لاہور میں کویتی فیشن اور سوشل میڈیا

220

ٹوئٹر بند رہا:
ٹوئٹر اس ہفتے بھی بند ہی رہا۔ اس وجہ سے میرا غزہ کی وڈیوز دیکھنا کم ہوگیا۔ ویسے بھی وہ ناقابلِ برداشت، ناقابلِ بیان مناظرتھے۔ لوگ ٹوئٹر وی پی این سے چلارہے تھے، مگر اس میں ڈیٹا چوری کا خطرہ 90 فیصد ہوتا ہے۔ ایک ہیکر دوست نے بتایا کہ ڈیٹا پر حملہ کرنے کا ایک راستہ وی پی این سروسز سے بھی ہوکر جاتا ہے۔ میرا ڈیٹا بہت قیمتی ہے،آپ کا بھی ہوگا۔ پاکستان کی سیاسی صورتِ حال میں ٹوئٹر کا کم استعمال ہی بہتر ہے۔ فیس بک پر تفریحات لیتے رہیں۔ برطانیہ، آسٹریلیا، امریکا میں غزہ کے لیے بہت بڑے عوامی مظاہروں کا سلسلہ بدستور جاری رہا۔ امریکی فضائیہ کے ایک 25سالہ آن ڈیوٹی افسر نے اسرائیلی درندگی کے خلاف اسرائیلی سفارت خانے کے باہر خودکو آگ لگا کر جو کام کیا وہ ناقابلِ بیان ہے۔ یہ سب کام اس نے سوشل میڈیا پر بتاکر کیا۔ اس سپاہی بش نیل نے جس طرح اسرائیلی درندگی کو بیان کیا ہے وہ بڑے الفاظ بھی بے غیرتوں کو ٹس سے مس نہ کرسکے۔ یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ کسی نے اپنے جسم کو باہر آگ لگا دی ہو۔ احتجاج کی ایک شکل کے طور پر خودسوزی کی ایک طویل تاریخ ہے، جو بھوک ہڑتال سے شروع ہوکر یہاں تک جاتی ہے، تاہم یہ سب مغربی بنیادیں رکھتی ہے۔ دسمبر میں فلسطینی پرچم کے ساتھ ایک نامعلوم شخص نے اٹلانٹا میں اسرائیلی قونصل خانے کے باہر خود کو آگ لگالی، اس کی حالت تشویشناک تھی بعد میںجس کی تفصیلات میڈیا پر شائع نہیں کی گئیں۔ تاہم امریکی سپاہی بش نیل کی خودکشی کے بعد سب سکتے میں ہیں۔ امریکی صدارتی مہم میں ہر جگہ سخت ردعمل سامنے آرہا ہے۔ اسرائیل سفاکی میں ایک انچ بھی پیچھے نہیں ہٹا ہے۔ وینس کے ایک آرٹ مقابلے سے اسرائیل کو نکالنے کا مطالبہ کردیا گیا کہ وہ نسل کشی کا مرتکب ہے۔ یقین مانیں یہ ساری مثالیں، مغرب کے ’’تصورِ انسانیت‘‘کو ہی بار بار جھوٹا ثابت کررہی ہیں۔ عوام کی لائی ہوئی حکومتیں عوام کا ایک کہنا ماننے کو تیار نہیں۔ مطلب صاف ہے کہ یہ کوئی ’’عوام کی حکومت نہیں‘‘، سب ڈھونگ ہے۔ طاقتور کا ہی راج ہے اول تا آخر۔

