آخر شب کے ہم سفر

92

دیپالی سرجھکا کر سڑک پر دیکھنے لگی۔ مٹی میں کانچ کی سُرخ چوڑیوں کے چند ٹکڑے چمک رہے تھے۔ اس نے انگوٹھے کی نوک سے ایک ٹکڑے کو چھوا اور ایک قدم پیچھے ہٹی۔ باڑ پر پھیلی بیل پر سے ایک گرگٹ اچھل کر پتوں کے اندر چلا گیا۔ دورسری سدن میں چند لڑکیوں نے گانا شروع کردیا تھا۔ نتائی ڈاکے آئی آئی گوڑ ڈاکے کے آئی آئی

’’یہاں اونل کمار داس تم سے رابطے رکھے گا‘‘۔ سنیاسی کی آواز اس کے کانوں میں آئی۔
’’بہت اچھا‘‘۔

’’سنتھال پرگنہ سنیاس لینے کے لئے آئیڈیل جگہ ہے۔ مگر ہم یہاں سے بھی ڈیراڈنڈا اُٹھا کر کوچ کرگئے ہیں۔ اگر ہمیں تمہاری مدد کی ضرورت پڑی تو تیار رہنا۔ شوکتی‘‘۔
’’بہت اچھا‘‘۔

قریب سے چند سنتھال عورتیں سروں پر ٹوکرے اُٹھائے گزر گئیں۔ ان کے پیچھے طلباء کی ایک ٹولی ٹہلتی ہوئی آرہی تھی۔

’’اچھا۔ جیتی رہو۔ بچہ خوش رہو۔ ہم جاتے ہیں‘‘۔ سنیاسی نے آشیر واد دی اور تیزی سے آگے بڑھ گیا۔

دیپالی اُسے چاندنی کے خنک دھندلکے میں غائب ہوتے دیکھتی رہی۔ پھر وہ آہستہ آہستہ واپس ہوئی۔ برگد کا چبوترہ اب بھی سنساہ پڑا تھا… آج شام… آج شام میں سوچ رہی تھی کہ کاش… اس نے ایک پتہ اُٹھا کر ناک سے چھوا۔ اور اپنے آپ سے کہا، کلپ ترو!

پھر اس نے درختوں کے اس جھنڈ کا چکر لگایا۔ برہمو معبد میں چراغ سکون سے جل رہا تھا۔
آمار پرانیر آرام
مونیر آنند
آتمار شانتی
اس نے چپکے سے دل میں دہرایا۔ اور دل ہی دل میں مسکراتی، روزی بنرجی کو خط لکھنے کے ارادے سے اپنے کمرے کی سمت روانہ ہوگئی۔

(11)
لِلی کاٹج
لِلی کاٹج میں سہ پہر کی چائے کے انتظامات بڑے زوروں پر کئے جارہے تھے۔ ایستھر بنرجی کیک پر سفید اور گلابی آئسیلنگ کررہی تھیں۔ ڈیزی آیا سینڈوچ بنانے میں مشغول تھی۔ گلدانوں میں تازہ پھول لگے تھے۔ سِٹنگ روم میں کراس اسٹیچ کی نفیس کڑھت کے دُھلے ہوئے ٹیبل کلاتھ میزوں پر پڑے تھے۔ چائے کا نیا سیٹ سلہٹ کی بید کی کشتی میں سجاد سطی میز پر رکھا تھا اور اس پر ہری کانچ کے موتیوں کی جھالر والی بڑی جالی ڈھانپ دی گئی تھی۔ ٹی کوزی اور کُشنوں کی کشیدہ کاری قابل دید تھی۔

پادری بنرجی سیاہ سوٹ پہنے ذرا متفکر سے برآمدے میں ٹہل رہے تھے۔ اور بار بار واسکٹ کی جیب سے زنجیر والی گھڑی نکال کر دیکھ لیتے تھے۔

