طب یونانی کی ترویج و تاقق

140

طب یونانی فطری طریقہ علاج ہے۔ اس کی ابتدا یونان کی زرخیز سرزمین سے ہوئی جہاں سقراط، بقراط، افلاطون اور جالینوس جیسی عظیم ہستیوں نے اس فن کی آبیاری کی۔ بابل، نینوا، مصر، یونان، روم، ایران اور شام سے ہوتا ہوا یہ فن خطہ عرب میں پہنچا جہاں اس کی خوب پذیرائی ہوئی۔

خطۂ عرب یعنی اسلامی مملکتوں میں طب یونانی کی آمد سے پہلے ہی یونان اور دیگر علاقوں میں طب یونانی خوب پھلی پھولی۔ علامہ شبلی نعمانی اپنے ایک مقالہ میں رقم طراز ہیں:

طب کی ابتداء یونان سے کی جاتی ہے۔ پہلا طبیب اسقلیبوس (Axlepius ) کو قرار دیا جاتا ہے اور اسے ابو الطب کہا جاتا ہے۔ اس نے طب کو اپنے خاندان میں محصور رکھا۔ اس کی سولہویں نسل میں بقراط پیدا ہوا۔ وہ پہلا شخص ہے جس نے فن طب کو مرتب کیا، اس پر معیاری کتابیں لکھیں اور اس کی تعلیم عام کی۔ اہل یونان کے نزدیک فن طب کے ارکان آٹھ ہیں، جن میں سے آخری جالینوس ہے۔ علامہ شبلی نے اپنے مقالہ ’’تراجم‘‘ میں طب کی ابتدائی تاریخ پر تفصیل سے لکھا ہے۔ انہوں نے مذکورہ بالا تینوں اطبا کے علاوہ عہدِ یونان کے دیگر ارکانِِ طب کا بھی تذکرہ کیا ہے۔ بقراط اور جالینوس کے مختصر احوال بیان کرنے کے ساتھ ان کی ان کتابوں کی فہرستیں پیش کی ہیں ، جن کے عربی زبان میں ترجمے ہوئے۔ ساتھ ہی علامہ شبلی نعمانیؒ نے مترجمین کے نام بھی درج کیے ہیں۔ ان اطبا کے علاوہ انہوں نے روفس، دیسقوریدوس، اطبائے اسکندریہ (جن میں سب سے مشہور یحییٰ نحوی ہے) اور شام و روم کے اطبا کے نام بھی ذکر کیے ہیں۔ طب پر علامہ شبلی کی یہ تحریر 9 صفحات پر مشتمل ہے۔ اس سے طب کے یونانی دور پر روشنی پڑتی ہے۔

اس میں بھی شک نہیں کہ طب یونانی کی ترویج میں مذہب اسلام کے اوائل سے مسلمانوں نے بھی اس کی ترویج وترقی،مزید تحقیقات اور اضافہ میں تن دھن کی بازی لگادی۔ مسلم فرماں رواوئوں نے طب یونانی کے فروغ کے لیے دولت کے مہانے کھول دیے۔ تاریخ طب میں اسلامی سلطنتوں میں طب یونانی کے بڑے بڑے اسپتالوں اور میڈیکل کالجوں کے تذکرے سے بھرے پڑے ہیں۔ مگر المیہ یہ ہے کہ محض اس وجہ سے پانچ ہزار برس قدیم طب یونانی پر طب اسلامی کا ٹھپہ لگاکر اسے دیگر مذاہب کے ماننے والوں کے لیے اچھوت بنادیا گیا۔ اے کاش ہم نے غور کیا ہوتا کہ طبِ یونانی کو فروغ دینے میں مسلم اطبا کے ہمراہ بڑے بڑے غیر مسلم ویدوں، طبیبوں اور ماہرین نباتات کی خدمات سے بھی ساری طبی تاریخ مزین نظر آتی ہے۔

