پربت کی رانی کا انجام قسط12

141

یہاں کے بڑے کے ڈیرے میں چند بڑے آفیسرز، جمال، کمال اور فاطمہ کے علاوہ اور کوئی نہیں تھا البتہ ایک وائرلیس سیٹ ایک میز پر موجود تھا جس پر مرکز کے کسی ذمہ دار کی آواز سنائی دے رہی تھی۔ وہ کہہ رہا تھا کہ یہاں کے بڑے نے جو ہمارے ایک ذمے دار آفیسر بھی ہیں، انھوں نے شک ظاہر کیا تھا کہ ان کے قریب جو بلند پربت ہے، اس کی بلندی پر کچھ مشکوک سرگرمیاں محسوس ہوتی ہیں۔ اسی کی تصدیق کے لیے ہم نے اپنی پچھلی مہم میں جمال، کمال اور ان کی فیمیلیوں کو انسپکٹر حیدر علی کی قیادت میں بھیجا تھا۔ اس مہم میں جس ذہانت کا مظاہرہ جمال اور کمال نے کیا تھا وہ سب کے سامنے ہے۔ وہاں سے حاصل کردہ ہواؤں اور غذاؤں کے نمونوں کی اصل حقیقت جان کر ہمیں بہت کچھ سوچنے پر مجبور ہونا پڑا۔ ہواؤں اور غذاؤں کی تحقیق کے بعد جو چیز سامنے آئی وہ بہت تشویشناک تھی۔ ہمارے سائنسدانوں نے ان پر تحقیق کرنے کے بعد ایسی اینٹی گیسیں ایجاد کیں کہ وہ لمحوں سیکنڈوں میں فضا کے مضر اثرات کو ختم کر دینے کے لیے کافی تھیں لیکن مسئلہ یہ تھا کہ ان کو پربت کی فضا میں اتنی بڑی مقدار میں کس طرح داخل کیا جائے کہ پربت پر قائم حصار ٹوٹ جائے۔ جہازوں کے ذریعہ اس حصار کو توڑنا اس لیے ممکن نہیں تھا کہ اینٹی ہوائیں وزن میں بہت ہلکی تھیں جس کی وجہ سے وہ اوپر سے نیچے کی جانب سفر نہیں کر سکتی تھیں۔ نیز ایک مرتبہ جب ہم نے ایسا کرنے کی کوشش کی تو پربت کی بلندی کے قریب پہنچنے پر جہاز کی ڈائرکشن خود بخود تبدیل ہو گئی اور کنٹرول کچھ دیر کے لیے پائلٹ کے قابو سے باہر ہو گیا۔ ان ہی ہواؤں پر مزید تحقیق پر معلوم ہوا کہ جب تک وادی پر چھائی دھند اور ہوا کو ختم نہیں کیا جائے گا کسی بھی صورت میں وہاں کی فضائی حدود میں فضا کے ذریعے داخل ہونا ممکن نہیں۔ اسی دوران یہاں کی وادی کے سربراہ نے کہا کہ کیوں نہ کسی ٹیم کو بھیج کر جائزہ لیا جائے۔ پربت کا یہ حصہ ایسا ہے جیسے قلعے کی دیواریں ہوتی ہیں۔ یہ پربت تک پہنچنے کے لیے ناقابل عبور ہے۔آج تک کوئی انسان بھی اس راستے سے پربت کی بلندی کو نہیں پہنچ سکا۔ ممکن ہے کہ برپربت کی رانی یہاں سے کسی مداخلت کو آسان نہ سمجھتے ہوئے مطمئن ہو لہٰذا ایسی ٹیم کو بھیجیں جو یہاں کوئی ایسا راستہ تلاش کر سکے جہاں سے کوئی کارروائی کرنا ممکن ہو سکے۔ ہمیں جمال اور کمال کی صلاحیتوں پر بہت بھروسہ تھا اور جب انھوں نے ”کان کن چوہوں” میں پکڑے جانے والے چوہوں پر تجربے کے بعد یہی تجربہ خرگوشوں پر کرنے کا کہا تو ہمیں یقین ہو گیا کہ ان کی نظروں میں کسی نہ کسی قسم کی کوئی سوچ ہے جو کسی نہ کسی اور مہم میں کام آ سکتی ہے۔ جب ہم نے انھیں پربت کو سر کرلینے کا کہا اور انھوں نے ان خرگوشوں کو ساتھ لیجانے کا خیال ظاہر کیا تو ہمیں یقین ہو گیا کہ یہ والی مہم جمال اور کمال ضرور سر کر لیں گے۔ جمال اور کمال نے خیال ظاہر کیا تھا کہ ایسا سب کچھ اسی وقت ممکن ہے جب پربت کو روشن رکھنے اور فضا کو ہر وقت زہر آلود رکھنے والے بڑے بڑے پلانٹ تباہ نہ کر دیئے جائیں، وادی کی فضا ناقابلِ عبور ہی رہے گی۔ پاور ہاؤسز اور پلانٹ اگر کھلی فضا میں لگے ہوتے تو کہیں نہ کہیں ضرور نظر آتے لہٰذا وہ یقیناً پر بت پر ہی پر کہیں زیر زمین ہو سکتے ہیں۔ بہت سال پہلے ہماری ایک سروے ٹیم نے خیال ظاہر کیا تھا کہ پربت میں کئی ایسی ”خلائیں” ہیں جو قدرتی ہیں اور وہ جگہ جگہ اورکافی بڑی بڑی ہیں۔ پربت کے زیر زمین ایک چھوٹا دریا بھی ہے جو اندر ہی اندر سفر کرتا ہوا پہاڑوں کی کئی چوٹیوں پر سے آبشاروں اور چشموں کی صورت میں گرتا ہے۔ سروے ٹیم کی اس بات پر کبھی غور ہی نہیں کیا گیا لیکن جب جمال اور کمال نے خدشہ ظاہر کیا کہ لگائے گئے پلانٹ اور پاور ہاؤس زیر زمین بھی ہو سکتے ہیں تو سروے کی وہ رپورٹ یاد آئی۔ اس لیے جمال اور کمال کو یہ مہم سونپی گئی جو انھوں نے اپنی ذہانت سے سر کر دکھائی۔ جمال اور کمال کے خدشے کے ساتھ ہی بڑے پیمانے پر اینٹی گیسیں اور ایسا کیمیکل تیار کرنے پر کام شروع ہوا جو پربت پر چھائے ہوئے حصار کو ختم کر سکے اور پلانٹ کو سیز کر سکے۔ یہ کیمیکل انسپکٹر حیدر علی کے حوالے کیا گیا تھا جس کی شکل بارود سے ملتی جلتی تھی جبکہ گیسوں کے لیے بڑے بڑے سیلنڈر تیار کئے گئے تھے۔ ان سیلنڈروں کو درختوں کے تنوں کی شکل اس لیے دی گئی تھی کہ جب بھی کبھی ان کو پربت کی جانب لے جایا جائے تو پربت کے نگرانوں کو کسی قسم کا شک نہ گزرے، اس لیے کہ جنگل سے وزنی درختوں کے تنے ان ہی ہیلی کواپٹروں کے ذریعے ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کئے جاتے ہیں۔
یہ اللہ کی تائید اور ہماری خوش قسمتی تھی جہاں سے ہم گیسوں کو اندر کی جانب کمپریسروں کے ذریعے داخل کر رہے تھی وہیں سے پربت کی رانی کی بنائی ہوئی گیسیں فضاؤں میں مسلسل پھیلائی جایا کرتی تھیں۔ لہٰذا کمپریسروں کے ذریعے جونہی پلانٹ بند ہوئے اور گیسیں پربت کی فضاؤں میں داخل ہونا شروع ہوئیں تو پربت پر چھایا ہوا مصنوعی گیسوں کا حصار ٹوٹ گیا اور نیچے کی زمین نظر آنا شروع ہو گئی جو اس بات کی علامت تھی کہ پربت کی وادی کی مصنوعی فضا غائب ہو چکی ہے۔ یہی وہ لمحہ تھا جب ملٹری نے اپنے ہیلی کواپٹروں کے ذریعے ٹروپ اتارنا شروع کر دیئے۔
ہر قسم کے پلانٹ بند ہوجانے اور حصار ٹوٹ جانے پر پورے پربت پر ایک ہاہا کار مچ گئی۔ ایک افرا تفری کا سماں تھا۔ کچھ فاصلے پر ہمارے ہیوی ٹرک کھڑے تھے وہ حرکت میں آئے اور پربت پر پہنچ کر تمام لوگوں کو یقین دلایا کہ ان میں سے کسی کو کچھ نہیں کہا جائے گا۔ جس پر کوئی ایسا بڑا واقعہ نہیں ہوا کہ خوامخواہ خون خرابے کی ضرورت پڑتی۔
کام کیونکہ اتنی خاموشی سے ہوا کہ پربت کی رانی کو کان و کان خبر تک نہ ہو سکی۔ اس کے وہم و گمان میں بھی یہ بات نہیں رہی ہوگی کہ کسی مقام سے سرنگیں بنا کر ان کے خفیہ پلانٹوں تک پہنچا جا سکتا ہے اسی لیے کامیابی کا سارا سہرا جمال، کمال اور فاطمہ کے سر جاتا ہے جس پر ریاست جتنا بھی فخر کرے کم ہے۔
کچھ دیر کی خاموشی کے بعد آواز آئی کہ اس کا آخری ڈراپ سین بہت دردناک تھا۔ جب ہم نے پربت کی رانی کے ٹھکانے پر حملہ کیا کہ اسے گرفتا کر سکیں تو اسی لمحے ایک فائر کی آواز گونجی۔ ہم کمرے کا دروازہ توڑ کر جب اندر داخل ہوئے تو رانی مر چکی تھی اس نے اپنی کنپٹی میں خود ہی گولی مار لی تھی۔ یہ رانی ان ہی وادیوں میں رہنے والے ایک قبائلی سردار کی بیٹی تھی۔ ہم مصلحتاً یہ مناسب نہیں سمجھتے کہ سردار کا نام لیں۔ رانی نے غالباً اس لیے خود کو ختم کیا کہ اگر وہ سردار کے حوالے بھی کر دی جاتی تو سردار خود اس کو گولی مار دیتا اور یوں پورے قبیلے کی بدنامی ہوتی۔
ملک دشمن عناصر کا خاتمہ ہو چکا تھا۔ سب ایک دوسرے کو مبارک باد دے رہے تھے لیکن پربت کی رانی کے انجام نے فضا کو غمگین کر دیا تھا۔ غم اس بات کا بھی تھا کہ اگر وہ زندہ ہوتی تو یہ بات ضرور علم میں آجاتی کہ اسے یہ سب جدید ٹیکنالوجی کس دشمن نے فراہم کی تھی اور اس ملک کے مقاصد کیا تھے۔

حصہ