مجرم ہمارے حکمران ہیں جو فوج کو استعمال کرتے ہیں،فوج میں چین آف کمانڈ یہی ہوتا ہے کہ ایک بندے کا حکم چلتا ہے،سابق چیف آرمی اسٹاف جنرل مرزا اسلم بیگ کا یاد گار انٹریو

160

(دوسرا اور آخری حصہ)

اے اے سید: کیا الیکشن ہونے رہے ہیں؟

جنرل(ر)مرزا اسلم بیگ: ہوگا‘ صدر بش نے جب یہاں آکر اعلان کیا تھا کہ اب جو تبدیلی آئے گی وہ جمہوری عمل کے ذریعے آئے گی‘ میں نے کہاشکریہ‘ آپ نے پاکستان میں تبدیلی کا جو طریقہ کار اختیار کیا ہے وہ صحیح ہے۔ اس سے پہلے جو تبدیلی آتی رہی ہے وہ غیر جمہوری طریقے سے آتی تھی۔ آپ بھی جانتے ہیںکہ اشارہ ملتا تھا اور یہ سیاسی جماعتیں میدان میں آجاتی تھیں۔ تحریک چلتی تھی۔ ایک ڈکٹیٹر‘ دوسرا ڈکٹیٹر… ہر سیاسی تحریک کے نتیجے میں ڈکٹیٹر پیدا ہوتے رہے۔ یہ ہماری بدقسمتی تھی۔ اب جو تبدیلی ہے یہ بہت بڑی تبدیلی ہے کہ اب یہاں پر تبدیلی جِمہوری طریقے سے آئے گی اور اس تبدیلی کے خدوخال کیا ہوں گے‘ اب تو یہ بات واضح ہو کر سامنے آچکی ہے کہ ایک طرف وہ جماعتیں ہیں جو آل پارٹیز ڈیمو کریٹک موومنٹ کا حصہ ہیں اوردوسری طرف پیپلزپارٹی ہے‘ ق لیگ اور ایم کیو ایم ہے جو اب بھی امریکہ اور آرمی کی حمایت اور مدد سے اقتدار سے چمٹے رہنا چاہتے ہیں۔ ان دو نظریات میںکتنا فرق ہے‘ آپ خود اندازہ لگایئے کہ قوم کی سوچ اور نظریۂ حیات کے نزدیک تر کون سا گروپ ہے اور کس کی کامیابی کے امکانات ہیں۔

اے اے سید: آپ نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا کہ چین ہمارا دوست ضرور ہے لیکن وہ ہمارے ساتھ کھڑا ہو کر لڑ نہیں سکتا‘ ہمیں اپنے اوپر ہی بھروسا کرنا ہوگا۔ آپ کا تجزیہ بالکل درست ہے لیکن خود پر بھروسے کی صورت کیا ہے اور اس کے تقاضے کیا ہیں؟

