میں بڑا ہوگیا ہوں

98

’’ماں! مجھے تم بہت یاد آ رہی ہو۔ باہر شدید طوفان ہے، تیز بارش ہورہی ہے، بادلوں کے زور زور سے گرجنے کی آوازیں آرہی ہیں۔ بالکل ویسی ہی گھن گرج جو بم دھماکوں پر ہوتی تھی، ویسی ہی روشنی جو شعلوں کے بلند ہونے پر چاروں سمت ظاہر ہوتی ہے، پَر اپنے پیچھے سوائے اندھیرے کے کچھ بھی باقی نہیں چھوڑتی۔ تمہیں یاد ہے نا ماں! میں کیسے ڈر کر رونے لگتا تھا، اور تم مجھے بانہوں میں بھر کر سینے سے لگا لیتیں تو مجھے ایسا محسوس ہوتا جیسے یکایک بادل چھٹ گئے ہوں، بجلی نے کڑکنا بند کردیا ہو، اور چار سو مینہ برسنے لگا ہو۔

پھر میں ہر خوف و خطر سے بے نیاز تمھاری آغوش میں پُرسکوں سویا رہتا۔ لیکن ماں یہاں تیز آندھی ہے اور میری حفاظت کے لیے تو کوئی بھی آشیانہ نہیں۔ سب سوچکے ہیں۔ میں رونا چاہتا ہوں پَر ڈرتا ہوں کہیں سسکیاں درد میں ڈھل گئیں تو بھی یہ تڑپ ان کو بیدار نہیں کرے گی جو مجھے سسکتا دیکھنے کے باوجود مرہم لگانے آگے نہیں بڑھتے تو ایسا نہ ہو کہ میں حوصلہ ہار بیٹھوں۔

ماں تم تو میری چھوٹی سی کراہ پر بھی سب کام چھوڑ چھاڑ مجھے پیار کرنے دوڑتیں اور مجھے کئی چیزوں کے آسرے دے کر مناتیں، پَر میں رونی صورت بنائے تمھاری ممتا سے اپنی پور پور سیراب کرتا رہتا۔ اچھا ہوا جو تم وہ گھاؤ دیکھنے کے لیے زندہ نہیں جو تمھارے جانے سے میرے سینے میں لگا ہے، جس سے مستقل خون رستا رہتا ہے۔

پتا ہے کل پاؤں پر چوٹ لگنے پر بہت خون نکلا، تم تو جانتی ہو ماں! میں خون دیکھ کر کتنا خوف زدہ ہوجاتا تھا۔ پَرسچی، میں تو بالکل بھی نہیں رویا، بس آنکھوں میں چبھن کی وجہ سے بار بار پانی آرہا تھا جسے میں بہنے سے پہلے ہی ہاتھوں سے رگڑ کر خشک کرلیتا تھا۔

مجھے روتا دیکھ کر احمد میرا مذاق اڑاتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ میں بزدل ہوں۔ ماں! جب میں نے آخری بار تمھارے گلے لگ کر تمہیں پیار کیا تھا تو تمھارے سفید کپڑوں پر لہو کے سرخ دھبے دیکھ کر بھی میں نہیں رویا تھا، کیوں کہ مجھے یاد ہے تم کہتی تھیں کہ یہ شہیدوں کا لہو ہے جو کبھی رائیگاں نہیں جاتا، شہید کبھی مرتا نہیں۔

تم کہتی تھیں کہ میں شہید کا بیٹا ہوں اور شہادت تو ہر مومن کی آرزو ہے، شہید سے تو جنت کا وعدہ ہے اور ہماری منزل تو جنت ہی ہے۔ تم کہتی تھیں بہادر بچے رویا نہیں کرتے، پَر رات سوتے وقت میں جب تم سے یہ سب باتیں کرتا ہوں تو نہ جانے تکیہ کیوںگیلا ہوجاتا ہے، اور ماں اب تو وہ سب دعائیں میں خود ہی پڑھ لیتا ہوں جو رات کو مجھے سلانے سے پہلے تم مجھے یاد کراتی تھیں۔ لیکن اب تو کوئی بھی سن کرخوشی سے میرے گال نہیں چومتا۔

