آخر شب کے ہم سفر

214

ڈاکٹر سرکار ان کو بیٹھک خانے میں لے آئے۔ دیپالی کواڑ کے پیچھے سے جھانک رہی تھی۔ اُدما نے آواز دی۔
’’دیپالی‘‘۔
’’جی اُدما دی‘‘۔
’’وہ جو مضمون میں نے تم کو لکھنے کو دیا تھا۔ کچھ کامیابی ہوئی…؟‘‘
’’جی اُدما دی۔ پوری کامیابی‘‘۔
’’گڈ…‘‘اُدما رائے نے اطمینان کا سانس لیا۔ پھر وہ ڈاکٹر سرکار سے مخاطب ہوگئیں۔
اور کچھ دیر تک اِدھر اُدھر کی باتیں کرنے کے بعد بولیں۔ ’’بنوئے بابو… میں آپ کے پاس ایک درخواست لے کر آئی تھی۔ دراصل…‘‘
’’کہیے‘‘۔

’’ہفتہ بھر کے لئے کومیلا اپنے گائوں جارہی ہوں… اگر آپ اجازت دیں تو میں دیپالی کو اپنے ساتھ لے جائوں۔ اس کا کالج بند ہوا ہے۔ ذرا یہ بھی سیر تفریح کرلے بے چاری‘‘۔

ڈاکٹر سرکار چُپ ہوگئے۔ مگر اپنی قدامت پسندی کے باوجود وہ ایسی اعلیٰ خاندان اور بلند سیرت خاتون سے انکار نہ کرسکتے تھے۔ انہیں یہ بھی احساس تھا کہ تنگدستی کی وجہ سے وہ دیپالی کو کسی قسم کی سیر تفریح نہیں کرا پاتے۔

اب تینوں لڑکے اندر آچکے تھے۔ اور کان لگا کر مکالمہ سن رہے تھے۔
’’ہم بھی چلیں گے‘‘۔ چھوٹے دونوں نے شور مچایا۔
’’تمہارا میچ ہے۔ کیسے جائو گے؟‘‘ دیپالی نے اندر سے نکل کر ڈانٹا۔
’’تو گویا پروگرام پہلے سے بن چکا ہے‘‘۔ ڈاکٹر سرکار نے کہا۔
’’پرسوں نرسوں اُدما دی نے ذکر کیا تھا‘‘۔ دیپالی نے ذرا گھبرا کر جواب دیا۔ ’’میں چلی جائوں بابا؟‘‘
’’جائو… ہو آئو… کیا آج ہی جارہی ہو؟‘‘

’’جی ہاں… رات کے اسٹیمر سے دائود کندی پہنچنے کا ارادہ ہے۔ اچھا۔ دیپالی۔ تم تھوڑا سا سامان باندھ لو۔ میں تیسرے پہر کو کار بھیج دوں گی‘‘۔ اُدما نے کہا اور ڈاکٹر سرکار سے باتوں میں مصروف ہوگئیں۔

دیپالی نے اچانک اپنے باپ پر نظر ڈالی۔ بابا مدتوں بعد، خلاف معمول ہنس ہنس کر باتیں کررہے تھے اور قہقہے لگارہے تھے۔ اتنی آسانی سے اجازت دے دی!…بابا…! تم پر اُدما دی کا جادو چل گیا! کومیلا کی رہنے والی ہیں۔ ضرور کوئی منتر جانتی ہوں گی۔ سارے کامریڈ ان کی غیر حاضری میں بھی ان کا وظیفہ پڑھتے تھے۔ اب دیکھو کس طرح بابا کو منٹوں کے اندر شیشے میں اُتار لیا۔ بے چارے بابا۔ اس نے تاسف سے پوچھا۔ اُدما دی کی زندگی میں سیاست کے علاوہ اور کسی بات کی گنجائش بھی ہوگی؟ اس نے سر اُٹھا کر اپنی ماں کی تصویر کو دیکھا، جس کے نیچے اُدما رائے کرسی پر بیٹھی ڈاکٹر سرکار سے مخاطب تھیں اور بار بار حسب عادت عینک اُتار کر آنکھیں جھپک کر ڈاکٹر سرکار کو دیکھتی تھیں۔ اور پھر عینک پلّو سے صاف کرکے لگا لیتی تھیں۔ اُدما دیبی کی آنکھیں بڑی بڑی اور سرنگیں تھیں۔ کاش بابا اور اُدما دی… لیکن کوئی تُک نہیں ہے۔ اُدما دیبی بڑی سخت دل معلوم ہوتی ہیں۔ حالانکہ اتنی نرم دل بھی ہیں۔