لاہور لاہور ہے:
’حلوہ‘ کا ٹرینڈ تین دن ٹوئٹر پر چلتا رہا۔ تین دن سے ٹی وی شوز، ویب سائٹس، سوشل میڈیا سمیت سارے ذرائع ابلاغ پر’خاتون پولیس افسر‘ کے چرچے، اور واقعے پر بھونڈے تبصرے دیکھ کر بات سمجھ میں آرہی ہے کہ ایجنڈا صرف ایک ہی ٹھونسا جا رہا ہے کہ اَب ’’اسلام وہی ہوگا جو کوئی کتاب و رسول نہیں بلکہ مغرب بتائے گا‘‘۔ ایک طبقہ تو وہ ہے جس میں وقار ذکا اور سید مزمل جیسے کئی لبرل ہیں، جن کے پاس ’’میں اور مجھے‘‘ کے سوا کوئی اصول، کوئی اخلاقیات، کوئی بنیاد ہی نہیں… بس جو منہ میں آرہا ہے بولے جارہے ہیں۔ اِن کا عقیدہ، عقلی پروجیکٹ سے بھی باہر کا ہے۔ کے پی اسمبلی میں حلف برداری کے دوران اپوزیشن جماعت سے تعلق رکھنے والی ثوبیہ شاہد پر جوتا سمیت کیاکچھ نہیں ماراگیا، مگر مجال ہے جو کوئی کمنٹ یا وڈیو بنائی گئی ہو۔اس بدترین تضاد پر ان لنڈے کے لبرلز کو سانپ سونگھ جاتا ہے۔ ریشنل بنیادوں پر انسٹرومنٹل ریزننگ کو لے کر بونگے دلائل دیے جارہے ہیں جس سے اِن کا بچا کھچا ایمان بھی سوالیہ نشان بن رہا ہے۔ ایک طبقہ وہ ہے جو زبردستی مغرب کو اسلام کے کپڑے پہنانے پر تُلا ہے اور سرسید سے بھی تین قدم آگے جاکر مغربی عقائد کی اسلام کاری کررہا ہے۔ یہ تو ریشنل والوں سے بھی بدتر ثابت ہورہا ہے۔ یہ تینوں طبقات ایک ہی جیسے بیانیوں کے ساتھ ہیں، اس لیے ہم تینوں بیانیوں کا ہی پوسٹ مارٹم کریں گے کیونکہ یہ تو ہیں ہمارے ’’قلمی محاربین‘‘۔ اِن کو ایسے نہیں چھوڑا جا سکتا۔

اس کو یوں بھی سمجھیں:
مسلمان عورت کا غیر مسلم خاتون جیسا ہوجانا، جہالت و انتہا پسندی کیوں نہیں ہے؟ خاتون کے لباس کا ڈیزائن پہلی نظر میںکسی عام مسلمان کو کیا محسوس ہوگا؟’بے پردگی‘کی عمومیت کو اگر مسلم معاشرت نے برداشت کرلیا ہے تو باقی اقدار پر سمجھوتا کیسے کیا جا سکتا ہے؟

اگر کوئی مسلمان عربی پڑھنا نہیں جانتا، مگر اس کو قرآن کی زبان جان کر تقدس دیتا ہے تو ناراضی کیسی؟

اگر کوئی مسلمان قرآن پر عمل نہیں کرتا تو اس کتاب کی، اس کلام کی تعظیم، توقیر، تقدیس تو کرتا ہے۔ اس سے اُسے کیسے روکا جاسکتا ہے؟

اگر کوئی اپنے والدین کی مکمل اطاعت نہیں کرتا تو کیا لازمی ہے کہ وہ اُن کی عزت بھی نہ کرے؟اگر کوئی اپنے جذباتِ ایمانی کا اظہار کررہا ہے تو کسی کو تکلیف کیوں؟ عورت پردہ نہ کرنا چاہے تو اُس کے جذبات کی قدر کی جائے، تو پھر مسلمان مرد کے ایمانی جذبات کی قدر کیوں نہیں ہوگی؟

’مشابہت‘کے باب میں موجود ڈھیروں احادیثِ نبویؐ، صحابہ کرامؓ، تابعین، تبع تابعین کے اعمال و افعال کیوں ’مسئلہ مشابہت‘سمجھانے کو کافی نہیں ہیں؟کیا اِس عقیدے کے بغیر مومن رہا جا سکتا ہے کہ اللہ کا نبی طبعی آداب میں بھی وحی اور الہام سے خالی نہیں ہوتا؟

اِس اہم ترین دینی اصول کو نظرانداز کرکے کوئی بات نہیں کی جاسکتی۔ جو بات ہوگی یہیں سے کھڑی ہوگی۔مقصد اس کا ایک ہی ہے کہ وہ سادہ لوح مسلمان جو سوشل میڈیا سے دین سمجھنے کی غلطی کررہے ہیں اُن کو مزید گمراہی سے بچا لیا جائے۔