اس میں شبہ نہیں کہ اسلام کی آمد کے بعد مسلمانوں نے کتاب اللہ اور ارشاد نبویؐ سے رہنمائی حاصل کر کے اس فن کو بامِ عروج پر پہنچایا۔ عباسی خلفا کے دور میں طب میں مزید ترقی ہوئی اور بغداد میں جڑی بوٹیوں پر باقاعدہ تحقیق کا آغاز ہوا۔ بیمارستان (ہسپتال) کھلنے لگے۔ بو علی سینا، ابوبکر زکریا رازی، ابو قاسم زاہروی، جابر بن حیان، علی بن ابن طبری، ابن رشد اور نجیب سمرقندی جیسے عظیم اطبا نے اپنی ذہانت تدبر اور تجربات کو اپنی قوت تحریر سے ضخیم کتابوں میں محفوظ کر کے آنے والی نسلوں کو فکر و عمل کی دعوت دی اس عظیم علمی سرمائے سے صرف مسلمانوں نے ہی نہیں بلکہ اہل یورپ نے بھی خوب استفادہ کیا۔ ان کتابوں کے قلمی نسخے آج بھی یورپ کے کتب خانوں میں موجود ہیں۔

بعد ازاں برصغیر میں مسلمانوں کی آمد کے وقت یہاں آیورویدک طریقہ علاج رائج تھا۔ مسلمانوں اورہندوئوں نے ہندوستان کی قدیم دانش سے استفادہ کر کے طب یونانی کے دامن کو مزید وسیع کیا مغلوں کے عہد میں طب برصغیر کے گوشے گوشے میں پہنچ گئی۔ اٹھارہویں صدی کے بعد جب مسلم حکومتوں کو زوال آیا تو انگریز حاکموں نے ایلوپیتھی کوفروغ دینے کے لیے 1910ء میں طب کو غیر قانونی قرار دینے کا فیصلہ کیا تاکہ یہاں کے محکوم لوگ ہر شعبۂ زندگی میں ان کے محتاج بن کر رہ جائیں اس دور میں نامور اطبا اپنے آبا و اجداد کے فن کو بچانے کے لیے حکیم محمد اجمل خان کی قیادت میں میدان عمل میں نکل آئے اور ملک گیر تحریک چلا کر انگریزوں کو غلط قانون واپس لینے پر مجبور کر دیا۔ انہوں نے طبِ یونانی کے فروغ کے لیے دہلی طبیہ کالج کی بنیاد رکھی، طب یونانی کے لیے مسیح الملک کی جدوجہد میں مسلم اطبا کے ہمراہ برادرانِ وطن یعنی ہندو حکیموں اور معالجین کی بھی ایک لمبی فہرست ہے جس نے انگریزوں کی اس مذموم سازش کو ناکام بنانے کے لیے قدم سے قدم ملاکر ہر موڑ پر طب یونانی کے لیے جہاد کرنے والوں میں کھڑے رہے۔ مگر افسوس کہ جب ہندوستان میں طب یونانی کے خدام و مجاہدین کی تاریخ رقم کرنے کاوقت آیا تو حکیم کرشن کنور دت، حکیم ہری چندملتا نی، حکیم رام لعل وغیرہ دوچار اطبا کے علاوہ سبھی کی خدمات کو قلم بند کرنے میں ایمانی تقاضا اور وسعتِ فکر کا مظاہرہ نہیں کیا گیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ جس طرح سے طب یونانی کے عروج کے لیے تمام عقائد و مذاہب کے پیروکار محققین و اطبا کی خدمات تاریخ میں نظر آنی چاہیے اتنی مقدار میں نظر نہیں آتی۔

