دعوت دین:داعیانہ کردار کے آداب

267

-1اپنے منصب کا حقیقی شعور پیدا کیجیے، آپ نبیؐ کے جانشین ہیں اور دعوت دین، شہادت حق کا وہی فریضہ آپ کو انجام دینا ہے جو اللہ کے نبیؐ انجام دیتے رہے۔ لہٰذا وہی داعیانہ تڑپ پیدا کرنے کی کوشش کیجیے جو نبیؐ کا خصوصی اور امتیازی وصف ہے۔

قرآن کا ارشاد ہے:
’’ اس نے تمہیں منتخب فرمالیا ہے اور دین کے معاملے میں تم پر کوئی تنگی نہیں رکھی ہے، پیروی کرو اس دین کی جو تمہارے باپ ابراہیمؑ کا دین ہے۔ اس نے پہلے ہی تمہیں مسلم کے نام سے نوازا تھا اور اس سلسلے میں بھی تاکہ رسولؐ تمہارے لئے دین حق کی شہادت دیں اور تم سارے انسانوں کے سامنے دین حق کی شہادت دو‘‘۔

یعنی امت مسلمہ رسولؐ کی جانشین ہے اور اس کو وہی کام انجام دینا ہے جو رسولؐ نے انجام دیا۔ جس طرح آخری رسولؐ نے اپنے قول و عمل اور شب و روز کی تگ و دو سے اللہ کے دین کو واضح کرنے کا حق ادا کردیا۔ ٹھیک اسی طرح امت کو بھی دنیا کے سارے ہی انسانوں کے سامنے اللہ کے دین کو واضح کرنا ہے اور اسی احساس فرض اور داعیانہ تڑپ کے ساتھ دین حق کی زندہ شاہدت بن کر زندہ رہنا ہے۔

-2 اپنی اصل حیثیت کو ہمیشہ نگاہ میں رکھیے اور اس کے شایان شان اپنی زندگی کو بنانے اور بنائے رکھنے کی کوشش پیہم جاری رکھیے۔ آپ دنیا کی عام امتوں کی طرح ایک امت نہیں ہیں بلکہ اللہ نے آپ کو امتیازی شان بخشی ہے۔ آپ کو دنیا کی تمام قوتوں میں صدر کی طرح رہنمائی کا مقام حاصل ہے۔ آپ ہر افراط و تفریط سے پاک، اللہ کی سیدھی شاہراہ پر اعتدال کے ساتھ قائم ہیں۔ قرآن میں ہے:

’’اور اسی طرح ہم نے تم کو ایک ’’امت وسط‘‘ بنایا تاکہ تم سارے انسانوں کے لئے دین حق کے گواہ بنو، اور ہمارے رسولؐ تمہارے لئے گواہ ہوں‘‘۔(البقرۃ:123)

-3اپنے نصب العین کا واقعی علم حاصل کیجیے اور شرح صدر کے ساتھ اس کو اپنانے کی کوشش کیجیے۔ اللہ کی نظر میں امت مسلمہ کا نصب العین قطعی طور پر یہ ہے کہ وہ کامل یکسوئی اور اخلاص کے ساتھ اس پورے دین کو قائم اور نافذ کرے جو حضرت محمدؐ لے کر آئے اور جو عقائد و عبادات، اخلاق و معاشرت اور معیشت و سیاست غرض انسانی زندگی سے متعلق تمام آسمانی ہدایات پر مشتمل ہے۔ آپؐ نے عقائد و اخلاق کی تعلیم بھی دی، عبادات کے طریقے بھی سکھائے، دین کی بنیادوں پر سماج کی تعمیر بھی فرمائی اور انسانی زندگی کو منظم کرنے اور خیر و عافیت سے مالا مال کرنے والی ایک بابرکت اسٹیٹ بھی قائم کی۔ اللہ کا ارشاد ہے:

’’مسلمانو! اللہ نے تمہارے لئے دین کا وہی طریقہ مقرر کیا ہے جس کی وصیت اس نوحؑ کو کی تھی اور جس کی وحی اے رسولؐ! ہم نے آپ کی طرف بھیجی ہے اور جس کی ہدایت ہم ابراہیمؑ اور موسیٰ ؑ اور عیسیٰؑ کو دے چکے ہیں کہ اس دین کو قائم کرو اور اس میں تفرقہ نہ ڈالو‘‘۔(شوریٰ: 13)