ماں! میں اب کھانا بھی گرائے بغیر خود کھا لیتا ہوں۔ مرچیں لگتی ہیں تو بس آنکھوں میں پانی بھر آتا ہے، جو میں پی جاتا ہوں۔ پھر رات میں بھوک لگتی ہے تو مجھے وہ دودھ کا پیالہ یاد آتا ہے جو تم مجھے اپنے ہاتھ سے پلانا چاہتیں پَر میں بھاگ جاتا، تمہیں اپنے پیچھے خوب دوڑاتا، چھپ جاتا، تم ہانپ جاتیں تو میں ہنستا، تم بظاہر ناراض ہوتی تھیں پَر تمھاری نگاہوں سے جھلکتا پیار بھلا چھپ سکتا تھا! پھر میں تمھارے ہاتھ سے ایک ہی سانس میں غٹاغٹ پورا پیالہ پی جاتا اور تم مسکرا کر میری پیشانی چوم لیتیں۔

ماں! میں تو اب بڑا ہوگیا ہوں نا۔ میں تو اب نہاتا بھی خود ہوں، آنکھوں میں صابن چلا جائے تو شور نہیں مچاتا، صابن خود ہی موٹے موٹے آنسو بن کر آنکھوں سے باہر بہہ جاتا ہے۔ مجھے یاد ہے جب میں نے خود سے قمیص پہن کر آڑے ترچھے بٹن لگائے تھے تو تم نے مجھے اپنے کلیجے سے لگا کر کہا تھا کہ میرا بیٹا تو بڑا ہوگیا ہے۔

ماں! سنو، باہر پھر بم باری شروع ہوگئی ہے۔ پھر سے معصوم بچوں کے رونے کی آوازیں اور ان کی ماؤں کے بین زور پکڑ رہے ہیں۔ فضا میں بارود کی بو اور دھویں میں سانس گھٹتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ بادل بھی زور سے گرجے ہیں۔ ماں! مجھے پاس بلا کر اپنے آنچل میں چھپا کر سلا دو۔ پھر سے بہادر مجاہدوں کی کہانیاں سناؤ جو میں سن کر سوتا تھا تو خواب میں خود بھی ان بزدل دشمنوں سے لڑتا تھا جو گھروں میں گھس کر ننھے منے بچوں کے کھلونے توڑ دیتے تھے۔ لیکن میں تو اب بڑا ہوگیا ہوں۔ مجھے کھلونے ٹوٹنے کا غم نہیں۔ مجھے تو بندوق اٹھا کر ان بزدل دشمنوں کو مار کر بھگا دینا ہے جو بچوں سے ان کے ماں باپ اور ماں باپ سے ان کے بچے چھین لیتے ہیں۔ معصوم نہتے بچوں کے چیتھڑے اڑاتے جن کے کلیجے پھٹ نہیں جاتے۔ جن کے پتھر دل، باپ کی سسکیوں اور ماؤں کی آہ و بکا سے لرزتے نہیں۔ جو ہنستے بستے گھروں کو آگ لگا کر نہ جانے کیسے سکون کی نیند سو جاتے ہیں۔ لیکن وہ نہیں جانتے ایمان کی مضبوطی کیا ہوتی ہے جس کا علم اور تربیت مجاہدوں کی مائیں اپنے لختِ جگر کے ذہنوں میں ان کے گہواروں ہی میں ہی شروع کردیتی ہیں۔ میں بھی تو تم جیسی عظیم ماں کا بیٹا ہوں۔ میں موت سے نہیں ڈرتا۔ مجھے اللہ پر اور اپنی قوتِ بازو پر یقین ہے، تمہاری ہی تربیت نے میرے اندر وہ جذبۂ ایمانی پیدا کیا ہے جو کسی بھی باطل قوت کے آ گے متزلزل نہیں ہوگا حتیٰ کہ میں بھی جامِ شہادت نوش کرلوں۔ ماں مجھے یقین ہے کہ جنت میں بانہیں پھیلائے تم میری منتظر ہوگی۔

حصہ