اُدما رائے کے جانے کے بعد اپنے کمرے میں اٹیچی کیس پیک کرتے ہوئے وہ دیر تک یہ سب سوچنے میں ایسی کھوئی رہی کہ آنے والے دنوں کے خطرے اور نزاکت کا خیال بھی اس کے دل میں نہ آیا۔

ٹھیک ساڑھے تین بجے اُدما رائے کی کار آگئی۔ دیپالی دری کا چھوٹا سا بستر اور اٹیچی کیس اُٹھائے چندر کنج سے نکلی اور کار میں جا بیٹھی۔

(9)

کلثوم آیا
ساڑھے چار بجے شام مشن کمپائونڈ کا بوڑھا اور معتبر چوکیدار جوزف اپنے ہمراہ کلثوم آیا کو لے کر ڈی ایمز ہائوس پہنچا۔ میم صاحب ابھی سو رہی تھیں۔ صاحب کچہری سے نہیں آئے تھے۔ لیلا بتی سامان باندھے نرائن گنج جانے کے لئے تیار بیٹھی تھی۔ اُس نے کلثوم کو اندر بلالیا۔ اور کام سمجھانے میں مصروف ہوگئی۔ کوٹھی کے سارے کمرے دکھائے اور اس کے فرائض سے روشناس کیا۔

’’شام کے ٹیم‘‘۔ لیلا بتی اپنا انگوٹھا اُلٹا منہ تک لے گئی۔ ’’صاحب، میم صاحب دھت ہوجاتا ہے۔ اس کے بعد چھٹی۔ میم صاحب رات کو کپڑا خود بدلی کرتا ہے۔ بچہ کوئی نہیں ہے۔ صاحب، میم صاحب دونوں بہت شریف آدمی ہے۔ تم خوش رہے گا۔ ہفتہ دس روز کا تو بات ہے‘‘۔ لیلا اسے پچھلے برآمدے کے سرے پر اپنی کوٹھری میں لے گئی۔ کلثوم نے اپنا اٹیچی کیس چار پائی کے نیچے سرکا دیا۔ کوٹھری میں سر کے تیل کی عجیب سی بو بسی تھی۔ اسے ا‘بکائی سی آئی۔ وہ کھڑکی کے پاس بیٹھ گئی۔

شام کی چائے کے وقت میم صاحب نے طلبی کی۔ لیلا اسے اپنے ساتھ لے کر گئی۔ صاحب، میم صاحب لائن پر بیٹھے چائے پی رہے تھے۔ کلثوم نے جھک کر سلام کیا۔

’’پہلے کہیں کام کیا ہے؟‘‘ میم صاحب نے انٹرویو شروع کیا۔
’’کلکتے میں میم صاحب‘‘۔
’’کدھر کا رہنے والا ہے؟‘‘
’’میمن سنگھ… ادھر لال باغ میں ہمارا ماموں ہے۔ اس کے پاس رہتا ہے‘‘۔
’’بل… پادرے کی لڑکی نے یہ آیا بھیجی ہے۔ آئی تِھنک شی وِل ڈو…‘‘مسز کینٹ ویل نے شوہر کو مخاطب کیا۔
ولیم کینٹ ویل نے بے پرواہی سے سرخم کیا اور اسٹیٹسمین پڑھنے میں مصروف رہے۔