جنرل(ر)مرزا اسلم بیگ: میں اس کی مثال دوں گا کہ ان تمام برائیوں کے ساتھ ساتھ‘ میں افواج پاکستان کی بات کررہا ہوں کہ افواج پاکستان کی صلاحیت کیا ہے… ایک طرف ہماری اپنی فوج کی صلاحیت ہے اور دوسری طرف ہماری ایٹمی طاقت ہونے کی صلاحیت ہے۔ عام لوگوں کا خیال ہے کہ اگر ہمارے پاس ایٹمی طاقت ہے تو ہماری روایتی فوج کی ضرورت نہیں۔ یہ غلط ہے اور میں نے بار بار کہا ہے کہ ہماری ایٹمی صلاحیت ہماری روایتی فوج کا بدل نہیں ہو سکتی۔ ایٹمی ہتھیار استعمال کرنے کے لیے نہیں ہوتے‘ صرف ایک دفعہ ایک بدبخت قوم نے استعمال کیا اور وہ امریکہ ہے‘ اس لیے کہ اسے معلوم تھا کہ جاپان کے پاس اس کے جواب میں کچھ بھی نہیں ہے۔ یہ ہتھیار ہوتاہے صرف Detettence کے لیے‘ خوف پیداکرنے کے لیے‘ اپنے دشمنوں کے لیے اور یہ صلاحیت ہم نے حاصل کی‘ بھرپور اس کا مظاہرہ ہوا‘ 1998ء میں جب دھماکہ کیا گیا اور دانشوروں کا یہ خیال ہے کہ اب کیوں کہ پاکستان بھارت کے درمیان ایٹمی Deterrenceکا توازن قائم ہے اس لیے روایتی جنگ نہیں ہوگی۔ ابھی چند دن پہلے دبئی میں بہت بڑے اسکالر ہیں ایم جے اکبر‘ ایشین ایج کے چیف ایڈیٹر ہیں‘ انہوں نے کہا کہ اب جنگ کے امکانات نہیں ہیں۔ میں نے کہاکہ یہ سوچ صحیح نہیں ہے‘ اس لیے کہ 1998ء میں جب پاکستان اور بھارت کو دنیا نے تسلیم کر لیا کہ یہ ایٹمی صلاحیت رکھنے والے ممالک ہیں‘ اس کے چار سال بعد بھارت نے ایک بہانہ بنا کر اس کی پارلیمنٹ پر حملہ ہوا ہے‘ پوری فوج لا کر پاکستان کی سرحدوں پر کھڑی کر دی اور دھمکیاں دیتا رہا کہ ہم تمہیں صفحہ ہستی سے مٹا دیں گے۔ میں واحد اور پہلا شخص تھا جس نے للکارا کہ تم میں نہ ہمت ہے اور نہ حوصلہ‘ تم پاکستان کی سرحدوں کو عبور نہیں کرسکتے اور اگر ایسی غلطی کرتے ہو تو تمہیں ایسا سبق سکھایا جائے گا کہ تم پچھتائو گے کہ تم نے ایسا قدم کیوں اٹھایا۔ دس ماہ تک یہ ہمارے سرحدوں پر خاک اڑاتے رہے‘ ہمت نہیں ہوئی کہ یہ کہیں بھی ہمارے بارڈر کراس کریں۔ یہ ہماری ایٹمی صلاحیت کا فیض نہیں تھا بلکہ ہماری روایتی طاقت کا فیض تھا۔ میں کہنا یہ چاہ رہا ہوں کہ اس ماحول میں بھی جب کہ ہمارے پاس ایٹمی صلاحیت ہے‘ ہمارے اور بھارت کے درمیان Deterrence کا ایک معیار قائم ہے۔ روایتی فوج کی ضرورت ہے اور ہماری صلاحیت آج مقدار میں کم ہونے کے باوجود اس قدر قابل عمل ہے کہ آج بھارت اپنی تمام تر برتری کے باوجود پاکستان پر حملہ کرنے کی جرأت نہیں کرسکتا۔

اے اے سید: بعض تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ امریکہ کے مقابلے پر خطے میں چین‘ روس اتحاد ابھر رہا ہے اور شاید بھارت اور ایران بھی اس کا حصہ ہوں۔ اس تجزیے میں کتنی معروضیت ہے اور اس کے حقیقت بننے کے کتنے امکانات ہیں؟

