آخر شب کے ہم سفر

132

(10)

ویشنو بَیراگی
کلپ ترو دیو مالا کا وہ درخت ہے جو سمندر منتھن سے نکلا تھا۔ اور اس کے پھولوں میں اپنی مرضی کے مطابق کوئی سی بھی خوشبو سونگھی جاسکتی تھی۔ اور جوہر خواہش پوری کردیتا تھا۔

شانتی نکیتن میں برہمو مندر کے پاس ایک پرانا برگد کھڑا ہے۔ دیپالی سرکار اسے اپنا کلپ ترد سمجھتی ہے۔ کیونکہ ایک روز اس درخت نے بڑے انوکھے اور غیر متوقع انداز میں اس کی ایک خواہش پوری کردی۔

ایسٹرن ریلوے کی صاحب گنج لُوپ لائن پر کلکتے سے سو میل کے فاصلے پر سنتھال پرگنہ کے نزدیک بول پور ایک جگہ کا نام ہے۔ بول پور آج سے سو برس پہلے اپنے ڈاکوئوں کے لئے مشہور تھا۔ کیونکہ اس علاقے کی کنکریلی زمین میں کھیتی باڑی نہیں ہوسکتی تھی۔ اور یہاں کے باشندے ڈاکے ڈال کر اپنا پیٹ پالتے تھے۔ وہ چھُری، جس سے یہ ڈاکو مسافروں کا گلا کاٹتے تھے بول کہلاتی تھی اور اسی وجہ سے اس دیرانہ کا نام بول پور پڑ گیا تھا۔

ہمالیہ پر شانتی کی تلاش سے ناکام لوٹنے کے بعد ایک مرتبہ مہارشی دیوبندر ناتھ ٹیگور زمیندار سنہا سے ملنے پالکی میں بیٹھے رائے پور جا رہے تھے۔ جب بولپور کا یہ سنسان بیہڑ راستے میں پڑا۔ اس میدان میں مہارشی کو ایک بڑا سایہ دار درخت نظر آیا۔ انہوں نے پالکی وہیں رکوالی اور درخت کی چھائوں میں قالین بچھا کر مراقبے میں مصروف ہوگئے۔ وہاں انہوں نے ’’یودیودگردیو پسُود شوم بھون مادیو یشھ یہ ادشدھی شو یوونسپتی شو قسمئی دیوابہ نمونماہ…‘‘ والی ویدک حمد دہرائی۔ اور مہارشی کو اس درخت کے نیچے وہ شانتی مل گئی جس کی کھوج میں وہ سارے ہندوستان میں گھومے تھے۔

انہوں نے رائے پور جا کر زمیندار سنہا سے یہ علاقہ خرید لیا۔ درخت اور باغ لگوائے۔

ڈاکوئوں نے ڈاکہ ڈالنے سے توبہ کی۔ اور ۱۸۶۳ء میں مہارشی نے اپنی آرام و آسائش کی زندگی تیاگ کر یہاں شانتی نکیتن آشرم قائم کیا۔ شانتی نکیتن وِلا تعمیر کروائی اور یہاں رہنے لگے۔ برگد کے اس درخت کے نیچے انہوں نے ایک مرمریں معبد بنوا کر اس کے پھاٹک پر لکھوایا۔

آمار پرنیر آرام
سونیر آنند
آتمار شانتی۔

اس درخت کے نیچے مہارشی کو خدا مل گیا تھا۔

آج یہ شانتی نکیتن ہند قدیم کی جنگل کی درس گاہوں کی طرز پر بنے ہوئے دارالعلوم وشوا بھارتی انٹرنیشنل یونی ورسٹی کے نام سے دنیا میں مشہور ہے۔ دوسری جنگ عظیم نے گاندھی اور واردھا آرم، نہرو اور آنند بھون اور ٹیگور اور شانتی نکیتن والے ہندوستانی کو قومی جدوجہد کے ایک انتہائی نازک موڑ پر لاکھڑا کیا ہے۔ اور گوشانتی نکیتن کی فضائیں ہمیشہ کی طرح پرسکون اور نغمہ بار ہیں۔ اور گرو دیوا بھی زندہ ہیں اور ڈاکٹر نند لال بوس اور اپندر ناتھ ٹیگور اور ہندوستانی نشاۃ ثانیہ کے دوسرے عظیم مصوّر کلابھون میں موجود ہیں۔ مگر بیرونی دُنیا کے معاملات تیزی سے بدلتے جارہے ہیں۔