مزمل کی تکلیفیں:
مزمل صاحب ’’ماب جسٹس‘‘ کے نام پر وڈیو لے کر اُترے۔ ان کو اصل تکلیف یہ تھی کہ خاتون زندہ کیسے بچ گئی۔ ماب جسٹس کی حقیقت بتاتے ان کو شرم آرہی تھی کیونکہ یہ ہے ہی مغرب کی پیدا کردہ۔ ہجوم سے سب سے زیادہ ہلاکتیں مغرب ہی میں ہوئی ہیں۔ وہی اس کا اصل بانی ہے۔ پاکستان میں تو اس کی کوئی تعداد ہے ہی نہیں، اس کے باوجود گن گن کر مشال خان ان کو یاد آرہا تھا۔ ڈاکٹر شاہد مسعود نے بھی صاف کہا کہ خاتون کو سوچنا چاہیے کہ وہ کیسا لباس پہن کر کس ماحول میں آگئیں؟ 25کروڑ کی آبادی میں 10 سال میں محض 3 واقعات کو ایشو بنانے والا یہ لنڈے کا لبرل، انسانیت کا رونا گانا مچاتا رہا، مگر غزہ کے 30 ہزار مسلمانوں کے لیے 4ماہ سے ایک ’چُوں‘نہیں نکلی۔ ہاں 4 ماہ پہلے حماس کے خلاف ایک وڈیو ضرور بنائی اور ثابت کیا کہ اسرائیل ہی حماس کو پیچھے سے چلا رہا ہے۔ یہ تو حال ہے اس کا۔ بے غیرتی کا عالم یہ ہے کہ فلسطین میں طاقت کے آگے جھک جانے کی ترغیب دیتا ہے مگر یہاں پاکستان میں غیرت مند لاہوریوں کی طاقت اس کو تکلیف دیتی ہے۔

اِن کو یہ تو معلوم ہے کہ ایک باریش انسان کو ’’حلوہ‘‘ پڑھنا نہیں آتا تھا، مگر وہ جس چیز سے ’’مشابہت‘‘ کو بنیاد بنارہا تھا، اُس کو سب نے جان بوجھ کر چھپا دیا۔ ریشنل، لبرل، سیکولر پروجیکٹ میں ایسی ’’مشابہت، نقالی‘‘ خود کتنا بڑا مسئلہ ہے یہ نہیں بتایا۔ کوکا کولا، پیپسی، نائیکی جیسی برانڈز کے’’لوگو‘‘ کی مشابہت کے ساتھ آپ کوئی اپنی چیز بنائیں تو پھر دیکھیں کون کون سی دفعات لگاتے ہیں؟ وہاں اُن کو مشابہت کے سارے قوانین مل جائیں گے۔ پاکستان پینل کوڈ میں ’مشابہت‘کی سب تفصیلات موجود ہیں۔ قرآن ہی ایک ایسی چیز ہے جس کے لیے ’حلوہ‘ پڑھ کر دیکھنا لازمی ہے۔