جنرل(ر)مرزا اسلم بیگ: جی‘ نیا عالمی نظام ایک حقیقت بن کر ابھر چکا ہے‘ اس کے خدوخال بڑے نمایاں ہو چکے ہیں‘ صف بندی بھی امریکہ کی منفی سوچ کے سبب شروع ہو چکی ہے۔ مثلاً ایک طرف روس ہے جب کہ امریکہ اور یورپ سمجھتے تھے کہ اسے 20 سال لگیں گے میدان میں آنے میں‘ لیکن دس سال کے اندر اندر روس آج ایک بڑی طاقت بن گیا‘ وہ اپنا جو پرانا اسٹیٹس تھا سپر پاور کا اس کو claim کر رہا ہے‘ اس کے ساتھ چین ہے جس سے کسی کو امید نہیں تھی کہ تھوڑے سے عرصے میں چین اس مقام کو پہنچے گا کہ اس کی اقتصادی اور عسکری قوت سے مغربی دنیا کو خطرہ محسوس ہو۔ ان خطرات کو دیکھتے ہوئے امریکہ نے‘ یورپ نے‘ جاپان نے‘ آسٹریلیا نے جو حکمت عملی بنائی ہے یہ وہی سرد جنگ والی حکمت عملی ہے۔ انہوںنے ایک سرد جنگ شروع کی ہوئی ہے۔ یور ہے اور اس کے بعد یورپ کو بھارت سے افغانستان تک لے آئے ہیں جو امریکہ کے ساتھ اسٹریٹجک پارٹنر شپ میں شامل ہے۔ جاپان کو انہوں نے پہلی دفعہ اجازت دی ہے دوسری جنگ عظیم کے بعد کہ اب ایک عسکری قوت بن کر ان کی اس صف میں شامل ہو کر ان کے مقاصد کی تکمیل میں آگے بڑھے۔ جاپان اور آسٹریلیا کا دفاعی معاہدہ ہوا ہے تاکہ یہ جو پوری ڈیفنس کی لائن باقی ہے‘ آسٹریلیا‘ جاپان‘ بھارت‘ نیٹو اس کی سرپرستی اور لائن کو مضبوط بنا کر روس اور چین کے خلاف جو محاذ آرائی کا تصور امریکہ پیش کر رہا ہے‘ یورپ پیش کر رہا ہے وہ بالکل وہی ہے جیسے کہ سرد جنگ کے دوران تھا۔ لیکن اس کے خلاف چین کی جو حکمت عملی ہے وہ اگر آپ ذہن میں رکھیں تو چین نے امریکہ کی انتہا پسندی پر‘ Confrontation یا عسکری ٹکرائو کی جو کیفیت پیدا کی ہے امریکہ نے‘ اس کے جواب میں چین نے کیا کہا؟ چین نے کہا تم کرتے رہو ہمیں اس کی فکر نہیں۔ چین کہتاہے کہ آج کا زمانہ بدلا ہوا ہی‘ آج گلوبلائزیشن کا زمانہ ہے کہ جہاںملکی اقتصادیات دوسری ضروریات پر حاوی ہیں۔ ایک طرف دشمنی بھی ہے امریکہ اور چین کے درمیان۔ اور اسی کے ساتھ امریکہ اور چین کے درمیان جو تجارت ہے وہ تین سو بلین سے زیادہ ہے۔ یورپ کے ساتھ دو سو بیس بلین سے زیادہ ہے۔ بھارت اور امریکہ کی جو حکمت عملی ہے وہ چین کی طاقت کو روکنا اور دبانا ہے۔ بھارت کے ساتھ چین کی ابھی کوئی 25 بلین کی تجارت ہے جو اگلے سال 50 بلین ڈالر کی ہو جائے گی۔ اسی طرح سے جاپان کی ساتھ تجارت ہے کوئی 270 بلین ڈالر کی۔ اگر آپ غور کریں تو اقتصادی مفادات سردجنگ اور فوجی تصادم پر حاوی ہیں۔ میرا کہنے کا مطلب ہے کہ امریکہ کی (تصادم) پالیسی confrontation ناکام ہو چکی ہے۔ ہم نے دیکھا ہے کہ آج امریکی عراق میں ناکام ہیں‘ افغانستان میں ناکام ہیں۔ اسی پالیسی کے نتیجے میں شکست کا منہ دیکھنا پڑا اسرائیل کو لبنان میں۔ اب بڑا مختلف وقت آگیا ہے کہ یہاں پر عسکری قوت سے عسکری قوت کا مقابلہ جو بھی کرے گا وہ ناکام ہوگا۔ اب اقتصادیات ایک بہت ہی مربوط قوت بن کر سامنے آئی ہے اور پھر آج کے زمانے میں آپ دیکھیں کہ یہ مقابلہ جو سردجنگ میں امریکہ اور سوویت یونین کے درمیان تھا‘ اب اس مقابلے میں اور کتنی قوتیں شامل ہو گئی ہیں… یورپ ایک قوت بن گیا ہے‘ روس ایک قوت ہے‘ چین ایک قوت ہے‘ بھارت ایک قوت ہے‘ جاپان ایک قوت ہے۔ یعنی چھ قوتیں اپنا صحیح مقام حاصل کرنے کے لیے آج دنیا کا جو نیا عالمی نظام ہے اس کو نئی شکل دے رہے ہیں اور نئی تشکیل اس کی ہو رہی ہے۔

