولت کا حصول کیوں ضروری سمجھا جاتا ہے؟ زیادہ سے زیادہ سہولتوں کا حصول یقینی بنانے کے لیے۔ اگر انسان کے پاس دولت زیادہ ہو وہ ضرورت کی کوئی بھی چیز آسانی سے خرید کر زندگی کا معیار بلند کرسکتا ہے۔ دولت ہی کی مدد سے اولاد کو بہتر تعلیم دلائی جاسکتی ہے تاکہ ان کی عملی زندگی زیادہ بامقصد اور بارآور ہو۔ ایسے میں زندگی کا زیادہ سے زیادہ پُرسکون ہونا لازم ہے۔ اگر بہت دولت کماکر بھی کوئی حقیقی ذہنی سکون کی منزل سے دور ہے تو اُسے اپنی زندگی کے ساتھ ساتھ اپنی کارکردگی اور کام کرنے کے طریقوں کا بھی جائزہ لینا چاہیے۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ کوئی شخص صرف دولت کمانے میں مصروف رہتا ہے مگر دولت کو موثر طور پر استعمال نہیں کر پاتا۔ اس کے نتیجے میں اُس کی زندگی میں وہ سب کچھ نہیں آتا جو آنا چاہیے۔ ایسا شخص بہت زیادہ دولت پاکر بھی غریبوں ہی کی سطح پر رہتا ہے۔ کچھ لوگ علم حاصل کرنے پر توجہ دیتے ہیں مگر اُسے دوسروں تک پہنچانے میں ذرا بھی دلچسپی نہیں لیتے۔ ایسے لوگوں کے لیے زندگی کا کچھ زیادہ مفہوم باقی نہیں رہتا۔ وہ زندگی بھر کتابوں میں گم رہتے ہیں اور متمول زندگی بسر کرتے ہیں مگر حقیقی مسرّت انہیں چُھوکر بھی نہیں گزرتی۔

کامیابی کے بارے میں زیادہ سے زیادہ سوچنا انسان کو ایک ایسی زندگی کی طرف لے جاتاہے جس میں حقیقی مسرّت پائی جاتی ہے۔ جب کوئی شخص کامیابی کے بارے میں دن رات سوچتا ہے تو اپنی صلاحیتوں کا جائزہ بھی لیتا ہے اور ساتھ ساتھ سکت کا بھی اندازہ لگاتا ہے۔ اگر صلاحیتوں میںکمی پائی جاتی ہو تو انسان اسے دور کرنے کی کوشش بھی کرتا ہے تاکہ عملی سطح پر کچھ کرتے وقت زیادہ الجھن کا سامنا نہ کرنا پڑے۔

