ہماری اور افغانستان کی دشمنی نہیں:روشن خیالی کا تصور یہودی کسخجر کا تھا شہیدوں کے خون کا سوداہوجائے تو پھر اللہ کا عذاب آتا ہے ،سابق چیف آف اسٹاف جنرل مرزا اسلم بیگ کا یادگار انٹریو

234

جنرل (ر) مرزا اسلم بیگ ہندوستان کے شہر اعظم گڑھ میں پیدا ہوئے۔ آپ ضیا الحق کی حکومت کے دوران وائس چیف آف آرمی اسٹاف رہے‘ 17 اگست 1988ء کو طیارے کے حادثے میں جنرل ضیا الحق کے بعد پاکستان کی تاریخ کے نازک وقت میں چیف آف آرمی اسٹاف کے عہدے پر فائز ہوئے۔ آپ اس دور میں چیف آف آرمی اسٹاف رہے جب پاکستان ایٹمی قوت بن رہا تھا۔ آپ کا شمار ان فوجی سربراہوں میں ہوتا ہے جنہوں نے آرمی چیف کا عہدہ معمول کے مطابق چھوڑا۔ فوج کی سربراہی کے بعد پاکستانی سیاست میں کوئی عملی کردار تو ادا نہیں کرسکے لیکن دانشورانہ سطح پر فعال ہیں۔ جنرل پرویز مشرف نے آپ کی زیر قیادت کام کیا یہی وجہ ہے کہ بظاہر وہ جنرل (ر) مرزا اسلم بیگ کا بہت احترام کرتے تھے لیکن 9/11 کے بعد سے جنرل پرویز مشرف نے جنرل (ر) مرزا سلم بیگ کو بہت زیادہ ہدف تنقید بنایا اس کی وجہ جنرل (ر) مرزا اسلم بیگ کا جنرل پرویز مشرف کا دہشت گردوں کے خلاف جنگ میں امریکہ کا ساتھ اور دیگر پالیسیوں سے اختلاف ہے۔ جنرل (ر) مرزا اسلم بیگ ان سابق فوجی‘ جرنیلوں میں شامل ہیں جنہوں نے جنرل مشرف کو وردی اتارنے کے لیے ان کو خط لکھا۔ آپ ایک ایسی تھنک ٹینک ’’فرینڈز‘‘ اور ایک غیر سیاسی جماعت ’’عوامی قیادت پارٹی‘‘ کے بانی ہیں اور کئی اداروں کی سربراہ بھی رہے ہیں‘ ان سے ماضی میں اسلام آباد میں فرینڈز کے آفس میں ملکی اور بین الاقوامی حالات‘ سیاست میںفوج کا عمل دخل اور خارجہ پالیسی اور دیگر موضوعات پر ہونے والی تفصیلی گفتگو آج بھی اہمیت کی حامل ہے نذر قارئین ہے۔

اے اے سید: آپ نے اپنے ایک حالیہ انٹرویو میں کہا ہے کہ پاکستان کے خلاف سازشیں ہو رہی ہیں‘ ایران اور چین کے خلاف پاکستان میں ایک نیٹ ورک کام کر رہا ہے جس میں بھارت ملوث ہے اور اس کا مرکز افغانستان میں ہے۔ صورت حال اتنی سنگین ہے ‘ اس پرحکمران قوم کو اعتماد میں لینے کے لیے تیار کیوں نہیں ہیں اور آپ کا تجزیہ اتنی تاخیر سے کیوں آیا؟

