تحفظ ناموس رسالت ﷺکا سوشل میڈیا

189

غزہ کے اثرات :
میرے پاس تو سیدھے طریقے سے ٹوئٹر اس ہفتے بھی مستقل نہیں چلا، نامعلوم کس وقت نوٹیفیکیشن آجاتے تھے ۔ ٹرینڈز کی صورتحال بہرحال دیگر ذرائع سے معلوم ہوتی رہی۔غزہ کی صورتحال ٹوئٹر پر مستقل اپنی جگہ بنائے ہوئے تھی۔عہد خلافت کے بعد 100 سال میں اس خطے کی سب سے طویل جنگ ہو چکی ہے ، ویسے اس کو جنگ کہنا نہیں چاہیے، اسکا ایک ہی نام ہے کہ ’فلسطین پر حملہ‘۔ بات دنوں ،ہفتوں، مہینوں سے اب نصف سا ل پر آچکی ہے۔اسرائیل کو ساری طاقت لگانے کے بعد بھی اپنے کوئی مقاصد واہداف حاصل نہیں ہو سکے ہیں، اس سے بڑی کوئی ناکامی ہو نہیں سکتی ۔

سوشل میڈیا پر دنیا بھر میں احتجاج، بائیکاٹ سمیت ہر قسم کا رد عمل جاری تھا۔ پاکستان کی تو اس ضمن میں بات کرتے ہوئے شرم سی آتی ہے۔یہاں تو میچ میں فلسطین کا پرچم لے جانا بھی ممکن نہیں ، باوجود اس کے کہ ریاست کا بیانیہ فلسطین کے ساتھ ہے ، مگر کوئی یہ نہیں بتا سکتا کہ اب وہ کون سی طاقت ہے جو صاف سیدھے ریاستی بیانیے کے باوجود ’عوام کوفلسطین کی حمایت کرنے سے روک رہے ہیں؟‘ ۔ واضح رہے کہ پی ایس ایل اور پی سی بی میں ’پی ‘ کا مطلب ’پاکستان ‘ ہے اس کے پیچھے ریاست پاکستان موجود ہے۔رمضان کی وجہ سے غیرت مند مسلمانوں نے یہ بھی یاد دلایا کہ اس بار سحر و افطار کے دسترخوان پر ’یہودی ، امریکی اشیا ‘ کا بائیکاٹ کریں ، جس میں سب سے اہم اشارہ (کولڈڈرنکس، برگر، بروسٹ) کی جانب تھا۔اس بائیکاٹ کی اہم مہم میں آج بھی دینی جماعتوں ، تنظیموں کی ویسی حمایت وموجودگی یکسر غائب ہے جس کے ہونے سے ہی یہ مہم اجتماعی قالب میں ڈھلے گی۔ اس ہفتے عورت مارچ کا معاملہ اٹھانا تھا، مگر سندھ ہائی کورٹ نے ایک قدم اٹھایا ہے 19 مارچ کو سماعت کے بعد ہم اسکا مزید پوسٹ مارٹم کریں گے ۔

قبول اسلام :
اس میں کوئی شک نہیں کہ تمام تر شیطانی کوششوں کے باوجود قبول اسلام اعداد و شمار میں بھی اپنی نوعیت کا مختلف مقام رکھتا ہے۔ صرف غزہ جنگ کی وڈیوز، وہاں کے مسلمانوں کی عظیم استقامت نے دلوں کو عجیب طریقے سے بدل ڈالا ہے۔سارے میڈیا کی یک طرفہ خبروں، تجزیوں، ریاستوں کی اسرائیلی حمایت کے باوجود یورپی، امریکی ممالک میں عوام کا قبول اسلام معنی رکھتا ہے۔ ان میں عام عوام ہی نہیں بلکہ وہاں کی سیلیبرٹیز بھی شامل ہیں۔ اس کی ایک اہم وجہ یہ بھی ہے کہ مغرب میں جب کسی کو نظر آجاتا ہے کہ اس کا ’نظریہ انسانی حقوق، آزادی، مساوات‘ سب ایک دھوکہ ، جھوٹ اور فریب ہے تو پھر وہ اگر واقعی سچ کا متلاشی ہوتا ہے تو پھر وہ ’سچ‘کی جانب ہی جا تا ہے۔وہ دیکھ رہا ہے کہ اگر ‘ڈیموکریسیُ عوام کی حکومت ہے تو کیوں یہ عوامی ٹرینڈز، احتجاجی مظاہروں پر عمل کیوں نہیں ہو رہا؟ وہ دیکھتا ہے کہ اگر ہمارا ایمان کسی ’ ہیومینٹی‘ پر ہے تو پھر ’فلسطین ‘ کے لوگ ہیومن کیوں نہیں؟بس یہاں سے اُس کے ایمان کامحل ٹوٹ جاتا ہے۔