اے اے سید: اس صورت حال میں کیا یہ کہا جاسکتا ہے کہ اسلام ایک عالمگیر تحریک بن کر ابھر چکا ہے۔ ترکی‘ حماس‘ حزب اللہ کی فتح ہمارے سامنے ہے۔

جنرل(ر)مرزا اسلم بیگ: ہم اپنی حماقتوں سے اس مغربی سوچ کے تابع ہو گئے ہیں کہ دنیائے اسلام میں انتہا پسندی اور دہشت گردی بڑھ رہی ہے جب کہ حقیقت یہ ہے کہ دنیائے اسلام میں تحریکیں چل رہی ہیں آزادی کی مسلم اکثریتی علاقے غیر مسلم حکمرانوں سے آزادی چاہتے ہیں۔ مثلاً چیچنیا‘ فلسطین‘ کشمی… یہ تین بڑی تحریکیں ہیں کہ جہاں مسلمان غیر مسلم حکمرانوں سے آزادی چاہتے ہیں۔ یہ بہت پرانی تحریکیں ہیں۔ اور ابھی جو نئی تحریکیں شروع ہیں افغانستان میں‘ عراق میں وہ قابض فوجوں سے آزادی مانگتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ نکلو‘ یہاں تمہارا رہنے کا کوئی حق نہیں۔ یہ جو دنیائے اسلام میں آزادی کی تحریکیں چل رہی ہیں اس کے اندر ہمیشہ یہ ہوتا رہا ہے کہ چھوٹے چھوٹے Splinter (منحرف) گروپ بن جاتے ہیں جن کا رُخ تحریک سے ہٹ کر کسی اور طرف ہو جاتا ہے۔ یہ وہ عناصر ہیں جو دہشت گردی میں ملوث ہوتے ہیں مثلاً اسامہ کا گروپ‘ جس کو القاعدہ کہتے ہیں‘ انہوںنے امریکہ کی تنصیبات کو‘ امریکہ کے مفادات کو ہدف بنایا ہوا ہے۔ لیکن ان پوری تحریکوں کو دہشت گردی کہہ کر Clash of Civilization اور مسلمانوں اور مغرب کے درمیان تصادم کی بات کرکے ہم خود اپنے آپ کو دھوکے میں رکھے ہوئے ہیں۔ آپ سی آئی اے کی رپورٹ Save New World Order 2004-05 پڑھیے ان کا یہ کہنا ہے کہ کوئی 60 ہزار مجاہدین نے یہاں پر تربیت لی‘ پاکستان میں اس کے علاوہ 30,30 ہزار مجاہدین جو جنگ میں لڑے‘ تو پھر اس جنگ کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے ایک مدافعتی قوت دنیائے اسلام کو عطا کی جس کو ہم جہادی کہتے ہیں۔ جہاد کہ جس کے نام سے مغربی دنیا دہشت کھاتی ہے‘ اُسی قوت نے روس کو پسپا کیا۔ پھر وہی قوت پلٹی افغانستان میں آئی‘ پھر وہی قوت عراق میں آگئی جس نے ایک دوسری سپر پاور کو عراق میں شکست دے دی ہے‘ وہ وہاں سے نکل رہا ہے۔ جس نے آج امریکہ اور یورپ کو مجبور کر دیا ہے کہ وہ افغانستان سے نکل جائیں۔ یہی وقت قوت ہے جس نے اسرائیل کو لبنان میں ذلیل و خوار کیا تو آپ اگر اس حقیقت کو ذہن میں رکھیں گے کہ اللہ نے دنیائے اسلام کو ایسی مدافعتی قوت عطا کی کہ جس کا تعلق ہمارے دین سے ہے‘ ہمارے نظریات سے ہے۔ جہاد اس کا بنیادی تصور ہے کہ جہاں بھی مسلمانوں پر ظلم ہو رہا ہو‘ ناانصافی ہو رہی ہو وہاں پر مسلمان پہنچتا ہے۔ یہ اللہ کا حکم ہے‘ وہ کسی کے بلانے سے نہیں جاتا‘ خود جاتا ہے جس کو مغربی دنیا سمجھنے سے قاصر ہے کہ یہ ہے کیا؟ میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اس کے سامنے ہر وہ طاقت جس نے اس سے ٹکر لی ہے ٹوٹ گئی ہے‘ ہار گئی ہے۔ 80 کی دہائی میں ایک سپر پاور‘ اس دہائی میں امریکہ کی سپر پاور‘ اس دہائی میں امریکہ اور یورپ کی بڑی طاقت ہار گئی۔ اس دہائی میں اسرائیل ہار گیا لبنان میں‘ پاکستانی فوج ہار گئی وزیرستان میں۔ اگر اس حقیقت کو ذہن میں رکھیں تو یہ ایک معجزہ ہے اس صدی کا۔ یہ وہ مدافعتی قوت ہے دنیائے اسلام کی اور وہ وعدہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے کیا ہے کہ دین کی حفاظت اللہ تعالیٰ کی ذمہ داری ہے۔ ساری قوتیں دنیائے اسلام کے خلاف صف آرا ہوگئیں تو اللہ تعالیٰ نے دنیائے اسلام کو وہ قوت عطا کی جس کے سامنے سب پسپا ہیں۔ اس حقیقت کو اگر آج مغربی دنیا سمجھ لے تو بہت سے مسائل حل ہو جائیں گے۔ لیکن اگر دہشت گردی کہہ کر ان کے پیچھے بھاگتے رہے تو ہارتے رہیں گے‘ شکست کھاتے رہیں گے۔