کلثوم بی بی نے اپنی مستعدی اور خدمت گزاری سے فریڈا کینٹ ویل کو منٹوں میں رام کرلیا اور فریڈا کینٹ ویل کہ خاصی سیدھی تھیں۔ فوراً اس کے آگے لیلا بتی کی شکایتیں کرنے لگیں۔ کاہل اور کام چور ہے دن بھر سوتی ہے۔ پادرے کی بیوی کی سفارش پر اتنے دنوں سے رکھا ہوا ہے۔ اگر وہ گائوں سے واپس نہ آئے تو تم یہیں رہنا کھُل سُم۔

کلثوم نے اقرار میں سر ہلایا۔ اور میم صاحب کے پائوں دباتی رہی۔
وہ پردے کی وجہ سے شاگرد پیشے کی طرف بالکل نہیں گئی۔ نہ دوسرے ملازموں کے سامنے آئی۔ بوڑھے عبدالغفور میاں ہم مذہبی کے ناطے اس کے متعلق خاصی دلچسپی لے رہے تھے۔ ان کا بڑا لڑکا نواب پورے میں سائیکلوں کی دکان پر نوکر تھا۔ مگر آوارہ ہوتا جارہا تھا۔ عبدالغفور چاہتے تھے کوئی نیک بے زبان لڑکی ملے تو دو بول پڑھوادیں۔ چنانچہ کلثوم کے گھر کے حالات اور اس کی بیوگی کی المناک داستان سن کر انہیں اس سے اور زیادہ ہمدردی ہوگئی اور وہ اس کی خاطر مدارات میں لگے رہے۔

’’کرسمس ایو‘‘ کی وجہ سے وہ شام بے حد مصروف اور ہنگامہ خیز گزری۔ کلثوم رات گئے تک کام میں لگی رہی۔ دوسری صبح بڑا دن تھا۔ سویرے ہی سے سامنے کا برآمدہ ڈالیوں سے بھر گیا۔ سلام کے لئے آنے والے ہندوستانیوں کا تانتا بندھا۔ شام کو صاحب لوگ آئے۔ وہ دن بھی بڑا مصروف گزرا۔

تیسرے روز کلکتے سے مہمان آنے والے تھے۔ عبدالغفور بڑے دن اور مہمانوں کی آمد کی وجہ سے کام کی زیادتی کا شکوہ کرتے ہوئے بڑبڑا رہے تھے تو کلثوم نے ان سے کہا۔ ’’چچا لائو جھاڑ پونچھ میں کئے دیتی ہوں۔ اتنے میں تم کٹاری صاف کر ڈالو‘‘۔ بنگلے پر اَن گنت ملازم تھے۔ مگر گول کمرے صاحب اور میم صاحب کے کمرے اور کھانے کمرے کی صفائی عبدالغفور خود کرتے تھے۔ جھاڑن کندھے پر ڈال کر عبدالغفور پیٹھ پر ہاتھ رکھے جُھکے جُھکے پنیڑی کی طرف چلے گئے۔ پھر واپس آکر انہوں نے کلثوم سے کہا۔ ’’سب چیز بہت اچھی طرح جھاڑنا۔ میم صاحب گرد کا ایک ذرّہ بھی دیکھ لیں تو مار ڈالیں گی‘‘۔

میم صاحب صبح کے ٹیم ملنے ملانے باہر جاچکی تھیں۔ کلثوم ڈرائنگ روم کی صفائی کرنے کے بعد سب سے پہلے صاحب کے دفتر کے کمرے میں گئی۔ جس کے سب دروازے اندر سے بند تھے۔ اس نے صاحب کی میز کے کاغذات سنوارے، فائل سلیقے سے رکھے۔ ایک آدھ دراز جو اَدھ کھلی پڑی تھی اسے بھی ٹھیک کردیا۔ اور آدھ پون گھنٹے تک کمرے کی جھاڑ پونچھ میں مصروف رہی۔