آمارپرانیر آرام
مونیر آنند
آتمار شانتی۔

ستمبر ۱۹۴۰ء کی ایک شام شانتی نکیتن کی ایک نئی طالب علم تھرڈ ایئر کی دیپالیؔ سرکار برگد کے نیچے بیٹھی مرمریں پھاٹک پر منقش ان سحر انگیز الفاظ پر نظر ڈال کر سوچ رہی تھی۔ کمال ہے مہارشی کو اتنی آسانی سے یہ سب کچھ حاصل ہوگیا تھا۔ مگر مہارشی کبھی بیس برس کے بھی تو رہے ہوں گے۔

اپنی نوٹ بک بند کرکے وہ برگد کے پتوں کی نائو بناتے بناتے سوچنے لگی۔ کلپ ترو! زندگی کے پتّے گرتے جارہے ہیں۔

’’الکھ نرنجن…‘‘ دور سے آواز آئی۔ اُس نے چونک کر جنگل کی طرف دیکھا۔ دور ایک پگڈنڈی پر چند ویشنو بیراگی نعرہ لگاتے تیز تیز چلے جارہے تھے۔

دیپالی کو یاد آیا کہ یہ بیربھوم ہے۔ چنڈی داس کی سرزمین۔ اس نے جھک کر سُرخ مٹی پر ہاتھ رکھ دیا۔ چنڈی داس کی سرزمین۔

وہ کتابیں سمیٹ کر ہوسٹل واپس جانے کے ارادے سے اُٹھنے لگی۔ کہ اچانک سامنے پگڈنڈی پر پتے کھڑکھڑائے۔ اس نے نظریں اُٹھا کے دیکھا۔ ایک لمبی سیاہ داڑھی اور سیاہ زلفوں والا ویشنو سنیاسی عین اس کے سامنے کھڑا تھا۔ وہ گھبرا کر کھڑی ہوگئی اور سنیاسی کو پرنام کیا۔ تب اس نوجوان بیراگی نے بڑی شگفتگی سے کہا۔ ’’دیپالی۔ ہم یہاں تھوڑی دیر کے لئے بیٹھ جائیں؟ ہمیں لگتا ہے تمہیں روحانیت کے درس کی اشد ضرورت ہے‘‘۔

دیپالی کے جواب کا انتظار کئے بغیر وہ چبوترے پر بیٹھ گیا۔ اور چاروں طرف نظر ڈالی۔ پھر اس نے جھولے میں سے سگریٹ نکال کر جلایا مگر فوراً ہی بجھادیا۔

’’بچہ… ہم تجھ سے بہت زیادہ خوش ہیں۔ تو نے ہماری بہت سیوا کی ہے۔ اور ہم تیری بہادری کے سخت قائل ہوگئے ہیں۔ تو واقعی کمال کی لڑکی ہے‘‘۔

دیپالی نے بھویں جوڑ کر کہا۔ ’’آپ؟‘‘

’’ہاں بیـٹا!‘‘

دیپالی سراسیمہ ہوگئی۔ ’’آپ کو اس قدر ریک لیس نہ ہونا چاہئے۔ اب میں کسی کی آیا وایا بننے نہیں جائوں گی‘‘۔
’’ریک لیس…؟ یہ شانتی نکیتن تو اپنا پرانا اڈہ ہے بچہ‘‘۔

برگد کے نزدیک مرمریں عبادت گاہ میں کسی نے چراغ جلا دیا۔ پھر قدموں کی چاپ دور ہوگئی۔

’’تو پوجا پاٹ نہیں کرتی بیٹا؟‘‘

دیپالی نے کوئی جواب نہیں دیا۔ سنیاسی نے پھاٹک پر لکھے ہوئے الفاظ پر نظر دالی پھر وہ بھی کسی سوچ میں ڈوب گیا۔ اب شام کا اندھیرا گہرا ہوگیا تھا۔

’’آپ… آپ کو کیسے معلوم ہوا کہ میں اس وقت یہاں مل جائوں گی؟‘‘ چند لمحوں بعد دیپالی نے سر اُٹھا کر اس سے پوچھا۔

وہ اپنے خیالوں سے چونکا اور دفعتاً ہنس پڑا۔ ’’اپنے علم کے زور سے!‘‘ پھر کچھ توقف کے بعد اس نے کہا۔ ’’ہمیں تیرے متعلق سب معلوم رہتا ہے۔ بچہ ہم جانتے ہیں کہ تو روز شام کو یہاں بیٹھ کر اپنا ہوم ورک کرتی ہے‘‘۔

