آخر شب کے ہم سفرقسط:10

245

عدم تعاون اور خلافت کی تحریک کی ناکامی کے بعد 1924ء میں تشدد پسند تحریک دوبارہ شروع ہوئی اور پھانسی کی کوٹھریاں آباد ہوئیں۔ یوپی میں انقلابیوں نے کاکوری میں سرکاری خزانہ لوٹا اور اشفاق اللہ اور اس کے ساتھی پھانسی پر چڑھے۔ آندھرا میں الوری سیتا رام راجو کے گوریلا دستے حکومت سے لڑتے پھرے اور مارے گئے۔ سردار بھگت سنگھ نے مرکزی اسمبلی میں بم پھینکا اور کہا کہ ان کا مقصد ملک میں اشتراکی حکومت قائم کرنا ہے اور پھانسی پر چڑھے۔ ہندوستانی سوشلسٹ ری پبلکن آرمی کے کمانڈر الٰہ آباد میں پولیس سے لڑے اور مارے گئے۔ چاٹ گام میں 22 اپریل 1930ء کو آئرلینڈ کے ایسٹر سنڈے کی طرح کی معرکہ آرائی ہوئی اور انقلابیوں کی نئی ’نوجوان ترک پارٹی‘‘ جگانتر نے سرکاری اسلحہ خانے پر حملہ کیا اور جگانتر کے لیـڈر سوریہ سین اور اُن کے ساتھی جلال آباد کی پہاڑیوں پر برطانوی فوج کا مقابلہ کرتے ہوئے مشین گنوں سے شہید ہوگئے۔ نوجوان کلپنا دت کو قید کرلیا گیا۔ اور کالج گریجویٹ پرتی لتا، چاٹ گام کے یورپین کلب پر مسلح حملے کی قیادت کرتی ہوئی پکڑی گئی۔ اور پولیس کے قبضے میں آنے سے پہلے اس نے خودکشی کرلی۔ نوجوان شانتی دیبی اور مُمتی دیبی کو کومیلا کے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کو پستول کا نشانہ بنانے کی سزا میں کالے پانی بھیج دیا گیا۔ کماری بینا داس نے بنگال کے گورنر پر گولی چلادی۔ چند سال قبل ہی کی بات ہے کہ بنگال کے انسپکٹر جنرل پولیس، انسپکٹر جنرل آف پرزنزاورسیشن جج علی پور سب کو موت کے گھاٹ اُتار دیا گیا۔ ضلع مدنا پور کے تین انگریز جج ایک کے بعد ایک مارے جاچکے تھے۔ یورپین ایسوسی ایشن کے پریذیڈنٹ، اسٹیٹسمین کے ایڈیٹر اور سرچارلس ٹیگارٹ پر قاتلانہ حملے افسوس کہ ناکام رہے تھے۔

جگانتر کا ہیڈ کوارٹر چاٹ گام کے نزدیک دھول گھاٹ میں آج بھی موجود تھا۔ سوریہ سین، یعنی ماسٹرؔ دا آج بھی بنگال کے ہیرو تھے۔ خودی رام باسو سے لے کر دیپالی کے چچا دینیش چندر سرکار کے زمانے تک ملک میں پھانسیوں کے سیاہ درختوں کا کتنا بھیانک جنگل کھڑکھڑا رہا تھا۔ جس کے ایک طرف کالا پانی تھا اور دوسری طرف اونچے قید خانے… اور یہ سارے انقلابی نوجوان بنگال کے ہیرو تھے۔ بھدرا لوگ…! متوسط ہندو بنگالی طبقے نے ایسے ایسے بہادر نوجوان پیدا کیے تھے! بھدرا لوگ!! اور روزی سوچا کرتی کیا میں کلپنادت، پرتی لتا، شانتی، سمتی اور بینا داس جیسی ہیروئن نہیں بن سکتی؟ پچھلے چند برسوں میں سارے دہشت پسند انقلابی کمیونسٹ ہوگئے تھے۔ اور اب کالج میں لڑکیاں ان نئے انقلابیوں کا تذکرہ کرتیں۔ریحان الدین احمد اور اکشے مکرجی اور اُودما رائے… لڑکیوں کے دل و دماغ میں ماسٹرؔ دا کی جگہ اب ریحان الدین احمد لے چکے تھے۔

