بت پرستی کا سفر

157

سب سے پہلے پیغمبر تھے آدم شفیع۔ شیش کو ان کے بعد نبوت ملی۔ تمام انبیائے کرام اور رسولوں نے وحدہ لاشریک یعنی لا الٰہ الااللہ کی دعوت دی اور شیطان مردود نے اولادِ آدم کی دشمنی میں لوگوں کو شرک کی جانب بلایا۔ اس نے یہ مکاری براہِ راست نہیں کی بلکہ کسی نہ کسی برگزیدہ شخص کی شہرت، عوامی مقبولیت اور ان کے حوالے سے عقیدت کو لوگوں کے دلوں میں اس قدر بٹھایا کہ لوگ اس شخصیت کو اپنی دنیوی اور اُخروی کامیابی کا ذریعہ یا وسیلہ سمجھنے لگے۔

بت پرستی کی ابتدا کیسے ہوئی
دنیا میں آج بھی ایسی قومیں بڑی تعداد میں ہیں جو خدائے واحد کی ذات کو چھوڑ کر بتوں کی پرستش میں مبتلا ہیں۔ بت پرستی اُن سنگین گناہوں میں سے ایک ہے جسے حق تعالیٰ کبھی معاف نہیں فرمائیں گے۔ حق تعالیٰ دیگر گناہوں کو اپنی رحمت سے معاف کرسکتے ہیں لیکن بت پرستی اور شرک و کفر کو بغیر توبہ کے ہرگز معاف نہیں فرمائیں گے۔ مختلف قومیں مختلف قسم کے بتوں کی پوجا کرتی ہیں اور ان کے پوجنے کی نوعیت بھی ایک دوسرے سے مختلف ہے۔ ہر ایک کی طرزِ عبادت جدا ہوتی ہے۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دنیا میں بت پرستی کی ابتدا کیسے ہوئی اور سب سے پہلے کس نے شروع کی؟

بت پرستی کا آغاز کیسے ہوا؟ اس کے متعلق جاننے سے قبل یہ جان لیں کہ بت پرستی کیا ہوتی ہے۔ بت پرستی میں لوگ کسی شخص یا شبیہ کی ظاہری شکل و صورت لکڑی، دھات، پتھر یا مٹی وغیرہ سے بناکر اسے معبود گردانتے ہیں اور اسے اپنا حاجت روا، مشکل کشا اور خدا سمجھتے ہیں، اس کو راضی کرنے کے لیے اس کی عبادت اور پرستش کرتے ہیں۔ اب ہم سوال کے اصل جزو کی طرف آتے ہیں کہ بت پرستی کی ابتدا کب ہوئی؟

بت پرستی کی تاریخ بہت قدیم ہے اور اس کی ابتدا اس طرز پر ہوئی کہ حضرت نوح علیہ السلام کی قوم کے جو نیک اور صالح افراد تھے، ان کی وفات کے بعد لوگ بطور یادگار ان کی مورتیاں تراش کر ان کو اپنے بزرگوں کا نام دے دیتے تھے مثلاً ود، شواع، یعوق اور نسر۔ لیکن ان کی عبادت نہیں کرتے تھے۔ پھر رفتہ رفتہ لوگوں میں جہالت اور بے دینی عام ہوتی گئی اور انہوں نے ان مورتیوں کو معبود کا درجہ دینا شروع کردیا۔ یوں بت پرستی کی ابتدا ہوئی۔

بخاری شریف میں روایت موجود ہے کہ حضرت نوح علیہ السلام کی قوم کے نیک لوگوں کی جب وفات ہوگئی تو شیطان نے اُن کی قوم کے دل میں یہ بات ڈال دی کہ ان کی مجلسوں میں (جہاں وہ بیٹھتے تھے) اُن کے بت نصب کردیں اور ان بتوں کے نام اپنے نیک لوگوں کے نام پر رکھ دیں۔ چناں چہ ان لوگوں نے ایسا ہی کیا۔ البتہ اُس وقت ان بتوں کی پوجا نہیں ہوتی تھی، لیکن جب وہ لوگ بھی مر گئے جنہوں نے بت بنائے تھے اور ان کے بعد لوگوں میں علم باقی نہ رہا تو انہوں نے ان بتوں کو پوجنا شروع کردیا۔ (صحیح بخاری حدیث نمبر 4920)

اس روایت سے معلوم ہوا کہ بت پرستی کی ابتدا اور آغاز حضرت نوح علیہ السلام کی قوم سے ہوا۔ جزیرۃ العرب میں بت پرستی کی ابتدا کرنے والے کا نام ’’عمرو بن عامر بن لحی الخزاعی‘‘ ہے، چناں چہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے متعلق ارشاد فرمایا:

’’میں نے عمرو بن عامر بن الحی الخزاعی کو دیکھا کہ وہ جہنم میں اپنی انتڑیاں گھسیٹ رہا تھا اور وہ پہلا شخص ہے جس نے سائبہ کی رسم نکالی۔‘‘ (بخاری)

’’سائبہ‘‘ اُس جانور کو کہتے ہیں جسے وہ اپنے معبودوں کے نام پر چھوڑ دیتے تھے، وہ نہ اس پر بوجھ لادتے ہیں اور نہ سواری کرتے ہیں۔

عرب میں بت پرستی کی ابتدا کس نے کی؟
عمرو بن لحی الخزاعی نے ایک دفعہ ملک شام کا سفر کیا تو اس نے وہاں کے لوگوں کو بت پرستی میں مبتلا دیکھا۔ چوں کہ شام انبیا علیہم السلام کی سرزمین ہے، چناں چہ اُس نے بت پرستی کو دینِ حق سمجھ کر اختیار کرلیا اور اپنے ساتھ ہبل بت لے کر آیا اور اسے خانۂ کعبہ کے اندر نصب کردیا۔ اہلِ مکہ عمرو کو اپنا پیشوا سمجھتے تھے لہٰذا اس کی پیروی میں انہوں نے بھی اس بت کی پوجا شروع کردی، اور پھر بت پرستی میں ترقی ہوتی گئی اور ایسا دور بھی آیا کہ خانہ کعبہ میں تین سو ساٹھ بت رکھ دیے گئے۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام کا زمانہ بھی بت پرستی اور ستاروں کی پرستش کا زمانہ تھا۔ روایت میں آتا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا باپ آذر سب سے بڑا مذہبی پیشوا تھا، اسی کے بنائے ہوئے بتوں کی پرستش ہوا کرتی تھی۔ آپؑ کے زمانے میں کہیں بھی وحدہٗ لاشریک کی عبادت نہیں ہوتی تھی۔ خود نمرود خدا بن بیٹھا تھا۔ قرآنِ مقدس میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی حق کی جستجو کا واقعہ بڑی صراحت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے کہ کس طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام نے پہلے قطب ستارے، بعد میں چاند اور آخر میں سورج کو معبود سمجھا مگر ڈوب جانے کے بعد آپؑ نے جو کلمات ادا کیے وہ یہ ہیں ’’میں نے تو پوری طرح اپنا رُخ اُس ذات کی جانب کرلیا جو زمین و آسمان کا خالق ہے اور میں مشرکوں میں سے نہیں ہوں۔‘‘ (سورۃ الانعام 79)

دراصل شیطان کا مشن یہ ہے کہ وہ انسان کو رب کی پرستش سے نکال کر غیر اللہ کی پرستش میں لگا دے۔ زمانۂ قدیم سے ہندوستان بت پرستی کا مرکز رہا ہے اور پوری دنیا میں سب سے زیادہ یعنی ایک ارب سے زائد ہندو اپنے ہاتھوں سے تراشے ہوئے دیوی، دیوتاؤں کی پوجا کرتے ہیں۔ یہ دیومالائی قصے کہانیوں پر مشتمل عقل سے ماورا مذہبی داستانیں ہیں اور دُنیوی تعلیمات کے اعلیٰ درجے کے ہندو بھی بندر، سانپ، چوہے اور پتھر کی مورتیوں کے علاوہ شیو بھگوان اور پاروتی کی پوجا کرتے ہیں۔ اب تو آئے دن شعبدہ باز شخصیات کو بھگوان سمجھ کر پوجا شروع کردی جاتی ہے، حتیٰ کہ مشہور اداکار امیتابھ بچن کی بھی پوجا شروع ہوگئی ہے اور اس کے نام سے ممبئی میں مندر بھی بنا لیا گیا ہے۔ جنوبی ہندوستان میں تو تمام مشہور اداکاروں اور اداکاراؤں کی پوجا ہوتی ہے۔ سناتن دھرم کی وید کی کتابیں رگ، سام، اتھرو اور چتروید میں کہیں بھی مورتی پوجا کا ذکر نہیں ہے بلکہ اس سے منع کیا گیا ہے۔ نیز بھگوان یعنی تخلیقِ کائنات کرنے والے کو ’’پرماتما‘‘ اور ’’نرنکار‘‘ کہا گیا ہے اور اس کا کوئی شریک نہیں ہے۔