-4 برائیوں کو مٹانے اور بھلائیوں کو قائم کرنے کے لئے ہمہ وقت کمربستہ رہیے۔ یہی آپ کے ایمان کا تقاضا ہے اور یہی آپ کے ملی وجود کا مقصد ہے۔ اسی مقصد کے لئے زندہ رہیے اور اسی کے لئے جان دیجیے۔ اسی کام کو انجام دینے کے لئے اللہ نے آپ کو ’’خیر امت‘‘ کے عظیم لقب سے سرفراز کیا ہے۔

’’تم خیر امت (بہترین امت) ہو جو سارے انسانوں کے لئے وجود میں لائی گئی ہے۔ تم بھلائی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے روکتے ہو، اور اللہ پر کامل ایمان رکھتے ہو‘‘۔ (آل عمران: 110)

نبیؐ کا ارشاد ہے: ’’اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے، تم لوگ لازماً نیکی کا حکم دیتے رہو اور برائی سے روکتے رہو، ورنہ عنقریب خدا تم پر ایسا عذاب بھیج دے گا کہ پھر تم پکارتے رہوگے اور کوئی شنوائی نہ ہوگی‘‘۔

-5 اللہ کا پیغام پہنچانے اور بندگان رب کو جہنم کے ہولناک عذاب سے بچانے کے لئے داعیانہ تڑپ اور مثالی دردو سوز پیدا کیجیے۔ نبیؐ کی بے مثال اور بے پایاںدرد کا اعتراف قرآن نے ان الفاظ میں فرمایا ہے:

’’شاید آپ ان لوگوں کے پیچھے اپنی جان ہلاک ہی کر ڈالیں گے اگر یہ لوگ اس کلام ہدایت پر ایمان نہ لائیں‘‘۔ (الکہف:6)

اور نبیؐ نے اپنی کیفیت کو ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے:
’’میری مثال اس شخص کی سی ہے جس نے آگ جلائی اور جب آس پاس کا ماحول آگ کی روشنی سے چمک اٹھا تو کیڑے پتنگے اس پر گرنے لگے ور وہ شخص پوری قوت سے ان کیڑوں پتنگوں کو روک رہا ہے، لیکن پتنگے ہیں کہ اس کوشش کو ناکام بنائے دیتے ہیں اور آگ میں گھسے پڑ رہے ہیں (اسی طرح) میں تمہیں کمرے سے پکڑ پکڑ کر آگ سے روک رہا ہوں اور تم ہوکہ آگ میں گرے پڑ رہے ہو‘‘ (مشکوٰۃ)

ایک بار حضرت عائشہؓ نے آپؐ سے پوچھا: ’’یا رسولؐ اللہ! احد کا سے زیادہ سخت دن بھی آپؐ پر کوئی گزرا ہے۔ فرمایا: ’’ہاں عائشہ! میری زندگی میں سب سے زیادہ سخت دن عقبہ کا دن تھا‘‘۔ یہ وہ دن ہے جب آپؐ مکے والوں ے مایوس ہوکر طائف والوں کو اللہ کا پیغام پہنچانے کے لئے تشریف لے گئے، وہاں کے سردار عبدیالیل نے غنڈوں کو آپؐ کے پیچھے لگادیا اور انہوں نے پیغام رحمت کے جواب میں آپؐ پر پتھر برسائے۔ آپؐ لہولہان ہوگئے اور بے ہوش ہوکر گر پڑے پھر آپؐ انتہائی پریشان اور غمگیں وہاں سے چلے۔ جب قرن الثعالب پہنچے تو غم کچھ ہلکاہوا، اللہ نے عذاب کے فرشتے کو آپؐ کی خدمت میں بھیجا۔ عذاب کے فرشتے نے کہا: ’’یا رسولؐ اللہ! اگر آپؐ فرمائیں تو میں ابوقیس اور جبل احمر کو آپس میں ٹکرادوں اور ان دونوں پہاڑوں کے بیچ میں یہ بدبخت پس کر اپنے انجام کو پہنچ جائیں۔ رحمت عالمؐ نے فرمایا: ’’نہیں نہیں! مجھے چھوڑ دو کہ میں اپنی قوم کو اللہ کے عذاب سے ڈراتا ہوں، شاید کہ اللہ انہی کے دلوں کو ہدایت کے لئے کھول دے یا پھر ان کی اولاد میں ایسے لوگ پیدا ہوں جو ہدایت کو قبول کرلیں‘‘ (بخاری، مسلم)