میم صاحب کی واپسی سے ذرا قبل وہ ان کے ڈریسنگ روم میں آکر ان کے کپڑوں پر استری کرنے میں مشغول ہوگئی۔

مہمان کلکتے سے رات کو پہنچے۔ اس وقت کلثوم اپنی کوٹھری میں جا کر سوچکی تھی۔

بریک فاسٹ کی میز پر اس نے مسٹر گل برٹ پلُومر انسپکٹر جنرل پولیس اور ان کی میم کی جھلک دیکھی۔ مگر ڈائیننگ روم میں اس کا کوئی کام نہ تھا۔ ناشتے کے بعد میم صاحب نے اس سے کہا کہ مسز پلّومر کے پاس جائے۔

چنانچہ وہ گیسٹ روم میں پہنچی اور جُھک کر سلام کیا۔ مسز پلّومر اَدھیڑ عمر کی خوش مزاج خاتون تھیں۔ انہوں نے اپنے کپڑے نکال کر کرسی پر رکھے۔ مسٹر پلُومر کا اردلی ابھی کمرے میں نہ آیا تھا۔ کلثوم نے دھوبی کو بلایا۔ سفر کے کپڑے دھوبی کو دینے کے لیے مسز پلومر نے گنگناتے گنگناتے سارا سامان تلپٹ کردیا۔ بہت سے سرکاری کاغذات تتر بتر ہوگئے۔ کلثوم نے سلیقے سے ان سب کو سمیٹ کر ایک طرف رکھ دیا۔

’’گڈ گرل…!‘‘ مسز پلُومر نے کہا۔ ’’ہمارے ساتھ کیل کٹا چلے گا؟‘‘ (مسز کینٹ ویل نے ان کو بتادیا تھا کہ یہ آیا عارضی ہے)
کلثوم نے شرما کر منہ میں پلّو ٹھونس لیا۔ ’’میم صاحب ہمارا سادی ہونے والا ہے‘‘۔

’’سادی! ویری گڈ… لو کُھل سُم… یہ صاحب کا بکسا اِدھر رکھو۔ اس میں بڑا جروری کاگج رکھا ہے۔ صاحب اس کی چابی مانگے گا تو ہم کو آکر بولنا۔ چابی ہمارے اس نیلے بیگ میں ہے۔ ٹھیک ہائے؟‘‘

’’ٹھیک ہے میم صاحب…‘‘کلثوم نے جواب دیا۔
رات کو کھانے کے بعد مسٹر کینٹ ویل اور مسٹر پلُومر شراب کے گلاس ہاتھ میں لے کر ڈرائنگ روم کے دروازے اندر سے بند کئے آہستہ آہستہ گفتگو میں مصروف ہوگئے۔ اتفاق سے کلثوم برابر والے اندھیرے کمرے میں ہی موجود تھی۔ جس کا دروازہ پہلے سے کھلا رہ گیا تھا۔

کچھ دیر بعد صاحب نے پکارا…’’کوئی ہائے… عبدل‘‘۔
کلثوم دبے پائوں پنیڑی میں گئی… جہاں عبدالغفور عشاء کی نماز میں مصروف تھے (میم صاحب اور مسز پلومر اپنے اپنے کمروں جا کر سوچکی تھیں) صاحب نے دوبارہ آواز دی تو کلثوم بھاگی بھاگی ڈرائنگ روم کے گیلری والے دروازے پر پہنچی اور دستک دی۔ صاحب نے اُٹھ کر دروازہ کھولا۔ اور اس پر اس طرح نظر ڈالی جیسے اسے پہلی بار دیکھ رہے ہوں۔ وہ ذرا جھینپ گئی۔ مگر اس نے فوراً کہا۔