اے اے سید: جنرل پرویز مشرف نے بھارت کے سلسلے میں جو روش اختیار کی اسے قوم کے باشعور حلقے کشمیر پر سودے بازی اور بھارت کی بالادستی کو تسلیم کرنے سے تعبیر کرتے ہیں۔

جنرل(ر)مرزا اسلم بیگ: میں اس بات پر جنرل پرویز مشرف کو سپورٹ کرتا ہوں‘ تائید کرتا ہوں‘ ان کی کہ کشمیر ایک ایسا مسئلہ ہے جس سے سالہا سال سے خون ٹپک رہا ہے۔ ہمارے کشمیریوں بھائیوں کی جو حالتِ زار ہے‘ جو ظلم اور ناانصافی ہو رہی ہے ان کے خلاف… جنرل پرویز مشرف نے لچک دکھائی جو کسی حکومت نے آج تک نہیں دکھائی کہ آئو بیٹھو‘ بات کرو‘ ہم چلو اپنا جو بنیادی مؤقف ہے اس سے بھی ہٹ گئے تم بتائو کیا ہوگا۔ لیکن اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بھارت والے بد نیت ہیں کہ جنہوں نے آگے بڑھ کر اس پیش کش کو قبول نہیں کیا اور اب میں سمجھتا ہوں کہ کشمیر کا مسئلہ حل ہونے کا پُرامن طریقہ ضائع ہو گیا ہے‘ اب یہ کیسے حل ہوگا‘ ابھی چند دن پہلے دبئی میں بھارت پاکستان ڈائیلاگ تھا اپنے انٹرویو میں‘ میں نے ان کو کہا کہ تم نے یہ موقع گنوا دیا‘ اب کیا ہوگا؟ ہمارے مجاہدین جب افغانستان سے فارغ ہوں گے‘ عراق سے فارغ ہوں گے تو سب کشمیر کا رُخ کریں گے‘ تمہاری زندگی تلخ ہو جائے گی‘ تم ہارو گے‘ شکست کھا جائو گے پھر کہو گے کہ اب آئو بیٹھتے ہیں‘ کشمیریوں کے جو مطالبات ہیں ان کو پورا کرتے ہیں۔ یہ ہوگا‘ آپ دیکھ لیجیے گا۔ میں نے مثال دی اُن کو‘ میں نے کہا 1991ء میں وادی ٔ کشمیر میں یہ تحریک شروع کی گئی تھی اُس وقت بھارت کا ایک وفد آیا تھا‘ ان کے جانے پہچانے دانش ور ہیں پروفیسر ستیش کمار۔ میں نے اُن سے کہا تم لوگ اس کو سمجھو کہ کیا ہونے والا ہے۔ یہ تحریک اسی طرح چلے گی جس طرح افغانستان میں چلی تھی۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے ایسی بہت سی تحریکیں دیکھی ہیں‘ اس وقت کشمیر میں بھارت کے صرف 90 ہزار فوجی تھے اور آج 690 ہزار فوجی ہیں اور ان کی سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ اس تحریک کو کنٹرول کو کس طرح کریں۔ یہ زمینی حقائق ہیں اس سے ہمارے اور بھارت کے درمیان آنے والے وقتوں میں معاملات اچھے نہیں ہوں گے‘ اور معاملہ صرف کشمیر کا ہے۔