صرف دولت نہیں … شخصی ارتقاء بھی!
سو سوا سو سال کے دوران یہ تصور بہت تیزی سے پروان چڑھا ہے کہ ہر شخص کو اپنے ارتقاء پر توجہ دینی چاہیے۔ اِسے شخصی ارتقاء کا نام دیا گیا ہے۔ اس کا آسان سا مطلب یہ ہے کہ ہر انسان کو اپنی شخصیت کا ارتقاء یقینی بنانے پر توجہ دینی چاہیے تاکہ دنیا کو معلوم ہو کہ اُس میں کچھ نیا پیدا ہوا ہے، وہ اب پہلے جیسا نہیں رہا بلکہ اندرونی سطح پر پنپ کر نئی زندگی کی طرف آیا ہے۔ جو لوگ اپنی زندگی میں کچھ معنویت پیدا کرنا چاہتے ہیں اُن کے لیے بہت سے معاملات کو بدلنا لازم ٹھہرتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ عام آدمی کے نزدیک کامیابی یہ ہے کہ انسان کے پاس اپنی ضرورت سے کہیں زیادہ دولت ہو اور وہ کسی بھی معاملے میں دولت کی کمی کے نتیجے میں پیدا ہونے والے اضطراب کا شکار نہ ہو۔ یہ سب ٹھیک ہے مگر اب کامیابی کا مفہوم صرف دولت کے حصول تک محدود نہیں رہا۔ جو لوگ بہت زیادہ دولت کمانے کی پوزیشن میں ہوتے ہیں وہ اور بھی بہت کچھ حاصل کرنے کی تمنا رکھتے ہیں۔ اُن کے دل میں دولت کی منزل سے تھوڑا آگے جانے کی خواہش انگڑائیاں لینے لگتی ہے۔ دولت مند افراد اب شہرت اور مقبولیت بھی چاہتے ہیں۔ شہرت اور مقبولیت کے بغیر محض دولت مند ہونا انسان کو ادھورے پن کا احساس دلاتا رہتا ہے۔ اب یہ تو طے ہے کہ شہرت اور مقبولیت بھی یونہی نہیں مل جایا کرتی اس لیے دولت مند افراد یہ دونوں اوصاف پانے کے لیے دولت کا ایک حصہ نکالنے اور خرچ کرنے میںکوئی قباحت محسوس نہیں کرتے۔ بعض مالدار افراد اپنی توقیر کا اہتمام کرنے کے لیے فلاحی کام کرتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ لوگ اُنہیں محض دولت مند سمجھ کر حقارت یا حسد کی نظر سے نہ دیکھیں بلکہ فلاحی کاموں کے حوالے سے بھی یاد رکھیں اور احترام کی نظر سے دیکھیں۔ اگر نیت نیک ہو تو ایسا کرنے میں کچھ خاص قباحت بھی نہیں۔

ایک زمانہ تھا کہ جب کوئی بھرپور ترقی چاہتا تھا یا کامیابی کا خواہش مند ہوتا تھا تو رات دن زیادہ سے زیادہ دولت حاصل کرنے کے لیے بے تاب رہا کرتا تھا۔ اب ایسا نہیں ہے۔ کامیابی کا تصور اب شخصی ارتقاء سے جُڑ گیا ہے۔ شخصی ارتقاء کا مفہوم یہ ہے کہ اب زیادہ دولت کمانے کے خواہش مند افراد اپنے شعبے میں مختلف حوالوں سے نمایاں ہونے کے ساتھ ساتھ اپنی شخصیت میں مثبت تبدیلی یعنی ارتقاء بھی چاہتے ہیں۔ اگر انسان کے پاس بے حساب دولت ہو مگر اُس کی شخصیت میں جان نہ ہو تو دولت کسی کام کی نہیں رہتی۔ آج کے کامیاب افراد صرف دولت کے دائرے میں گھومتے رہنے کو ترجیح نہیں دیتے بلکہ اُن کی کوشش ہوتی ہے کہ شخصیت مجموعی طور پر ارتقاء سے ہم کنار ہو، پروان چڑھے۔ یہی سبب ہے کہ فی زمانہ کامیابی کا مفہوم شخصی ارتقاء سے وابستہ ہوگیا ہے۔ آج کا ہر کامیاب انسان دولت کے حصول کے ساتھ ساتھ اپنی صلاحیتوں میں نکھار پیدا کرکے شخصیت کو زیادہ سے زیادہ اجالنا چاہتا ہے۔