جنرل(ر)مرزا اسلم بیگ: جی ہاں! پہلی بار ایسا ہواہے۔ اس سے قبل حکومت یا کوئی اور ایجنسی اس بات کا انکشاف کرتی ہم نے اس بات کا انکشاف کیا ہے کہ پاکستان کے خلاف سازشیں ہو رہی ہیں اور خصوصاً اس وقت کیا کہ جب اسمبلی کے پلیٹ فارم سے کہا گیا کہ سازشیں ہو رہی ہیں چینی بھائی مارے جا رہے ہیں۔ اس میں سی آئی اے کا ہاتھ ہے۔ میں ضروری سمجھتا تھا کہ جو بھی معلومات میرے پاس ہیں میں انہیں پیش کروں۔ ان سازشوں کا آغاز اکتوبر 2001ء میں افغانستان پر قبضہ کرنے کے بعد ہواجب کابل کے شمال میں جبل السراج کے مقام پر جاسوسی کا ایک بڑا مرکز قائم کیا گیا۔ اس سے قابض فوجوں کو بہت تقویت ملی لیکن پھر بھی وہ کابل‘ قندھار اور چند ہوائی مستقروں کے علاوہ افغانستان میں اپنے قدم جمانے میں ناکام رہی ہیں۔ شمال میں ہرات سے مزار شریف اور بدخشاں تک کے علاقے جنگی سرداروں کے قبضے میںہیںجب کہ جنوب میں پاکستان سے ملحقہ علاقے طالبان کی عمل داری میںہیں جس سے افغانستان کی بگڑی ہوئی معاشرتی حالت کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔ مرکزی حکومت کی گرفت کمزور ہونے کے سبب افغانستان میں اسمگلروں‘ منشیات کے سوداگروں‘ سازشیوں اور این جی اوز کو اپنی سرگرمیوں کے لیے ہر قسم کی آزادی حاصل ہے۔

امریکہ اور بھارت نے 2005ء میں اسٹرٹیجک پارٹنر شپ کا معاہدہ کیا تھا جس کے اہداف میں سرفہرست چین کی تیزی سے بڑھتی ہوئی عسکری اور اقتصادی قوت کو روکنا اور کم کرنا اور علاقے میں بڑھتے ہوئے اسلامی انتہا پسندی کے خطرے کا مؤثر سدباب کرنا تھا۔ چونکہ دونوں ممالک کے مقاصد ایک دوسرے سے ہم آہنگ تھے اس لیے ان کے لیے ان ہر دو اہداف کا حصول یکساں اہمیت کا حامل تھا۔ اب انہیں افغانستان میں فوجی کارروائیوں کے نتیجے میں بڑھتی ہوئی ابتری سے نمٹنے کے لیے ایک جامع اور مؤثر انٹیلی جنس نیٹ ورک کی ضرورت تھی تاکہ پاکستان اور دیگر ہمسایہ ممالک مثلاً چین‘ روس‘ وسطی ایشیائی ممالک اور ایران کو غیر مستحکم کیا جاسکے۔ اس کام کو آسان بنانے کے لیے امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ نے اعلان کیا کہ ’’افغانستان جو جغرافیائی اعتبار سے وسطی ایشیا کا ایک حصہ رہا ہے‘ اسے اب جنوبی ایشیا کا حصہ سمجھا جائے گا۔‘‘ اس اعلان کے پسِ پردہ کار فرما حکمت یہ تھی کہ بھارت کے لیے افغانستان تک مداخلت آسان ہو جائے اور وہ اپنی مرضی کا کردار ادا کرسکے اور اس قابل ہوسکے کہ افغانستان کو ہمسایہ ممالک کے خلاف جاسوسی کے اڈے کے طور پر استعمال کرسکے۔ اسی مقصد کے لیے پورے افغانستان میں ایک انٹیلی جنس نیٹ ورک قائم کر دیا گیا ہے جو کئی سال سے پوری طرح فعال ہے اور پاکستان میں خصوصاً متعدد دہشت گردی کے واقعات کا ذمہ دار ہے۔

اے اے سید: اس نیٹ ورک کی آپ کے پاس تفصیلات کیا ہیں؟

جنرل(ر)مرزا اسلم بیگ: افغانستان کے اندر قائم اس انٹیلی جنس نیٹ ورک کی نشان دہی کے لیے ہماے پاس جو جو معلومات ہیںوہ ناکافی ہیں لیکن پھر بھی مہذب دنیا کی اپنے مفادات کے لیے کھیلی جانے والی ’’گریٹ گیم‘‘ کی گرہیںکھولتی ہیں۔ اس ادارے کا مرکز جبل السراج میں واقع ہے جس کا نظام سی آئی اے‘ را‘ موساد‘ ایم آئی۔6 اور جی این ڈی (جرمن انٹیلی جنس کا ادارہ) مشترکہ طور پر چلاتے ہیں۔ یہ پختہ عمارتوں‘ اونچے اونچے انٹینا اور جدید ترین الیکٹرانک سہولتوں سے مزین ایک وسیع رقبے پر پھیلا ہوا بڑا مرکز بن گیا ہے۔ سروبی اورقندھار میں قائم اس کی ذیلی برانچیں پاکستان کے خلاف کام کرتی ہیں اور فیض آباد میں قائم شاخ چین کے خلاف‘مزار شریف کی برانچ روس اور وسطی ایشیائی ممالک کے خلاف اور ہرات میں قائم برانچ ایران کے خلاف سرگرم عمل ہے۔ سازشوں کا ایک خوف ناک کھیل کھیلا جا رہا ہے جو بڑی تشویش کا باعث ہے۔

