بلاک شدہ سوشل میڈیا

136

رائے کا اظہار:
نا معلوم کیسا انداز سیاست ، کیسا انداز حکمرانی ہے ۔ کہنے کو تو ’’آزادی اظہار رائے ‘‘کا زمانہ ہے مگر حال ایسا ہے کہ مت پوچھو۔ بجلی بند، گیس بند، پانی بند، فون بند، انٹرنیٹ بند، اب مخصوص سائٹ بند۔ابلاغ کے ذرائع پر اخبار سے لیکر آج سوشل میڈیا تک پابندی کی مختلف شکلیں مسلط رہی ہیں۔سوشل میڈیا نے بہرحال عوام کو خوب زبان دی ہے، اس کا ایک نقصان شاید یہ بھی ہوا ہے کہ اَب لوگوں کے مزاج ایسے بن گئے ہیں کہ اُن کو صرف ’’تعریف ‘‘ ہی سننی ہے ، ’’لائک ‘‘ہی چاہیے ، کوئی ’’تنقید‘‘ درست ہو یا نہیں برداشت نہیں کی جائے گی۔یہ حال ہر قسم کے صاحب اقتدار کا ہو چکا ہے جس نے اپنے آپ کو سوشل میڈیا کے حوالے کردیا ہے ۔عام صارفین کی بھی ایسی ہی کیفیت ہو چکی ہے۔ماہرین نفسیات نے اسے باقاعدہ ایک عارضہ قرار دیا ہے۔ہمارے دین میں اس عمل کوخود پسندی، خوشامدی کیفیت، خود نمائی ، ریا کاری کی صورت میں ڈیفائن کیا جاتا ہے۔

ٹوئٹر بھی بند:
اب اس بات کو سیاسی جماعتوں کے انداز سے سمجھیں۔تحریک انصاف نے سوشل میڈیا پر اظہار رائے و اظہار خیال کا جو منفرد طرز اختیار کیا وہ بہرحال تمام اخلاقی و ابلاغی حدود وقیود سے آزاد تھا۔اس کو مقبولیت کیسے ملی ؟ وہی اوپر درج شدہ وجہ سے۔ لوگوں نے ’صارف ‘بن کراپنے آپ کو بیچا ، تو خریدار نے انکے مواد کی مزید رسائی دے کر اُن کو مزید جوڑے رکھا۔ ہم جانتے ہیں کہ ٹرینڈ بنانے کے لیے ایک باقاعدہ منظم کوشش کرنی پڑتی ہے ۔ ایک گھنٹہ میں مخصوص بات کو لگاتار کئی کئی بار پوسٹ کرنا پڑتا ہے ، ری ٹوئیٹ، لائک، شیئر و کمنٹس کی کثرت اس معاملے کو بڑھاتی ہوئی ایک مقام تک لے جاتی ہے ۔ یہی کام دیگر سیاسی جماعتیں بھی کرتی ہیں اس لیے اُن کا موضوع ٹرینڈ میں آجاتا ہے ۔بس اُس وجہ سے حکومت نے بھی ذرائع بند کرنے کی حکمت عملی اپنائی۔ اس بار نزلہ ’’ٹوئٹر‘ ‘ پر گرا، یہ ہفتہ تو ’ٹوئٹر ‘کی بندش میں گزر گیا۔ لوگوں نے اپنے حلقے کے بیوروکریٹس جو الیکشن عمل میں شریک تھے اُن کے نام تصاویر کےساتھ سوشل میڈیا پر ڈالنے شروع کردیئے ۔ یہ کام کمشنر راولپنڈی کے عجیب قسم کے دھاندلی اقرار کے بعد شروع ہوا تھا۔