اپنے طور پر کامیابی کا حصول :
ایک اہم سوال یہ ہے کہ کیا اپنے طور پر کامیاب ہوا جاسکتا ہے؟ اس سوال کا جواب تلاش کرنے کے لیے ہمیں اپنے آپ سے بہت کچھ پوچھنے کے ساتھ ساتھ دوسروں سے بھی بہت کچھ دریافت کرنا پڑے گا۔ جن لوگوں نے اپنے اپنے شعبے میں فقید المثال کامیابی حاصل کی ہے اُن سے براہِ راست گفتگو کرکے ہم کامیابی کے بارے میں بہت کچھ جان سکتے ہیں۔ ان کے تجربات کی روشنی میں ہم اپنے لیے کوئی واضح راہ متعین کرسکتے ہیں۔ بات یہیں پر ختم نہیں ہوتی۔ اگر ہم واقعی حقیقی اور بھرپور کامیابی چاہتے ہیں تو ہمیں بہت کچھ پڑھنا، دیکھنا اور سننا بھی پڑے گا۔ ہم خواہ کسی ماحول میں ہوں، کچھ نہ کچھ سیکھنے کو ملتا ہی رہتا ہے۔ جولوگ اپنے طور پر کامیاب ہونے کا ذہن بناکر آگے بڑھنا چاہتے ہیں وہ بھی کسی نہ کسی حد تک کامیاب ہو ہی سکتے ہیں۔ وہ لوگ البتہ زیادہ فائدے میں رہتے ہیں جو بہت کچھ سوچ کر، کوئی واضح مقصد متعین کرکے کسی سے مشاورت کی روشنی میں آگے بڑھتے ہیں۔ انہیں دوسروں سے بہت کچھ سیکھنے کا موقع بھی ملتا ہے۔ جب وہ مشاورت کے عمل سے گزرتے ہیں تو ذہن کی بہت سی گرہیں کھل جاتی ہیں اور وہ بہت آسانی سے یہ سمجھ سکتے ہیں کہ کامیاب ہونا ناممکن تو نہیں مگر اس کے لیے محنت بہت کرنا پڑتی ہے اور ساتھ ساتھ بہت سے دوسرے امور کا بھی خاص خیال رکھنا پڑتا ہے۔ ایسا کیے بغیر آگے بڑھنے کی تمنا رکھنے والے بالعموم زیادہ کامیاب نہیں ہو پاتے یا پھر ناکامی کی وادی میں بھٹکتے رہتے ہیں۔

آج کی دنیا میں جہاں اور بہت سے شعبوں میں ہر طرح کی رہنمائی گھر بیٹھے میسّر ہے وہیں کامیابی اور شخصی ارتقاء کے حوالے سے بھی مطبوعہ، سمعی اور بَصری مواد کی کمی نہیں۔ ہزاروں کتابیں آن لائن یعنی انٹر نیٹ پر دستیاب ہیں۔ بہت سی ویب سائٹس خالصاً اِس لیے چلائی جارہی ہیں کہ لوگوں کو بہتر زندگی بسر کرنے اور بھرپور کامیابی یقینی بنانے کی لگن پیدا کرنے میں مدد ملے۔ اپنی اصلاح پر مائل ہونے والوں کی بھرپور رہنمائی کے لیے ہزاروں آن لائن جرائد دستیاب ہیں۔ بہت سے خصوصی پروگرام اور سیمینار بھی کامیابی کے متلاشی افراد کی معاونت کے لیے آن لائن موجود ہیں۔ جن کے سینے میں کچھ سیکھنے کی لگن کا چراغ جل رہا ہے وہ جب چاہیں بہتر زندگی بسر کرنے کے آزمودہ طریقوں سے بخوبی واقف ہوسکتے ہیں۔ دنیا بھر میں ایسے ہزاروں ماہرین موجود ہیں جو کامیابی کی خواہش رکھنے والوں کو زیادہ سے زیادہ اور موثر طور پر کام کرنے کی تحریک دینے کے لیے دن رات مشاورت کی منزل سے گزار رہے ہیں۔ ترقی یافتہ اور تیزی سے ترقی کرتے ہوئے معاشروں میں بہتر زندگی بسر کرنے کی تحریک دینے کا کلچر بہت تیزی سے پروان چڑھا ہے۔ ایک صدی کے دوران ایسی لاکھوں کتابیں اور مضامین شائع ہوئے ہیں جنہیں پڑھ کر کروڑوں افراد نے اپنی زندگی میں کچھ نہ کچھ بہتری لانے کی تحریک پائی ہے اور پھر انہوں نے بھرپور لگن اور محنت سے اپنی زندگی کا معیار اِس طور بلند کیا ہے کہ دیکھنے والے حیران رہ گئے ہیں۔

حصہ