اجر عظیم کا ماہ مبارک

الحمدللہ رمضان المبارک کا برکت والا مہینہ آن پہنچا۔ عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ رمضان المبارک کی خصوصیت صرف یہ ہے کہ اس میں روزے رکھے جاتے ہیں اور رات کو تراویح پڑھی جاتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ دونوں اس ماہِ مبارک کی اہم ترین عبادت ہیں لیکن رمضان ہم سے اس سے بھی زیادہ مطالبہ کرتا ہے۔ وہ مطالبہ عبادت الٰہی ہے۔ ’’وما خلقت الجن و الانس الایعبدون‘‘ اس آی سے بعض مسلمانوں کو یہ غلط فہمی ہو جاتی ہے کہ اگر صرف عبادت کرنا ہی مقصد تھا تو اس کے لیے تو فرشتے ہی پہلے سے بہت اچھی طرح انجام دے رہے تھے۔ اسی لیے جب اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو تخلیق فرمانے کا ارادہ کیا اور فرشتوں کو بتایا کہ میں اس طرح کا انسان پیدا کرنے والا ہوں تو فرشتوں نے بے ساختہ یہ کہا کہ آپ ایسے انسان کو پیدا کر ہے ہیں جو ز مین میں فساد مچائے گا اور خون ریزی کرے گا۔ بے شک اللہ تعالیٰ کے فرشتے اللہ کی عبادت کر رہے تھے لیکن ان کی عبادت مختلف قسم کی تھی اور ان کے مزاج میں اس عبادت کے خلاف کرنے کا امکان ہی نہیں تھا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے اندر گناہ کرنے کا امکان ہی ختم فرما دیا اور نہ انہیں بھوک لگتی ہے نہ پیاس اور نہ ان کے اندر شہوانی تقاضا پیدا ہوتا ہے حتیٰ کہ ان کے دل میں گناہ کا وسوسہ بھی پید انہیں ہوتا۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے انکی عبادت پر کوئی اجر و ثواب بھی نہیں رکھا اور جب کوئی کمال نہیں تو پھر جنت والا اجر و ثواب بھی نہیں مرتب ہوگا۔ انسان تمام حاجتیں لے کر پیدا کیا گیا اس کو بھوک پیاس بھی لگتی ہے‘ مگر اسی بھوک پیاس کو کچھ دیر کے لیے اللہ کے حکم کی پابندی کرتے ہوئے روک لے کھانے اور پانی کو ہاتھ نہ لگائے‘ حلال چیزیں کچھ دیر کے لیے اس کے لیے حرام ہو جائیں تو وہ اللہ کی جنت کا مستحق قرار پاتا ہے۔ جس کی صفت ’’عرضھا السمٰوات والارض‘‘ (سورہ ال عمران 133) اس کے دل میں داعیہ اور تقاضا ہو رہا ہے اور خواہشات پیدا ہو رہی ہیں‘ گناہ کے محرکات سامنے آرہے ہیں لیکن انسان اللہ کے خوف سے اپنی آنکھ کو گناہ سے‘ اپنے کان کو گناہ سے‘ اپنی زبان کو گناہ سے‘ اپنی قدموں کو گناہ کی طرف اٹھنے سے روک لیتا ہے۔ یہ عبادت فرشتوں کے بس میں نہ تھی۔

جب انسان کا مقصد تخلیق عبادت ہی ہے تو اس کا تقاضا تو یہ ہونا چاہیے تھا کہ انسان پیدائش سے موت تک صرف عبادت کرکے جنت کما لے مگر اللہ نے فرمایا ’’اللہ تعالیٰ نے مومنوں سے ان کی جانیں اور ان کے مال خرید لیے اور اس کا معاوضہ یہ مقرر فرمایا کہ آخرت میں ان کو جنت ملے گی۔‘‘ (سورۃ توبہ:111)

