دعوت دین: داعیانہ کردار کے آداب

268

(دوسرااور آخری حصہ)

’’قیامت کے روز ایک آدمی لایا جائے گا اور آگ میں پھینک دیا جائے گا، اس کی انتڑیاں اس آگ میں باہر نکل پڑیں گی اور پھر وہ آدمی ان انتڑیوں کو اس طرح لیے پھر رہا ہوگا جس طرح گدھا اپنی چکی میں پھرتا ہے۔ یہ دیکھ کر دوسرے جہنمی لوگ اس کے پاس جمع ہوں گے اور پوچھیں گے اے فلاں! یہ تمہارا کیا حال ہے؟ کیا تم دنیا میں ہمیں نیکیوں کی تلقین نہیں کرتے تھے؟ اور برائیوں سے نہیں روکتے تھے؟ (ایسے نیکی کے کام کرنے کے باوجود تم یہاں کیسے آگئے) وہ آدمی کہے گا، میں تمہیں نیکیوں کا سبق دیتا تھا لیکن خود نیکی کے قریب بھی نہیں جاتا تھا، میں تو برائیوں سے روکتا تھا لیکن خود برائیوں پر عمل کرتا تھا‘‘ (بخاری، مسلم)

معراج کی شب جو عبرت انگیز مناظر نبیؐ نے لوگوں کے سامنے رکھے ہیں ان کا ایک اہم مقصد یہ بھی ہے کہ گناہ گارلوگوں کو تنبیہ ہو اور وہ اپنی اصلاح حال کی فکر کریں۔

نبیؐ نے فرمایا:
’’میں نے معراج کی شب میں کچھ لوگوں کو دیکھا کہ ان کے ہونٹ آگ کی قینچیوں سے کاٹے جارہے تھے۔ میں نے جبریلؑ سے پوچھا یہ کون لوگ ہیں؟ جبریلؑ نے کہا: ’’یہ آپؐ کی امت کے مقررین ہیں۔ یہ لوگوں کو نیکی اور تقویٰ کی تلقین کرتے تھے اور خود کو بھولے ہوئے تھے‘‘ (مشکوٰۃ)

صحابہ کرامؓ بھی اس قسم کے کوتاہ کاروں اور بے عملوں کو سخت تنبیہ فرماتے تھے۔ ایک بار حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے ایک شخص نے کہا: ’’حضرت میں چاہتا ہوں کہ لوگوں کو نیکی کا حکم دوں اور برائیوں سے روکوں اور دعوت و تبلیغ کا کام کروں! حضرت نے فرمایا کیا تم اس مرتبے پر پہنچ چکے ہو کہ مبلغ بنو۔ اس نے کہا: ’’ہاں توقع تو ہے، حضرت ابن عباسؓ نے فرمایا، اگر تمہیں یہ اندیشہ نہ ہوکہ قرآن پاک کی تین آیات تمہیں رسوا کردیں گی تو شوق سے تبلیغ دین کا کام کرو۔ وہ شخص بولا، حضرت وہ کون سی تین آیات ہیں۔ حضرت ابن عباسؓ نے فرمایا:

پہلی آیت یہ ہے: ’’کیا تم لوگوں کو نیکی کی تلقین کرتے ہو اور اپنے کو بھول جاتے ہو‘‘ (البقرہ: 44)

ابن عباسؓ نے کہا اس آیت پر اچھی طرح عمل کرلیا ہے؟ اس نے کہا: نہیں۔ فرمایا دوسری آیت یہ ہے:

’’تم وہ بات کیوں کہتے ہو جو کرتے نہیں ہو‘‘ (الصف: 2)
تو تم نے اس آیت پر اچھی طرح عمل کرلیا ہے؟ اس نے کہا: فرمایا اور تیسری آیت یہ ہے:

’’(حضرت شعیب علیہ السلام نے اپنی قوم کے لوگوں سے کہا) جن بری باتوں سے میں تمہیں منع کرتا ہوں ان کو بڑھ کر خود کرنے لگوں میری یہ خواہش نہیں ہے۔ (بلکہ میں تو ان باتوں سے بہت دور رہوں گا‘‘۔ (ہود:88)

بتائو تم نے اس آیت پر بخوبی عمل کرلیا ہے وہ شخص بولا نہیں، تو حضرت نے فرمایا۔ جائو پہلے اپنے آپ کو نیکی کا حکم دو اور برائی سے روکو۔