’’صاحب عبدل نماز پڑھ رہا ہے۔ کیا کام ہے؟‘‘
’’تم اب تک کیوں جاگ رہی ہو کھل سُم؟‘‘ مسٹر کینٹ ویل نے پوچھا۔ ان کا چہرہ تمتما رہا تھا۔
’’میں میم صاحب کے پائوں دبا رہی تھی۔ صاحب‘‘۔
’’اوہ اچھا‘‘۔

کلثوم نے ایش ٹرے خالی کی۔ سگریٹ کا نیا ٹِن کھول کر مہمان کے قریب تپائی پر رکھا۔ اِس دوران میں دونوں صاحب لوگ پھر گفتگو میں محو ہوچکے تھے۔ لیکن جب وہ کمرے سے باہر نکل رہی تھی تو دفعتاً مسٹر پلومر نے سر اُٹھا کر اسے دیکھا۔ اور شگفتگی سے کہا۔ ’’آئی سے بل۔ ویٹس اے پر ٹی گرل‘‘۔ کلثوم ہڑبڑا کر گیلری میں پہنچی اور سرپٹ دوڑتے ہوئے اپنی کوٹھری میں جا کر کھاٹ پر لیٹ رہی۔

مسٹر پلُومر صوبے کے اعلیٰ پولیس اور سِول حکام کی ہنگامی کانفرنس کے لئے ڈھاکے آئے تھے۔ ایک روز ایک اہم میٹنگ ڈی ایم کے بنگلے پر بھی ہوئی۔ جس میں بیرسٹر رائے کے سالے دھریندر موہن سین ڈی آئی جی بھی شامل تھے۔ بنگلے پر پولیس اور سی آئی ڈی والوں کی ریل پیل تھی۔ کلثوم مستعدی سے اس دوران مسز پلُومر کی حاضری میں رہی۔ کلکتے واپس جاتے وقت مسز پلُومر نے اس کو دس روپے بخششیں دیے۔

دسویں دن لیلا بتی اپنے گائوں سے واپس آگئی۔ آتے ہی اس نے کلثوم کے کان میں کہا۔ ’’نانی بیمار نہیں تھی۔ مجھے بہانے سے بلوایا تھا ورنہ میم صاحب چھٹی نہ دیتیں‘‘۔

جس دن لیلا بتی ڈی ایم کے بنگلے پر اپنی ڈیوٹی بجانے واپس پہنچی۔ اسی روز شام کو اُدما رائے کی موٹر دیپالی سرکار کو چندر کنج واپس چھوڑ گئی۔ دیپالی نے ڈاکٹر سرکار کو بتایا کہ اس نے کومیلا میں اُدما رائے کے کنٹری ہائوس میں بے حد خوشگوار وقت گزارا۔

۹ جنوری ۱۹۴۰ء کو پولیس نے دریائی راستوں کی ناکہ بندی کرکے ریحان الدین احمد اور اس کے ساتھیوں کے خفیہ مستقر اور خفیہ پریس پر چھاپہ مارا۔ مگر ریحان الدین احمد اور اس کے ساتھی وہاں سے غائب ہوچکے تھے۔ اور اب کی مرتبہ وہ ایسے غائب ہوئے تھے کہ پانچ اضلاع کی پولیس ان کو تلاش کرتے کرتے عاجز آگئی۔ مگر ان کا سراغ کہیں نہ ملا۔ یورپ میں جیسے جیسے جنگ نے زور پکڑا اور برطانیہ کمزور پڑتا گیا۔ ہندوستان میں پولیس کی سرگرمیوں میں تیزی آگئی۔ بنگال میں ریحان الدین احمد اور ان کے ساتھیوں کی تلاش بھی تندہی سے جاری رہی۔ مگر وہ سب شاید فضا میں تحلیل ہوچکے تھے۔

لیکن جنگ کے خلاف اور خانہ جنگی کے پرچار میں ان کا لٹریچر اسی طرح خفیہ ٹھکانوں سے چھپتا اور تقسیم ہوتا رہا۔
(جاری ہے)

حصہ