جب ہماری جانیں بک چکی ہیں تو یہ جانیں ہماری نہیں ہیں بلکہ بکا ہوا مال ہے اور اس کِی قیمت لگ چکی ہے۔ جب یہ بک چکی ہیں تو اس کا تقاضا تو یہ تھا کہ اس کی جان اور جسم کو سوائے اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ حکم دیا جاتا ہے کہ تمہیں صبح سے شام تک کسی دوسرے کام کی اجازت نہیں صرف سجدے کرتے رہو لیکن اللہ جیسا خریدارکہ اس نے جان و مال بھی خرید لیا اور اس کی قیمت بھی پوری لگا دی یعنی جنت پھر ہمارا مال ار ہماری جانیں بھی ہمیں لوٹا دیں کہ یہ جان و مال تم اپنے پاس رکھو اب تک کھائو پیو دنیا کے کاروبار کرو بس پانچ وقت کی نماز پڑھ لیا کرو۔ فلاں فلاں چیزوں سے پرہیز کرو باقی جس طرح چاہو کرو۔ یہ اللہ کی عظیم رحمت اور عنایت ہے کہ اس نی سال کے گیارہ مہینے تجارت‘ زراعت‘ مزدوری کی اجازت دی۔ سال کے ایک مہینے رمضان المبارک کے روزے میں انسان کو اپنے مقصدِ تخلیق کی طرف لوٹ جانے کا حکم دیا۔ گیارہ ماہ جو گناہ تم سے سرزد ہوئے ہیں ان کو بخشوانے اور دل کی صلاحیتوں پر جو میل آگیا ہے اس کو صاف کرنے اور غفلت کے پردوں کو ہٹانے کے لیے رمضان المبارک کا ماہِ مبارک مقرر کیا گیا۔

لفظ رِمضان کے معنی عربی میں ’’جھلسا دینے والا اور جلا دینے والا‘‘ کے ہیں اس ماہ کا یہ نام اس لیے رکھاگیا کہ سب سے پہلے اس ماہ کا نام رکھا جارہا تھا اس سال یہ مہینہ شدید جھلسا دینے والی گرمی میں آیا تھا اس لیے لوگوں نے اس کا نام رمضان رکھ دیا۔ لیکن علما نے فرمایا کہ اس ماہ میں اللہ تعالیٰ اپنی رحمت و فضل کرم سے بندوں کے گناہوں کو جھلسا دیتے ہیں۔ گیارہ ماہ دنیاوی کاروبار‘ دنیاوی دھندوں میں لگے رہنے کے نتیجے میں غفلتیں دل پر چھا جاتی ہیں اسے دور کرنے کے لیے تقویٰ پیداکرنے کے لیے روزے فرض کیے گئے۔ سورۃ بقرہ 183 آیت میں ارشاد باری ہے ’’یہ روزے تم پر اس لیے فرض کیے گئے تاکہ تمہارے اندر تقویٰ پیدا ہو۔‘‘ اور تقویٰ اللہ کی عظمت کے استحضار سے اس کے گناہوں سے بچنا ہے۔ لہٰذا روزہ حصول تقویٰ کے لیے بہترین ٹریننگ اور بہترین تربیت ہے۔ یہ مسلمانوں کے لیے تربیتی کورس ہے جو ایک ماہ اپنے اوپر لاگو کرکے پورے سال اسی فارمولِے پر عمل کرے وہی متقی ہے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہر عمل کا ثواب دس گنا سے سات سو گنا تک بڑھا دیا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے روزہ اس قانون سے مستثنیٰ ہے کیوں کہ روزہ خالص میرے لیے ہے اور میں خود اس کی جزا دوں گا۔ بندہ اپنی خواہش اور اپنے کھانے کو میرے لیے چھوڑتا ہے۔ پھر فرمایا کہ روزہ دار کے لیے دو خوشیاں ہے ایک افطار کے وقت اور دو سری اس وقت ہوگی جب خدا سے ملاقات کرے گا اور روزہ دار کے منہ کی بُو خداکینزدیک مشک کی خوشبو سے عمدہ ہے اور روزہ ڈھال ہے (جو گناہوں سے اور دوزخ سے بچاتا ہے) جب تم میں سے کسی کا روزہ ہو تو گندی باتیں نہ کرے اور شور نہ مچائے پس اگر کوئی شخص اس سے گالی گلوچ کرنے لگے یا لڑنے لگے تو کہہ دے کہ میں روزہ دار ہوں۔ (لڑنا جھگڑنا‘ گالی کا جواب دینا میرا کام نہیں ہے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جنت میں ایک دروازہ ہے جس کا نام ریان ہے (یعنی سیرابی کرنے والا) اس میں صرف روزہ دار ہی دخل ہوں گے۔ (بخاری شریف۔ کتاب الصوم‘ باب الریان) آپؐ نے فرمایا جس نے ایک دن خدا کی راہ میں روزہ رکھ لیا اللہ تعالیٰ اسے دوزخ سے اس قدر دور کر دیں گے کہ ستر سال میں جتنی دور پہنچا جائے۔

آپؐ نے فرمایا جس نے بلا کسی شرعی رخصت اور بلا کسی مرض کے (جس میں روزہ چھوڑنا جائز ہو) رمضان کا رو زہ چھوڑ دیا تو اگرچہ وہ بعد میں اس کو رکھ لے جب بھی ساری عمر کے روزوں سے اس کی تلافی نہیں ہوسکتی۔ (سنن ابی دائود: کتاب الصیام)