-11 نماز کو اس کے پورے آداب و شرائط اور خشوع کے ساتھ ادا کیجیے۔ نوافل کا بھی اہتمام کیجیے۔ اللہ سے گہرا تعلق قائم کیجیے بغیر اس کی دعوت و تبلیغ کا کام ممکن نہیں۔ اور اللہ سے وابستگی پیدا کرنے کا یقینی ذریعہ نماز ہے جو خود اللہ ہی نے اپنے بندوں کو بتایا ہے۔

نبیؐ سے خطاب کرتے ہوئے اللہ نے فرمایا:

’’اے چادر لپیٹنے والے! رات میں قیام کیجیے۔ مگر کچھ رات، آدھی رات یا اس سے کچھ کم یا کچھ زیادہ اور قرآن کو ٹھہر ٹھہر کر پڑھیے۔ ہم جلد آپ پر ایک بھاری فرمان (کی ذمہ داری) ڈالنے والے ہیں‘‘ (مزمل: 5-1)

بھاری فرمان کی ذمہ داری سے مراد دین حق کی تبلیغ ہے اور حقیقت یہ ہے کہ یہ ذمہ داری دنیا کی تمام ذمہ داریوں میں زیادہ بھاری اور گراں ہے اس عظیم ذمہ داری کا حق ادا کرنے کے لئے ضروری ہے کہ آپ نماز سے قوت حاصل کریں اور اللہ سے تعلق مضبوط کریں۔

-12قرآن پاک سے لگائو پیدا کیجیے اور پابندی کے ساتھ اس کی تلاوت کیجیے۔ نماز میں بھی انتہائی توجہ کے ساتھ تلاوت کیجیے اور نماز کے باہر بھی ذوق و شوق کے ساتھ ٹھہر ٹھہر کر پڑھیے۔ دل کی آمادگی اور طبیعت کی حاضری کے ساتھ جو تلاوت کی جاتی ہے اس سے قرآن کو سمجھنے اور غور و فکر کرنے میں بھی مدد ملتی ہے اور ذوق و شوق میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ قرآن پاک ہدایت و عبرت کا واحد سرچشمہ ہے۔ یہ اسی لئے نازل ہوا ہے کہ اس کی آیات پر غور کیا جائے ور اس کی تذکیر و نصیحت سے فائدہ اٹھایا جائے، لہٰذا اس میں غور و تدبر کی عادت ڈالیے اور اس عزم کے ساتھ اس کی تلاوت کیجیے کہ اسی کی رہنمائی میں اپنی زندگی بھی تعمیر کرنی ہے اور اسی کی ہدایت کے مطابق سماج کو بھی بدلنا ہے۔ اللہ کے دین کو وہی لوگ قائم کرسکتے ہیں جو اپنے غور و فکر کا مرکز اور اپنی دلچسپیوں کا محور قرآن پاک کو بتائیں۔ اس سے بے نیاز ہوکر نہ تو خود دین پر قائم رہنا ممکن ہے اور نہ اقامت دین کی کوشش میں حصہ لینے ہی کا کوئی امکان ہے۔ تلاوت کرنے والوں کو ہدایت کی گئی ہے:

’’کتاب جو ہم نے آپؐ کی طرف بھیجی ہے سرتاپا برکت ہے تاکہ لوگ اس کی آیتوں میں غور و تدبر کریں، اور عقل سلیم رکھنے والے اس سے سبق حاصل کریں‘‘۔ (ص:29)

اور ہدایت کی گئی ہے: ’’اور قرآن کو ٹھہر ٹھہر کر پڑھیے‘‘ (المزمل:4)

نبیؐ کا ارشاد ہے:
’’یہ قلوب زنگ آلود ہوجاتے ہیں، جس طرح لوہا زنگ آلود ہوجاتا ہے جب اس پر پانی پڑتا ہے، پوچھا گیا یا رسولؐ اللہ! پھر دلوں کے زنگ کو دور کرنے والی چیز کیا ہے؟ فرمایا: ’’دل کا زنگ اس طرح دور ہوتا ہے کہ آدمی موت کو کثرت سے یاد کرے اور دوسرے یہ کہ قرآن کی تلاوت کرے‘‘ (مشکوٰۃ)