اے اے سید: آپ کشمیر پر جنرل مشرف کے مؤقف کی حمایت کر رہے ہیں‘ ساتھ ہی پاک بھارت تجارتی حجم کو 10 ارب ڈالر تک لے جانے کی گفتگو ہو رہی ہے‘ پاکستان کے ٹی وی چینلز‘ بھارتی فلموں‘ ڈراموں اور بھارت کے ثقافتی مظاہر سے بھرے ہیں اور اب پاکستان میں بھارتی فلمیں بھی ریلیز ہونا شروع ہوگئی ہیں۔ کیا یہ ایک نئے پاکستان کی تشکیل کا مرحلہ ہے‘ کیا واقعی ہماری اسٹیبلشمنٹ بھارت کی کالونی بننے کا فیصلہ کر چکی ہے؟

جنرل(ر)مرزا اسلم بیگ: ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ بے شک اس حکومت کی یہ کوشش رہی ہے کہ کشمیر کا معاملہ اگر نہیں بھی طے ہوتا ہے تو اس کے باوجود ہمارے اور بھارت کے درمیان تعلقات آگے بڑھنے چاہئیں۔ یہ ہماری اقتصادی ضروریات کے تحت ٹھیک ہے لیکن میں سمجھتا ہوں کہ آنے والے وقتوں میں یہ جتنی بھی تدبیریں کی گئی ہیں‘ جو تعلقات پیدا کیے گئے ہیں‘ جو آمدورفت ہے جب کشمیر کا معاملہ گرم ہوگا تو یہ ساری چیزیں اتنی ہی ٹھنڈی ہوتی چلی جائیں گی۔ یہ تعلقات‘ تجارت سب رک جائیں گے۔

اے اے سید: کیا مستقبل میں کشمیریوں کی جدوجہد میں تیزی آئے گی؟

جنرل(ر)مرزا اسلم بیگ: زمینی حقائق یہی بتا رہے ہیں اور میں سمجھتا ہوں کہ جو بات میں نے 91ء میں بھارتی وفد سے کہی تھی وہی بات آج کے حالات کے تناظر میں دبئی کے انٹرنیشنل چینل پر بھی کہی ہے کہ تمہاری زندگی مشکل ہو جائے گی۔ یہ سارے جہادی ادھر پہنچیں گے ان کو کوئی نہیں روک سکتا۔

اے اے سید: اسد درانی نے گزشتہ دنوں اپنے بیان میں کہا تھا کہ فوج نے ہمیشہ اپنی ہی قوم کو ماراہے۔ بلوچستان‘ وزیرستان‘کراچی میں۔ فوج کو اپنی قوم سے معافی مانگنی چاہیے‘ اس کا کیا مطلب ہے؟

