یک نہ شد دو شد

208

’’سگریٹ نوشی صحت کے لیے مضر ہے۔ وزارتِ صحت‘‘

سگریٹ کے ہر پیکٹ پر لکھے اس انتباہ کو ہم بچپن سے پڑھتے چلے آرہے ہیں۔ اس تحریر کا مقصد عوام کو سگریٹ نوشی سے باز رکھنا ہے۔ بجائے اس کے کہ کوئی قانون بنایا جائے یا ایسی تربیت کی جائے جس سے عوام، خصوصاً بچے سگریٹ نوشی سے پرہیز کریں، پیکٹوں پر دو لائن کی تحریر چھاپ کر اپنی تمام ذمے داریاں پوری کردی جاتی ہیں۔ اب یہ عوام پر منحصر ہوتا ہے کہ وہ سگریٹ پئیں یا نہ پئیں، حکومت کی بلا سے۔ اس انتباہ کے باوجود ہر آنے والے دن کے ساتھ جس تیزی سے سگریٹ پینے والوں کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے یہ اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ چند الفاظ تحریر کرنے سے کام نہیں چلتا، بلکہ اس کے لیے باقاعدہ قوانین بنانے پڑتے ہیں اور ساتھ ساتھ ایسی تربیتی نشستوں کی بھی ضرورت ہوتی ہے، جس سے لوگوں کی اصلاح کی جائے۔ پیکٹ پر لکھی تحریر پر کسی نے عمل کیا ہو یا نہ کیا ہو، لیکن وزارتِ داخلہ سندھ کے ماتحت سی پی ایل سی نے عوام کو آگاہی دینے کا ہنر ضرور سیکھ لیا ہے، اس لیے جرائم سے متعلق اعداد و شمار دے کر عوام کو متنبہ کردیا جاتا ہے کہ وہ فلاں فلاں علاقوں میں سفر میں احتیاط کریں، یا پھر اُن علاقوں کی نشاندہی کرکے جہاں اسٹریٹ کرائمز بے قابو ہوچکے ہیں، عوام کو خبردار کردیا جاتا ہے۔ اسی طرح کی ایک خبر ہمارے دوست نے سنائی، وہ کہتے ہیں:

’’کراچی پولیس کے مطابق کراچی میں ہونے والے اسٹریٹ کرائمز کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے، ورنہ یہاں تو ملک کے دیگر شہروں کے مقابلے میں جرائم نہ ہونے کے برابر ہیں، اگر کسی علاقے میں اسٹریٹ کرائمز ہیں بھی تو شہری خود احتیاط کریں۔‘‘