’’تو بتلائیے اب میرے لئے کیا کام ہے‘‘۔دیپالی نے ذرا درشتی سے کہا۔

’’کیا ہم کسی کام کے بغیر تجھ سے نہیں مل سکتے؟‘‘سنیاسی نے اطمینان سے جواب دیا اور چبوترے پر آلتی پالتی مارے بیٹھا رہا۔ اندھیرے میں اس کی شکل صاف نظر آرہی تھی۔

ہوا کے ایک جھونکے نے شرائن میں لگے ایک درخت کے سُرخ پھول چبوترے پر بکھیر دیئے بہت دور سال کے ایوینو میں گرو دیو کسی سے باتیں کرتے ہوئے گزر رہے تھے۔

’’گرو دیو جارہے ہیں‘‘۔ سنیاسی نے اُٹھ کر کھڑے ہوتے ہوئے کہا۔ دیپالی بھی چبوترے پر سے اُٹھی۔ گرو دیو اندھیرے میں غائب ہوگئے۔

دفعتاً دیپالی کو محسوس ہوا کہ یہ شام منفرد ہے۔ پھر کبھی واپس نہ آئے گی۔

سنیاسی نے جھولے میں سے نکال کر گھڑی دیکھی اور پہلی دفعہ سنجیدگی سے کہا۔ شوکتی، (شکتی) لو تمہیں ایک کام بتا ہی دیں‘‘۔

دیپالی نے تیور پر بل ڈال کر اسے دیکھا۔ ’’میرا نام دیپالی ہے‘‘۔
’’ہاں، لیکن تم میری شوکتی ہو، چلو جلدی سے ایک اور کام کردو تھوڑا سا‘‘۔

دیپالی گُم سُم کھڑی ہوگئی۔ اس کا چہرہ سُرخ ہوگیا۔ ’’کہئے‘‘۔ اس نے پھاٹک کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔

’’ہمیں کہیں سے سگریٹ لادو۔ ہمارے پاس یہی ایک سگریٹ بچا ہے اور بہت دور جانا ہے‘‘۔

’’بہت اچھا۔ لیکن آپ محض سگریٹ لینے…‘‘

’’ہم تمہیں درشن دینے آئے تھے بچہ…‘‘

’’سگریٹ کے علاوہ اور کچھ تو نہیں چاہئے؟‘‘ دیپالی نے فکر مندی سے دریافت کیا۔

’’فی الحال نہیں‘‘۔ وہ پھر چبوترے کے کنارے پر ٹک گیا۔ اور بڑی گمبھیر آواز میں کہنے لگا۔

’’دیپالی۔ میں اس لیے آیا تھا کہ تمہیں دیکھنا چاہتا تھا۔ اب تک تم میرے لئے محض ایک اور ’’رابطہ‘‘ محض ایک اور نام رہی ہو۔ یا دھندلکے میں سنی ہوئی ایک اور آواز۔ تمہارے گھر پر بھی…‘‘

’’میں آپ کا سگریٹ لے آئوں‘‘۔ دیپالی نے گھبرا کر اس کی بات کاٹی۔

’’ہم سے ڈرو مت بچہ۔ ہم ایک بہت شریف سادھو ہیں‘‘۔

دیپالی ہنس پڑی اور یک لخت اسے اُدما رائے کی ڈانٹ یاد آئی۔ اسکول گرل گِگلز… اور اُدما رائے کے خیال نے اسے اچانک دل گرفتہ اور پریشان کردیا۔

’’تمہارے صاحب اور میم صاحب کیسے ہیں؟‘‘

’’اُن کا تبادلہ ہوگیا۔ ان کی جگہ چارلس بارلو آئے ہیں۔ ریورنڈ بنرجی کے ان سے بھی بہت اچھے تعلقات ہیں۔ کیونکہ مسٹر بارلو کی بڑی بہن باریسال میں مشنری ہیں۔ چاٹ گام سے تبدیل ہو کر آئے ہیں‘‘۔

’’روزی خیریت سے ہے؟‘‘
’’جی‘‘۔
’’کسی کو اس کے متعلق کوئی شبہ تو نہیں ہوا؟‘‘
’’جی نہیں‘‘۔
’’اسے خط لکھ کر پوچھو کہ چارلس بارلو کھُلنا کس روز پہنچ رہا ہے۔ چارلس بارلو کے نام کا کوڈ یاد ہے؟‘‘ وہ اُٹھ کھڑا ہوا۔
’’جی ہاں‘‘۔
’’بتائو تو‘‘۔
دیپالی نے بتلایا۔