روزی اپنے کمرے میں دروازے بند کئے چٹخنیاں لگائے قلعہ بند بیٹھی تھی۔

ٹھیک چار بجے گھوڑا گاڑی سامنے آن کر رُکی اور پادری ہنری بسواس، مسز میری بسواس، اُن کا فرزند مسٹر لوتھر بسواس اور چھوٹی لڑکی ایڈتھ بسواس نیچے اُترے۔ ایڈتھ بسواس نے ایک اٹیچی کیس اُٹھا رکھی تھی۔

ایستھر بنرجی لپکی ہوئی باہر آئیں۔ دونوں میاں بیوی نے مہمانوں کا خیر مقدم کیا اور سِٹنگ روم میں لے کر آئے۔ بسواس خاندان ذرا سیلف کانشس سا ہو کر کرسیوں پر ٹکا۔ پادری اور مسز بسواس اور مسٹر لوتھر بسواس صوفے پر ایک قطار میں اس طرح سیدھے ہو کر بیٹھ گئے جیسے پہلے زمانے میں لوگ تصویر کھنچوانے کے لئے فوٹو گرافر کے سامنے بیٹھتے تھے۔ ایڈتھ البتہ اطمینان سے گراموفون کے پاس جاکھڑی ہوئی۔

مسز بسواس نے ناقدانہ نظروں سے کمرے پر نظر ڈالی۔ جو گھر کی غربت، مگر سلیقہ کا آئینہ دار تھا۔ دونوں کالے پادریوں نے آپس میں اِدھر اُدھر کی باتیں شروع کیں۔

’’یہ کُشن میری روزی نے کاڑھے ہیں…‘‘ ایستھر بنرجی نے مسز بسواس کو صوفے کے کُشنوں کا دزدیدہ نظروں سے جائزہ لیتے ہوئے دیکھ کر فوراً کہا۔

مسز بسواس اخلاقاً مسکرائیں۔ انہوں نے یہ بھی نوٹس کیا کہ ایستھر بنرجی گلے میں ایک بے حد پتلی سنہری زنجیر کے علاوہ سونے کا ایک بھی زیور نہیں پہنے ہیں۔ اور سرخ کنارے والی سفید بنگالی ساڑھی میں ایک جگہ پر باریک کھونپ بھی بھری گئی ہے۔ خود مسز بسواس کروشیا کی چوڑی لیس والے سفید پیٹی کوٹ کے اوپر تیز گلابی جارجٹ کی ساری باندھ کر اور سیاہ ساٹن کا بلائوز پہن کر آئی تھیں اور سونے کی چوڑیاں ان کے ہاتھوں میں چمچما رہی تھیں۔ سُبک سارومال ایک آستین میں گھُرس رکھا تھا۔ کانوں میں ایک ایک موتی والے بندے پہنے تھیں۔ پندرہ سالہ ایڈتھ اودے ریشمی فراک میں ملبوس تھی۔ سفید موزے، کالے جوتے بن بیاہی دیسی عیسائی شریف زادیوں کی مانند فراکس پر دوپٹہ بھی اوڑھ رکھا۔ پادری بسواس سیدھے سادے آدمی معلوم ہوتے تھے اور ظاہر تھا کہ بیوی ان پر حاوی ہیں۔ لوتھر بسواس ایک منمنی مسکین صورت اور شرمیلا نوجوان تھا۔ دونوں باپ بیٹے پورے سوٹ میں ملبوس تھے۔ پچھلے کرسمس ویک میں آل انڈیا مشنری کانفرنس ختم ہونے کے بعد جب لوتھر بسواس پنجاب واپس گئے تو روزی بنرجی پر عاشق ہو کر واپس آگئے تھے۔ وہ لدھیانہ مشن اسکول میں سائنس ماسٹر ’’لگے‘‘ ہوئے تھے۔ ایک دو سال بعد سینٹ جانز کالج آگرہ میں لیکچرر ہو کر جانے کا ’’چانس‘‘ بھی تھا۔ انہوں نے لدھیانہ واپس جا کر کچھ عرصے بعد اپنے پاپا ریورنڈر ہنری بسواس کے ذریعے پادری بنرجی کو شادی کا پیغام بھجوایا تھا۔ دیسی عیسائی فرقے میں اچھے لڑکوں کی ہمیشہ سے کمی رہی ہے۔ عیسائی لڑکیاں عموماً اعلیٰ تعلیم یافتہ اور اسمارٹ ہوجاتی ہیں۔ بیشتر عیسائی لڑکے اسٹینو گرافر یا سیلز مین سے آگے نہیں بڑھ پاتے۔ اس وجہ سے عیسائی لڑکیاں عام طور پر ہندوئوں اور مسلمانوں سے شادی کرلیتی ہیں۔