اب پولیس حکام کو کون بتائے کہ نیپا چورنگی، حسن اسکوائر، سخی حسن، عائشہ منزل، طارق روڈ، بہادر آباد، دو دریا، پی آئی ڈی سی،کلفٹن اور ڈیفنس سمیت شہر کے مختلف مقامات پر دن دہاڑے لُٹنے کا خطرہ موجود رہتا ہے، جہاں بندوق کے زور پر لوٹ مار کا بازار گرم رہتا ہے۔ اس کے علاوہ نارتھ ناظم آباد میں قلندریہ چوک سے فائیو اسٹار چورنگی تک جانے والا ہر دوسرا شخص موبائل فون اور نقدی سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔ گلشن اقبال سے حسن اسکوائر تک لوگوں کو بچ بچا کر چلنا پڑتا ہے کیوں کہ اس راستے میں بھی لوٹ مار کرنے والے گروہ گھات لگائے بیٹھے رہتے ہیں۔ پی ای سی ایچ ایس، اور تو اور طارق روڈ جیسا پُررونق علاقہ بھی راہزنوں کے لیے جنت سے کم نہیں۔ نہ صرف کراچی یونیورسٹی سے سفاری پارک تک کا راستہ، بلکہ جیل چورنگی سے بہادر آباد تک کی آبادیاں ان راہزنوں سے محفوظ نہیں۔ ساحل کے ساتھ ساتھ دو دریا تک کی سڑک تو ان کرمنلز کے نزدیک سونے کی چڑیا کا درجہ رکھتی ہے۔ جبکہ کورنگی انڈسٹریل ایریا کے ساتھ قائم مضافاتی بستیوں میں رہنے والے جرائم پیشہ افراد کے لیے یہاں شکار کم نہیں، یہی وجہ ہے کہ کراچی میں روزانہ اوسطاً ڈھائی سے تین ہزار موبائل فون چھینے جاتے ہیں، جبکہ لاتعداد افراد کو اپنی موٹر سائیکلوں سے محروم کردیا جاتا ہے۔ موبائل فون چھیننے اور موٹر سائیکلوں کی چوری جیسی بڑھتی ہوئی وارداتوں کو دیکھ کر یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ محکمہ پولیس کے اہل کار نہ صرف ان جرائم پیشہ افراد کے سامنے بے بس دکھائی دیتے ہیں، بلکہ وہ اس بات سے بھی بے خبر ہیں کہ کراچی کے مضافاتی علاقوں میں اسٹریٹ کرائمز کی شرح زیادہ تیزی سے بڑھتی جارہی ہے۔ یعنی کراچی کے مضافاتی علاقوں کی صورتِ حال تو ناقابلِ بیان ہے۔ ان علاقوں کی حالت یہ ہے کہ کوئی محلہ یا کوئی سڑک ایسی نہیں جو ان لٹیروں سے محفوظ ہو۔ مثلاً کورنگی زمان ٹائون مین روڈ کا ایک ایسا ہی واقعہ میرے علم میں ہے، بلکہ آج تک ایک ڈراؤنا خواب بن کر سامنے آتا ہے جس کو سوچ کر میرے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ اس روز ڈکیتی کرتے چار نوجوانوں نے ایک گاڑی، جس میں فیملی سوار تھی، روکی۔گاڑی کے دونوں طرف کھڑے ان ڈاکوئوں نے بلا خوف و خطر اسلحہ نکال رکھا تھا، وہ زبردستی اس فیملی کو گاڑی سے باہر آنے پر مجبور کررہے تھے، لیکن گاڑی چلانے والے شخص نے ان لٹیروں کی ایک نہ سنی اور تیز رفتار گاڑی ان میں سے دو ڈاکوئوں پر دے ماری۔ اس کشمکش میں ڈاکوئوں کے ساتھیوں نے اس فیملی پر فائرنگ کردی۔ خدا جس کو محفوظ رکھے اسے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا۔ یوں گاڑی ڈرائیو کرنے والا شخص بڑی تیزی سے ان کے چنگل سے دور نکل گیا۔ زخمی ڈاکو کو عوام نے زدوکوب کے بعد پولیس کے حوالے کردیا۔ جبکہ اس کے باقی ساتھی بھاگ نکلے تھے۔ بات یہاں ختم نہیں ہوئی بلکہ کچھ عرصے بعد ہی ایک مرتبہ پھر یہی شخص ایک بار پھر اسٹریٹ کرمنلز کے شکنجے میں آگیا، چونکہ پچھلی مرتبہ ہونے والے واقعے کے نتیجے میں میری ان صاحب سے ملاقات ہوئی تھی اس لیے میں ان کے نام اور کام سے واقف ہوچکا تھا۔ خیر اِس بار نصیر صاحب نے اسی جذبے کے ساتھ اس ڈکیت گروپ سے مقابلہ کرنے کی ٹھان لی، لیکن افسوس وہ یہ بھول گئے تھے کہ وقت ہمیشہ ایک سا نہیں رہتا، نتیجتاً اِس بار ڈاکوؤں کی جانب سے کی جانے والی فائرنگ سے شعبہ تعلیم سے وابستہ ایک قابل استاد نصیر صاحب شدید زخمی ہوگئے، گولی گاڑی کی اسکرین کو چیرتی ہوئی ان کو جا لگی۔ خدا کا شکرکہ جان تو بچ گئی لیکن وہ جب تک اسپتال میں زیر علاج رہے خوف میں مبتلا رہے۔ اُس دن سے وہ ہر خاص و عام کو ڈکیتوں کے سامنے عاجزی اور سرنگوں ہونے کا درس دیتے رہتے ہیں۔ اس واقعے نے ان کے جذبات اور احساسات پر کاری ضرب لگائی۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ معاشرے کو جرائم سے پاک کرنے کی نیت رکھنے والا شخص پولیس کی نااہلی کے باعث خوف زدہ ہوکر جرائم پیشہ افراد کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہے۔ میں یہاں یہ بتانا ضروری سمجھتا ہوں کہ زمان ٹائون کورنگی کی یہ وہ سڑک ہے،جہاں ہر روز کوئی نہ کوئی شہری ضرور اپنے موبائل اور رقم سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔مضافاتی آبادیوں میں اسٹریٹ کرائمز دن بدن جس تیزی سے بڑھتے جارہے ہیں،عوام کے صبر کا پیمانہ بھی اسی رفتار سے لبریز ہوتا جارہا ہے۔

