امبانی کا سوشل میڈیا

135

ٹوئٹر بندش کا مہینہ:
ٹوئٹر تو تنگ کر ہی رہا تھا، اس ہفتے تو ایک شام اچانک فیس بک ، انسٹا گرام اور میسینجر بھی بند ہوگئے تھے۔واٹس ایپ پر میسیجز کی ،پریشانی کی، سازشوں کی بہار لگ گئی۔ میں نے تو ایسی پریشانی کی کیفیت دیکھ کر یہی مشورہ دیا کہ ’’فیس بک ، ٹوئٹر بند ہوگیامگر آکسیجن تو آرہی ہے ناں۔ اس لیے آکسیجن لیکر کچھ وقت میاں ، بیوی، والدین، بچوں کو بھی دے دیا جائے، اس سے پہلے کہ وہ بھی بند ہوجائے۔‘جی ہاں۔ اگر آپ نے بھی اس ہفتے محکمہ موسمیات کی پیش گوئیوں کو سچ جان کر موسم کی صورتحال کو Accuweather‘ کی ویب سائٹ پر دیکھا ہو تو اُس پر’’AirQualityکے unhealthy‘‘ہونے کی رپورٹ بھی دیکھی ہوگی۔ اس کی خطرناک تفصیلات بھی ویب سائٹ پر موجود ہوتی ہیں، چنانچہ آپ مانیں یا نہ مانیں کراچی کی صاف ہوا بھی بدترین حالت پر پہنچ چکی ہے۔ بہرحال فیس بک کی بندش تو ’’تکنیکی ‘‘وجہ سے تھی اس لیے کچھ گھنٹےبعد بحال ہوگئی ۔ بحال ہونے کے بعد بھی لوگوں تفریحات کا دامن نہیں چھوڑا،’’پاکستان سمیت دنیا بھر میں فیس بک بند ہونے پر جب login نہیں ہو رہا تھا تو آپ کا Reaction کیا تھا !‘اِسی طرح ایک اور تجزیہ بہت چلا ، ’’کمپنی سے عوام کی محبت کا یہ عالم ہے کہ فیس بُک ، بند عالمی سطح پہ ہوا تھا لیکن گالیاں انہیں پڑ رہی تھیں۔‘‘

پی ایس ایل بائیکاٹ:
وسیم اکرم نے کراچی میں پی ایس ایل کے میچز میں عوامی عدم دلچسپی پر اپنے ٹی وی پروگرام میں مزید دو کھلاڑیوں کے سامنے یہ سوال اٹھائے کہ ’’PSL کس کا برانڈ ہے؟ باقی جو اسپانسر آرہے ہیں وہ PSL کو اسپانسر کر رہے ہیں۔ تو اپنی ہی برانڈ کا بائیکاٹ کیوں؟ اِس کا سیاست سے کیا تعلق ہے؟کوئی مجھے بتائے کہ ایسا کیوں؟‘‘ یہ وہ تکلیف تھی جو بہرحال کسی نہ کسی شکل میں آنی تھی تو اس طرح آگئی۔ سوشل میڈیا پر کراچی کے ہونے والے اب تک کے تینوں میچز میں جو اسٹیڈیم کی صورتحال تھی وہ اہل کراچی کے ’امت سےایمانی تعلق کاآئینہ دار قرار دی گئی ۔PSLکے آغاز سے ہی اس کے اسپانسر KFC ودیگر پر معاملہ سوشل میڈیا پراُٹھا دیا گیاتھا۔غزہ کی صورتحال ہر دن بدتر سے بدتر ہوتی جا رہی تھی، یہ کسی طور کوئی معمولی بات نہیں تھی۔ یمن کے علاوہ پورے عالم اسلام پر عجیب ترین بے حسی او ر مسلمانوں کی اس عظیم نسل کشی و قتل عام پر لاتعلقی کاجو پردہ پڑا ہوا تھا وہ ناقابل بیان ہے۔ جو کم ترین کام مسلم ممالک میںپھیلایا گیا اُس کا نام ’مغربی مصنوعات کا بائیکاٹ ‘تھا۔ یہ آخری نفرت کا اقدام تھا جو بہر حال ۵ ماہ سے کسی نہ کسی شکل میں جاری ہے۔ پی ایس ایل میں اسپانسر دیکھ کر لوگوں کے جذبات بھڑک اٹھے اور انہوں نے بائیکاٹ کی مہم چلائی۔ لاہور، ملتان، راولپنڈ ی میں جو میچز کھیلے گئے اُن کے مقابلے میں کراچی کے اب تک کے 3 میچز میں عوام کی شرکت نہ ہونے جیسے رہی ۔ 32 ہزار گنجائش والے نیشنل اسٹیڈیم میں تاایک سے ڈیرھ ہزار شائقین تھے وہ بھی وہ جو مفت کے دعوت نامے دے کر بلوائے گئےتھے۔ایک اور پوسٹ چلی ،’’کراچی تحریکوں کا شہر ۔پی ایس ایل 9 کا کراچی میں پروگرام تو وڑ گیا ۔کراچی اہل غزہ کے ساتھ۔پی ایس ایل کے ایف سی کے ساتھ ‘‘۔پی ایس ایل کے میچ پر پہلا سوال تب اٹھا جب ایک خاتون کو جس کے ہاتھ پر فلسطین کا پرچم بنا تھا ،اُس کو اندر جانے نہیں دیا گیا۔وسیم اکرم نے بھی اپنی جعلی معصومیت میں ایسا ہی مدعا اٹھایا۔اس کا بہترین جواب قیصر احمد راجہ نے وڈیو میں پوری امت کی ترجمانی کرتے ہوئے دیا۔انہوں نے کہا کہ ہم اپنی لیگ کو یہ پیغام دے رہے ہیں کہ جن کا بائیکاٹ آپ کو کرنا تھا وہ آپ نہیں کر رہے ،اور آپ اُس نیٹ ورک کے ساتھ کھڑے ہوگئے ہیں جو نسل کشی کی مدد کر رہا ہے۔ یہ بالکل ایسی ہی بات ہے کہ پاکستان کی ٹیم کا کوئی کھلاڑی میچ فکسنگ میں ملوث ہو تو آپ کو یہ کہا جائے کہ آپ اپنے ہی کھلاڑی کے خلاف کیوں بول رہے ہو۔ تو ہماری ہی لیگ نے ایسے اداروں کے ساتھ میچ فکس کیا ہوا ہے جو غزہ میں مسلمانوں کی نسل کشی کے ساتھ مالی معاونت میں شریک کار ہے۔ اِن کے فلسطینیوں کےبارے میں خیالات بھی سب کے سامنے ہیں۔ اس لیے ہم کوئی قانونی کارروائی تو نہیں کر سکتے مگر آپ کا بائیکاٹ ہم ضرور کر سکتے ہیں۔ ہمارے خالی اسٹیڈیم یہ گواہی دیں کہ ہم ظالموں کے ساتھ نہیں کھڑے تھے۔ اپنی لیگ، اپنی لیگ،اس پر وسیم اکرم صاحب کا بڑا زور ہے مگر کیا فلسطین آپ کا نہیں ہے، کیا القدس آپ کا نہیں ہے۔ غزہ میں شہادتوں کی تعداد 31 ہزار ہونے کو ہے، بمباری سے بچ جانے والے اہل غزہ بدترین قحط سے دوچار ہیں ، وہاں لاشوں کی تدفین کی جگہ نہیں بچی ۔اُصولاً تو بائیکاٹ آپ کو کرنا تھا مگر آپ تو خود اُس کا حصہ بنے ہوئے ہیں۔ ‘‘ اِس بیانیے کے جواب میں یہی instrumental reason کی بھونڈی دلیل پیش کی گئی ہے کہ ہم فیس بک، لیپ ٹاپ، سمیت کئی اشیا تو استعمال کرلیتے ہیں تو صرف مک ڈونلڈ اور کے ایف سی ہی کیوں؟اس دلیل کو پیش کرنے والا ہر شخص ’ جبر‘ کے تصور سے ہی ناواقف ہوتا ہے۔ اُس کے سامنے اِن ساری اَشیا کے نفاذ کا ’’بدترین جبر و تشدد‘‘ہی محو ہو جاتا ہے ۔وہ اِن مشینوں کے درمیان پیدا ہوا ہے اس لیے اُس کو لگتا ہے کہ یہ سب ’نیچرل/فطری‘ ہے ، وہ اچانک سے ’ڈارون‘ کے ’’نظریہ ارتقا کا علمبردار‘‘بن جاتا ہے۔ اُس کو لگتا ہے کہ یہ ساری مشینیں ، آلات انسان نے ارتقائی مرحلے میں ایجاد کی ہیں ۔ پھر یہی نہیں اِس طبقے کو یہ غلط فہمی بھی ہے کہ ’یہ سارا علم مسلمانوں ہی کی ایجا د و میراث ہے جو مغرب نے ہم سے چھینا ہے‘‘ تو اس الزامی اصول کے تحت یہ ساری ایجادات اُن کی نہیں ہماری ہی ہیں۔اس لیے ہم موبائل، لیپ ٹاپ ، فرج، ودیگر مشینیں اپنی ضرورت کے لیے استعمال کرتے ہیں کہ یہ سب ، یہ سارا علم درحقیقت ہم سے ہی چھین کر لی گئی ہیں ، اس کے اصل وارث ہم ہی ہیں۔‘‘( براہ کرم یہ صرف شافی قسم کا الزامی جواب ہے، اس کو عقیدے کی سطح پر قطعاً مت لیجیے گا)۔ اب رہی بات کے ایف سی ، مکڈونلڈ، پیپسی وغیرہ کی تو یہ وہ اَشیاہیں جن کی ہمیں کوئی حاجت بھی نہیں ہم مکڈونلڈ کے ایف سی ، ایکوافینا کی جگہ اپنے کمال بھائی کا برگر ، خان کا بروسٹ اور پاکولا کا پانی پی سکتے ہیں ۔

امبانی کی شادی:
بھارت جتنی بڑی آبادی ہے وہاں سے روز کئی کئی کہانیاں سامنے آتی ہیں۔ ایشیا کے امیر ترین بزنس ٹائیکون مکیش امبانی کے بیٹے اننت امبانی کی شادی سے قبل کی تقریبات سب پر بازی اس لیے بھی لے گئی کہ سرمایہ کا بڑا عمل دخل ہے۔ ٹرینڈز کی بہار اپنی جگہ مگر کانٹینٹ کا سیلاب بھی اپنی جگہ تھا۔یہ قبل از شادی کی سرگرمیاں یکم سے 3 مارچ 2024 تک گجرات میں ہوئیںجبکہ شادی جولائی 2024 میں ہونی ہے، یہ ہے سب سے اہم بات۔انکی منگنی 19 جنوری 2023 کو ممبئی میں منعقد ہوئی تھی، اننت امبانی مکیش اور نیتا امبانی کے سب سے چھوٹے بیٹے ہیں۔ان تین دن کی تقریبات پر12 کروڑ بھارتی روپے کے خرچ کا تخیمہ لگایا گیا ، مگر جب آپ کے والد ایشیا کے امیر ترین شخص ہوں جو کہ 58 کھرب پاکستانی روپے سے زائدکے اثاثے کے مالک ہوں تو یہ چند ارب روپے تو کچھ بھی نہیں۔اتنی وڈیوز ، اتنا شور، اتنے کلپس، اتنے ٹرینڈز تو بنتے ہیں۔مہمانوں کے الگ، شادی سے قبل کی سرگرمیوں کے الگ، شادی کی سرگرمیوں کی الگ، بس مستقل چل ہی رہی ہیں۔ مائکروسافٹ کے شریک بانی بل گیٹس بھی پہلی بار کسی بھارتی کی شادی میں شرکت کے لیے پہنچے ۔ یہی نہیں فیس بک کا یہودی مالک اپنی چینی نژاد بیوی کے ساتھ بھی پہنچا۔ ہاتھیوں کے کھانے سے لیکر ، ماں کے ہار تک اتنی قسم کی خبریں تھیں کہ بتانا شروع کروں تو یہ پورا میگزین بھی کم پڑجائے۔ حوالہ دینے کا مقصد یہ توجہ دلانا ہے کہ یہ پورا میڈیا، یہ پورا نظام آپ کو دھکیل کر زیادہ سے زیادہ تعیشات کے حصول ، رنگینی، دنیاوی محبت میں گرفتار کرنے کے علاوہ کوئی اور کام نہیں کرارہا۔ میڈیا کی پوری نفسیات سرمایہ پیدا کرنے کے سوا کوئی اور عنوان کے تحت نہیں ہیں۔ یہ ساری خبریںجب ، جہاں دیکھی جا رہی ہوںگی وہاں ایک حسرت ، طلب ، حب جاہ ، حب دُنیا ، حرص و ہوس و حسد کے قبیح جذبات پیداکرتا ہے۔