شعروشاعری

132

1اختر ہوشیارپوری
آندھی میں چراغ جل رہے ہیں
کیا لوگ ہوا میں پل رہے ہیں
اے جلتی رتو گواہ رہنا
ہم ننگے پاؤں چل رہے ہیں
کہساروں پہ برف جب سے پگھلی
دریا تیور بدل رہے ہیں
مٹی میں ابھی نمی بہت ہے
پیمانے ہنوز ڈھل رہے ہیں
کہہ دے کوئی جا کے طائروں سے
چیونٹی کے بھی پر نکل رہے ہیں
کچھ اب کے ہے دھوپ میں بھی تیزی
کچھ ہم بھی شرر اگل رہے ہیں
پانی پہ ذرا سنبھل کے چلنا
ہستی کے قدم پھسل رہے ہیں
کہہ دے یہ کوئی مسافروں سے
شام آئی ہے سائے ڈھل رہے ہیں
گردش میں نہیں زمیں ہی اخترؔ
ہم بھی دبے پانو چل رہے ہیں

2پروین شاکر
وہ تو خوش بو ہے ہواؤں میں بکھر جائے گا
مسئلہ پھول کا ہے پھول کدھر جائے گا
ہم تو سمجھے تھے کہ اک زخم ہے بھر جائے گا
کیا خبر تھی کہ رگِ جاں میں اتر جائے گا
وہ ہواؤں کی طرح خانہ بجاں پھرتا ہے
ایک جھونکا ہے جو آئے گا گزر جائے گا
وہ جب آئے گا تو پھر اس کی رفاقت کے لیے
موسمِ گُل مرے آنگن میں ٹھہر جائے گا
آخرش وہ بھی کہیں ریت پہ بیٹھی ہوگی
تیرا یہ پیار بھی دریا ہے اتر جائے گا
مجھ کو تہذیب کے برزخ کا بنایا وارث
جرم یہ بھی مرے اجداد کے سر جائے گا

3محسن احسان
لباس تن پہ سلامت ہیں ہاتھ خالی ہیں
ہم ایک ملکِ خدا داد کے سوالی ہیں
نہ ہم میں عقل و فراست نہ حکمت و تدبیر
مگر ہے زعم کہ جمعیتِ مثالی ہیں
منافقت نے لہو تن میں اتنا گرمایا
کہ گفتگو میں ریا کاریاں سجا لی ہیں
خود اپنے آپ سے کد اس قدر ہمیں ہے کہ اب
روایتیں ہی گلستاں کی پھونک ڈالی ہیں
ہمارے دل ہیں اب آماج گاہِ حرص و ہوس
کہ ہم نے سینوں میں تاریکیاں اگا لی ہیں
نشیمنوں کو اجاڑا کچھ اس طرح جیسے
کہ فاختائیں درختوں سے اڑنے والی ہیں
کسی غریب اپاہج فقیر کی محسنؔ
کسی امیر نے بیساکھیاں چرا لی ہیں

4باقی صدیقی
یوں بھی ہونے کا پتا دیتے ہیں
اپنی زنجیر ہلا دیتے ہیں
پہلے ہر بات پہ ہم سوچتے تھے
اب فقط ہاتھ اٹھا دیتے ہیں
قافلہ آج کہاں ٹھہرے گا
کیا خبر آبلہ پا دیتے ہیں
بعض اوقات ہوا کے جھونکے
لو چراغوں کی بڑھا دیتے ہیں
دل میں جب بات نہیں رہ سکتی
کسی پتھر کو سنا دیتے ہیں
ایک دیوار اٹھانے کے لیے
ایک دیوار گرا دیتے ہیں
سوچتے ہیں سرِ ساحل باقیؔ
یہ سمندر ہمیں کیا دیتے ہیں

5شکیل جمالی
اشک پینے کے لیے خاک اڑانے کے لیے
اب مرے پاس خزانہ ہے لٹانے کے لیے
ایسی دفعہ نہ لگا جس میں ضمانت مل جائے
میرے کردار کو چن اپنے نشانے کے لیے
کن زمینوں پہ اتارو گے اب امداد کا قہر
کون سا شہر اجاڑو گے بسانے کے لیے
میں نے ہاتھوں سے بجھائی ہے دہکتی ہوئی آگ
اپنے بچے کے کھلونے کو بچانے کے لیے
ہو گئی ہے مری اجڑی ہوئی دنیا آباد
میں اسے ڈھونڈ رہا ہوں یہ بتانے کے لیے
نفرتیں بیچنے والوں کی بھی مجبوری ہے
مال تو چاہیے دکان چلانے کے لیے
جی تو کہتا ہے کہ بستر سے نہ اتروں کئی روز
گھر میں سامان تو ہو بیٹھ کے کھانے کے لیے

6عبد الاحد ساز
سوال کا جواب تھا جواب کے سوال میں
گرفتِ شور سے چھٹے تو خامشی کے جال میں
برا ہو آئینے ترا میں کون ہوں نہ کھل سکا
مجھی کو پیش کر دیا گیا مری مثال میں
بقا طلب تھی زندگی شفا طلب تھا زخم دل
فنا مگر لکھی گئی ہے بابِ اندمال میں
کہیں ثبات ہے نہیں یہ کائنات ہے نہیں
مگر امیدِ دید میں تصورِ جمال میں
قدیم سے ہٹے تو ہم جدید میں الجھ گئے
نکل کے گردش فلک سے موسموں کے جال میں
7عبدالعزیز فطرت

اپنی ناکام تمناؤں کا ماتم نہ کرو
تھم گیا دور مئے ناب تو کچھ غم نہ کرو
اور بھی کتنے طریقے ہیں بیان غم کے
مسکراتی ہوئی آنکھوں کو تو پر نم نہ کرو
ہاں یہ شمشیر حوادث ہو تو کچھ بات بھی ہے
گردنیں طوق غلامی کے لیے خم نہ کرو
تم تو ہو رند تمہیں محفل جم سے کیا کام
بزم جم ہو گئی برہم تو کوئی غم نہ کرو
بادۂ کہنہ ڈھلے ساغر نو میں فطرتؔ
ذوق فریاد کو آزردۂ ماتم نہ کرو
کوئی سمجھے تو ایک بات کہوں
عشق توفیق ہے گناہ نہیں
(فراق گورکھپوری)

دل میں کسی کے راہ کیے جا رہا ہوں میں
کتنا حسیں گناہ کیے جا رہا ہوں میں
(جگر مراد آبادی)

دل دھڑکنے کا سبب یاد آیا
وہ تری یاد تھی اب یاد آیا
(ناصر کاظمی)

ہوا ہے تجھ سے بچھڑنے کے بعد یہ معلوم
کہ تو نہیں تھا ترے ساتھ ایک دنیا تھی
(احمد فراز)

ساری دنیا کے غم ہمارے ہیں
اور ستم یہ کہ ہم تمہارے ہیں
(جون ایلیا)

اے محبت ترے انجام پہ رونا آیا
جانے کیوں آج ترے نام پہ رونا آیا
(شکیل بدایونی)

دشمنی جم کر کرو لیکن یہ گنجائش رہے
جب کبھی ہم دوست ہو جائیں تو شرمندہ نہ ہوں
(بشیر بدر)

آپ کے بعد ہر گھڑی ہم نے
آپ کے ساتھ ہی گزاری ہے
(گلزار)

وہ تازہ دم ہیں نئے شعبدے دکھاتے ہوئے
عوام تھکنے لگے تالیاں بجاتے ہوئے
(اظہر عنایتی)

حصہ