جنرل(ر)مرزا اسلم بیگ: ہماری فوج جب جہاںبھی بلائی جاتی ہے‘ خواہ بلوچستان کا مسئلہ ہو‘ سند ھ کا یہ کہیں اور کا‘ وہ حکم کی تابع ہوتی ہے۔ میں سمجھتا ہوں اُس وقت کے حکمرانوں کو سزاوارگردانا جائے اور ان کو سزا دی جائے۔ فیلڈ مارشل ایوب کے زمانے میں فوج استعمال ہوئی بلوچوںکے خلاف‘ ذوالفقار علی بھٹو کے زمانے میں استعمال ہوئی بلوچوں کے خلاف‘ یحییٰ خان کے زمانے میں یہ فوج استعمال ہوئی مشرقی پاکستان میں مشرقی پاکستانیوں کے خلاف‘ وہاں پر بغاوت شروع ہوئی تھی اور پھر آج کے دور میں یہ استعمال ہو رہی ہے بلوچستان مین‘ ان علاقوں میں جہاں ایک سازش کے تحت بغاوت کا ماحول پیدا کیا گیا ہے۔ قصور فوج کا نہیں ہے‘ قصور ہمارے حکمرانوں کا ہے‘ قصور ہمارے سیاست دانوں کا ہے جو ایسے حکمرانوں کو لا کر بٹھاتے ہیں اپنے ذاتی مفادات کے لیے‘ خاص طور پر ایسے حکمران جن کے اقدامات کے سبب سیاسی خلا پیدا ہوتا ہے۔ بجائے اس کے کہ اپنے ان اندرونی معاملات کو سیاسی طور سے بات چیت کے ذریعے طے کریں‘ ہم فوج استعمال کرتے ہیں۔ مجرم ہمارے حکمران ہیں جو فوج کو استعمال کرتے ہیں‘ فوج کو معافی مانگنے کی ضرورت نہیں‘ نہ کل نہ آج۔ جامعہ حفصہ کا سانحہ بھی آپ نے دیکھا ہے۔ مجرم وہ ہے جس نے حکم دیا۔ ان کو پکڑ کر ان کے خلاف مقدمہ چلائے کہ ان لوگوں نے کیوں فوج کو غلط استعمال کیا۔

اے اے سید: حکم دینے والا تو فوج کا سربراہ ہے اور اسی نے فوج کو جامعہ حفصہ میں لوگوںکو مارنے کے لیے استعمال کیا۔

جنرل(ر)مرزا اسلم بیگ: پکڑو اس کو‘ وہی تو کہہ رہا ہوں جو حکم دینے والا ہے اس کو پکڑو۔

اے اے سید: فوج ایک ادارہ ہے اور اس میں فیصلے تو مشاورت سے ہوتے ہیں‘ اس لیے جو عمل بھی ہوگا وہ Institutional ہوگا۔

جنرل(ر)مرزا اسلم بیگ: جب آمریت ہوتی ہے تو فردِ واحد کا فیصلہ ہوتا ہے خواہ وہ فوجی آمریت ہو یا سویلین آمریت۔

اے اے سید: یعنی سربراہ (چیف) کے علاوہ کسی جرنیل‘ کور کمانڈر کی کوئی رائے نہیں ہوتی؟

جنرل(ر)مرزا اسلم بیگ: ظاہر ہے یہاں فوج میں چین آف کمانڈ یہی ہوتا ہے کہ ایک بندے کا حکم چلتا ہے۔

اے اے سید: مشاورت کا عمل نہیں ہوتا؟

جنرل(ر)مرزا اسلم بیگ: ہمارے وقت میں تھا‘ اس سے پہلے بھی نہیں تھا‘ اس کے بعد بھی نہیں ہے۔