آپؐ نے فرمایا ’’بہت سے روزہ دار ایسے ہیں کہ جن کے لیے حرام کھانے اور حرام کرنے یا غیبت وغیرہ کرنے کی وجہ سے بھوک پیاس کے علاوہ کچھ بھی نہیں اور بہت سے تہجد گزار ایسے ہیں جن کے لیے ریاکاری کی وجہ سے جاگنے کے سوا کچھ بھی نہیں۔‘‘

آپؐ نے فرمایا روزہ (شیطان کی شرارت سے بچنے کے لیے) ڈھال ہے جب تک روزہ دار (جھوٹ بول کر یا غیبت کرکے) اس کو پھاڑ نہ ڈالے۔‘‘ (سنن نسائی: کتاب الصوم)

آپؐ نے فرمایا ’’جس نے روزہ رکھ کر بری بات اور برے عمل کو نہ چھوڑا تو اللہ تعالیٰ کو اس کی کچھ حاجت نہیں ہے کہ وہ اپنا کھانا پینا چھوڑ دے۔‘‘ (صحیح بخاری: کتاب الصوم)

آپؐ نے فرمایا ’’جس نے ایمان کے ساتھ (اور) ثواب سمجھتے ہوئے رمضان کے روزے رکھے اس کے گزشتہ گناہ معاف کر دیے جائیں گے اور جس نے ایمان کے ساتھ (اور) ثواب سمجھتے ہوئے رمضان میں قیام کیا (تراویح وغیرہ پڑھی) تو اس کے پچھلے گناہ معاف کردیے جائیں گے اور جس نے شبِ قدر میں قیام کیا ایمان کے ساتھ (اور) ثواب سمجھ کر اس کے اب تک کے گناہ معاف کردیے جائیں گے۔‘‘ (صحیح بخاری: کتاب الصوم)

حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سب لوگوں سے زیادہ سخی تھے اور رمضان میں آپؐ کی سخاوت بہت ہی زیادہ بڑھ جاتی تھی۔ رِمضان کی ہر رات میںجبرائیل علیہ السلام آپؐ سے ملاقات کرتے تھے اور آپؐ ان کو قرآن مجید سناتے تھے۔ جب جبرائیلؑ آپؐ سے ملاقات کرتے تھے تو آپؐ اس ہوا سے بھی زیادہ سخی ہو جاتے تھے جو بارش لے کر بھی جاتی ہے۔ (صحیح بخاری: کتاب الصوم)

خاتم الانبیا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’جس نے روزہ دار کا روزہ کھلوایا تو اس کو روزہ دار جیسا اجر ملے گا اور ان کے اجر میں کچھ کم نہیںہوگا۔‘‘ (جامع ترمذی: کتاب الصوم)

رحمت اللعالمینؐ نے فرمایا ’’جو شخص روزے میں بھول کر کھا پی لے تو روزہ پورا کر لے کیوں کہ (اس کا کچھ قصور نہیں) اسے اللہ تعالیٰ نے کھلایا اور پلایا۔‘‘ (صحیح بخاری) آپؐ نے فرِمایا ’’سحری کھایا کرو کیوں کہ سحری میں برکت ہے۔‘‘ (صحیح بخاری)

نبیٔ رحمتؐ نے فرِمایا ’’لوگ ہمیشہ خیر پر ہی رہیں گے جب تک افطاری میں جلدی کرتے رہیں گے۔ یعنی غروب آفتاب ہوتے ہی فوراً روزہ کھول لیا کریں۔‘‘ (صحیح بخاری: کتاب الصوم)

آپؐ نے فرمایا ’’جب تم روزہ کھولنے لگو تو کھجوروں سے افطار کرو کیوں کہ کھجور سراپا برکت ہے اگر کھجور نہ ملے تو پانی سے روزہ کھول لے کیوں کہ وہ ظاہر و باطن کو پاک کرنے والا ہے۔‘‘ (جامع ترمذی: ابواب الصوم)

آپؐ نے فرمایا ’’موسم سرما میں روزہ رکھنا مفت کا ثواب ہے۔‘‘ مفت کا ثواب اس لیے فرمایا کہ اس میں پیاس نہیں لگتی اور دن جلدی سے گزر جاتا ہے۔ (جامع ترمذی: ابواب الصوم)

حضرت عامر بن ربیعہؓ نے فرمایا ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بحالت روزہ اتنی بار مسواک کرتے دیکھا کہ جس کا میں شمار نہیں کرسکتا۔‘‘ (جامع ترمذی)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’جب تک روزہ دار کے پاس کھایا جاتارہے اس کی ہڈیاں تسیح پڑھتی ہیں اور اس کے لیے فرشتے استغفار کرتے ہیں۔‘‘ (جامع ترمذی)

