سخاوت علی نادرکے اعزاز میں تقریب پذیرائی اور مشاعرہ

310

ادبی تنظیم دریچۂ حیات پاکستان کا پہلا پروگرام سخاوت علی نادر کے لیے تقریب پذیرائی اور مشاعرہ‘ فاران کلب کراچی میں منعقد ہوا جس کی صدارت رفیع الدین راز نے کی۔ مہمانانِ خصوصی میںریحانہ روحی اور اختر سعیدی شامل تھے۔ ثبین سیف اور سحر تاب رومانی مہمانانِ اعزازی تھے۔ آئرین فرحت نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔ تلاوتِ کلام مجید اور نعت رسولؐ پڑھنے کی سعادت شعیب احمد نے حاصل کی۔ دریچۂ حیات کے روح رواں خصر علی نے خطبہ اسقبالیہ میں کہا کہ انہوں نے اردو زبا و ادب کی ترویج و اشاعت میں اپنا حصہ شامل کرنے کے لیے تنظیم بنائی ہے‘ ہِماری کوشش ہوگی کہ ہم اردو ادب کی خدمت کرتے رہیں۔ پروفیسر ڈاکٹر اوجِ کمال نے کہا کہ سخاوت علی نادر محبتوںکے انسان ہیں۔ سلمان صدیقی نے کہا کہ سخاوت علی نادر کا تعلق علمی و ادبی گھرانے سے ہے‘ وہ شریف النفس انسان ہیں اور اچھے شاعر بھی ہیں۔ وہ تمام اصنافِ سخن میں اشعار کہتے ہیں لیکن غزل ان کی شناخت ہے۔ وہ سہل ممتنع میں تو بہت خاص کمال رکھتے ہیں۔ ان کی شاعری میں زندگی کے تمام مضامین موجود ہیں‘ وہ معاشرے پر گہرے نظر رکھتے ہیں۔ ان کے یہاں غم جاناں کے علاوہ غمِ زمانہ بھی پوری آب و تاب کے ساتھ زندہ ہے مجھے امید ہے کہ سخاوت علی نادر کی ترقی کا سفر جاری رہے گا۔ اختر سعیدی نے سخاوت علی نادر کے فن اور شخصیت پر ایک شان دار نظم پیش کی اور خوب داد سمیٹی۔ سخاوت علی نادر نے کہا کہ وہ دریچۂ حیات پاکستان کے ممنون و شکر گزار ہیں کہ اس تنظیم نے میرے لیے یہ پروگرام مرتب کیا میں تو ادب کا خدمت گزار ہوں اور اپنی تنظیم نگار ادب پاکستان کے تحت ادبی پروگرام مرتب کر رہا ہوں۔ میں چاہتا ہوں کہ اردو زبان و ادب کی ترویج و اشاعت جاری رہے۔ اس موقع پر سخاوت علی نادر نے اپنی غزلیں سنائیں اور خوب داد و تحسین حاصل کی۔ اس پروگرام کے آگنائزر میں فاروق عرشی اور شائق شہاب بھی شامل تھے۔ تقریب کے دوسرے دور میں مشاعرہ ہوا جس میں رفیع الدین راز‘ اختر سعیدی‘ ریحانہ روحی‘ سلمان صدیقی‘ سحر تاب رومانی‘ سلیم فوز‘ راقم الحروف ڈاکٹر نثار‘ دلشاد احسن خیال‘ کشور عدیل جعفری‘ سخاوت علی نادر‘ نسیم شیخ‘ افروز رضوی‘ شائستہ سحر‘ سلمان عزمی‘ نظر فاطمی‘ تنویر سخن‘ خلیل قریشی ایڈووکیٹ‘ چاند علی‘ جاوید اقبال ایڈووکیٹ‘ شائق شہاب اور خصر حیات نے اپنا کلام پیش کیا۔

بزمِ سعید الادب کے زیر اہتمام مشاعرہ

گزشتہ ہفتے رفیع الدین راز کی صدارت میں بزم سعید الادب کے زیر اہتمام مشاعرے کا اہتمام کیا گیا جس میں سعدیہ حریم مہمان خصوصی اور وضاحت نسیم مہمانان اعزازی تھیں۔ یاسر سعید صدیقی نے خطبۂ استقبالیہ میں کہا کہ کراچی ایک عظیم الشان شہر ہے جس کو منی پاکستان بھی کہا جاتا ہے یہاں زندگی کے تمام شعبے پوری توانائی کے ساتھ سرگرم عمل ہیں۔ ہماری ادبی تنظیم بھی ہر مہینے ایک ادبی پروگرام مرتب کر رہی ہے۔ ہمارا مقصد ہے کہ زیادہ سے زیادہ لوگوں تک شعر فہمی عام کی جائے‘ میں تمام ادبی اداروں سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ نظر انداز قلم کاروں کو بھی اسٹیج فراہم کریں۔ جو محکمے زبان و ادب کی ترقی کے لیے مخصوص ہیں وہ اپنے من پسند قلم کاروں کے ساتھ ساتھ جینوئن قلم کاروں کی بھی حوصلہ افزائی کریں۔ رفیع الدین نے صدارتی خطاب میں کہا کہ زبان و ادب کی ترقی کے لیے ضروری ہے کہ تمام شعرائے کرام ایک پلیٹ فارم پر آجائیں۔ ادبی گروہ بندیوں سے شاعری کا سفر متاثر ہوتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اب غزل کے روایتی مضامین کے بجائے ہم غزل میں سماجی‘ سیاسی مسائل بھی ڈسکس کر رہے ہیں‘ جدید لفظیات سے اپنی شعری سجا رہے ہیں لیکن نظم کا شعبہ بے حد کمزور ہوتا جا رہا ہے‘ اب نظم کہنے والے شعرا کم ہوتے جا رہے ہیں۔ سعید الظفر صدیقی نے کلماتِ تشکر ادا کیے اور تمام لوگوں کو یہ پیغام دیا کہ اردو ایک عالمی زبان ہے اور پاکستان کی قومی زبان ہے۔ عدالتی احکامات کی روشنی میں یہ زبان اب تک سرکاری طور پر نافذ العمل ہونا تھی لیکن بیورو کریسی نہیں چاہتی۔ ہمارے ملک میں دو طرح کا تعلیمی نظام چل رہا ہے۔ آپ یہ تفریق ختم نہیں کرسکتے لیکن اردو کے نفاذ کے لیے کوششیں ہو رہی ہیں۔ اس مشاعرے میں رفیع الدین راز‘ وضاحت نسیم‘ سعدیہ حریم‘ سعید الظفرصدیقی‘ سلیم فوز‘ انجم عثمان‘ راقم الحروف ڈاکٹر نثار‘ نسیم شیخ‘ خالد میر‘ سخاوت علی نادر‘ آئرین فرحت‘ ہما بیگ‘ شاہ فہد اور یاسر سعید صدیقی نے اپنا کلام نذر سامعین کیا۔

حصہ