چنانچہ جب لوتھر بسواس کا پیغام آیا تو پادری بنرجی خوش ہوئے۔ جب سے روزی بڑی ہوئی تھی انہیں اس کے بیاہ کی فکر نے آگھیرا تھا۔ وہ چاہتے تھے کہ ان کی زندگی میں ان کی چہیتی بیٹی اپنے گھر چلی جائے۔ انہوں نے روزی سے تذکرہ کئے بغیر، اپنی بیوی سے صلاح مشورہ کرنے کے بعد روایتی ہندوستانی ماں باپ کی طرح پیغام منظور کرلیا۔ وہ یہ سوچ بھی نہ سکتے تھے کہ ان کی فرماں بردار اور سعادت مند بیٹی کو ان کے انتخاب پر کوئی اعتراض ہوسکتا ہے۔ پادری بنرجی کی خواہش تھی کہ روزی کا رشتہ کسی ہم پلّہ برہمن کرسچین خاندان میں ہوتا۔ روزی ماں اور باپ دونوں کی طرف سے نحیب الطرفین کلین برہمن زادی تھی۔ مگر آج کل خاندانی لڑکے ملتے کہاں ہیں۔ اور پادری بسواس بھی اچھی ذات کے آدمی تھے (حالانکہ بسواس عموماً شیڈولڈ کاسٹ والوں کا نام بھی ہوتا تھا) اُن کے مشنری باپ دادا بنگال سے جا کر لدھیانے میں سیٹل ہوگئے تھے۔ پادری بسواس کو بنگالی زبان بھی نہیں آتی تھی۔ کیونکہ ان کی ماں پنجابی تھیں۔ خود میری بسواس بھی پنجابی تھیں اور واقعی اپنے انداز اور وضع قطع سے کچھ چمریشین معلوم ہوتی تھیں۔ مگر بہرحال بہت معقول خاندان تھا۔ اور سب سے بڑی بات یہ کہ مشنری کانفرنس کے زمانے میں پادری بنرجی، لڑکے کی عادت و خصائل سے خود واقف ہوچکے تھے۔ لرکا انہیں پسند آیا تھا۔ شریف، حلیم الطبع اور بے حد مذہبی نوجوان تھا۔ روزی کو بڑے آرام سے رکھے گا۔

پچھلے ہفتے پادری بسواس کا خط آیا تھا کہ وہ اور ان کی بیوی لڑکی کو دیکھنے اور بات پکی کرنے کے لئے ڈھاکہ آرہے ہیں۔ اور روزی کو جب ایستھر بنرجی نے یہ اطلاع دی تھی تو ایسا لگا تھا، جیسے اس کے اوپر بم کا گولہ آن گرا ہو۔ اس نے کوئی جواب نہیں دیا تھا۔ لیکن اس لمحے سے بالکل چپ سادھ لی تھی (دیپالی اتنی دور شانتی نکیتن میں تھی۔ جس سے وہ اپنا دُکھ درد کہہ سکتی۔ جہاں آراء کے پاس وہ اپنا دکھڑا لے کر جانا نہ چاہتی تھی) اس کی اس خاموشی کو اس کے والدین نے بچیوں کی شرم و حیا پر محمول کیا تھا۔ کس لڑکی کو میکے سے اتنی دور کالے کوسوں بیاہے جانے کا غم نہ ہوگا۔