سال بھر قبل دیپالیؔ نے بڑے مضطرب لہجے میں روزی سے کہا تھا…’’روزی، سنو تو… کل میں ایک خفیہ اسٹڈی سرکل میں گئی تھی۔ اب کے سے تم بھی میرے ساتھ چلو۔ وہاں بہت اچھی اچھی باتیں معلوم ہوتی ہیں‘‘۔ روزی چپ رہی تو دیپالی نے کہا تھا۔ ’’اپنے پاپا سے کہہ دینا میرے گھر جا رہی ہو۔ کالج کی پڑھائی کرنے…‘‘

آئندہ اتوار کو روزیؔ دیپالیؔ کے ہمراہ پرانا پلٹن کے اس پُراسرار مکان میں گئی۔ اور چند ہفتوں بعد بین الاقوامی اشتراکی تحریک کی بڑی سخت حامی ہوگئی تھی۔ خود اپنے وجود کے متعلق بہت سے پریشان کن سوالوں کا جواب اسے مل گیا تھا۔ سیدھی سی بات یہ تھی کہ برطانیہ کی اقتصادی بالادستی کی وجہ سے جب ملک میں قحط پڑتا تھا اور کساد بازاری چھاتی تھی اور بے روزگاری پھیلتی تھی تو مشنری لوگ بھوکے ننگے ہندوستانیوں کو عیسائی بنا لیتے تھے۔

پھر اس ستمبر میں جنگ چھڑی تو اسٹڈی سرکل میں اکشے دا نے روزی کو سمجھایا کہ مغربی سامراجیوں کی اس جنگ کو ہندوستان میں خانہ جنگی میں تبدیل کرنا ہمارا فرض ہے۔ تا کہ سُرخ انقلاب فی الفور آسکے۔ اب ہم اس مقصد کے حصول کے لیے کام کریں گے۔ اور اس جنگ کے خلاف اور خانہ جنگی کے پرچار کی خاطر خفیہ طور پر لٹریچر چھاپ کر جنتا میں تقسیم کریں گے۔ روزی اس مجوزہ خانہ جنگی کے لیے بھی بہ خوشی تیار ہوگئی تھی۔

پادری بنرجی کے فرشتوں کو بھی خبر نہ تھی کہ روزیؔ اتوار کے روز کہاں غائب ہوجاتی ہے۔ ’’کہہ دو بھائی روزی تم نے شہر کے ایک محلے میں سنڈے اسکول کھولا ہے‘‘۔ پچھلی مرتبہ اکشے نے ہنس کر اس سے کہا تھا۔

لیکن ابھی چند روز قبل وہ خفیہ اسٹڈی سرکل ٹوٹ گیا۔ ساتھی پل کے پل میں انڈر گرائونڈ ہوگئے۔ دیپالی بے حد خاموش رہنے لگی۔ اب وہ روزی کو کچھ نہ بتاتی تھی۔ شاید یہ لوگ مجھ پر پوری طرح بھروسہ نہیں کرتے۔ کیونکہ میرا سارا خاندان انگریزوں کا پروردہ ہے۔ ڈھاکہ کا موجودہ ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ ولیم کینٹ ویل پاپا کو بے حد مانتا ہے۔ مسز کینٹ ویل بھی کبھی کبھی لِلی کالج آتی رہتی ہیں۔ میں ساتھیوں پر کبھی یہ ثابت نہیں کرسکتی کہ میں برٹش راج کی وفادار نہیں ہوں۔ شاید وہ یہی سمجھتے ہوں کہ میں ان کی مخبری کردوں گی۔ روزیؔ کو پچھلے روز سے اندازہ تھا کہ دیپالیؔ کے پاس انڈر گرائونڈ سے اہم پیغام آرہے ہیں۔ مگر دیپالی نے اس سلسلے میں بالکل چپ سادھ رکھی تھی۔