اس میں ایک اور پہلو بھی دکھایاجاتا ہے کہ یہ مکیش صاحب ایسے ہی اتنے امیر نہیں ہوئے بلکہ مکیش کے والد دھیروبائی امبانی پٹرول پمپ میں کام کرتے تھے اور وہاں سے عدن گئے اور پھر بھارت آکر اپنے کاروبار کی بنیاد رکھی۔ایسی بے شمار مثالیں دنیا میں ہیں ، جس کو دکھا دکھا کر سب کو اس چکر میں لگا دیا جاتا ہے اور حصول آسائش، آرام کے نام کو مشن بنا کر سب اپنے ’اصل اسٹیشن ‘کو چھوڑ کراُس طرف دوڑنے لگتے ہیں ۔ اس تناظرمیں برطانیہ میں مقیم ہمارے استاد ڈاکٹر اسامہ لکھتے ہیں کہ ’’فیس بک و سوشل میڈیا پر ایک عجیب موازنہ جاری ہے۔ یہ انڈیا میں ایک شادی اس پر لٹائی جانے والی دولت اور پڑوسی ملک کی معاشی ترقی کا ہے۔ اس ضمن میں چند امور بطور یاد دہانی آپ کے اور خود میرے لیے۔بطور مسلمان یہ دنیا ہمارے لیے ایک امتحان گاہ ہے۔ یعنی کہ یہ کوئی مستقل ٹھکانہ نہیں بلکہ ایک عارضی پڑاؤ ہے کہ جہاں سے ہر ایک کو گزر جانا ہے چاہے وہ ایمان لائے یا نہ لائے۔ بطور مسلمان ہمارے لیے کامیابی دولت و ثروت میں نہیں بلکہ اللہ کی رضا میں ہے اور کسی کو دولت مل جانے کا ہرگز مطلب یہ نہیں کہ وہ کامیاب ہوگیا۔ قارون، فرعون اور نمرود کے خزانوں اور ان کی جنت تک شاید آج کی دنیا بھی نہیں پہنچ پائی۔اور خود رسول رحمت ﷺکے دور میں قیصر و کسریٰ یا مقابل کفار قریش ، یہود کی عیاشیاں ایک طرف تو دوسری جانب رسول رحمت ﷺاور ان کے صحابہ ؓ کو 2وقت کی روٹی میسر نہ تھی۔ ریاست مدینہ کے وسائل قیصر و کسریٰ کے مقابلے میں ایک فی ہزار بھی نہ تھے۔ لیکن قرآن کس کو کامیاب کہتا ہے؟ کیا قیصر و کسریٰ کامیاب ہوئے یا رسول رحمت ﷺاور ان پر ایمان لانے والے ؟تواس دجل و فریب کے دور میں موازنے اور مقابلے کے پیمانے درست رکھیں۔ ایک مسلمان کی کامیابی اور ناکامی کے پیمانے مادی نہیں بلکہ خالص ایمانی ہیں۔ ‘‘

عورت مارچ سے اچھرہ کیس تک :
گذشتہ ہفتے اچھرہ واقعے کو موضوع بنایا گیا تھا ۔ دوستوں نے انباکس میں کچھ سوال کیے تھے ۔ اس ہفتے بھی یہ موضوع خاتون پولیس افسر ’شہربانو‘ کی صورت سوشل میڈیا کی زینت بنارہا۔آرمی چیف کے پاس حاضری نے چار چاند جو لگا دیئے تھے ۔امریکی نشریاتی چینل تک اس واقعے پر پولیس افسر سے انٹرویو لیتے نظر آئے۔میں نے پچھلے ہفتے یہ سوال اٹھایا تھا کہ’عورت کی عزت و تحفظ کا معاملہ ‘ مذہبی ہوتو ہی کیوں موضوع بنے گا؟اس کا کوئی جواب نہیں دے سکا۔ 28 فروری ، خیبر پختون خوا اسمبلی میں ن لیگ کی خاتون رکن پر محض گھڑی لہرانے پر جوتے، چپلیں، لوٹے ، نسوار،چرس کیا کچھ برس گیا ، مغلظات ایسی تھیں کہ میں دہرا نہیں سکتا ۔ ان سب کی وڈیوز سوشل میڈیا پربھری پڑی ہیں۔اب یہ عمل انتہاپسندی ، جہالت، درندگی کیوں نہیں کہلارہا؟وہ خاتون اس پر احتجاج بھی کر رہی ہے مگر مجال ہے جو کوئی موضوع بنائے، حالانکہ حکومتی پارٹی کی رکن اسمبلی ہے۔25 فروری کو سندھ اسمبلی کے باہر خواتین کو بالوں سے پکڑ پکڑ کر جس بری طرح تشدد کرا گیا وہ وڈیو زابھی ڈیلیٹ نہیں ہوئی۔ اب یہ سوال بنتا ہے کہ یہ کیسا ہاضمہ ہے جو صرف26 فروری ، اچھرہ والی خاتون پر ہی گندی گندی اُلٹیاں کروا رہا ہے؟یہ خاموشی سے ہضم کیوں نہیں ہو رہا؟بات تشبیہہ کی ہے تو ثوبیہ نے اسمبلی میں صرف ایک گھڑی ہاتھ میں اٹھائی تھی۔یہ کیس بھی شباہت ہی کا تھا کیونکہ سب کو معلوم تھا کہ یہ وہ گھڑی نہیں ہے جو عمران خان نے بیچی ہے ، اسکے باوجود ’’شباہت ‘‘قبول نہیں ہوئی ۔لوگوں نے اپنے قائد کی تذلیل محسوس کی اور ٹوٹ پڑے جوتے لیکر۔یہ ہوتی ہے شباہت۔اچھرہ بازار میں بھی اگر ۲ غیرت مند مسلمان کو قرآن سے شباہت محسوس ہوئی تو یہ جرم کیسے و کیوں ہوگا؟یہ سوال سب سے اہم ہے۔ اب یہ نہیں ہو سکتا کہ آپ کہیں کہ ہم اس کی بھی مذمت کرتے ہیں۔ اب تو ٹرین چھوٹ چکی ہے۔ اندر چھپا اسلام سے بغض باہر آچکا ہے۔ اب کچی ہونے پر ایسی مذمت کسی کے کام کی نہیں۔فرق سمجھانا تھا کہ ’’بغض ، نفرت اسلام ‘‘سے ہے۔ عورت کی تقدیس ، عورت کی عزت، انتہا پسندی نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی۔ اگر ہوتی تو سب جگہ یہ یکساں اپلائی ہوتی نظر آتی۔اس لیے یہ اتنی سادہ بات نہیں کہ ہم بھی چھوڑ دیں۔ کوئی تو بیلنس قائم کرنا ہوگا۔مسئلہ انتہا پسندی یکطرفہ کیوں؟عورت مارچ نے اپنے ایجنڈے میں بلوچ خواتین کو ڈالا ، اچھرہ خاتون کو ڈالا مگر انکو اسمبلی رکن ثوبیہ ، نہیںیاد آئی ، انکو سندھ اسمبلی کے باہر پیٹے جانے والی خواتین یاد نہیں آئیں۔ اب تو اس بات کو سمجھیں ، مسئلہ ’عورت ‘ کے حقوق نہیں ہے۔ اگلے اتوا ر اس عورت مارچ کا دوبار ہ تفصیلی پوسٹ مارٹم کریں گے اور آپ کوبتائیں گے کہ جدیدیت میں جنس کا مسئلہ کیا ہے؟ اس کی تاریخی بنیادیں کیا ہیں؟یہ فیمن ا زم کی تحریک کیا ہے؟ اسکی بنیاد کیسے اور کہاں سے پڑی ؟استعماریت سے قبل مسلم معاشرت میں کبھی کوئی جنس کا مسئلہ کیوں نہیں رہا ؟عصر حاضر میں جنس کی بنیاد پر کون سی تحریکیں ، کس ایجنڈے پر چل رہی ہیں؟مذہبی علمیت اور مذہب پر’جنس‘ سے متعلقہ تحریکات کا اعتراض کیا ہے؟اس جدید بیانیے میں مسلم مفکرین کو کہاں مسائل پیش آرہے ہیں؟حقوق انسانی اور حقوق العباد کا جوہری فرق سمجھنا کیوں لازمی ہے ؟ان تحریکات کے معاشرت پر کیا اثرات پڑ رہے ہیں اور یہ کہاں تک جائیں گے؟

حصہ