پربت کی رانی کا انجام قسط12

270

وہ بھی ہماری نظر میں ہے، جمال نے جواب دیا۔ ہم غور کر چکے ہیں کہ پربت چاروں جانب شاید کہیں بھی ہمیں پلانٹ یا پکوان سیٹرز نہ مل سکیں لیکن پھر بھی ہمیں یقین ہے کہ پربت کا چاروں جانب سے جائزہ لینے کے بعد ہمارے لیے کوئی نہ کوئی راہ متعین کرنا ممکن ہو جائے گا۔
پربت کے چاروں جانب پیدل کا سفر تو ہفتوں میں بھی ختم نہیں ہو سکتا تھا لیکن وادی کے بڑے نے ان تینوں کے لیے بہت مضبوط خچروں کا بند و بست کر دیا تھا۔ ان کے آس پاس کئی نگراں تھے جو اس انداز میں ان کی نگرانی کر رہے تھے جیسے ان تینوں سے ان کا تعلق ہی نہ ہو البتہ گائیڈ ان کے ساتھ ساتھ ہی چل رہا تھا۔ 5 دن کے بعد یہ اپنے ٹھکانے پر واپس آئے اور جس طرح وادی کے بڑے نے خیال ظاہر کیا تھا کہ عین ممکن ہے کہ وہ کوئی بھی ایسا مقام ڈھونڈنے میں کامیاب نہ ہو سکیں جہاں کسی پلانٹ کی موجودگی کا علم ہو سکے، ہوا تو ایسا ہی تھا لیکن ایک مقام ایسا آیا تھا جہاں جمال کی آنکھوں میں ایک عجیب سی چمک کو کمال اور فاطمہ نے لمحے کے دسویں حصے کے برابر ضرور دیکھا تھا۔ جب دونوں نے اپنے شک کا اظہار کیا تو جمال نے خاموشی اختیار کرنے کا کہا۔ باقی تین دن کیسے گزرے یہ کمال اور فاطمہ ہی جانتے ہیں۔ اپنے اصل ٹھکانے پر پہنچنے سے قبل یہ تینوں وادی کے بڑے کے سامنے حاضر ہوئے تو اس نے کہا کہ اب تمہارا کیا خیال ہے۔ جمال نے کہا کہ کل ہیلی کاپٹر ہمارے لیے کچھ خاص سامان لے کر آئے ہیں، وہ ہمیں فوری طور پر فراہم کیا جائے اور پھر کاغذ پر ایک پورا نقشہ بنا کر ایک جگہ کی نشاندہی کرنے کے بعد وادی کے بڑے سے کہا کہ ہمیں کل صبح ہی صبح اس مقام پر پہنچا دیا جائے۔ یہاں ممکن ہے کہ ہمیں کچھ دن قیام بھی کرنا پڑے۔ آپ سے گزارش ہے آپ ہماری نگرانی اور گائیڈ کے لیے ایسے لوگوں کا انتخاب کریں جو آپ کی نظر میں نہایت قابلِ اعتبار ہوں۔ جمال اور فاطمہ سمجھ چکے تھے جمال کو یقیناً کسی اہم بات کا علم ضرور ہوا ہوگا کیونکہ یہ وہی جگہ تھی جہاں انھوں نے جمال کو چونکتے دیکھا تھا۔ وادی کے بڑے نے انھیں یقین دلایا کہ ایسا ہی ہوگا اور کل جو سامان آپ کے لیے بھیجا گیا ہے، وہ بھی وہیں پہنچا دیا جائے گا۔ وہاں قریب ہی ہمارے آدمیوں کے لیے پختہ ٹھکانہ ہے، وہ آپ کے لیے خالی کر دیا جائے گا۔ جب آپ کو واپس آنا ہو، موجود عملے کو آگاہ کر دیجئے گا۔
ادھر سورج طلوع ہو رہا تھا اور اُدھر جمال، کمال اور فاطمہ مقررہ مقام پر پہچا دیئے گئے تھے۔ دو مناسب سائز کے گتے کا کارٹن کے علاوہ بہت کچھ ان کے پاس پہنچ چکا تھا۔ جس چھوٹے سے ٹھکانے کا وادی کے بڑے نے کہا تھا، ان کے لیے خالی کر دیا گیا تھا۔وہاں آرام سے بیٹھنے کے بعد جمال نے کمال اور فاطمہ کو بتایا کہ یہاں ایک مقام پر جب میں نے ایک چٹان پر قدم رکھا تو مجھے اس میں ایک عجیب سے دھمک کا احساس ہوا۔ میں نے وہاں رکنا یا تم لوگوں کو اس جانب متوجہ کرنا مصلحتاً مناسب نہیں سمجھا۔ بے شک ہمارے ساتھ وادی کے بڑے کے اعتماد کے ہی لوگ رہے ہونگے لیکن متعدد بار دیکھا گیا ہے کہ ہمیں دھوکا بھی ہوتا رہا ہے۔ میں نے وہاں پہنچ کر بھی وادی کے بڑے سے یہ یقین مانگا تھا کہ اب ہمارے ساتھ وہی لوگ جائیں گے جو نہایت اعتماد کے قابل ہونگے۔ نتیجے میں آج ساتھ آنے والوں میں کوئی ایک بھی پہلے والا نہیں تھا، پھر بھی تم کو محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ اپنے اطراف گہری نظر رکھو اس لیے کہ دشمن بھی معمولی نہیں۔ ایک بات میں تم لوگوں کو اور بتاتا چلوں کہ انسپکٹر حیدر علی بھی اپنے مشن پر روانہ ہو چکے ہیں۔ ان کا کیا مشن ہے، یہ میرے علم میں نہیں لیکن اتنا ضرور معلوم ہے کہ ہر قسم کی ناکامی کے بعد پربت کی رانی کے خلاف کسی بھی قسم کی کاروائی کی جا سکتی ہے۔
کچھ دیر آرام کے بعد جمال نے کمال اور فاطمہ سے کہا کہ آؤ اب میں یہ چاہتا ہوں کہ جس مقام پر میں نے عجیب سی دھمک محسوس کی تھی، وہ مقام بھی میں تم دونوں کو دکھاؤں اور تم دونوں سے اس کی تصدیق بھی کراؤں۔ اس چھوٹے سے ٹھکانے سے تھوڑے ہی فاصلے پر وہ چٹان نظر آ گئی جہاں جمال کو دھمک محسوس ہوئی تھی۔ کافی غور کرنے اور دیگر چٹانوں پر بیٹھنے کے بعد کمال اور فاطمہ نے کہا کہ ہمیں آپ کا خیال درست نظر آتا ہے۔
لیکن اب کرنا کیا ہے؟۔
یہ میں تم دونوں کو ٹھکانے پر پہنچ کر ہی بتاؤںگا۔ جب وہ ٹھکانے پر پہنچے تو جمال نے دو گتے کے ڈبوں کی جانب اشارہ کرکے کہا کہ ان میں کیا ہو سکتا ہے۔ کمال تو خاموش تھا اس لیے کہ اسے خبر تھی کہ ان گتے کے ڈبوں اور دیگر پیکٹوں میں کیا ہوگا البتہ فاطمہ صرف مسکرا کر رہ گئی۔ اس کی مسکراہت دیکھ کر جمال نے کہا کہ فاطمہ پہلے ہی جان چکی تھی کہ ان میں خرگوش ہیں۔ لیکن یہ بات شاید فاطمہ تمہیں نہ معلوم ہو کہ یہ معمولی خرگوش نہیں بلکہ ان کے ساتھ ہمارے سائنس دانوں نے بہت کچھ اٹیچ کیا ہوا ہے۔ یہ نہایت تربیت یافتہ خرگوش ہیں جو ریموٹ کنٹرول سے بھی کنٹرول کئے جا سکتے ہیں۔ فاطمہ تم نے اخبارات میں شائع ہونے والی کہانی ”کان کن چوہے” ضرور پڑھی ہو گی۔ یہ چوہے بھی اصل ہونے کے باوجود چند مصنوعی چیزوں کے لگائے جانے کا ایک اعلیٰ شہکار تھے۔ جمال اور کمال نے نہ صرف ان کا راز جان لیا تھا بلکہ دشمنوں کے منصوبوں کو ناکام بنانے کے ساتھ ساتھ ان چوہوں کو سائنس دانوں کے حوالے بھی کر دیا تھا۔ ہمارے سائنسدانوں نے ان پر تجربے کر کے نہ صرف بیشمار خرگوش ایسے تیار کر لیے جن کو ریموٹ سے کنٹرول کیا جا سکتا ہے بلکہ کئی بڑے جانور کو بھی تیار کیا جا رہا جو حسبِ ضرورت استعمال کئے جا سکیں گے۔
ان خرگوشوں سے کیا کیا جائے گا؟، فاطمہ کا سوال تھا۔
یہ خرگوش وہی کام کریں گے جو کان کن چوہوں نے کیا تھا۔ یعنی منصوبہ بندی کے مطابق لمبی لمبی سرنگیں بنانا، جمال نے جواب دیا۔
ہم آج ساری رات ان کی پروگرامنگ کریں گے اور منہ اندھیرے یہ مختلف مقامات پر سرنگیں بنانا شروع کر دیں گے۔ ہمیں یقین ہے کہ تخریب کاروں کے جو بھی پلانٹ اور پکوان سینٹر ہیں وہ زیرِ زمین ہی ہونگے کیونکہ اگر وہ کسی بھی کھلے مقام پر ہوتے تو ہمارے اداروں کی نظروں میں آ چکے ہوتے۔ یاد رہے کہ ہمارا کام صرف ایسے مقامات کا پتا لگانا ہے۔ اس کے بعد سارا کام یا تو انسپکٹر حیدر علی کا ہے یا پھر اعلیٰ حکام کا۔(جاری ہے)

حصہ