مظلوم کی آہ

67

’’اے جی سنیے گا؟‘‘ فریحہ بیگم نے مشتاق مرزا کو مخاطب کیا۔

’’جی سنایئے‘‘۔ مشتاق مرزا نے اخبار کے پیچھے سے جھانک کر کہا۔

’’آج زہرہ آئی تھی، اس کے بیٹے فواد کی طبیعت خراب ہے۔ اسپتال میں دکھایا تو ڈاکٹر نے پیٹ میں رسولی بتائی ہے، آپریشن کرنا پڑے گا۔ تقریباً ڈیڑھ لاکھ کا خرچا آئے گا۔ وہ کہہ رہی تھی کہ اگر آپ ورثے کے پیسوں میں سے ڈیڑھ لاکھ دے دیں تو اس کا مسئلہ حل ہوجائے گا، بے چاری بہت پریشان ہے۔‘‘ فریحہ بیگم نے ایک ہی سانس میں پوری بات بتادی۔

’’ورثہ… ورثہ… ورثہ… آخر ان لوگوں کو کوئی اور موضوع نہیں ملتا؟ پچھلے ہفتے صولت مرزا بھی یہی بات کہہ رہا تھا۔ پندرہ دن پہلے ستارہ کو بھی رقم کی ضرورت تھی۔ ان لوگوں سے صبر نہیں ہوتا؟ میں کہیں بھاگا جارہا ہوں؟‘‘ مشتاق مرزا پھٹ پڑے۔ فریحہ بیگم نے چپ ہونے میں ہی عافیت جانی۔

عظمت مرزا صاحب کی چار اولادیں تھیں مشتاق مرزا، صولت مرزا، زہرہ اور ستارہ۔ اپنی زندگی میں سب کی شادیاں کردی تھیں۔ ان کا کاروبار مشتاق مرزا نے بڑا بیٹا ہونے کے ناتے سنبھالا ہوا تھا، جب کہ صولت مرزا کو تعلیم حاصل کرنے کا شوق تھا، وہ پی ایچ ڈی کرکے ایک یونیورسٹی میں پروفیسر تھے۔ عظمت مرزا کے انتقال کو دو برس ہوگئے مگر ورثے کی تقسیم کا مسئلہ ہنوز طے نہیں ہوا تھا۔ مشتاق مرزا یوں بھی غصے کے تیز تھے۔ بہن بھائی اُن سے کھل کر بات کرتے ہوئے ڈرتے تھے۔ ڈھکے چھپے انداز میں کہتے کہتے دو برس بیت گئے تھے۔

کمر توڑ مہنگائی نے سب کا برا حال کردیا تھا۔ زہرہ کے شوہر کا انتقال ہوئے بھی سال گزر چکا تھا۔ ماشاء اللہ دس بچوں کی ذمہ داری بڑے بیٹے فواد کے سر آپڑی تھی جو صرف بیس سال کا تھا، وہ کسی پرائیویٹ فرم میں معمولی تنخواہ پر ملازمت کرکے گھر کی گاڑی کھینچ رہا تھا۔ ایک ماہ سے فواد کے پیٹ میں درد تھا، قریبی ڈسپنسری سے دوا لے کر وقتی آرام آجاتا تھا مگر دو چار دن بعد پھر وہی تکلیف ہوجاتی۔ مجبوراً زہرہ نے مہنگے پرائیویٹ اسپتال میں دکھایا تو رسولی کا انکشاف ہوا۔ اس کے پاس نہ تو زیور تھا اور نہ کوئی بینک بیلنس، یوں پریشان ہوکر بھابھی کے سامنے اپنا دکھڑا بیان کرگئی۔ مگر مشتاق مرزا پر اس کا کوئی اثر نہ ہوا، حالانکہ انہوں نے ایک دکان سے دوسری دکان خریدی اور چار گودام بھی خرید چکے تھے۔ ان کے چاروں بیٹے بھی ان کے ساتھ کاروبار میں لگ چکے تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ پہلے چاروں بیٹوں کی اپنی اپنی دکان اور گودام ہوجائے پھر باپ کی دکان کو بیچ کر بہن بھائیوں میں تقسیم کردیں گے۔ اس خلافِ شریعت کام پر ان کو کوئی فکر لاحق نہ تھی۔

فریحہ بیگم نے جب سے ہفتہ وار قرآن کلاسز میں جانا شروع کیا تھا، یہ بات اُن کے علم میں آگئی تھی کہ ورثہ میت کے انتقال کے دوسرے دن وارثوں میں تقسیم ہوجانا چاہیے، چاہے ایک گز کپڑا ہی کیوں نہ ہو،جبکہ یہاں تو تقریباً ساٹھ ستّر لاکھ مالیت کی دکان اور گودام تھا۔ فریحہ بیگم نے بہت سمجھایا کہ زہرہ، ستارہ اور صولت مرزا کو ورثہ دے کر بھی ہمارے پاس اتنے پیسے ہوں گے جس سے ہم بآسانی کاروبار کر سکتے ہیں۔ مگر لالچ نے مشتاق مرزا کی آنکھوں پر پٹی باندھ دی تھی۔