پاکستان کے خلاف ایک انٹیلی جنس چوکی سروبی میں قائم ہے جس کا سربراہ ایک بھارتی جنرل ہے جو کہ بارڈر روڈ آرگنائزیشن (Border Road Organization) BRO کا انچارج ہے۔ اس کے ماتحت غزنی‘ خوست‘ گردیز‘ جلال آباد‘ اسد آباد‘ داخان اور فیض آباد میں ذیلی شاخیں قائم ہیں۔ بی آر او نے سروبی سے اسدآباد تا فیض آباد ایک سڑک تعمیر کی ہے جو کہ ہر موسم میں یکساں کارآمد ہے۔ سروبی میں قائم ادارے کی پاکستان کے سرحدی صوبے NWFP میں تخریبی کارروائیوںکی ذمہ داری ہے۔ وطن دشمن پاکستانیوں کو اس مقام پر ملک میں تخریبی کارروائیوں اور عدم استحکام پھیلانے کے لیے باقاعدہ تربیت دی جاتی ہے۔ داخان کے علاقے میں الیکٹرانک سسٹم کی جدید ترین سہولتوں سے آراستہ متعدد اڈے قائم ہیں تاکہ وہ پاکستان‘ چین‘ ازبکستان اور تاجکستان پر نظر رکھ سکیں اور دہشت گردی کے منصوبے بنا سکیں۔

قندھار کے مقام پر دوسری چوکی قائم ہے جس کی ذیلی شاخیں لشکر گاہ اور ناوا (Nawah) میں قائم ہیں اور ان کا ہدف صوبہ بلوچستان ہے۔ بلوچستان کے وطن دشمن عناصر اوربلوچستان لبریشن آرمی (BLA) لشکر گاہ میں تربیت دی جاتی ہے اور ان عناصر کی ہر ممکن مدد کی جاتی ہے۔ ان کا خصوصی ہدف گوادر‘ سینڈک اور حب میں مختلف منصوبوں پر کام کرنے والے چینیوں کو نشانہ بنانا ہے۔ پاکستانی ساحلوں پر واقع جیوانی اورکلمت کے مقام پر مقیم امریکی‘ بلوچستان لبریشن آرمی کو تعاون مہیا کرتے ہیں اور ملک کے اندر عدم استحکام پیدا کرنے کے منصوبے بناتے ہیں اور پاکستان و ایران کے خلاف کارروائیوں میںبھرپور مدد فراہم کرتے ہیں۔ پاکستان میں واقع مند کی چوکی سے ایران کے خلاف بھی کارروائیاں کی جاتی ہیں جبکہ بحیرہ عرب میں موجود امریکی بحریہ اور مسقط کے انٹیلی جنس کے اڈے ان کی ہر طرح کی رہنمائی اور مدد کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔ جیوانی اور کلمت کی ساحلی سہولیات پاکستان نے افغانستان میں کارروائی کے لیے خود امریکہ کو دی تھیں جسے امریکہ اب پاکستان اور ایران کے خلاف تخریبی کارروائیوں کے لیے استعمال کر رہا ہے۔

فیض آباد (بدخشاں) میں واقع انٹیلی جنس کی برانچ جہاں پر تقریباً 350 کے لگ بھگ بھارتی مسلمان سپاہی‘ انجینئرز اور کارندے کام کرتے ہیں‘ اس کا مقصد چین کے صوبے سنکیانگ کے باغیوںکو چین میں تخریبی کارروائیوں کے لیے تربیت فراہم کرنا ہے۔ بھارتی علما ان کی روحانی تبلیغ پر مامور ہیں جو یہ تاثر دیتے ہیںکہ فیض آباد کا ادارہ پاکستان چلا رہا ہے۔ حال ہی میں بھارت کو تاجکستان کے اندر کلائی کامل (Kalai Kamil) کے مقام پر فوجیں تعینات کرنے کی جو سہولت دی گئی ہے اس کے سبب تاجکستان اور ازبکستان میں بھارت اپنی من مرضی کے مطابق تخریبی کارروائیاں کرنے کے لیے آزاد ہوگا۔