لیکن آج جب کہ بسواس فیملی واقعی آن پہنچی تھی۔ روزی نے بڑا ہی عجیب اور غیر متوقع رویہ اختیار کرلیا تھا۔ ایک تو وہ ساری رات روتی رہی تھی۔ اور پھر صبح سے اپنا کمرہ اندر سے بند کرکے بیٹھ گئی تھی۔ پادری بسواس مع اپنے خاندان شہر میں اپنے کسی دور کے رشتے دار کے یہاں اُترے تھے اور ٹھیک چار بجے لِلی کاٹج پہنچ گئے تھے۔ اور اب پادری اور مسز بنرجی کو روزی کے متعلق پہلی بار گھبراہٹ شروع ہوئی۔

ڈیزی چائے دانی لے کر کمرے میں آئی اور ایستھر بنرجی کے رس گلّے اور چم چم ملائی جو انہوں نے خود بنائے تھے مہمانوں کو پیش کئے۔ وہ بے چاری ہونے والے داماد کی بے انتہا خاطر کررہی تھیں۔ اور ابھی سے اُن کو اس کے بھولے پن اور شرافت پر مامتا بھرا پیار آنے لگا تھا۔ مگر مسز بسواس بڑی خوفناک ساس ثابت ہوں گی۔ اس کی انہیں پریشانی تھی۔

روزی کا کمرہ ڈائیننگ روم کے دوسری طرف تھا اور سِٹنگ روم میں سے اس کا بند دروازہ نظر آرہا تھا۔ پادری بنرجی مہمانوں سے باتیں کرتے کرتے بے چینی سے اس دروازے پر نظر ڈال لیتے۔ دروازے پر پڑا نیلا پردہ ہوا میں لہرائے جارہا تھا۔

’’روزی سسٹر کہاں ہیں؟‘‘ ایڈتھ بسواس نے نزاکت سے سینڈوچ اُٹھا کر ’’تھینک یو آنٹی‘‘ کہنے کے بعد مسز بنرجی سے دریافت کیا۔

’’ابھی آتی ہے… ذرا اس کی طبیعت…‘‘ ایستھر بنرجی نے یک لخت ذرا ہکلا کر بے بسی سے اپنے شوہر کو دیکھا۔

’’کیا ہوا اسے؟‘‘ مسز بسواس نے ابرو اُٹھا کر سوال کیا۔

’’کچھ نہیں بہن۔ وہ دن رات پڑھائی میں لگی رہتی ہے۔ آج صبح سے سر میں درد ہے‘‘۔

پادری بنرجی نے فوراً پادری بسواس کو مخاطب کیا۔

’’لدھیانے میں مہنگائی کا کیا حال ہے؟ یہاں تو وار کی وجہ سے‘‘۔

لوتھر بسواس نے ٹائی ٹھیک کرتے ہوئے سر گھما کر ذردیدہ نظروں سے نیلے پردے والے دروازے کو دیکھا۔ انہیں معلوم تھا کہ یہ روزی کا کمرہ ہے۔ اور مشنری کانفرنس کے دنوں میں روزی نے اسی سِٹنگ روم میں بیٹھ کر ان کے ساتھ کیرم بھی کھیلا تھا۔ اور کیرم کے پائوڈر کا ڈبہ لانے کے لئے وہ اس کمرے میں بھی ہو آئے تھے۔

’’اوہ آنٹی… میں یہ ریکارڈ دیکھ سکتی ہوں؟‘‘ ایڈتھ نے چائے کی پیالی ختم کرکے گراموفون کی طرف مڑتے ہوئے کہا۔