ٹیلی فون کی گھنٹی بجی ’’السلام علیکم۔‘‘ فریحہ بیگم نے فون اٹھایا۔

’’وعلیکم السلام۔ بھابھی! میں زہرہ بات کر رہی ہوں، بھائی جان سے بات کی آپ نے پیسوں کے سلسلے میں؟‘‘ انہوں نے استفسار کیا۔

’’ہاں زہرہ میں نے تمہارا پیغام پہنچا دیا تھا تمہارے بھائی جان کو، مگر وہ کہہ رہے تھے کہ ذرا صبر کرلو، جلد ہی سب میں ورثہ تقسیم کردیں گے۔‘‘ فریحہ بیگم نے جھجکتے ہوئے کہا۔

’’میں تو صبر کر لوں بھابھی، مگر فواد کی طبیعت دن بہ دن خراب ہو رہی ہے، ڈاکٹر نے جلد سے جلد آپریشن کا کہا ہے، ان کے ابو زندہ ہوتے تو شاید مجھے آپ کے آگے دستِ سوال دراز نہ کرنا پڑتا۔ میں کہاں جائوں بھابھی! خدارا آپ ہی بتائیں، میرے سسرال والوں کی بھی اتنی حیثیت نہیں کہ ڈیڑھ لاکھ کی خطیر رقم مجھے دے سکیں۔ آپ لوگوںکے سوا میرا کوئی آسرا نہیں ہے۔‘‘ زہرہ سسکنے لگی۔

فریحہ بیگم کی آنکھوں میں بھی آنسو آگئے، مگر وہ شوہر کے سامنے بے بس تھیں۔

’’اچھا تم رو نہیں، میں رات کو پھر تمہارے بھائی کو سمجھانے کی کوشش کرتی ہوں، تم اللہ سے دعا کرو، اللہ فواد کو ضرور صحت دے گا۔‘‘ فریحہ بیگم نے زہرہ کی ڈھارس بندھاتے ہوئے کہا۔

’’اچھا بھابھی مجھے کل فون پر بتادینا، اللہ حافظ۔‘‘

فریحہ بیگم کانپ کر رہ گئیں۔ یہ سب باتیں میں مشتاق مرزا کو کیسے بتائوں گی؟ اتنے میں طلحہ کے موبائل پر کسی کی کال آئی ’’کیا…؟ آگ لگ گئی… کیسے؟ اچھا میں آرہا ہوں۔‘‘

’’کیا ہوا بیٹا! کس کا فون تھا؟‘‘

’’امی ہمارے پڑوسی دکان دار کا فون تھا، نامعلوم افراد نے بولٹن مارکیٹ پر دکانوں میں آگ لگا دی، وہ کہہ رہا ہے جلدی آئو اور اپنی دکان کی خبر لو۔ امی میں جارہا ہوں، آپ ابو کو اٹھاکر بتادیں اور دعا کریں کہ ہماری دکانوں کو کچھ نہ ہو۔‘‘

طلحہ جب وہاں پہنچا تو چند دکانوں میں آگ لگی ہوئی تھی، ان کی دکانیں اور گودام ذرا دور تھے، اتنے میں آگ بجھانے والی گاڑیاں آتی نظر آئیں، سب دکان دار کہنے لگے ’’جلد ہی آگ پر قابو پا لیا جائے گا، سامان نکالنے کی ضرورت نہیں۔‘‘ سب لوگ مطمئن کھڑے تھے، مگر جلد ہی آگ آگے بڑھتے بڑھتے مشتاق کی دکانوں تک پہنچ گئی۔ طلحہ اور دوسرے لوگ چیخنے لگے کہ فائر بریگیڈ کو بلائو۔ مگر وہاں سننے والا کون تھا! کچھ لوگوں نے فون بھی کیے۔ ’’کراچی میں پانی نہیں ہے، حیدرآباد سے منگایا ہے، ٹائم تو لگے گا۔‘‘ حکام بالا کی طرف سے جواب آیا۔

تھوڑی دیر میں مشتاق مرزا کی دکانیں اور گودام راکھ کا ڈھیر بن گئے۔

فریحہ بیگم نے طلحہ کو فون کرکے پوچھا ’’بیٹا! خیریت ہے؟‘‘

’’نہیں امی سب ختم ہوگیا۔‘‘ طلحہ نے آرزدگی سے کہا۔

’’کیا…؟‘‘ فریحہ بیگم کو اپنی آواز کنویں سے آتی محسوس ہوئی۔ مظلوم کی آہ نے واقعی اللہ کے عرش کو ہلا دیا تھا۔ لاکھوں کروڑوں مالیت کی دکانیں اور گودام مال سمیت راکھ کا ڈھیر بن چکے تھے۔

مشتاق مرزا اپنے کمرے سے نکل کر فریحہ کی طرف آرہے تھے۔ فریحہ کے پاس دو خبریں تھیں مگر اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کون سی خبر پہلے سنائے۔

حصہ