اس ہفتے برازیل کے مارشل آرٹس کے بڑے کھلاڑی رائس گریسی نے امریکہ میں مقیم عالم دین شیخ عثمان سے ٹی وی پروگرام میں گفتگو ودلائل سننے کے بعد کلمہ شہادت پڑھ کر اسلام قبول کرلیا۔’دین شو‘ کے نام سے امریکہ میں 2006 سے یہ چینل مغرب میں اسلام کے فروغ کے لیے کام کر رہا ہے۔رائس نے گھنٹہ بھر کی نشر ہونے والی ریکارڈنگ میں غزہ سے متعلق صورتحال پر ، اسلام کی بنیادی تعلیمات پر اپنے خوب سوالات کیے جن کا عالم دین نے شافی جواب دیا۔ پروگرا م کے آخر میں مہمان نے دِلی اطمینان ظاہر کرکے کلمہ شہادت پڑھا اور مبارک باد قبول کی۔نومسلم مہمان نے مکہ جانے کی بھی خواہش کا اظہار کیا ۔ 10دن قبل مہمان کھلاڑی نے اپنے انسٹا گرام پر یہودیوں اور اسرائیل کی حمایت میں طویل پوسٹ لگائی تھی جس پر اُس کو مخالف رد عمل کاسامنا کرنا پڑا ۔ یہاں سے اس کے ذہن میں کئی سوالات نے جنم لیا جن کے جوابات پروگرام میں عالم دین نے اچھے انداز سے دیئے اور فلسطینیوں پر مظالم کا حقیقی چہرہ دکھایا۔

اگلی اطلاع اس ہفتے ایوارڈ یافتہ معروف امریکی مصنف، صحافی اور انسانی حقوق کے رہنما 44 سالہ جیفری شان کنگ اور اس کی اہلیہ رائے کنگ کے قبول اسلام کی تھی۔یہ اعلان انہوں نے یکم رمضان کو اپنی اہلیہ کے ساتھ مسجد میں قبول اسلام کی تقریب میں کیا۔ڈاکٹر عمر سلیمان نے جوڑے کو کلمہ شہادت پڑھوایا ، اس سے قبل وہ بنیادی ےتعلیمات لے چکے تھے اور انہوں نے وہاں نماز بھی ادا کی۔شان کنگ گزشتہ چند ماہ سے مسلمانوں اور خصوصی طور پر فلسطینیوں کے حق میں کھل کر سامنے آئے تھے، جس وجہ سے انہیں امریکا میں مخالفت کا بھی سامنا رہا لیکن اب انہوں نے اسلام قبول کرلیا ہے۔شان کنگ نے فیس بک پر دائرہ اسلام میں داخل ہونے اور کلمہ شہادت پڑھنے کی ویڈیو شیئر کرتے ہوئے دُنیا کو بتایا کہ انہوں نے اسلام قبول کرلیا۔کنگ کو نسل پرستی اور خصوصی طور پر افریقیوں اور مسلمانوں کے خلاف تشدد کے خلاف آواز اٹھانے کی وجہ سے شہرت حاصل رہی ہے۔اس سے قبل بالٹی مور سے مشہور باکسر گریونٹا ڈیوس کی اطلاع آئی تھی۔گلوبل آئی نیوز نے ٹوئیٹ میں بتایا کہ غزہ جنگ کے بعد کوئی 20ہزار افراد نے اسلام قبول کیا ہے ۔انسانی حقوق کا تضاد اتنا ہولناک ہے کہ جو انسان اس پر ایمانداری سے چلتا ہے تو تضادات کی بھرمار دیکھ کر سیدھا اسلام کی آغوش ہی میں پناہ لیتا ہے۔اب یہ ایک کیس نہیں ہے، یہ تو نامور آدمی تھا اس لیے خبر فلیش ہوگئی، گذشتہ ۵ ماہ سے غیر مسلموں کے قبول اسلام کی وجوہات یہی بتا رہی ہے کہ مغرب کے کھوکھلےنظریات انسانو ں کو تباہ کرنے کے علاوہ کچھ نہیں کر رہے۔