مزار شریف میں قائم اڈہ سی آئی اے‘ را‘ موساد اور جی این ڈی کے زیر سایہ کام کرتا ہے۔ اس کا مقصد چیچینیا اور ترکمانستان کے وطن دشمن عناصر کو تربیت فراہم کرنا ہے۔ رشید دوستم اور احمد ضیا مسعود ازبکستان اور تاجکستان میں تخریبی کارروائیوں کے بہت متحرک کردار ہیں۔

فراہ میں قائم اڈے کا انتظام سی آئی اے‘ را اور موساد مل کر چلاتے ہیں۔ اس مقام سے اور پاکستان میں واقع کلمت‘ جیوانی اور مند کے مقامات سے ایران کے اندر تخریبی کارروائیاں کی جاتی ہیں۔ ان کارروائیوں کے نتیجے میں گزشتہ چند سال میں ایران کے بہت سے سیکورٹی اہل کار شہید ہو چکے ہیں۔ دہشت گرد تنظیم جنداللہ کو ایران میں اس قسم کی کارروائیاں کرنے کے لیے ہر قسم کا تعاون مہیا کیا جاتا ہے۔

دل چسپ بات یہ ہے کہ جس سازشی منصوبے کا میںنے تذکرہ کیاہے اور جنہیں سازش کے اڈوں کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے انہیں انڈین قونصلیٹ کادرجہ دیا گیا ہے تاکہ تخریبی کارروائیوں کو سفارتی تحفظ مہیا ہو جب کہ پاکستان اور ایران پر اکثر و بیشتر یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ وہ افغانستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرتے ہیں۔ افغانستان میں تخریب کاری کے اس بین الاقوامی نیٹ ورک کے متعلق معلومات ہماری اپنی تحقیق اور مطالعے پر مبنی ہیں جن کی توثیق ضروری ہے۔

الیگزینڈرچیس کا قول ہے کہ ’’قوتِ برداشت کی آخری حد تک وہی پہنچتے ہیں جن میں قوتِ ارادی کی کمی ہوتی ہے۔‘‘

اے اے سید: پارلیمنٹ میں وفاقی پارلیمانی سیکرٹری تنویر حسین نے جو کچھ کہا اور جس کا حوالہ آپ نے بھی دیا ہے توکیا اس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان کی امریکہ کے حوالے سے پالیسی میں کوئی بنیادی تبدیلی آنے والی ہے؟

جنرل(ر)مرزا اسلم بیگ: جو کچھ انہوں نے کہا مجھے افسوس ہے کہ کسی ایجنسی‘ آئی ایس آئی‘ ایم آئی نے اس کی نشاندہی پہلے کیوں نہیں کی۔ اب کیوں کہہ رہے ہیں جب ہمارے اتنے لوگ مارے جا چکے ہیں‘ ہمارے خلاف سازشوںکا جال بچھ گیا ہے اور اس کے اثرات ہم دیکھ رہے ہیں۔ یقینااس کے سبب ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم امریکہ کے ساتھ بیٹھیں اور اس سے کہیں کہ تم نے افغانستان پر حملہ کیا اور اپنے ساتھ اتحادی فوجی لائے‘ بھارت کی فوج لائے‘ ان کی انٹیلی جنس کو بھی افغانستان میں لے آئے جس کے نتیجے میں آج اتنی بڑی سازشیں پاکستان کے خلاف اور دوسرے پڑوسی ممالک کے خلاف بنائی جا چکی ہیں اور بھارت کا پورا انفرا اسٹرکچر وہاںموجود ہے‘ اور چین کے خلاف‘ روس کے خلاف‘ سینٹرل ایشین اسٹیٹس (وسط ایشیا کی ریاستوں) کے خلاف‘ ایران کے خلاف بھرپور طریقے سے سازشیں شروع ہو چکی ہیں۔ میرا ذاتی مشورہ یہ ہوگا کہ حکومتِ پاکستان امریکہ کے پالیسی میکرز کے ساتھ بیٹھے اور ان کے سامنے یہ حقائق رکھے اور پوچھے کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے۔ یہ ہماری قومی سلامتی کے تقاضوں سے متصادم ہے‘ امریکہ کی یہ پالیسی جس کے نتیجے میں بھارت آج یہاں تک پہنچ چکا ہے۔