حضرت مریم کی ساری پر لچکا ٹانک کر اور سلمیٰ ستارے کا منا سا تاج بنا کر روزیؔ ایک لمبا سانس لے کے کوچ پر سے اُٹھی۔ اور شال لپیٹ کر باہر صحن میں آگئی۔ سائبان کے اندر ٹیبلو تقریباً مکمل ہوچکا تھا۔ روزی در میں جا کر کھڑی ہوگئی۔ کمپائونڈ کی غریب بنگالی عیسائی عورتیں کتنی شردھا سے مورتیاں سجانے میں منہمک تھیں۔ اندر جا کر اس نے مریم کی مورتی کو کپڑے پہنائے اور تاج سر پر رکھا۔ اور یک لخت اس نے سوچا۔ اس سائبان اور دُرگا پوجا کے پنڈال میں کیا فرق ہے؟ ان غریب عورتوں کے لیے کیا مریم بھی لاشعوری طور پر دُرگاہ کی مانند ایک اور دیبی نہیں؟ اور کیا ہم عیسائی لوگ بت پرستی نہیں کرتے؟ پھر ہندو کافر اور گمراہ کیوں ہیں؟ اگر خدا فاختہ کا روپ دھار کر دنیا میں آسکتا ہے تو کچھوے اور مچھلی میں اوتار کیوں نہیں لے سکتا؟ میرے بے چارے پاپا… ہائے میرے پیارے بے چارے بوڑھے پاپا۔ تم نے ساری زندگی ان بے معنی بحثوں میں کیوں ضائع کی؟ فاختہ اور روح القدس…!

وہ یکایک بے حد دل گرفتہ ہو کر آہستہ آہستہ قدم رکھتی گرجا گھر کی طرف بڑھی اور ہال میں جھانکنے لگی۔

ہال کے ایک کونے میں پنجابی ٹولی زور زور سے گا رہی تھی۔

رب خداوند بادشاہ اے۔ ادجلال دا بادشاہ اے۔

اُچے کرد سُرجان جلال دا بادشاہ آدے

وہ دبے پائوں اندر پہنچی۔ لدھیانہ مشن کے پادری ریورنڈ ہنری بسواس کا نوجوان بیٹا مسٹر لُوتھر بسواس پیڈل والے ہارمونیم پر بیٹھا تندہی سے حمد کی سنگت کر رہا تھا۔

’’اے خداوند اپنی راہ اپنے بندے نوں دِکھا۔ آ…آ…آ…‘‘ روزی کو اپنے قریب کھڑا دیکھ کر مسٹر لوتھر بسواس گھبرا کر اُٹھ کھڑے ہوئے۔ بھجن منڈلی بھی چپ ہوگئی۔ چند لڑکیاں سفید شلواروں، سُرخ سوئیٹر اور سفید دوپٹوں میں ملبوس شرما کر کھِی کھِی ہنس پڑیں۔

مسٹر لوتھر بسواس ذرا جھینپ کر مسکراتے ہوئے روزی کو دیکھنے لگے۔

یہ لوگ سب کسی دوسری دنیا کے باشندے تھے۔ روزیؔ اخلاقاً مسکرائی۔ ’’سوری میں نے آپ لوگوں کی پریکٹس کو ڈسٹرب کردیا۔ پلیز کیری ادن…‘‘

’’آپ… آپ بیٹھیں نا روزی سِسٹر…‘‘ ایک پنجابی لڑکی نے کہا…

’’نہیں بھئی… مجھے ابھی بہت کام کرنا ہے۔ گڈ نائٹ‘‘۔

مسٹر لوتھر بسواس نے سامنے مسکرا کر سر ذرا سے خم کرتے ہوئے وہ آگے بڑھ گئی۔ اور دروازے پر پہنچ کر اس نے محسوس کیا کہ گوبھجن منڈلی نے دوبارہ گانا شروع کردیا تھا۔ لیکن مسٹر لوتھر بسواس کی دزدیدہ نگاہیں اس کا تعاقب کررہی ہیں۔ اور وہ بے طرح شرما رہے ہیں۔