یوم تحفظ ناموس رسالتﷺ:
حکومت پاکستان نے سوشل میڈیا پر ناموس رسالت اور مقدسات دینیہ کی توہین کے خلاف عوامی سطح پر 15 مارچ 2024کو آگہی کا دن منانے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ اہم اعلان ہم تک صرف سوشل میڈیا سے پہنچا وگرنہ یقین مانیں کہ 14 مارچ تک سب جگہ سناٹا طاری تھا۔ ’لیگل کمیشن آن بلاسفیمی ‘ نے اس معاملے پر یہ پوری مہم چلائی ۔ عدالت سے حکم لیا کہ 15 مارچ کا دن مکمل طور پر اس کام کے لیے مختص کیا جائے کہ پاکستان بھر کے انٹرنیٹ صارفین کو یہ بات سمجھائی جائے کہ ’انٹرنیٹ پر کیا کرنے کے کام ہیں؟ سوشل میڈیا پر جاتے وقت کون سے کام شدید گناہ اور جرم ہیں۔‘آپ سوچ رہے ہونگے کہ عدالت کو ایسا حکم دینےکی ضرورت کیوں پیش آئی ۔ یہ سب سے اہم اور سنگین سوال ہے ، اس لیے کہ عدالتوں میں اس وقت سیکڑوں کی تعداد میں ’توہین مذہب، توہین رسالت و مقدسات ‘ کے کیسز زیر سماعت ہیں ۔ جی سیکڑوں کی تعداد میں ، یہی وجہ ہے کہ عدالت بھی پریشان ہے ، یہ سب کیا ہو رہا ہے ۔ شرمناک بات یہ ہے کہ ایسا کرنے والے کوئی غیر مسلم نہیں ہیں، بلکہ اعلیٰ تعلیم یافتہ ، دینی گھرانوں کے افراد ہیں۔یہی سنگینی دیکھ کر حکومت پاکستان نے پیمرا، ہائیر ایجوکیشن کمیشن، تعلیم و متعلقہ اداروں کو ہدایات بھی جاری کیہیں جن میں کہاگیا ہے کہ 15 مارچ2024 کو ’یوم تحفظ ناموس رسالت ﷺ‘ سے متعلق عوام کوآگہی دی جائیگی۔پیمرا نے تمام اخبارات ، ٹی وی چینلز کو ہدایات دی ہیں۔ اس سلسلے میں پی ٹی اے نے ایک کالر ٹیون بھی جاری کی ۔ اس میں انٹرنیٹ صارفین کو صاف طور پر منفی پہلوؤں کی آگہی دیتے ہوئے بتایاگیا ہے کہ توہین رسالت، اسلام مخالف، ریاست مخالف، فحش مواد اور جھوٹی خبریں ڈالنا سخت جرم ہے ۔ ’لیگل کمیشن آن بلاسفیمی ‘ نے اِس اہم اور سنگین معاملے پر درست آگہی کے لیے خاصی جدوجہد کی ہے ۔ چیئرمین لیگل کمیشن آن بلاسفیمی پاکستان راؤ عبد الرحیم ایڈووکیٹ نے تمام محب وطن پاکستانیوں کو سوشل میڈیا پر ناموس رسالت کے تحفظ اور مقدسات دینیہ کی توہین کے خلاف آگاہی مہم چلانے کی دعوت دی ہے۔ اس سلسلے میں 14 مارچ سے سوشل میڈیا پر ایک ٹرینڈ چلا کر بات سمجھائی گئی۔لیگل کمیشن کے مطابق گذشتہ 35 سال سے ایک منظم کوشش کے تحت بے حیائی و فحاشی کو اپنا ہتھیار بناکر لوگوں کو توہین مذہب کے مزید بدترین گناہ کی طرف لے جاتے ہیں۔اس کو روکنے کے لیے کم از کم صارفین کو اس معاملے پر بنیادی آگہی دینا ضروری ہے جس کے لیے ایسی مہم سے کوشش کی جائیگی تاکہ سزا ئیں دیتے وقت سارے جوازختم کر دیئے جائیں ۔یہ معاملہ ایسا نہیں ہے کہ جیسا مغربی میڈیا نے ہمارے درمیان پیش کیا ہواہے۔ پہلے مرحلے پر تو ایسا ظاہرکیا جاتا ہے کہ ’قانون توہین رسالت ﷺ‘ کا پاکستان میں غلط استعمال کیا جاتا ہے اور لوگ اس کو آپس کے بدلے لینے ودیگر معاملات میں استعمال کرتے ہیں۔ یہ پروپیگنڈہ اتنا زیادہ کیا جاتا ہے مگر اِس کا مطلب لوگ صرف یہی نکالتے ہیں کہ یہ سب ’’اس قانون کو ختم کرنے کی سازش ہے‘‘ اور حقیقت بھی یہی ہے ۔