آپؐ مدینے میں ہیں اور مکے کے لوگوں میں آپؐ کے خلاف سازشیں ہورہی ہیں۔ کوئی کہتا ہے انہیں شہر سے نکال دو۔ کوئی کہتا ہے انہیں قتل کردو۔ انہی دنوں مکے کو اچانک قحط نے آگھیرا۔ ایسا قحط کہ قریش کے لوگ پتے اور چھال کھانے پر مجبور ہوگئے۔ بچے بھوک سے بلبلاتے اور بڑے ان کی حالت زار دیکھ کر تڑپ تڑپ اٹھتے۔

رحمت عالمؐ ان لوگوں کو اس لرزہ خیز مصیبت میں مبتلا دیکھ کر بے قرار ہوگئے۔ آپؐ کے مخلص ساتھی بھی آپؐ کا اضطراب دیکھ کر تڑپ اٹھے۔ آپؐ نے اپنے ان جانی دشمنوں کو جن کے پہچائے زخم ابھی بالکل تازہ تھے، اپنی دلی ہمدردی کا پیغام بھیجا اور ابوسفیان اور صفوان کے پاس پانچ سو دینار بھیج کر کہلوایا کہ یہ دینار اس قحط کے مارے ہوئے غریبوں میں تقسیم کردیئے جائیں۔ حقیقت یہ ہے کہ گمراہ بندوں کے لئے غیر معمولی حریص ہونا یہی ایک داعی حق کے وہ جوہر ہیں جن کے ذریعے اس کی زندگی انتہائی دل کش اور غیر معمولی اثر انگیز بن جاتی ہے۔

-6قوم کی بے لوث خدمت کیجئے اور اپنی کسی خدمت کا صلہ بندوں سے طلب نہ کیجیے۔ جو کچھ کیجیے محض اللہ کی خوشنودی کے لئے کیجیے اور اسی سے اپنے اجر و ثواب کی طلب ایسا محرک ہے جو آدمی کی بات میں اثر پیدا کرتا ہے اور آدمی کو مسلسل سرگرم رکھتا ہے۔ خدا ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ نہ اسے نیند آتی ہے، نہ اونگھ۔ اس کی نظر سے بندے کا کوئی عمل پوشیدہ نہیں۔ وہ اپنے مخلصین کا اجر کبھی ضائع نہیں کرتا۔ وہ محنت سے کہیں زیادہ دیتا ہے اور کسی کو محروم نہیں کرتا۔ پیغمبر بار بار اپنی قوم سے کہتے تھے:

’’میں تم سے کسی اجر اور بدلے کا مطالبہ نہیں کرتا۔ میرا اجر تو رب العالمین کے ذمہ ہے‘‘۔

-7اسلام کی گہری بصیرت حاصل کیجیے اور یقین رکھیے کہ اللہ کے نزدیک دین تو بس اسلام ہی ہے، اس دین حق کو چھوڑ کر جو طریق زندگی بھی اختیار کیا جائے گا۔ اللہ کے یہاں اس کی کوئی قدر و قیمت نہ ہوگی۔ اللہ کے یہاں تو وہی دین مقبول ہے جو قرآن میں ہے ور جس کی عملی تفسیر حضرت محمدؐ نے اپنی مبارک زندگی سے پیش فرمائی۔ قرآن پاک میں نبیؐ سے کہا گیا ہے کہ لوگوں کو صاف صاف بتادیجیے کہ میں نے جو راہ بھی اپنائی ہے، سوچ سمجھ کر پوری بصیرت کے ساتھ اپنائی ہے:

’’(اے رسولؐ!) آپ ان سے صاف صاف کہہ دیجیے کہ میرا راستہ تو یہ ہے، میں اور میرے پیچھے چلنے والے پوری بصیرت کے ساتھ اللہ کی طرف دعوت دے رہے ہیں اور خدا ہر عیب سے پاک ہے اور میرا ان سے کوئی واسطہ نہیں جو اللہ کے ساتھ شرک کررہے ہیں‘‘ (یوسف:108)

اور اللہ کا صاف صاف ارشاد ہے:
’’اور جو کوئی اسلام کے سوا کسی دوسرے دین کو اختیار کرنا چاہے گا اس کا وہ دین ہرگز قبول نہ کیا جائے گا اور آخرت میں وہ ناکام و نامراد ہوگا‘‘ (آل عمران: 85)

-8 اپنے نصب العین کی عظمت اور اہمیت کو ہمیشہ نگاہ میں رکھیے اور خیال رکھیے کہ یہ وہ عظیم کام ہے جس کے لئے اللہ کی طرف سے ہمیشہ انبیا مبعوث ہوتے رہے ہیں اور یہ یقین رکھیے کہ اللہ نے آپ کو دین کی جو دولت عطا فرمائی ہے یہی دونوں جہان کی عظمت و سربلندی کا سرمایہ ہے۔ بھلا اس کے مقابلہ میں دنیا کی دولت اور شان و شوکت کی کیا قدر و قیمت ہے جو چند روزہ بہار ہے۔ قرآن میں ہے:

’’اور ہم نے آپؐ کو سات دہرائی جانے والی آیتیں اور عظمت والا قرآن عطا کیا ہے تو آپؐ اس فانی متاع کی طرف نگاہ اٹھا کر بھی نہ دیکھیے جو ہم نے ان کے مختلف طبقوں کو دے رکھا ہے‘‘۔ اور اہل کتاب کو خطاب کرتے ہوئے کہاگیا ہے۔

’’اے اہل کتاب! تم کچھ نہیں ہو، جب تک تم تورات و انجیل اور دوسری کتابوں کو قائم نہ کرو جو تمہارے رب نے نازل فرمائی ہے‘‘ (المائدہ: 68)

-9 دین کا صحیح فہم حاصل کرنے اور دین کی حکمتوں کو سمجھنے کی برابر کوشش کرتے رہیے، نبیؐ کا ارشاد ہے:
’’خدا جس شخص کو خیر سے نوازنا چاہتا ہے اسے اپنے دین کا صحیح فہم اور گہری سوجھ بوجھ عطا فرماتا ہے‘‘۔ (بخاری، مسلم)

حقیقت یہ ہے کہ دین کا صحیح فہم اور دین کی حکمت ہی تمام بھلائیوں کا سرچشمہ ہے اور جو شخص اس خیر سے محروم ہے وہ دونوں جہان کی سعادتوں سے محروم ہے۔ نہ اس کی زندگی میں نوازن اور یکسانیت پیدا ہوسکتی ہے اور نہ وہ زندگی کے ہر میدان میں دین کی صحیح نمائندگی کرسکتا ہے۔

-10 جو کچھ دنیا کے سامنے پیش کریں اس کا مخاطب سب سے پہلے اپنی ذات کو بنایئے۔ دوسروں کو بتانے سے پہلے خود کو بتایئے اور جو دوسروں سے چاہیں پہلے خود کرکے دکھایئے۔ دین حق کے داعی کا امتیاز یہ ہے کہ وہ ا پنی دعوت کا سچا نمونہ ہوتا ہے۔ جو کچھ وہ کہتا ہے، اپنے عمل و کردار کو پر گواہ بناتا ہے، جن حقیقتوںکو قبول کرنے میں وہ دنیاکی بھلائی دیکھتا ہے خود اس کا سب سے زیادہ حریص ہوتا ہے۔ پیغمبر جب جب قوم کے سامنے دعوت دینے اٹھے تو انہوں نے اعلان کیا ’’میں خود سب سے پہلا مسلمان ہوں‘‘۔

آپ زبان و قلم سے بھی گواہی دیجیے کہ حق وہی ہے جو آپ پیش کررہے ہیں اور اپنے انفرادی عمل، خانگی تعلقات، سماجی معاملات اور سیاسی اور ملکی سرگرمیوں سے بھی یہ ثابت کیجیے کہ دین حق کو اپناکر ہی پاکیزہ کردار وجود میں آتا ہے، مستحکم خاندان بنتا ہے، اچھا سماج تشکیل پاتا ہے اور ایک ایسا نظام تہذیب و تمدن بنتا ہے جس کی بنیاد عدل و انصاف پر ہو، جو لوگ اپنی تربیت و اصلاح سے غافل ہوکر دوسروں کی اصلاح و تربیت کی باتیں کرتے ہیں وہ انتہائی نادان ہیں۔ وہ اپنا گھر چلتا ہوا دیکھ کر بے فکر ہیں ور پانی کی بالٹیاں لئے تلاش کررہے ہیں کہ کسی کے گھر آگ لگی مل جائے تو اس کو بجھا دیں۔ ایسے لوگ دنیا میں بھی ناکام ہیں اور آخرت میں بھی ناکام رہیں گے۔ یا تو ان کی بے عملی ان کی پندو نصیحت کو بے وزن اور بے اثر کرتی رہے گی اور آخرت میں یہ انتہائی عبرت ناک عذاب بھگتیں گے۔ اللہ کو یہ بات انتہائی ناگوار ہے کہ دوسروں کو نصیحت کرنے والے خود بے عمل رہیں اور وہ کہیں جو خود نہ کرتے ہوں۔ نبیؐ نے ایسے بے عمل داعیوں کو انتہائی عذاب سے ڈرایا ہے۔ آپؐ نے فرمایا:
(جاری ہے)

حصہ