بھیڑ چال:
سوشل میڈیا پر یہ عمومی رویہ ہے کہ لوگ دھڑا دھڑ فارورڈنگ میسیج پر چل پڑتے ہیں۔کچھ نے کئی سال قبل والی بنگلہ دیش کی ایک وڈیو بطور مثال پیش کی، کہ وہاں جب دیواروں پر عربی میں لکھا گیا کہ ’’یہاں پیشاب کرنا منع ہے‘‘ تو لوگوں نے پیشاب سے اجتناب کیا۔ اس مثال سے تو صرف یہ ثابت ہوتا ہے کہ ’’عربی زبان کی تقدیس مسلمانوں نے براہِ راست قرآن سے جوڑی ہے‘‘۔ کسی نے قبروں پر قرآنی آیات کی چادر کی تصویر پیش کی۔ میں نے کہا کہ ایسا کرتے وقت اُس کا عقیدہ ہوتا ہے کہ چادر پر موجود آیات کے الفاظ کی برکت سے مرحوم کو کوئی غیر معمولی ریلیف ملے گا۔ بات صاف ہے کہ قرآن عربی میں نازل ہوا ہے۔ 10 مرتبہ اللہ نے قرآن مجید کو عربی زبان میں نازل کرنے کا الگ سے ذکر کیا ہے۔ ہمارے ہاں حروف کے تقدس کا اندازہ پاکستان بھر کی دکانوں پر ’’خیر و برکت‘‘ کے نام پر لگے چارٹ سے ہوجاتا ہے۔ یہ ن، ق، ص، حم کیا ہیں؟ جوہر و عرض کے فرق سے سمجھے بغیر اس ایشو پر بات کرنا اپنے ایمان کو خطرے میں ڈالنے جیسا ہے۔ جہت بدلنے سے حکم بدلتا ہے۔ قتل ایک معصیت ہے مگر نبی کا قتل کفر ہوجاتا ہے۔ قرآن مجید کا صحیفہ تاج کمپنی کا ہوگا تو آپ اُ س کو چومیں گے، لیکن وہ کسی قادیانی کی چھاپی ہوئی ’تفسیر صغیر‘ہوگی تو آپ اُس کو آگ لگادیں گے، چاہے اس میں ’حلوہ‘، ’بریانی‘ کے بجائے مثل قرآنی آیات ہی کیوں شائع ہوئی ہوں؟

اسلامی معاشرت میں قرآن ہی نہیں قرآن کا رسم الخط بھی مقدس ہے۔ عربی الفاظ، ورق و قلم سب کا تقدس ہے۔ قرآن مجید کے مصحف کی جانب پیٹھ کرنے، پیرکرنے، نیچا کرنے، چومنے، حلف لینے، رخصتی کے وقت سر پر رکھنے سے لے کر بے شمار معاشرتی امور میں دیکھ لیں، قرآن مجید اپنے مصحف میں بھی اپنی ’’تعزیمی حاکمیت‘‘ قائم کرتا ہے۔ قرآن مجید کے پیغام، قرآن مجید کی ہدایات پر عمل ایک الگ ضروری کام ہے اور اس کی تعظیم ایک الگ چیز ہے۔

ایسی لاعلمی کی کیفیت میں سب سے زیادہ لوگوں کو مزہ عربی زبان کے استعمال اور اس کے ریشنل دلائل پر آرہا تھا۔ عرب ممالک کے پوسٹر، ہورڈنگ، کرنسی نوٹ و دیگر ماڈل سے اس کو نہیں جوڑا جاسکتا کیونکہ وہاں تو سب عرب ہیں۔ اُن کو معلوم ہے کہ کیا، کیوں، کیسے لکھا ہے۔ ’تقدیس‘ فقہ اسلامی کا ایک مستقل باب ہے جو احکامات کا استنباط کرتے ہوئے صاف جھلکتا ہے۔ چنانچہ فقہ حنفی میں کسی عجمی کا ’’عرب میں سکونتِ دائمی‘‘اختیار کرنا مکروہ قرار دیا گیا ہے ’’سوئے ادب کے خوف سے‘‘۔ عرب و عجم کے عرف میں تقدیسی اَسالیب کا یہ ایک مسلمہ فرق ہے۔ اس لیے اب اگر مدینہ کا عنوان ہمارے یہاں کوئی گٹر پر نقش کرے یا کسی ایسی ترتیب سے پیش کرے کہ وہ قرآن مجید کے الفاظ کی مشابہت میں جائے تو پھر یہ بحث نہیں ہوسکتی کہ وہ لفظ حلوہ ہے یا بریانی۔ وہ لائقِ سرزنش ہوگا۔