اے اے سید: آخر حکمرانوں کی جانب سے قوم کو اعتماد میں نہ لینے کی کیا وجوہات ہو سکتی ہیں؟

جنرل(ر)مرزا اسلم بیگ: یہ آپ حکومت سے پوچھیں کہ وہ ایسی باتیں کیوںچھپا کر رکھے ہوئے ہے۔ میرا حکمرانوں سے کوئی رابطہ نہیں ہے کہ میں ان سے پوچھوں۔ آپ پوچھ سکتے ہیں۔

اے اے سید: پاکستان کے ایٹمی پروگرام پر بھی امریکہ میں بہت تواتر کے ساتھ گفتگو ہو رہی ہے۔ پہلے امریکہ کی طرف سے کہا گیا کہ پاکستان کی ایٹمی ہتھیار انتہا پسندوں کے ہاتھ لگ سکتے ہیں۔ اب امریکہ کے سینیٹر جوزف بائیڈن نے بیان دیا ہے کہ مخصوص جہادیوں کی رسائی پاکستان میں ایٹمی ہتھیاروں تک ہے۔ امریکہ سے آنے والی بیاناتی جارحیت کا مفہوم کیا ہے‘کیا خدانخواستہ پاکستان کے ایٹمی اثاثوں پر حملے کا اندیشہ ہے یا امریکہ پاکستان کو غیر مستحکم ریاست قرار دینے کی کوشش کر رہا ہے؟

جنرل(ر)مرزا اسلم بیگ: اس بیان کے پیچھے اصل میں جو پیغام دینا مقصود تھا وہ یہ کہ اب جنرل پرویز مشرف جا رہے ہیں‘ تبدیلی آرہی ہے اور ان کی جگہ نئی حکومت آئے گی تو نئی حکومت کس کی ہوگی؟ بے نظیرکی ہوگی؟ نواز شریف کی ہوگی؟ یا جن سے ان کو خطرہ ہے‘ کہ شاید مذہبی جماعتیں الیکشن میں جیت جائیں اور ایٹمی ہتھیار ان کے ہاتھ میں آجائے۔ تو یہ ان کو تشویش ہے۔ اصل یہ پیغام دینا تھا تھا کہ جنرل مشرف اب جا رہے ہیں‘ دوسرا یہ کہ جو آنے والی حکومت ہے وہ ہم سے بات کرے۔ سپریم کورٹ کا فیصلہ آنے سے پہلے‘ میں 16 تاریخ کو دبئی میں نواز شریف صاحب سے ملا اور اس سوال کے جواب میں انہوںنے جو بات کی وہ اہم ہے۔ انہوں نے کہا کہ کل ہماری حکومت ہوگی یعنی پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت ہوگی۔ ایٹمی ہتھیار ہمارے کنٹرول میں ہوں گے‘ انہی مضبوط ہاتھوں میں کہ جنہوں نے 1998ء میں ایٹمی دھماکہ کیا‘ تو اب امریکہ کو شکوک و شبہات نہیںہونے چاہئیں کہ ہمارے ایٹمی ہتھیار کسی غلط ہاتھوں میں پڑ جائیں گے۔ ہم کمزور ملک نہیں ہیں‘ ایک طاقتورملک ہیں‘ ہمیںمعلوم ہے کہ اپنے ایٹمی ہتھیاروں اور اثاثوں کو کس طرح تحفظ دیا جاتا ہے۔

اے اے سید: کیا جنرل مشرف جا رہے ہیں؟

جنرل(ر)مرزا اسلم بیگ: سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعدکوئی شک رہ گیا ہے؟

اے اے سید: جنرل صاحب کے اعصاب تو ابھی بھی مضبوط نظر آرہے ہیں۔

جنرل(ر)مرزا اسلم بیگ: یہ تو اب آنے والا وقت بتائے گا‘ مگر یہ معاملات اب طے ہو چکے ہیں۔ امریکہ کی طرف سے یہ بات بڑے واضح الفاظ میںکہی جا چکی ہے کہ جنرل پرویز مشرف اب جا رہے ہیں‘ کیسے جائیں گے‘ یہ آنے والے حالات بتائیںگے۔