اے اے سید: لال مسجد کے سانحہ کو آپ کس طرح دیکھتے ہیں؟

جنرل(ر)مرزا اسلم بیگ: یہ سازش تھی اور دنیا کو یہ دکھانا مقصود تھا کہ ہمارے یہاں جو انتہا پسند ہیں‘ یہ ان کی شکل ہے۔ ان کے ہاتھوں میں ڈنڈے ہیں‘ برقع پہنے ہوئے ہیں‘ یہ مدرسہ ہے‘ یہ مسجد ہے‘ یہ ہتھیار ہے… ہر چیز انہوں نے اکٹھا کرکے دنیا کو دکھا دی اور پھر یہ بھی بتایا کہ یہ ہماری طاقت ہے کہ ان کو مار کر‘ دبا کر ختم کرسکتے ہیں۔ لیکن یہی ان کی بڑی غلطی ہے کہ یہ جو خونِ ناحق ہے جو ان معصوم بچوں‘ بچیوںکا اور یتیم لوگوںکا ہے جو ان کے ہاتھ سے بہا ہے یہ اس کا عذاب ہے جو ان کے سروں پر نازل ہو رہا ہے۔

اے اے سید: کیا واقعی مارشل لا کو جائز قرار دینے والی عدلیہ مر چکی ہے؟

جنرل(ر)مرزا اسلم بیگ: جی ہاں… جولائی کے بعد مر گئی ہے۔

اے اے سید: آپ کی گفتگو سے لگتاہے کہ اب ملک میں مارشل لا نہیں لگے گا؟

جنرل(ر)مرزا اسلم بیگ: جی… اب ہم صحیح معنوںمیں آزاد ہو چکے ہیں۔ اس کا سہرا دو لوگوں کو جاتا ہے ایک چیف جسٹس افتخار چودھری کو جنہوں نے اتنا بڑا فیصلہ کیا آرمی ہائوس میں بیٹھ کر ہم اس ریفرنس کا مقابلہ کریں گے اور پھر جو یہ تحریک چلی بار اور بینچ اورمیڈیا کی حمایت سے‘ اور سب سے بڑی چیز یہ ہے کہ جب کسی ملک میں مڈل کلاس آگے آجائے تو پھر وہ تحریک رکتی نہیں ہے اور آج جو سول سوسائٹی آزاد نظر آتی ہے‘ اسی مڈل کلاس کی مرہون منت ہے۔ ان کا تعلق ہماری بار اور بینچ سے ہے‘ ہماری عدلیہ سے ہے‘ میڈیا سے ہے اور قوم کی مڈل کلاس جس کو ہم خاموش اکثریت کہتے ہیں‘ وہ ان کے ساتھ شامل ہے۔ یہ بہت بڑی تبدیلی ہے پاکستان میں جو آج تک پچھلے ساٹھ برس میں سامنے نہیں آئی۔

اے اے سید: کیا فوجی اسٹیبلشمنٹ اپنی شکست تسلم کر چکی ہے؟

جنرل(ر)مرزا اسلم بیگ: جی کر چکی ہے… آپ دیکھیے گا۔ ابھی 20 جولائی کا پہلا فیصلہ مانا‘ یہ فیصلہ کہ نواز شریف پاکستان آئیں گے۔ یہ فیصلہ انہوں نے کیا ہے کہ ہم تسلیم کرتے ہیں۔ یہ بے نظیر کو بھی چھوڑ دیں گے‘ بے نظر بھی آئیںگی‘ دونوں میدان میں ہوںگے آپ دیکھیے گا… الیکشن سے پہلے۔

اے اے سید: پاکستان میں کرپشن کی کیا وجوہات ہیں؟

جنرل(ر)مرزا اسلم بیگ: ایک پرانی مثل ہے کہ جب مچھلی سڑنے لگتی ہے تو سب سے پہلے اس کا سر سڑتا ہے۔ ہمارے ملک میں جب سربراہ خود سڑ جائے‘ اس کی سوچ سڑ جائے اور پھر وہ اپنے گرد یہ سارے گند جمع کرلے تو پھر کیسے کرپشن آگے نہیں بڑھے گی؟ اور یہی صورت حال رہی ہے چاہے سول حکومت ہو یا ملٹری حکومت ہو۔

حصہ