آپؐ نے فرمایا ’’رمضان مواسات کا مہینہ ہے۔‘‘ (کنزالاعمال: باب الصوم)

اس مہینے میں تیسرا حکم درود شریف اور استغفار کا چلتے پھرتے کثرت سے اہتمام کریں۔ (باقی صفحہ ؟؟؟پر)

فضائل شب قدر:
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ کہتے ہیںکہ ایک مرتبہ رمضان المبارک کا مہینہ آیا تو آپؐ نے فرمایا کہ ’’تمہارے اوپر ایک مہینہ آیا ہے جس میں ایک رات ہے جو ہزار مہینوں سے افضل ہے جو شخص اس رات سے محروم رہ گیا گویا ساری ہی چیز سے محروم رہ گیا اور اس کی بھلائی سے محروم ہی نہیں رہتا بلکہ وہ شخص حقیقتاً محروم ہی ہے۔‘‘ (سنن ابن ماجہ)

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ’’شب قدر میں حضرت جبرائیل علیہ السلام ملائکہ کی ایک جماعت کے ساتھ آتے ہیں اور اس شخص کے لیے جو کھڑے یا بیٹھے اللہ کا ذکر کر رہا ہے (اور عبادت میں مشغول ہے) دعائے رحمت کرتے ہیں اور جب عیدالفطر کا دن ہوتا ہے تو حق تعالیٰ اپنے فرشتوں کے سامنے بندوں کی عبادت پر فخر فرماتے ہیں اور ان سے دریافت فرماتے ہیںکہ ’’اے فرشگوں اس مزدور کا جو اپنی خدمت پوری پوری ادا کرے کیا بدلہ ہے۔‘‘ وہ عرض کرتے ہیں کہ ’’اے ہمارے رب اس کا بدلہ یہی ہے کہ اس کی اجرت پوری دے دی جائے۔‘‘ تو ارشاد ہوتا ہے کہ ’’فرشتوں میرے غلاموں نے اور باندیوں نے میرے فریضے کو پورا کر دیا۔ پھر دعا کے ساتھ چلاتے ہوئے (عید گاہ کی طرف) نکلے ہیں۔ میری عزت کی قسم میرے بلند مرتبے کی قسم میں ان لوگوں کی دعا ضرور قبول کروں گا۔‘‘ پھر ان لوگوکو خطاب فرما کر ارشاد ہوتا ہے کہ ’’جائو تمہارے گناہ معاف کر دیے ہیں اور تمہاری برائیوں کو نیکیوں سے بدل دیا ہے۔‘‘ جس پر لوگ عید گاہ ایسے حال میں لوٹتے ہیںکہ ان کے گناہ معاف ہو چکے ہوتے ہیں۔ (سنن ابی دائود)

قرآن میں حضرت جبرائیل کا ملائکہ کے ساتھ آنا سورۃ قدر میں مذکورہ ہے۔ حضرت جبرائیل فرشتوں سے فرماتے ہیں کہ ہر ذاکر اور شاغل (جو عبادت میں مشغول ہے) کے گھر جائین اور ان سے مصافحہ کریں۔ فرشتے ہر مومن سے مصافحہ کرتے ہیں لیکن اس گھر میں داخل نہیں ہوتے جس میں کتا‘ سور کی حرام کاری کی وجہ سے جنسی یا تصویر ہو۔

حضرت عبادہؓ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے تاکہ ہمیں شب قدر کی اطلاع فرما دیں مگر دو مسلمانوں میں جھگڑا ہو رہا تھا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ میں اس لیے آیا تھا کہ تمہیں شب قدر کی خبر دوں مگر فلاں فلاں شخصوں میں جھگڑا ہو رہا تھا کہ جس کی وجہ سے اس کی تعبین اٹھا لی گئی۔ شاید یہ اٹھا لینا اللہ کے علم میں بہتر ہو لہٰذا اب اس کو نویں‘ ساتویں اور پانچویں رات میںتلاش کرو۔ (صحیح بخاری‘ فضائل لیلۃ القدر)

آپؐ کا ارشاد ہے کہ تمہیں نماز‘ روزہ‘ صدقہ وغیرہ سب سے افضل چیز بتائوں۔ صحابہؓ نے عرض کی ضرور۔ آپؐ نے فرمایا ’’آپس کا سلوک سب سے افضل ہے اور آپس کی لڑائی دین کو موڈنے والی ہے۔‘‘

آپس میں خلوص محبت‘رواداری اور محبت سے دوسرے کا دکھ دور کرنا بہت بڑی نیکی ہے۔