ٹوئٹر سنجیدہ ،سیاسی امور میں رائے سازی کے لیے اہم پلیٹ فارم جانا جاتاہے ۔پی ٹی اے نے کچھ ترقی بھی کرلی ہے جو اس بار کئی معروف ’ وی پی این‘ بھی ناکارہ کردیئے ( مطلب : پابندی کے باوجود ٹوئٹر استعمال کے چور راستے)۔پاکستان میں لاکھوں صارفین کو اس ہفتے ٹوئٹر تک رسائی میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ۔حکومت کی جانب سے کوئی مؤقف سامنے نہیں آیا ۔روزانہ کچھ دیر کے لیے یہ سروس بحال ہوجاتی ہے اور پھر بند ہو جاتی ہے۔دوسری جانب ٹوئٹر کی یاد میں صارفین نے ایلون مسک کی غزہ کے حوالے سے جرأت کو سراہا ۔ٹوئٹر کے بانی ایلون مسک کی جانب سے سچائی کے لیے اسٹینڈ لینے پر تعریفیں بھی لکھی گئیں کیونکہ ٹوئٹر نے غزہ پر ظلم اور قہر ڈھانے والے اسرائیل کے خلاف تمام تر مواد کو بلا روک ٹوک و سنسر کے جاری رکھا ہوا ہے۔عالمی طاقتیں اُس کو شدید تنقید کا نشانہ بنارہی ہیں ، اُس کوکئی امو ر میں خو ب بے عزت بھی کیا،مگر اُس نے کوئی پرواہ نہیں کی۔ایلون مسک معاشی نقصان اٹھانے،بائیکاٹ اور تنقید کے باوجود ڈٹا ہوا ہے۔اسکے مقابلے پر فیس بک جو کہ خود ایک یہودی مالک کا ہے اُس نے کڑی پابندی لگائی ہوئی ہے،آپ ایک لفظ نہیںلکھ سکتے۔ پاکستان کا معاملہ تو الیکشن سےتعلق رکھتا ہے۔الیکشن کے بعد سے مستقل خبروں، افواہوں کا بازار گرم ہے۔ ایسا ہو رہا ہے، ویسا ہو رہا ہے، یہ ہونے جا رہا ہے ، وہ ہوگیا، اتنا مزہ آتا ہے اس سارے کام میں ، اس ساری فارورڈنگ کی لذت میں کہ مت پوچھیں۔ٹوئٹر کی ایک اہمیت یہ بھی ہےکہ اس پر تمام سیاسی قائدین و صحافیوں سے لے کر بیوروکریٹس تک کے اکاؤنٹ ہوتے ہیں ۔ ان کے موقف مستقل آ رہے ہوتے ہیں اور یہ بیرون ملک پاکستانیوں اور عالمی کمیونٹی سے جڑنے کا ذریعہ بھی ہوتا ہے۔اپنی پوسٹ کے ساتھ ’’ہیش ٹیگ ‘‘ کی سہولت بھی پیغام کو موثر بناتی ہے ، بیانیہ بنانے میں مدد دیتی ہے، پیغام لاکھوں صارفین تک پہنچتا ہے۔ لوگ اسے معلومات شئیر کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں، اس لیے جب الیکشن میں دھاندلی کے الزامات اور ثبوت سامنے آ رہے ہیں، تو بظاہر یہی تاثر ملتا ہے کہ اسے اسی وجہ سے بلاک کیا گیا۔الیکشن میں دھاندلی 2013 میں بھی خوب ہوئی ، خوب وڈیوز چلیں، 2018 میں البتہ سسٹم بیٹھ گیا تھا مگر ڈبے اٹھانے کی وڈیوز موجود تھیں، 2024 میں تو فون بند ہونے کے باوجود سارا دن وڈیوز دندناتی رہیں۔

قادیانی نوازی بندکرو:
ٹوئٹر پاکستان میں بے شک بند تھا ،مگر ٹرینڈنگ کی لسٹ ہم نے بہرحال اپنے تجربات کی روشنی میں نکال لی۔6 فروری کو چیف جسٹس صاحب نے دو رکنی بینچ چلاتے ہوئے ایک قادیانی کو ضمانت پر رہائی کا فیصلہ دے دیا ۔’ڈان ‘اخبار نے اپنے نظری کے مطابق اس خبر کی سرخی 9فروری کو لگائی’’ عقیدے کے معاملات میں عدالتوں کو احتیاط برتنی چاہیے۔‘‘کچھ اور اخبار نے بھی اس خبر کو جگہ دی ۔ بات یہ سمجھ آئی کہ چیف جسٹس نے ایک قادیانی کو اُس کی کوئی ’تفسیر‘ بانٹنے پر 5000 روپے کے بدلے قید سے (ضمانت پر) آزاد کردیا(کیس ختم نہیں کیا) ۔عدالت نے کہا کہ اُس ملزم نے تو لگائی گئی دفعات سے زیادہ قید کی سزا جیل میں گزار لی ہے، جبکہ پولیس کے چالان میں دیگرسخت دفعات کو شامل ہی نہیں کیا گیا تو کیسے اُس کو قید میں رکھا جائے؟ کاش بات یہیں تک رہتی ، تو کوئی مسئلہ نہیں ہوتا ۔مگر جب چیف صاحب نے دیگر عدالتوں کو عمومی ہدایت بھی جاری کی، پھر قرآنی آیات کے حوالے غیر ضروری طور پر ڈالے، پھر من مانی تشریح کر ڈالی، پھر آئین کی شقوں سے یہ بات دہرا دی کہ ’’ ہر شہری کو حق ہے کہ وہ اپنے مذہب کی تبلیغ کرے۔‘‘ تو بات خراب ہوگئی۔ فیصلے کے مطابق وہ یہ تک کہہ گئے کہ ’ایسے کیسز میں تو ایف آئی آر بھی نہیں کٹنی چاہیے ‘۔ اس 5000 روپے والے کیس کی سماعت کے لیے ( عینی شاہدین کے مطابق) کمرہ عدالت میں یورپی یونین کے نمائندے بھی موجود تھے ، یہاں سے آپ بات کو سمجھیں ۔