بہر حال مسیح الملک اور لٹے پٹے ہندوستان میں طب یونانی سمیت تمام دیسی طبوں کے بچانے کی جنگ کے سالار اعظم مسیح الملک نے جو اقدامات کیے اسی کا نتیجہ ہے جو برصغیر میں طبی تعلیم و تربیت کی اوّلین درس گاہ دہلی میں قائم ہوئی اور نتیجہ یہ ہوا کہ طب یونانی نہ صرف ہندوستان میں، بلکہ ایران، نیپال، سری لنکا تک محدود نہیں رہی بلکہ اس کا دائرہ پوری دنیا میں پھیل چکا ہے۔ امریکہ، روس، چین اور یورپی ملکوں میں اس فن پر مسلسل تحقیق ہو رہی ہے جس کے نتیجے میں نئے نئے انکشافات منظر عام پر آرہے ہیں۔ اس فطری طریقۂ علاج سے کینسر، ایڈز جیسے پیچیدہ اور خطرناک امراض کے علاج میں بھی بڑی کامیابی حاصل ہوئی ہے۔ مغربی ممالک اب طبِ یونانی کو سائنس کا درجہ دیتے ہیں۔ عالمی ادارہ صحت (W.H.O) نے اس طریقۂ علاج کو تسلیم کرتے ہوئے دنیا بھر میں اسے رائج کرنے کی اجازت دی ہے۔ ہندوستان سرکاری اور عوامی سطح پر ادویاتی جڑی بوٹیوں پر جو تحقیقی کام ہو رہا ہے اس کے نتائج سے اہلِ مغرب بھی فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ اس کی مقبولیت اور ہر دل عزیز ہونے کی اہم وجہ یہ بھی ہے کہ طب یونانی فوائد سے بھرپور اور مضر اثرات سے پاک ہے۔

یہ طریقۂ علاج عوام کے مزاج کے قریب تر ہے۔ ملک کی 80 فیصد آبادی بالخصوص دیہی علاقوں کے لوگ اس طریقۂ علاج کو زیادہ پسند کرتے ہیں۔ ہندوستان میں طب یونانی کا مستقبل بڑا روشن اور تاب ناک ہے۔ اس کی ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے ملک کی نامور یونیورسٹیوں نے طب فیکلیٹزکو قائم کردیا ہے اور اب وہاں ڈگری اور ماسٹر کورسز کروائے جارہے ہیں۔ گزشتہ چند برس پہلے ملک شہرت یافتہ دانش گاہ جامعہ ملیہ اسلامیہ میں بھی طب یونانی پر کام شروع ہوگیا ہے۔ اطبا کرام کی اہمیت روز بہ روز بڑھ رہی ہے، سرکاری اسپتالوں‘ شفاء خانوں اور نیم سرکاری اداروں میں انہیں ملازمت کے مواقع حاصل ہیں، کچھ کمیاں ہیں تو اسے ہم اپنی محنتوں اور اتحاد۔ ملک کے بیشتر سرکاری محکموں کے ملازمین کو گورنمنٹ کی ہدایات کے مطابق طب سے استفادہ کی باقاعدہ طور پر اجازت حاصل ہے۔

رہی طب یونانی کی ترویج و ابتدا اور اس کے عام ہونے مسلم مسلطنتوں میں پھلنے پھولنے اور اس طرح ہندوستان میں گھر گھر تک پہنچنے کی اجمالی تاریخ۔ ہم دیانت داری کے ساتھ دیکھیں تو محسوس ہوتا ہے کہ طب یونانی پر صرف مسلمانوں کا ٹھپہ لگا کر اردو کی طرح ہی اس کی جڑیں کاٹنے کی خاموش کوششیں ہورہی ہیں۔ اب اس کے پیچھے کون ہے اور کن عناصر نے پانچ ہزار برس قدیم اس طریقہ علاج کو مٹانے اور بے نام و نشان کرنے کا بیڑا اٹھا رکھا ہے۔ اگر ہم اس کی تہہ میں جائیں تو معلوم ہوگا کہ غیروں کے ساتھ اپنوں کی کج فہمی اور غا لباً مفاد پرستانہ سوچ نے ہی آج طب یونانی کو شدید نقصان پہنچایا ہے، جس کی کلی تفصیل اس مختصر سے مضمون میں ممکن نہیں ہے۔ البتہ یہ گزارش ضرور ہے کہ ہم فنِ طب یونانی سے وابستہ لوگوں اور اداروں کو آگے آکر اس سازش کو ناکام بنانا ہوگا،یہ ہم سب کی ذمہ داری ہے۔

حصہ