اے اے سید: آپ کی گفتگو سے لگتاہے کس کس کو آنا ہے اور کس کو جانا ہے‘ اس کا فیصلہ امریکہ ہی کو کرنا ہے؟

جنرل(ر)مرزا اسلم بیگ: یہی تو پہلی مرتبہ یہاں پر تبدیلی آئی ہے کہ ماضی میں امریکہ فیصلہ کرتا رہا کہ حکومت کیسے بدلے گی‘ کب بدلے گی اور ہمیشہ اس کے پیچھے امریکہ کی سازشیں رہیں۔ پہلی دفعہ ایسا ہوا ہے کہ ملک کے اندر یہ فیصلہ اب عوام کریں گے اور یہ فیصلہ کرنے کی صلاحیت جو ہمارے عوام کو حاصل ہوئی ہے‘وہ اس تحریک کے نتیجے میںجو ہمارے وکلا نے چلائی‘ ہمارے ججوںنے چلائی‘ میڈیا نے چلائی۔وہ آئینی انقلاب جس کے نتیجے میں ہماری چیف جسس اپنے عہدے پر بحال ہوئے اور آج ہماری عدلیہ کی یہی آزادی قومی آزادی کی ضمانت بن گئی ہے‘ اس لیے ہمارے فیصلے اب پاکستان میں ہوں گے۔

اے اے سید: آپ یہ بات کئی بار کہہ چکے ہیں اور آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل اسد درانی بھی اپنے کئی انٹرویوز میں فرما چکے ہیں کہ اب وقت آگیا ہے کہ ہم امریکہ سے متعلق اپنی پالیسی کو تبدیل کریں اس لیے کہ یہ پالیسی ہمیں 60 سال میںکچھ نہ دے سکی۔ لیکن وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری نے ایک بیان میں کہا ہے کہ پاکستان امریکہ سے تعلقات خراب کرنے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ سوال یہ ہے کہ آپ کے خیال میں آنے والے ہفتوں اور مہینوں میں پاکستان اس حوالے سے کہاں جانے والا ہے؟ کیا ساٹھ سال کی ناکامیوں کا تسلسل برقرار رہے گا یا ہم کسی نئی ابتدا کی طرف جائیں گے؟