-13 ہر حال میں اللہ کا شکر ادا کیجیے اور جذبہ شکر پیدا کرنے کے لئے ان لوگوں پر نگاہ رکھیے جو دنیاوی شان و شوکت اور مال و دولت میں آپ سے کمتر ہوں۔

نبیؐ کا ارشاد ہے:
’’ان لوگوں کی طرف دیکھو جو تم سے مال و دولت اور دنیاوی جاہ و مرتبے میں کم ہیں (تو تمہارے اندر شکر کا جذبہ پیدا ہوگا) اور ان لوگوں کی طرف نہ دیکھو جو تم سے مال و دولت میں اور دنیاوی سازو سامان میں بڑھے ہوئے ہیں تاکہ جو نعمتیں اس وقت ملی ہوئی ہیں وہ تمہاری نگاہ میں حقیر نہ ہوں، (ورنہ اللہ کی ناشکری کا جذبہ پیدا ہوگا)‘‘۔

-14عیش کوشی سے بچیے اور حق کے ایسے سپاہی بنیے جو ہر وقت ڈیوٹی پر ہو اور کسی وقت بھی ہتھیار نہ اتاریئے۔

نبیؐ کا ارشاد ہے: ’’میں عیش و سہولت کی زندگی کیسے گزاروں! جب کہ اسرافیل صور منہ میں لئے کان لگائے، سر جھکائے انتظار کررہے ہیں کہ کب صور پھونکنے کا حکم ہوتا ہے‘‘ اور قرآن پاک میں مومنوں کو خطاب کرتے ہوئے اللہ نے ارشاد فرمایا:

’’اور تم لوگ جہاں تک تمہارا بس چلے، زیادہ سے زیادہ طاقت اور تیاری بندھے رہنے والے گھوڑے ان کے مقابلے کے لئے مہیا رکھو تاکہ اس کے ذریعے سے اللہ کے دشمنوں اور خّد اپنے دشمنوں کو اور ان دوسرے اعدا دین کو خوف زدہ کردو۔ جنہیں تم نہیں جانتے خدا جانتا ہے۔ اللہ کی راہ میں تم جو کچھ بھی خرچ کروگے، اس کا پورا پورا بدلہ تمہاری طرف پلٹایا جائے گا اور تمہارا حق دینے میں ذرا کمی نہ کی جائے گی‘‘ (الانفال:60)

-15 دین کی خاطر ہر قربانی دینے اور ضرورت پڑنے پر اپنے وطن سے ہجرت کرنے کے لئے بھی خود کو آمادہ رکھیے اور خود کو برابر تولتے رہیے کہ کس حد تک آپ کے اندر جذبہ قوت پکڑ رہا ہے۔ قرآن میں حضرت ابراہیمؑ کا واقعہ ہجرت بیان کرتے ہوئے ہجرت کی ترغیب اور قربانیوں کے لئے تیار رہنے کی تلقین اس طرح کی گئی ہے:

’’اور اس کتاب میں ابراہیمؑ کے قصے سے نصیحت حاصل کیجیے۔ بلاشبہ وہا یک سچے نبی تھے (لوگوں کو اس وقت کا ذکر سنایئے) جب انہوں نے اپنے والد سے کہا۔ ابا جان! آپ ان چیزوں کی عبادت کیوں کررہے ہیں؟ جو نہ سنتی ہیں اور نہ دیکھتی ہیں اور نہ آپ کے کسی کام آسکتی ہیں، ابا جان! میرے پاس وہ علم آیا ہے جو آپ کے پاس نہیں آیا ہے، آپ میرے کہے پر چلیں، میں آپ کو سیدھی راہ پر چلائوں گا، ابا جان! آپ شیطان کی بندگی نہ کیجیے۔ شیطان تو رحمن کا بڑا نافرمان ہے، اباجان! مجھے ڈر ہے کہ (آپ اسی روش پر اگر رہے تو) رحمن کا عذاب آپ کو پکڑے اور آپ شیطان کے ساتھی بن کر رہ جائیں‘‘۔