’’ضرور ضرور…‘‘ مسز بنرجی نے کہا۔ وہ بے ساختہ یہ بھی اضافہ کرنا چاہتی تھی کہ روزی کو میوزک کا بہت شوق ہے۔ مگر چپ ہوگئیں۔ ایڈتھ فرش پر اکڑوں بیٹھ کر میز کے نچلے خانے میں رکھے ہوئے ریکارڈ الٹنے پلٹنے لگی۔ زیادہ تر وہ گھسے پٹے پرانے ریکارڈ تھے جو ایک مرتبہ ڈھاکہ کے ایک انگریز افسر نے ولایت جاتے وقت مشن کمپائونڈ بھجوادیئے تھے۔

ڈیزی نے جا کر روزی کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ جواب نہیں ملا۔

چھ بجنے والے تھے۔ مسز بنرجی اٹھیں۔ ڈائننگ روم اور سٹنگ روم کا درمیانی دروازہ بھیڑا اور جا کر روزی کے دروازے پر زور سے دستک دی۔ ’’روزی… روزی بیٹے… بات تو سنو‘‘۔ وہ اب روہانسی ہورہی تھی۔

مسز بنرجی چند منٹ تک دروازے پر کھڑی رہیں۔ پھر سر جھکائے سٹنگ روم میں واپس آگئیں اور شوہر کو ملتجیانہ نگاہوں سے دیکھا۔ پادری بنرجی آہستہ سے اٹھے اور اپنے پیچھے سٹنگ روم کے کواڑ بند کرتے ہوئے روزی کے دروازے پر پہنچے اور دھیرے سے دستک دی۔

’روزی۔ روزی بیٹا… دروازہ کھولو۔ میں تمہارا پاپا ہوں۔ بات تو سنو‘‘۔ انہوں نے بے حد لجاجت سے کہا۔ روزی نے دروازہ کھولا۔ پادری بنرجی اندر گئے۔

روزی کندھوں پر بال بکھرائے سفید ساری پہنے تصویر کی مانند سامنے کھڑی تھی۔ اچانک ان کی آنکھوں کے سامنے ایک اور تصویر آگئی۔ بالکل اسی طرح انہوں نے پہلی بار نوجوان ایستھر گری بالا کو دیکھا تھا جو کندھوں پر لمبے لمبے بال بکھرائے سفید ساری پہنے رائٹ ریورنڈوالفرڈ برائون کی کوٹھی کے برآمدے میں خاموش کھڑی تھی۔ جب وہ اس سے ملنے کے لیے بلائے گئے تھے۔ اس ایستھر اور اس روزی میں اتنا فرق کیوں؟ کیا زمانہ اتنا بدل گیا تھا؟ اُس ایستھر کی آنکھوں میں محض لاج تھی اور سپردگی۔ اس روزی کی آنکھوں سے ضد اور ہٹ اور خودسری کی چنگاریاں سی نکل رہی تھیں۔ اس خود سری کو آج کل کے زمانے میں خود اعتمادی کہا جاتا ہے مگر وہ تو اپنی لاڈلی بچی کی بھلائی ہی تو چاہتے ہیں۔ وہ اپنے بوڑھے باپ سے اس قدر خفا کیوں ہوگئی؟

یک بیک روزی آگے بڑھی اور ان کی ٹانگوں سے لپٹ کر کہنے لگی۔ ’’پاپا… پاپا… مجھے لے جا کر دریا میں ڈبو دیجئے۔ مجھے مار ڈالئے جان سے۔ مگر میں اس چغدسے… اس… اس کا لیٹن سے ہرگز شادی نہیں کروں گی۔ مجھے وہ بالکل پسند نہیں ہے پاپا…‘‘ اب وہ سسکیوں سے رو رہی تھی۔

(جاری ہے)

حصہ