جنرل(ر)مرزا اسلم بیگ: ہماری پالیسیوں کی ناکامی کی بہت سی وجوہات ہیں‘ میں اس کی تفصیل میں نہیںجانا چاہتا لیکن شروع میں جو آپ نے ہمارے اور امریکہ کے تعلقات کا تذکرہ کیا اور امریکہ کیسے ہمارے معاملات پر اثر انداز ہوتا رہا اور آپ نے اس سے پہلے جو سوال پوچھاکہ کیا تبدیلی جو آئے گی وہ امریکہ کی مرضی سے آئے گی۔ میں نے کہا نہیں‘ اب یہ تبدیلی آئے گی اس آزادی سے جو عدلیہ کو حاصل ہوئی ہے۔ وہ آزادی جو آج ہمارے عوام کو حاصل ہوئی ہے۔ آئندہ ہمارے امریکہ سے تعلقات کی نوعیت کیا ہوگی‘ اس حوالے سے چند باتیں ہمیں اپنے ذہن میں رکھنا ہوگی۔ آقا اور غلام والی بات نہیں ہونی چاہیے کہ انہوں نے ایک ٹیلی فون کیا اور ہم نے ہر بات مان لی۔ اور یہی بات میں نے جنرل پرویز مشرف کو بتائی۔ ابھی افغانستان پر حملہ نہیں ہوا تھا کہ ایک میٹنگ بلائی انہوں نے‘ اس میں اور بھی بہت سے کئی لوگ تھے‘ میں نے کہا آپ نے فیصلہ کر لیا ہے کہ آپ امریکہ کے ساتھ جائیں گے۔ یہ کوئی 21 ستمبر 2001 کی بات ہے۔ امریکہ نے حملہ کیا 7 اکتوبر کو۔ میں نے کہا چند باتیں آپ اپنے ذہن میں رکھیں پہلی بات یہ کہ یہ ہماری جنگ نہیں ہے‘ یہ امریکہ کی جنگ ہے اس لیے ہمارا امریکہ کے ساتھ کوئی ڈیفنس پیکٹ نہیں ہے کہ ہم ان کے ساتھ شامل ہو کر ایک پڑوسی ملک پر حملہ آور ہو جائیں۔ میں نے کہا ہم اس جنگ میں امریکہ کے ساتھ اتنے آگے جائیں کہ ہمارے قومی مفادات پر آنچ نہ آئے۔ دوسری بات میں نے یہ کہی کہ ہماری اور افغانستان کی دشمنی نہیں اور ہم ایک غیر کے ساتھ مل کر اپنے مسلمان ملک پر حملہ آور ہو رہے ہیں۔ تیسری بات میں نے بتائی کہ آپ اس بات کو ذہن میں رکھیں کہ طالبان کبھی شکست نہیں کھائیں گے۔ وہ پیچھے ہٹ جائیں گے‘ دوبارہ منظم ہوں گے‘ حملہ کریں گے‘ لڑیں گے جب تک قابض فوجیں افغانستان سے نہ نکل جائیں اور جب یہ جنگ شروع ہوگی تو جنگ کا دائرہ پھیلے گا اور ہمارے ان علاقوں کو بھی لپیٹ میں لے لے گا جو 80ء کے دہائی میں روس کے خلاف شامل تھے۔ یعنی وزیرستان کا ایریا‘ باجوڑ کا ایریا‘ بلوچستان کا ایریا اور پھر ہمارے اوپر ایسا دبائو پڑے گا کہ ہم شاید اس کو برداشت نہ کر پائیں۔ ہماری قومی سلامتی کے گہرے تقاضے متاثر ہوں گے۔ چوتھی بات جو میں نے کہی اور جو میری سوچ کا ہمیشہ حصہ رہی ہے یہ کہ افغانستان کی جنگ آزادی میں افغانستان کے لوگوں نے‘ پاکستان کے لوگوں نے‘ دنیا جہان سے آئے ہوئے جہادیوں نے اپنے خون کا نذرانہ پیش کیا ہے‘ ہزاروں شہید ہوئے ہیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ امریکہ کے ساتھ مل کر افغانستان کے خلاف جو جنگ کر رہے ہیں وہ ان شہیدوں کے خون کا سودا ہو جائے اور جب ان شہیدوں کے خون کا سودا ہوجائے تو پھر اللہ کا عذاب آتا ہے۔ اللہ کبھی شرک کرنے والوںکو‘ شہیدوں کے خون کا سودا کرنے والوں کو معاف نہیں کرتا۔ میری یہ باتیں 21 ستمبر 2001ء کی ہیں اس کے بعد سے آج تک جنرل پرویز مشرف سے میری ملاقات نہیں ہوئی اور نہ انہوں نے ہمیں بلایا اور آپ نے دیکھا یہ چاروں باتیں لفظ بہ لفظ صحیح ہوئی ہیں اور یہ آن ریکارڈ ہے کہ اس وقت ستمبر میں ایک مضمون میں لکھا کہ میں نے ان کو کیا کہا۔

اے اے سید: جنرل پرویز مشرف نے آپ کی باتوں پر کیا ردعمل ظاہر کیا اور کیا جواب دیا؟

جنرل(ر)مرزا اسلم بیگ: ان کی زبان گنگ ہوگئی اور لوگوں نے میری باتوں کا جواب دینا چاہا۔ میں نے کہا آپ خاموش رہیں۔ میں نے جنرل پرویز مشرف سے خطاب کیا ہے‘ آپ سے نہیں۔

اے اے سید: جنرل پرویز مشرف پاکستان کے شاید پہلے حکمران ہیں جنہوں نے تواتر سے یہ بات کہی ہے کہ ہمیں لاحق خطرہ اندر سے ہے باہر سے نہیں ہے‘ آخر ان کے اس تناظر کا کیا مطلب ہے؟