باپ نے کہا ابراہیمؑ! کیا تم میرے معبودوں سے پھر گئے ہو؟ اگر تم باز نہ آئے تو میں تمہیں پتھر مار مار کر ہلاک کردوں گا، اور جائو ہمیشہ کے لئے مجھ سے دور ہوجائو۔ ابراہیمؑ نے کہا آپ کو میرا سلام ہے۔ میں اپنے پروردگار سے دعا کروں گا کہ وہ آپ کی بخشش فرمادے۔ بے شک میرا رب مجھ پر بڑا مہربان ہے۔ میں آپ لوگوں سے بھی کنارا کرتا ہوں اور ان ہستیوں سے بھی جن کو تم اللہ کو چھوڑ کر پکارا کرتے ہو۔ میں تو اپنے رب ہی کو پکاروں گا۔مجھے پوری امید ہے کہ میں اپنے رب کو پکار کر ہرگز نامراد نہ رہوں گا‘‘۔(مریم: 28-21)

-16 اللہ کی راہ میں نکلنے کی تڑپ، جان و مال سے جہاد کرنے کا جذبہ اور اس کی راہ میں شہادت پانے کی پاکیزہ آرزو پیدا کیجیے۔ واقعہ یہ ہے کہ جہاد ایمان کا معیار ہے اور جس دل میں اس کی آرزو نہ ہو وہ ایمان و ہدایت سے محروم ایک بے رونق اور ویران کھنڈر ہے۔ میدان جہاد میں پہنچنے کی توفیق اور اللہ کی راہ میں جان و مال قربان کردینے کا موقع پانا واقعی بہت بڑی سعادت ہے لیکن اگر ایسے حالات نہ ہوں کہ آپ اس کا موقع پاسکیں یا وسائل و ذرائع نہ ہوں کہ آپ میدان جہاد میں پہنچ کر ایمان کے جوہر دکھاسکیں تب بھی آپ کا شمار اللہ کی راہ کے ان مجاہدوں میں ہوسکتا ہے، جو راہ خدا میں شہید ہوئے یا غازی بن کر لوٹے بشرط یہ کہ آپ دل میں راہ خدا میں نکلنے کی تڑپ ہو، دین کی راہ میں قربان ہونے کا جذبہ ہو، اور شہادت کی آرزو ہو۔ اس لئے کہ اللہ کی نظر ان قلبی جذبات پر ہوتی ہے جو مجاہدانہ کارناموں کے لیے آدمی کو بے چین کرتے ہیں۔ غزوۂ تبوک سے جب نبیؐ واپس ہورہے تھے تو راہ میں آپؐ نے اپنے ساتھیوں کو خطاب فرماتے ہوئے کہا تھا:

’’مدینے میں کچھ لوگ ایسے ہیں کہ تم نے جو کچھ بھی کیا اور جو وادی بھی طے کی وہ برابر تمہارے ساتھ رہے‘‘۔ نبیؐ کے ساتھیوں نے تعجب سے پوچھا: ’’کیا مدینے میں رہتے ہوئے؟‘‘ فرمایا: ’’ہاں مدینے میں رہتے ہوئے، کیونکہ ان کو مجبوروں نے روک لیا تھا اور وہ خود رکنے والے نہ تھے‘‘۔

قرآن پاک میں بھی اللہ نے ایسے لوگوں کی تعریف فرمائی ہے جو جذبہ رکھنے کے باوجود شرکت جہاد سے محروم رہے اور اپنی محرومی پر ان کی آنکھیں آنسو بہاتی رہیں:

’’اور نہ ان (بے سروسامان) لوگوں پر الزام ہے جو خود آپؐ کے پاس آئے کہ آپ ان کے لئے سواریاں مہیا فرمادیں اور جب آپؐ نے کہاکہ میں تمہارے لئے سواریوں کا انتظام نہیں کرسکتا تو وہ اس حال میں واپس ہوئے کہ ان کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے اس غم میں کہ ان کے پاس جہاد میں شریک ہونے کے لئے خرچ کرنے کو کچھ موجود نہیں ہے‘‘۔(التوبتہ: 92)

اور نبیؐ نے فرمایا:
’’جو شخص اللہ کی راہ میں جہاد کئے بغیر مرگیا، اور اس کے دل میں اس کی آرزو بھی نہیں تھی تو وہ نفاق کی ایک کیفیت میں مرا‘‘ (مسلم)

حقیقت یہی ہے کہ اللہ کی راہ میں لڑنے اور جان و مال کی قربانی پیش کرنے کے جذبے سے جو سینہ خالی ہے وہ مومن کا سینہ نہیں ہوسکتا۔

حصہ