تازہ واقعے سے اس اہم بات کو سمجھیں ، میں تو صاف سب سے کہتا ہوں ، لکھتا ہوں، بار بار کہتا ہوں کہ سوشل میڈیا کا استعمال کم ترین کریں، دین کی تبلیغ کاجواز نہ نکالیں، کیونکہ کب کیا چیز نظر کے سامنے آجائے یہ آپ کے قابو میں نہیں ہوتا۔ پاکستان کی عدالت سے سزائے موت کے ایک مجرم کے لیے ’توہینِ مذہب کا جھوٹا الزام کون روکے گا؟‘ کی چنگھاڑتی سرخی لگا کر بی بی سی نے اس ہفتہ سیریبین پر وڈیو رپورٹ بھی بنائی۔اس کے علاوہ ’’گوجرانوالہ کے نوجوان کو توہینِ مذہب کے الزام پر سزائے موت: ’میں نے تو مدارس سے فتوے بھی لے کر دیے مگر کسی نے ایک نہ سنی‘کی تفصیلی رپورٹ لگائی۔ آپ رپورٹ پڑھیں گے تو صاف محسوس ہوگا کہ عدالتوں نے کوئی ظلم کردیا، سارے حقائق صرف بی بی سی کو معلوم ہیں عدالتیں اور مجرم کے وکیل سب ایویں ہیں ۔ یہ خبر لکھنے کی مخصوص ترتیب ہوتی ہے اسکو ’اینگلنگ‘ کہتے ہیں ، یعنی مخصوص پہلو دِکھانا۔’’دونوں طلبا کے خلاف مقدمہ دو سال قبل 15 جون 2022 کو لاہور کے تھانہ ایف آئی اے سائبر کرائم میں درج کیا گیا تھا جسے لاہور ہائیکورٹ کے حکم پر گوجرانوالہ کی مقامی عدالت کو سماعت کے لیے بھجوایا تھا اور ڈیڑھ ماہ میں ٹرائل مکمل کر کے فیصلہ دینے کا حکم دیا تھا۔‘‘اب اس خبر میں جو اہم ترین نکات ہیں وہ آپ کو سمجھنے ضروری ہیں۔2 سال یہ کیس عدالت میں چلا ہے۔اب تو عوام نے پکڑ کرکسی کو نہیں مارا گیا بلکہ عین ریاست نے ، قانون نے عمل کرکے سزا دی ہے۔کوئی ایک چیز مجرم اپنی بے گناہی میں پیش نہیں کر سکے۔گستاخ مجرموں کے والدین نے بہترین وکلا کیے تھے ، رستے سے کسی کو پکڑ کر نہیں کھڑا کر دیا تھا۔ یہ سائبر کرائم کی ایف آئی آر تھی ، یعنی جرم سوشل میڈیا پر ہوا تھا، اس کا طریقہ یہ ہے کہ پہلے سائبر سیل میں تمام ثبوت جمع کرائے جاتے ہیں، پوری تصدیق و یقین دہانی کے بعد ہی پرچہ کٹتا ہے وگرنہ اگر ثبوت مکمل نہ ہوں تو گرفتاری تو دورکی بات پرچہ ہی نہیں کٹتا ۔ پھر اگرتوہین مذہب کا معاملہ ہوتو اس میں تفتیش کوئی چھوٹا سپاہی یا انسپکٹر نہیں کرتا ، کم از کم ایس پی سطح کا آفیسر کام کرتا ہے۔ ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج گوجرانوالہ ظفریاب چدھڑ کی طرف سے جاری ہونے والے فیصلے کے مطابق مرکزی ملزم کو تعزیرات پاکستان کی دفعہ 295 سی (پیغمبرِ اسلام کی توہین) کے تحت سزائے موت اور ایک لاکھ روپے جرمانے کی سزائیں دی گئی ہیں۔ان 2سالوں میں انکی ضمانتیں خارج ہوئیں، ٹرائل کو لاہور سےگجرانوالہ منتقل کیاگیا۔ زیر استعمال موبائل سے تمام ثبوت نکالے گئے ،جن کا انکار ممکن ہی نہیں ۔اب تو کال ریکارڈ ،نمبر اور فرانزک آڈٹ سے ایک ایک چیز معلوم کی جاسکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ثبوتوں میں کوئی کمی نہ ہونے کے سبب دونوںکو سزائیں سنائی گئیں۔