جنرل(ر)مرزا اسلم بیگ: وہ ہمیشہ امریکہ کی سوچ کے تابع رہے ہیں‘ روشن خیالی کا Concept اس یہودی کسنجر کا Concept جسے وہ پاکستان میں لے کر آئے اور حقیقت سے انہوں نے انحراف کیا۔ وہ حقیقت جو پاکستانی قوم کی سوچ سے عبارت ہے۔ پاکستانی قوم کی سوچ بڑی واضح ہے اور 1947ء لے کر اب تک اسی راستے پر قائم ہے۔ جب کہ ہمارے حکمران نئے نئے نظریات لے کر اس سوچ کو بدلنے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ مثلاً ایوب خان آئے تو وہ کنٹرولڈ اور بیسک ڈیمو کریسی کا تصور لے کر آئے۔ ان کے ساتھ وہ تصور بھی ختم ہو گیا۔ بھٹو صاحب آئے تو اسلامک سوشلزم کا تصور لانا چاہا وہ ان ہی کے ساتھ دفن ہو گیا۔ جنرل ضیا آئے تو کوئی نیا اسلامی نظام لانا چاہتے تھے وہ ان ہی کے ساتھ ختم ہو گیا۔ یہ آئے (جنرل مشرف) تو روشن خیالی کا نظام لے کر آئے کہ اس طرح مادر پدر آزاد معاشرہ ہو جیسا کہ مغربی معاشرہ ہے۔ ان حکمرانوں کو یہ نہیں معلوم کہ ہماری قوم کا نظریۂ حیات کیا ہے؟ ہماری قوم کا نظریۂ حیات بڑا واضح ہے۔ ایک صاف ستھرا جمہوری نظام ہو جس کی بنیادیں قرآن و سنت کے اصولوں پر قائم ہوں اور اس بات کی ضمانت ہمارے آئین میں موجود ہے۔ یہ ہمارے حکمرانوں کی بدبختی ہے کہ وہ اس نظریے سے ہٹ کر اپنے نظریات لانے کی کوشش کرتے ہیں اور ناکام ہوتے ہیں۔ تو جو بات جنرل مشرف کہہ رہے ہیں کہ خطرہ اندر سے ہے اس کا مطلب ہے روشن خیالی کے نظریے کو قوم نے رد کر دیا ہے‘ اس سے ان کو خطرہ ہے اور آپ نے دیکھا آج نہ صرف ان کا نظریہ (روشن خیالی) رد ہو چکا ہے بلکہ قوم اپنے اس راستے سے بھی نہیں ہٹی ہے۔ کل ان شاء اللہ جب الیکشن ہوں گے تو آپ دیکھیں گے کہ ہمارے عوام ان ہی لوگوں کو ووٹ ڈالیں گے جن کو سمجھتے ہیں کہ وہ ہمارے نظریات کو لے کر آگے بڑھیں گے۔ میں ایک مثال دیتا ہوں 1988ء میں جنرل ضیا طیارے کے حادثے میں ختم ہو گئے تو ہم نے فیصلہ کر لیا کہ الیکشن ہوگا۔ ہمارے پاس اتنے لوگ آئے کہ یہ کیا کر رہے ہو‘ ہمارا پوراملک جہادی ہو گیا ہے (یہاں تو جہاد افغانستان اس وقت تک جاری تھا) ہزاروں جہادی باہر کے ملکوں کے افغانستان میں ہیں‘ یہاں کی سیاسی تدیریں الٹی ہو جائیں گی۔ میں نے کہا ایساکچھ نہیں ہوگا‘ مجھے اعتماد تھا اپنی قوم کی سوچ پر‘ اس کے نظریات پر‘ کہ یہ قوم کبھی اس نظریے سے نہیں ہٹے گی‘ اس فیصلے سے رو گردانی نہیں کرے گی جو 1947ء میں پاکستان بنانے کے وقت گیا تھا اور آپ دیکھیں گے آئندہ جب الیکشن ہوگا تو ویساہی فیصلہ ہوگا تو اگر امریکہ کے دل میں یہ خوف ہے کہ یہاں یہ انتہا پسند آجائیں گے تو وہ نادان ہے اور اگرچہ پرویز مشرف کے دل میں خوف ہے کہ اندرونی خطرات ہیں تو ان کو بھی پتا نہیںکہ قوم کی سوچ کیا ہے‘ قوم کس طرف جاناچاہتی ہے‘ قوم کی منزل کیا ہے‘ اس کا نظریۂ حیات کیاہے۔

(جاری ہے)

حصہ