عدالت کے کاموں میں یہ بات شامل ہے کہ وہ آئین کی تشریح کریں گی، مگر اُ ن کے فیصلوں کی جب عوام نے تشریح شروع کی تو معاملہ الٹ ہوگیا۔ لوگوں نے اسکی تشریح یوں کی کہ ’’ قاضی فائز عیسیٰ نے قادیانیوں کو اپنی مرضی کا قرآن کریم چھاپنے کی اجازت دے دی۔توہین قرآن ختم‘۔ یہ ہے تو جذباتی ٹوئیٹ مگر اس میں صارف نے قادیانیوں کے لیے ’’قرآن مجید‘‘ کا لفظ لکھ کر خود بڑی غلطی کر ڈالی۔ پاکستانی قانون کے مطابق کوئی غیر مسلم کسی اور مذہب کی کوئی اصطلاح، کتاب، شعائر استعمال نہیں کرسکتا ۔ قرآن کریم ،صرف مسلمانوں کی مذہبی کتاب کا نام ہے ، قادیانی تو مسلمان ہے ہی نہیں وہ یہ نام بھی استعمال نہیں کرسکتا۔ یہاں تک کہ وہ ’السلام علیکم ، عید مبارک کے الفاظ بھی کسی مسلمان کو قانوناً نہیں بول سکتا ۔اپنی عبادت گاہ کو ’مسجد‘ بھی نہیں بول سکتا۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے کہ کوئی ہندو یا عیسائی بھی اپنے ’چرچ‘ یا مندر کو مسجد کا نام نہیں دے سکتا ۔

پاکستانی قوم قادیانیوں کے حوالے سے مکمل یکسو ہے ۔وہ ہندو برداشت کرلیتے ہیں، عیسائی کو بھی کرلیتے ہیں، سکھ بھی ہضم ہوجاتا ہے مگر قادیانی نہیں ہوتا؟ اس لیے بھی کہ قادیانیوں نے ابھی تک اپنے آپ کو غیرمسلم نہیں مانا ہے وہ اپنے آپ کو سچا اور باقی مسلمانوں کو غیر مسلم ‘ قرار دیتے ہیں۔ہم لاکھ گنہگار سہی ،مگر اب بھی امت میں یہ رمق باقی ہے کہ وہ قادیانی معاملے میں کوئی سمجھوتہ نہیں کر سکتیں۔ 21 فروری کی شب چیف جسٹس کے فیصلے کی ترجمانی میڈیا سے بریکنگ نیوز کی صورت کروائی گئی ۔خاص کر یہ بات کہی گئی کہ ’سوشل میڈیا پر کچھ لوگ اس فیصلے کو غلط انداز سے پیش کر رہے ہیں‘۔ بہرحال اچھا ہی ہوا کہ وضاحت آگئی، کیونکہ لاہور کے وکلا کی جانب سے مظاہرے کی وڈیوز بڑا پیغام دے رہی تھیں۔ علما کرام کی جانب سے سخت رد عمل آنا شروع ہو گیا تھا، سراج الحق ،مولانا فضل الرحمٰن، علامہ ابتسام الٰہی ظہیر، فرید پراچہ سمیت تحفظ ختم نبوت کی تمام تنظیمیں سوشل میڈیا پر متحرک ہو چکی تھیں۔اگلے دن راولپنڈی سے چیف جسٹس کو وڈیو دھمکی دینے والا بھی گرفتار ہوگیا۔ دھمکی کس معاملے سے متعلق تھی یہ نہیں بتایا گیا۔