واقعہ لاہور اور عربی رسم الخط کے نسوانی ملبوسا ت:
فیشن مغربی قدر ہونے کی وجہ سے غیر مقدس (Profane) ہوتا ہے۔ چنانچہ اگر کسی ’غیر مقدس‘ کو تقدیسی لبادہ پہنایا جائے گا، اس کا عمومی تاثرBlasphemous ہی ہوگا اور یوں مسلم سماج کا عوامی ردعمل بھی فطری ہوگا، خصوصاً جب سرمایہ دارانہ نظام اِس کے اظہار کا ’’ذریعۂ تشہیر‘‘ و پروڈکٹ کسی عورت کے بدن کو بنائے۔ تہذیبِ اسلامی کے اس زوال پذیر دور میں مغرب کی قائم کردہ فیشن انڈسٹری کو اسلام کاری سے روکنے کے لیے عوامی ردعمل کے سوا کوئی اور ’’مؤثر‘‘ ابلاغی ذریعہ نہیں ہے۔ عربی رسم الخط والے ملبوسات کا یہ فیشن (فتنہ) نمو پارہا ہے۔ معذرت خواہانہ رویّے کی ضرورت نہیں ہے، علماء نے اس عورت کو پناہ دی ہے۔ تاہم معذرت خواہی میں اصل انحراف، مستقبل میں اصل جواز کی صورت نہ قرار پائے۔ وطن عزیز میں اب بھی اسلامی معاشرت ہے، یہاں آلِ سعود کا جبر نہیں ہے کہ فٹ بال پر سعودیہ کا کلمے والا پرچم بنا ہو، یا مقابلۂ حسن میں کلمے والا پرچم تھاما جائے اور نظام کے جبر کی وجہ سے اہانت آمیز رویّے کو قبول کیا جائے۔ اس لیے عوامی ردعمل کو جتنا قابلِ اصلاح آپ سمجھیں تاہم اپنی نہاد میں عین فطری و تقدیسی ہے۔ نیز مغرب کی فیشن انڈسٹری اپنی حیا سوزی کو فیشن کے ذریعے کیسے Normalize کررہی ہے، یہ چند حادثاتی واقعات نہیں فکر و عمل کا ایک باقاعدہ معلوم تسلسل ہے، جس کا شعور سماج میں نہ بھی ہو تو ایسے مواقع پر اس کا Issue بن جانا معاشرتی قدر کی افادیت سے خالی نہیں ہے۔

مسلمانوں کے لیے عربی زبان صرف ایک کمیونی کیشن ٹول نہیں ہے بلکہ اس کے ساتھ ہر مسلمان کی قلبی، ذہنی اور فکری وابستگی ہے جو عقیدت سے بڑھ کر ہے۔ خطاطی کا فن بھی قرآن سے محبت اور پیار کا اظہار ہے۔ اب مسلمانوں کی اس حساسیت کو نظرانداز کرکے اس طرح کے ڈیزائن والے لباس بنانا، پہننا سمجھ سے باہر ہے۔ جیسا مختلف وڈیوز میں بتایاگیا کہ یہ ڈیزائن کویت کا تیار کردہ ہے، تو یہ وہاں کی معاشرت کے لیے ہوگا، جیسے فقہا نے سوئے ادب کی وجہ سے عرب میں کسی عجمی کو پسند نہیں فرمایا تو وجہ ظاہر ہے۔ مشرق کی معاشرتِ اسلامی پر مستقل 150 سال سے استعماری جبر، مغربی انڈسٹریز کے ذریعے مسلط کیا جانا بھی ماضی و حال کا امر واقع ہے۔ جب ہم اپنے استاد سے سوال پوچھتے ہیں کہ لباس پر حروفِ تہجی لکھنا کیسا؟ تو جواب ملتا ہے کہ ہمیں حروف کی تعظیم کا حکم ہے۔ سیدی امام اہل سنت فرماتے ہیں: ’’ہمارے علماء تصریح فرماتے ہیں کہ نفسِ حروف قابلِ ادب ہیں اگرچہ جدا جدا لکھے ہوں جیسے تختی یا وصلی پر، خواہ ان میں کوئی برا نام لکھا ہو جیسے فرعون، ابوجہل وغیرہ، تاہم حروف کی تعظیم کی جائے اگرچہ ان کافروں کا نام لائقِ اہانت و تذلیل ہے۔ حروفِ تہجی خود کلام اللہ ہیں کہ ہُود علیہ الصلوٰۃ و السلام پر نازل ہوئے۔‘‘(رضویہ 2/897..23/336.337))

حصہ