اللہ نے قرآن مجید میں شرک کو ظلمِ عظیم اور ناقابلِ معافی گناہ قرار دیا ہے۔ اللہ کا ذاتی نام صرف اللہ ہے باقی تمام 99 نام صفاتی ہیں۔ جب ان ناموں کے لغوی اور اصطلاحی مفہوم کا مطالعہ کرتے ہیں تو یہ بات اظہر من الشمس ہو جاتی ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے، اور نہ کسی کو اپنے ذاتی اختیارات حاصل ہیں۔ بندے کے پاس جو کچھ بھی ہے وہ اللہ کا بخشا ہوا ہے، اور وہ جب چاہتا ہے سلب کرلیتا ہے۔

بت پرستی کی ابتدا کسی بھی حوالے سے ہوجاتی ہے۔کسی شخص کی شہرت و مقبولیت کی وجہ سے لوگ اس کی قدر و منزلت کرنے کے ساتھ ساتھ اس کی محبت و عقیدت میں اس قدر مبتلا ہو جاتے ہیں کہ اس کی ہر بات پر یقین کرنا شروع کر دیتے ہیں اور اس کو اپنی حاجت روائی اور مشکل کشائی کا وسیلہ بنا لیتے ہیں یا پھر خود کو بااختیار سمجھ کر اس کے سامنے یا پھر اس کی قبر کو سجدہ گاہ بنا لیتے ہیں۔

یہی بات مشرکینِ مکہ کہا کرتے تھے کہ یہ بت ہماری سفارش کرتے ہیں، ان کی سفارش کے بغیر ہمارے مسائل حل نہیں ہوں گے۔

سورۃ البقرہ کی آیت 186 میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ ’’اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم اگر میرے بندے میری متعلق پوچھیں تو کہہ دو کہ میں ان کی شہہ رگ کے قریب ہوں اور ان کی پکار سنتا ہوں۔‘‘ قرآن مجید میں صراحت کے ساتھ بت پرستی کی نفی کی گئی ہے اور بت پرستوں کو جہنم کے عذابِ الیم سے ڈرایا گیا ہے۔

مشرکینِ مکہ نے اپنے تمام بتوں کا کسی نہ کسی طرح کا رشتہ اللہ سے جوڑ دیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ پوچھنے آئے کہ آپؐ جس اللہ واحد کی پرستش کا کہتے ہیں اس سے آپ کا کیا رشتہ ہے؟ تو اللہ نے سورہ اخلاص نازل فرمائی:

’’کہہ دو کہ اللہ ایک ہے۔ وہ ہر چیز سے بے نیاز ہے۔ نہ اس نے کسی کو جنا ہے، نہ اس کو کسی نے جنا ہے۔ اس کے اقتدار اور اختیار میں کوئی شریک نہیں ہے۔‘‘ یہ اللہ وحدہٗ لاشریک اور قرآن کی سورتوں میں معبودِ الٰہی ہونے کا خلاصہ ہے۔

اللہ سمیع بھی ہے اور بصیر بھی، علیم بھی ہے اور خبیر بھی، رحمن بھی ہے رحیم بھی، ستار بھی ہے اور غفار بھی، اور باغیوں اور مشرکین کے لیے قہار اور جبار بھی ہے۔ وہ اپنے ہر بندے کو دیکھ رہا ہے کہ کون کیا کر رہا ہے۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے صحابہ کرامؓ کی محبت و عقیدت کا عالم یہ تھا کہ آپؐ کے وضو کے پانی کو اصحابؓ اپنے چہروں پر مل لیا کرتے تھے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’جب تم کسی محفل میں بیٹھے ہو اور کوئی قابلِ احترام شخص آئے تو کھڑے نہ ہو۔‘‘

آپؐ نے فرمایا کہ ’’جب کوئی شخص جو تم سے رتبے میں چھوٹا ہو اور تمہاری تعریف تمہارے منہ پر کرے تو اُس کے منہ میں خاک۔‘‘

مگر آپؐ نے بڑوں کو حکم دیا کہ چھوٹوں کی حوصلہ افزائی کرو۔ آپؐ نے صحابہؓ کو خطابات سے نوازا۔ حضرت ابو بکرؓ کو ’’صدیق‘‘ کا لقب، حضرت خالد بن ولیدؓ کو ’’سیف اللہ‘‘ اورحضرت عبیدہؓ بن الجراح کو ’’امین الامت‘‘ کے لقب عطا کیے۔

حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس معاملے میں بہت زیادہ حساس تھے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی رحلت کے بعد اصحابِ رسول پر تو غشی طاری تھی۔ عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو جب آپؐ کی رحلت کی خبر ملی تو آپ تلوار لے کر نکل گئے اور کہا کہ ’’خبر دار اگر کسی نے یہ کہا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہم سے جدا ہو گئے تو میں اس کی گردن مار دوں گا۔‘‘ یہ تھی محبت۔ مگر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی رحلت کے بعد لوگوں نے جب اُس کھجور کے درخت سے عقیدت شروع کر دی جس سے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم صلح حدیبیہ کے موقع پر ٹیک لگا کر بیٹھے تھے تو عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے درخت کو اکھاڑ کر پھینکا ہی نہیں بلکہ اسے جلوا دیا۔ آپؓ نے لکڑی کے اُس منبر کو بھی جلوادیا جس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھ کر خطبہ دیا کرتے تھے‘ کہ کہیں لوگ آپؐ کی محبت و عقیدت میں اس قدر آگے نہ بڑھ جائیں کہ منبرکی پرستش شروع کر دیں۔ آپؓ نے ایک مرتبہ طوافِ کعبہ کے دوران حجرہ اسود کے سامنے کھڑے ہوکر اپنی تلوار نکالی اور کہا ’’اے سنگ اسود! میں اس لیے تجھے بوسہ دیتا ہوں کہ میرے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے تجھ کو بوسہ دیا ہے، ورنہ تیری حیثیت ایک پتھر کے سوا کچھ بھی نہیں۔‘‘ آج بھی آپؐ کے استعمال کی بہت ساری مقدس اشیاء ترکی کے عجائب گھر اور دنیا کے دیگر ممالک میں محفوظ ہیں جن میں آپؐ کی گیارہ تلواریں، جبہ مبارک، نعلین اور موئے مبارک و دیگر مقدسات شامل ہیں جن کی زیارت سے آنکھوں کو ٹھنڈک ملتی ہے۔ لیکن یہ عقیدت و محبت نسبت ِرسولؐ سے ہے، نہ کہ آپؐ کی پرستش سے۔

شرک کے مختلف عنوانات ہیں: نظامِ باطل کے عَلم برداروں سے محبت و عقیدت، نظامِ باطل کے زیر انتظام ہنسی خوشی سے، رضاسے زندگی بسر کرنا… اگر مجبوری کے تحت کچھ نہیں کر سکتے تو اس کی مذمت کریں، دل میں برا سمجھیں یا پھر اس کے خلاف جدوجہد کرنے والوں کا ساتھ دیں۔ اگر یہ نہیں کر سکتے تو شرک کا ارتکاب کر رہے ہیں۔ مسلمانوں سے براہ ِراست بت پرستی کا ارتکاب تو نہیں ہوتا مگر مختلف مسالک اور فرقوں میں ولیوں، اصحاب اور بزرگانِ دین کو اپنا حاجت روا اور مشکل کشا بنا لیا گیا ہے جو کھلا شرک ہے۔ مزاروں کو سجدہ گاہ اور مدفون شخصیات کو وسیلہ بنا کر ان سے حاجت روائی کی فریاد شرک کے سوا کچھ بھی نہیں۔

اسلام آنے سے قبل الہامی کتابوں کے ماننے والے یہود ونصاریٰ نے حضرت عزیر علیہ السلام کو، اور عیسائیوں نے حضرت عیسیٰؑ کو اللہ کا بیٹا بنادیا، اور تثلیث کی پرستش شروع کر کے شرک کا ارتکاب کرتے ہیں۔ زرتشت آگ کی پوجا، بودھی بدھا کی پوجا اور ہندو ہزاروں لاکھوں دیوی دیوتاؤں اور جانوروں اور شجر و حجر کی پرستش کر رہے ہیں۔

حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر اللہ کے آخری رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم تک ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیائے کرام اور رسولوں نے صرف اور صرف اللہ وحدہٗ لا شریک کی عبادت اور اپنی پیروی اور فکرِ آخرت کی دعوت دی ہے۔ مگر آج دنیا بھر میں انسانوں کی اکثریت یا تو شرک میں مبتلا ہے یا لادین ہے۔

یہ دور اپنے براہیمؑ کی تلاش میں ہے
صنم کدہ ہے جہاں لا الٰہ الااللہ
یہ مال و دولتِ دنیا یہ رشتہ و پیوند
بتانِ وہم و گماں لا الٰہ الااللہ
٭
خدا سے بت کدے میں نعرہ مستانہ مانگا ہے
حکیمانہ تفکر جذبہ رندانہ مانگا ہے
تڑپ اٹھیں جسے پڑھ کر مسلمانانِ عالم سب
رسولِ ہاشمیؐ سے حکم کا پروانہ مانگا ہے

چاند ستاروں پر کمند ڈالنے والے، سمندروں کی گہرائیوں میں کھوج لگانے والے اپنے ہی بنائے ہوئے بتوں اور بے اختیار انسانوں کی پرستش کرتے ہیں اور جب مصیبت میں گرفتار ہوتے ہیں تو اللہ سے مدد طلب کرتے ہیں۔

چل دیے سوئے حرم کوئے بتاں سے مومن
جب دیا رنج بتوں نے تو خدا یاد آیا

حصہ