’’ونڈر فل‘‘۔ سنیاسی نے خوش ہو کر اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ دیا۔ پھر گھبرا کر جلدی سے ہٹالیا۔

’’اُدما سے کب سے نہیں ملیں؟‘‘ سنیاسی نے دیپالی کا رنگ بدلتے نہیں دیکھا۔ اس نے اُدما کا نام جس انداز سے لیا تھا۔

’’آپ لوگوں کے غائب ہونے کے دوسرے ہفتے ہی تو وہ کلکتہ چلی گئی تھیں۔ ابھی تک وہیں ہیں۔ میں گرمیوں کی چھٹیوں میں بابا کے ساتھ کلکتہ گئی تھی۔ گانے ریکارڈ کروانے۔ مگر اُدما دی سے ملاقات نہ ہوسکی۔ ان کا پتہ معلوم نہیں تھا۔ اور انہوں نے مجھے کوئی خط پتر کبھی بھیجا نہیں… وہ کلکتے میں کسی کالج میں پڑھا رہی ہیں۔ اپنے بھائی کے ساتھ بالی گنج میں رہتی ہیں۔ لوگ کہتے ہیں کہ وہ چونکہ پارٹی کی باقاعدہ ممبر نہیں اس لئے نہ انڈر گرائونڈ میں گئیں نہ جیل۔ ٹھیک ہے نا؟ اور سنا ہے ان کے ڈی آئی جی ماموں نے گورنمنٹ کو ضمانت دی ہے کہ وہ گڑبڑ نہیں کریں گی۔ آپ کو تو یہ سب معلوم ہی ہوگا‘‘۔

’’ہاں۔ معلوم ہے…‘‘پھر اس نے ذرا توقف سے کہا۔ اچھا جائو۔ بھاگو۔ سگریٹ لے کر آئو۔ جو بھی ملیں‘‘

’’آپ اس راستے پر جائیے۔ میں ابھی آتی ہوں‘‘۔

’’اچھا…‘‘سنیاسی چلنے لگا۔ پھر ٹھٹھک گیا‘‘۔ ایک بات اور۔ کینٹ ویل تازہ وارد اور ناتجربہ کار نوجوان تھا۔ بارلو پرانا گھاگ ہے۔ اس کے باپ دادا تک بنگال سویلین تھے۔ اس چیز کا تم لوگ خیال رکھنا۔ بڑا سخت گیر افسر ہے۔ ٹررسٹ تحریک کے زمانے میں کئی نوجوان کو پھانسی کے تختے پر بھجوا چکا ہے‘‘۔

دیپالی کو کپکپی سی آئی۔ سنیاسی کہتا رہا۔ ’’روزی سے کہنا بے حد احتیاط سے کام لے کر ہمیں اطلاعات پہنچوائے اور اپنے باپ کو کسی طرح ناراض یا ناخوش نہ کرے۔ یہ بے حد ضروری ہے‘‘۔

’’بہت اچھا‘‘۔ دیپالی نے جواب دیا۔ سنیاسی پگڈنڈی پر آگے بڑھ گیا۔ دیپالی بھاگتی ہوئی عمارتوں کی طرف چلی گئی۔

چند منٹ بعد وہ واپس آئی اور برگد کے سنسان چبوترے پر ایک نظر ڈال کر سال کے ایونیو پر دوڑنا شروع کردیا۔ سنیاسی سر جھکائے آہستہ آہستہ کلابھون کے سامنے والی سڑک پر چلا جارہا تھا۔ دیپالی نے پھولی ہوئی سانس سے اس کے قریب جا کر کہا۔ ’’لیجیے‘‘

سنیاسی نے پلٹ کر دیکھا۔ ’’اوہ تھینکس!‘‘ اس نے بڑی خوشی سے سگریٹوں کے پیکٹ اپنے جھولے میں گرادیئے اور مسکرایا۔

اب چاند طلوع ہورہا تھا۔

بہت دور سے ’’الکھ نرنجن‘‘ کی آواز آئی۔ سڑک کے کنارے سمندر کے سُریلے شور کی مانند سدا بہار ولایتی جھائو کی نازک ڈالیاں ہوا میں سرسرا رہی تھیں۔ شیشم کے جھنڈ کے پرے طلباء کے جھونپڑوں میں روشنیاں جھلملائیں۔

(جاری ہے)

حصہ