او مائی گاڈ… اُس نے ایک گہرا سانس لیا۔ اور عمارت کا چکر لگا کر پادری بنرجی کے دفتر کی کھڑکی کے نیچے پہنچی اور اندر جھانک کر دیکھا۔ پاپا عینک ناک کی نوک پر رکھے میز پر جھکے لیمپ کی روشنی میں تندہی سے وعظ لکھنے میں مصروف تھے۔ اسے اپنے بوڑھے باپ پر بے اختیار پیار آگیا۔ خدایا ان کو زندہ رکھ۔ خدایا ان کو میرے سر پر زندہ سلامت رکھ۔ اس نے دعا مانگی اور دروازے کی طرف جا کر چپکے سے کمرے میں داخل ہوگئی۔

قلم سرعت سے چل رہا تھا۔ سر۔ سر۔ سر۔

روزی کرسی کے پیچھے جا کھڑی ہوئی۔ اور جھانک کر پڑھنا چاہا۔ اور دل میں مسکرائی۔ گڈ اولڈ پاپا۔ پاپا اور اُن کے سالانہ کرسمس سرمن۔

’’…کفارے کی نسبت جو ہمارے خداوند یسوع نے اے لوگوں تمہارے لیے کیا اُس نے جان کھوئی کہ تم اس کو دوبارہ حاصل کرو… گیہوں کا دانہ جو مرنے کے بعد…‘‘ قلم کی رفتار تیز ہوگئی… ’’دے جو مسیح پر ایمان لائے… خداوند تیری برکت تیرے بندوں پر ہے۔ دے روح القدس میں غوطہ دلائے جادیں گے کہ وہ جو ہمارے لیے مُوا اور مدفون ہوا۔ اور جی اُٹھا اور وہ خداوند خدا کا اکلوتا بیٹا، جو ہماری تمہاری خاطر صلیب پر لٹک گیا۔ اس کا مبارک یوم ولادت منانے ہم آج جمع ہوتے ہیں اور اس خداوند خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ ہم اس ملک میں امن وامان کی حکومت کے زیر سایہ…‘‘

’’دیدی…‘‘ کھڑکی کے نیچے سے کمپائونڈ کے ایک بچے نے اُسے آہستہ سے پکارا۔ وہ سُرعت سے باہر نکلی۔ بچے نے اس سے کہا۔ ’’پھاٹک پر یہ بڑی کالی موٹر کھڑی ہے۔ اس میں دیپالیؔ دیدی بیٹھی ہیں۔ آپ کو بلا رہی ہیں۔ ایک دم جلدی…‘‘

’’دیپالیؔ موٹر میں بیٹھی ہے؟‘‘ روزی نے حیرت سے دہرایا۔ اور چاروں طرف نظر ڈال کر تیزی سے بھاگی…

’’ادما رائے کی موٹر اندھیرے برگد کے نیچے کھڑی تھی۔

’’روزی… تمہارے ہاں تو بڑا ہنگامہ ہے‘‘۔ دیپالی سرکار نے کار کی کھڑکی میں سے جھانک کر گھبراتے ہوئے کہا۔

’’ہاں۔ فکر مت کرو۔ کیا بات ہے؟‘‘

’’بے حد سیریس۔ تم کل سویرے میرے گھر پہنچ جائو… وقت بالکل نہیں ہے اور بالکل خاموش رہو۔ ٹوپ سیکرٹ‘‘۔ دیپالی نے سرگوشی میں جواب دیا۔ کار زن سے آگے چلی گئی۔

روزیؔ چپ چاپ اور متفکر پھاٹک کے اندر واپس آئی اور کنکریوں کو پیروں سے ٹھکراتے ٹھکراتے لِلی کاٹج کی سمت روانہ ہوگئی۔ سامنے گرجا گھر میں سے پنجابی ٹولی کی آواز بلند ہورہی تھی۔