یہ سزا کوئی معمولی نہیں ہیں ، یہ کسی ایویں پوسٹ ،کمنٹ کرنے پر نہیں دی گئی ہونگی ،اتنا تو ’کامن سینس‘ سے بھی سوچا جا سکتا ہے۔ ان کے جرائم کی سنگینی اتنی زیادہ ہے کہ میں تفصیلات لکھنے سے قاصر ہوں کہ وہ خود انتہائی بے ادبی ہے۔آپ کیس کی گہرائی اور تفتیش کا اندازہ اس بات سے کریں کہ عدالت نے فیصلے میں یہ بھی کہا ہےکہ’’ تعلیمی اداروںمیں قرآن اور سنت کی تعلیم دینے کے تصور کو ترک کر دیا گیا ہے جو کہ افسوسناک ہے۔‘‘عدالت نے فیصلے کی کاپی نجی اسکول کے چیئرمین کو بھجوانے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ مناسب وقت ہے کہ موجودہ صورتحال کا جائزہ لیا جائے تاکہ عدالت نے جن تفکرات کا اظہار فیصلہ میں کیا اس کا ’جنگی بنیادوں پر بہترین حل نکالا جا سکے۔‘ اس کی مزید تفصیل ہم پیش کرتے رہیں گے۔یہ تو ایک تازہ کیس کا احوال ہے ، اتنے سارے کیسز کی وجہ سے ہی حکومت پاکستان بھی مجبور ہوئی ہے کہ ’تحفظ ناموس رسالت ﷺ ‘ کا پورا قومی دن منایا جائے ۔

حصہ