سوشل میڈیا پر مہم شروع ہوئی تو تحریک انصاف کے حامیان بھی ( اپنا نشان واپس لینے ، عمران کی سزاؤں کا بدلہ لینے کے لیے میدان میں کود گئے )ٹوئٹر تو بند ہوگیا ،مگر معاملہ مستقل گرم رہا۔آئین کے مطابق ، مذہب کی تبلیغ کی اجازت اُس غیر مسلم کو ہے جو اپنے آپ کو غیر مسلم کہے اور آئین پاکستان کو مانے، اپنے گھر یا اپنے عبادت خانے کی ’چار دیواری ‘کے اندر اپنی تبلیغ کرے۔ہو سکتا ہے کہ فیصلے کو پڑھ کر غلط مطلب لیا گیا ہو، مگر اس اہم معاملے پر صاف وضاحت آنی چاہیےناکہ ضمانت پر ۔حساس نوعیت کے اس مسئلے پرچیف صاحب نے سورۃ بقرۃ اور سورۃ نحل ،سورۃ حجر کی جن آیات کا حوالہ دے کر جو دلائل فیصلے میں شامل کیے ہیں یہ خود پورے امت کے 1400 سالہ اجتماعی فہم سے باہر ہیں۔ قادیانیوں (احمدی،لاہوری گروپ) کی جانب سے جو بھی اُن کی مذہبی کتاب شائع ہوگی ،اُس کا وہ جو بھی نام رکھیں۔ وہ بہرحال قرآن مجید ہی کی آیات پر کھڑی ہوتی ہے۔یہاں سے پاکستان پینل کوڈ کی دفع 298 لاگو ہو جاتی ہے ۔پہلے مرحلے پر تو مجھے بھی لگا کہ میڈیا نے غلط رپورٹ کیا ہے ،مگر جب خود فیصلے کو مکمل پڑھا ، متعلقہ قانون دان حضرات سے مشاورت کی تو اندازہ ہوا کہ معاملہ سنگین ہے۔جن بنیادوں کو ضمانت کے لیے اختیار کیا ، وہ اپنی جگہ درست ہیں مگر ایسا نہیں ہو سکتا کہ وہ اُمور اختیار کرتے وقت آپ یہ نہیں جانتے تھے کہ مجرم ایک ایسا شخص ہے جو نبی کریم ﷺ کی ختم نبوت کا منکر بھی ہے اور آئین پاکستان کا باغی بھی ہے ، تو محض چالان میں دفعہ نہ ہونے پر آپ اُسکو کیسے گنجائش دے سکتے ہیں ، یہ بات کسی کی سمجھ نہیں آرہی ؟ قانون کے بارے میں یہ استعارہ بولاجاتا ہے کہ ’’ قانون اندھا ہوتا ہے ‘‘،مگر یہ بات جج کے لیے نہیں بولی جا سکتی ، وہ تو سب دیکھ رہا ہے ، سمجھ رہا ہے کہ یہ ’’تفسیر صغیر ‘‘کیا ہے؟ ظاہر ہے یہ بات سمجھنا کسی کے لیے مشکل نہیں کہ کوئی شخص چاہے قیام پاکستان سے قبل ہی نبوت کا دعویٰ دائر کررہا ہو، اپنی جو بھی تفسیر بنا یا ہو ا ہو ،پھر وہ اسکو ہی اصل اسلام کہتا پھرے، اسکی ناپاک حرکت کو کبھی بھی کسی ’’پنجاب ہولی قرآن ایکٹ ‘‘بننے کی تاریخ کی آڑ میں تحفظ نہیں دیا جاسکتا۔چیف جسٹس کے حلف کے مطابق آئین کی حفاظت ، آئین کے کسی غدار کو تکنیکی بنیادوں پر ریلیف دینے سے پوری نہیں ہو سکتی۔

اُس ملعون قادیانی شخص ’’مبارک احمد ثانی ‘‘کی ضمانت کا فیصلہ ہر طرف موضوع بنا ہواہے،آپ کے فیصلے میں قرآنی آیات کو بنیاد بنا کر یہ جملے انتہائی تکلیف کا باعث ہیں کہ ایسے اقدامات پر تو ایف آئی آر ہی نہیں کٹتی ( پیراگراف 10)۔ اس فیصلے کو پڑھ کر جو صاف مطلب لیا جا رہا ہے ، اس اہم معاملے پر آپ کی صاف وضاحت آنی چاہیے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ اسلام دشمن ممالک کی سب سے بڑی کوشش اور ہدف ہی ان سارے قوانین کا خاتمہ ہے۔

محترم قاضی صاحب !ہم آپ کے ایمان پر کوئی شک نہیں کرتے ، انسان سے کسی معاملے میں تکنیکی امور، بات کو سمجھنے میں غلطی ہو سکتی ہے ، توبہ کا دروازہ خالق نے اسی لیے کھولا ہے۔پس ہم ملتمس ہیں کہ اس معاملے میں عدل و انصاف کے ساتھ ساتھ ، مسلمانوں کے ایمانی جذبات، دین کااجماعی فہم مد نظر رکھتے ہوئے ، ایسی را ہ نکالی جائے کہ پاکستان کے 25 کروڑ مسلمانوں کا اپنی عدلیہ پر ، آئین پر اعتماد بڑھے ، اُن کو لگے کہ کچھ بھی ہو ہماری عدلیہ کبھی بھی تحفظ ختم نبوتﷺ پر کوئی آنچ بھی نہیں آنے دے گی۔ہماری عدلیہ کسی طور آئین کو نہ ماننے والوں ، دستور کے باغیوں کے لیے رعایتی فارمولا نہیں نکالے گی۔

حصہ