اے خداوند میرا دل اک پا سے کرتاں میں رکھا تیرا ڈر

اور اب لوتھر بسواس کی بھاری آواز حمد میں شامل ہوئی۔ ہارمونیم زور زور سے بجنے لگا۔ تُسی گائو ثنا… گائو… ثنا تُسی رب دی… سچیاں دی ٹولی وِچ دل نال گاداں… ثنا سناواں رب دی۔ رب خداوند بادشاہ اے۔ اوجلال دا بادشاہ اے۔ اے خداوند اپنی راہ اپنے بندوں نوں دکھا…آ…آ…آ…

(7)

نیا عہد نامہ
چندر کنج کے کوٹھے دالے سائبان میں کھڑی دیپالیؔ سرکار صبح کے ناشتہ کے بعد سے روزیؔ کا انتظار کررہی تھی۔ دور سڑک کے موڑ پر روزیؔ کی سائیکل آتے دیکھ کر وہ تیزی سے نیچے اُتری اور بیٹھک خانے کا دروازہ کھولا۔ جوں ہی روزی اندر آئی دیپالی نے اسے اپنے کمرے میں لے جا کر جھٹ پٹ دروازہ بند کیا۔ اور چٹخنی لگادی… اور بڑے ڈرامائی انداز سے الماری پر سے بائیبل اُتار کر (جو ایک مرتبہ پادری بنرجی نے اسے دی تھی) روزی کے ہاتھ میں ٹھونس دی۔

’’آنکھیں بند کرو روزیؔ‘‘۔

حیران و پریشان روزیؔ نے آنکھیں بند کیں۔

’’کہو… ملک و قوم کی خاطر حلف اُٹھاتی ہوں۔ گوڈدی فادر… گوڈ دی سن اور گوڈ دی ہولی گھوسٹ کے نام پر…‘‘

روزی نے ایک آنکھ کھولی… ’’مس ہیڈلے نے پرسوں ہی بتلایا ہے کہ صحیح تلفظ گھوسٹ نہیں گوسٹ ہے‘‘۔

’’اچھا… اچھا۔ ہولی گوسٹ کے نام پر۔ چلو۔ بولو تو… ‘‘

روزی نے دونوں آنکھیں کھول لیں اور ٹھٹھک کر کہا… ’’دیپالی۔ میرے پاپا پر تو کوئی آفت نہیں آئے گی؟ وہ بہت بوڑھے ہیں‘‘۔

دیپالی چپ ہوگئی۔ اسے بھی کچھ معلوم نہ تھا۔ ’’… میں مستقبل کے بارے میں کیا کہہ سکتی ہوں۔ روزی۔ مگر… مگر تم سچی ہندوستانی ہو کر نہیں‘‘۔ اس نے لمحہ بھر کے بعد کہا۔

’’ہاں…‘‘ (میں کالٹین نیٹو کرسچین سچی ہندوستانی ہوں۔ اس نے دل میں تلخی سے کہا۔ پھر اس نے فوراً اپنے آپ کو ڈانٹا۔ اس خود رحمی کی کیا ضرورت ہے۔ تحریک آزادی میں اَن گنت عیسائی شامل ہیں۔ ایک سے ایک بڑے محب وطن… حُب وطن کیا کسی ایک ہی فرقے کی میراث ہے؟ اس وقفے میں دیپالی سانس روکے متوقع نظروں سے روزی کو دیکھے جارہی تھی۔ اگر اس نے انکار کردیا تو…؟ تو کیا ہوگا؟ دیپالی کو محسوس ہوا جیسے ہندوستان کا سارا مستقبل اس وقت محض روزی بنرجی کے ہاں یا نہ کرنے پر منحصر ہے۔ دیپالی کو کپکپی سی محسوس ہوئی۔ اتنے میں روزی نے فرش پر دوزانو بیٹھ کر زیر لب حلف دُدہرایا اور بائیبل سر اور آنکھوں سے لگا کر کہا۔

(جاری ہے)

حصہ