ایک طرف امن و امان کی یہ بگڑتی صورتِ حال، تو دوسری جانب رمضان المبارک آتے ہی دکان داری کا لبادہ اوڑھے ڈکیت غریب عوام کی جیبوں پر ڈاکہ ڈالنے میں مصروفِ عمل دکھائی دیتے ہیں، یعنی یک نہ شد دو شد۔ یہ ان کاروباری ڈکیتوں کا ہی اثر ہے کہ پھل اور سبزیوں کی قیمتوں میں 50 سے 100 روپے تک کا غیر معمولی اضافہ ہو گیا ہے،سیب پچھلے ہفتے کی نسبت 120 سے بڑھ کر 150 سے 200 روپے فی کلو فروخت ہونے لگا،خربوزہ 130 سے 200روپے کلو،کینو 250 سے 300 روپے درجن،کیلا 200 سے بڑھ کر 300 روپے درجن، تربوز 150سے 180 روپے پر فروخت ہونے لگا، جبکہ کھجور 800 سے بڑھ کر 1200 تک پر فروخت کی جارہی ہے۔سبزیوں میں ادرک 110 سے بڑھ کر 130،لہسن 130 سے بڑھ کر 150روپے پائو، کھیرا 50 سے بڑھ کر 80 روپے فی کلو فروخت ہورہاہے،آلو 60 روپے سے 90 روپے،پیاز 200 سے بڑھ کر 250، جبکہ شملہ مرچ 240 سے بڑھ کر 320 پر فروخت ہونے لگی، جبکہ مرغی کا گوشت 700 روپے کلو تک فروخت کیا جارہا ہے۔

حیرت کی بات تو یہ ہے کہ یہاں بھی انتظامیہ کی جانب سے روایتی طور پر مارکیٹ کنڑول پرائس لسٹ جاری کردی گئی ہے جس میں درج ریٹ اور بازار میں فروخت ہونے والی اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ یہاں بھی بات انتباہ تک ہی محدود ہے جبکہ اصل قیمتوں کا تعین کرنے کا اختیار دکان داروں دے دیا گیا ہے، وہ جب چاہیں اور جیسے چاہیں عوام کا گلا کاٹتے رہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان بدترین حالات میں عوام جائیں تو جائیں کہاں، کس سے فریاد کریں، اپنا دکھ کس کو سنائیں؟ خاص طور پر سفید پوش طبقے یا ملازمت پیشہ افراد کی حالت سب سے زیادہ خراب ہے۔یہ وہ طبقہ ہے جو اپنا دکھ کسی کو بیان کرنے کے لیے بھی تیار نہیں، اور کوئی ایسا ریاستی یاحکومتی ادارہ بھی موجود نہیں جو ان کی آوازوں کو سن سکے یا ا ن کی داد رسی کر سکے۔وہ تو شکر ہے کہ ان بدترین معاشی حالات اور بے امنی کے دور میں ایسے خدا ترس یا خوشحال لوگ موجود ہیں جو اپنے اردگرد موجود لوگوں کی خاموشی کے ساتھ مدد کررہے ہیں۔ میں ایسے کئی لوگوں کو انفرادی سطح پر جانتا ہوں جو بغیر کسی شور شرابے کے اپنے ہمسایوں، رشتے داروں یا دوست احباب کی مدد کے لیے کھڑے نظر آتے ہیں۔ ان خدا ترس افراد کے مقابلے میں ریاستی اور حکومتی نظام کہیں دکھائی نہیں دیتا۔ ملک، خاص طور پر کراچی میں جاری بے امنی اور معاشی دہشت گردی پر حکمرانوں کی خاموشی دیکھ کر یہی کہا جا سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی اس ملک کے عوام پر رحم فرمائے اور ان کی حالت کو بہتری کی جانب نہ صرف گامزن کردے، بلکہ فیصلہ سازوں کے دل میں بھی عوام کی تھوڑی محبت ڈال دے،کیونکہ رب کے آگے دعائیں کرنے سے ہی معاملات حل ہوں گے، وگرنہ حکمرانوں سے اچھے کی امید کم ہی نظر آتی ہے جس کی وجہ سے عوام کا اعتماد اداروں سے اٹھ چکا ہے، یعنی عوام مایوس نظر آنے لگے ہیں، جو کہ کسی طرح بھی اچھا شگون نہیں ہے۔ ہاں دعاؤں کے ساتھ ساتھ ایک راستہ اور بھی ہے، وہ یہ کہ صورتِ حال کی نزاکت کا احساس کرتے ہوئے ملک کے وہ ادارے جنہیں عوام ابھی تک اپنا ہمدرد ہی سمجھتے ہیں، آگے بڑھ کر ملکی حالات کو نہ صرف سنبھالا دیں، بلکہ عوامی استحصال کا خاتمہ کرتے ہوئے عوام کو ان کے اپنے فیصلے کرنے کا حق دیں، اسی میں ہماری بھلائی اور بہتری ہے، بصورتِ دیگر ملک میں نہ صرف انتشار بڑھتا جائے گا بلکہ حالات بھی ایسے بے قابو ہوتے جائیں گے جنہیں قابو کرنا پھر کسی کے بس میں نہ ہوگا۔

حصہ