آئو چہرے نہیں نظام بدلیں

251

’’خیر سے انتخابات کا پہلا مرحلہ مکمل ہوا، ووٹرز کی بڑی تعداد نے حق ِ رائے دہی استعمال کرتے ہوئے اپنے پسندیدہ نمائندوں کو منتخب کیا۔ اب اگلے مرحلے میں نومنتخب ارکانِ اسمبلی حلف اٹھائیں گے، اس کے بعد قائدِ ایوان کا انتخاب ہوگا۔ یوں مسندِ اقتدار پر نئے حکمران براجمان ہوجائیں گے۔ یہ خوشی کی بات ہے کہ ہمارے ملک میں بھی جمہوریت پروان چڑھ رہی ہے، لوگ آزادی سے اپنی سیاسی جماعت کو منتخب کرتے ہیں۔ اگر اسی طرح وقت پر انتخابات ہوتے رہے تو آنے والے وقت میں عوام جمہوریت کے ثمرات سے ضرور فیض یاب ہوں گے۔‘‘

’’کون سی جمہوریت، کیسے انتخابات؟ سب فضول باتیں ہیں۔ فرقان میاں! تم بھی خوب ہو، یا پھر ضرورت سے زیادہ سیدھے ہو۔ ارے میاں 8فروری کو جو ہوا، اور اس کے نتیجے میں منتخب ہونے والے ارکان کی تو مت پوچھو، یہ پہلی مرتبہ نہیں ہوا، ہمیشہ یہی ہوتا ہے، یعنی طے شدہ نتائج کے مطابق لوگوں کے سر پر کامیابی کا تاج سجا دیا جاتا ہے، لیکن اس مرتبہ تو حد ہوگئی، جو امیدوار ہارے وہ پریشان، جبکہ جیت جانے والے نہ صرف حیران ہیں بلکہ انہیں اب تک اپنی کامیابی کا یقین نہیں، یعنی جیت کر بھی بے یقینی کی کیفیت میں مبتلا ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ رواں ماہ ہونے والے انتخابات کے نتائج کو اکثر جماعتوں نے دھاندلی کے الزامات لگاکر مسترد کردیا ہے، جبکہ کئی رہنماؤں نے تو اسمبلی میں بیٹھنے سے بھی انکار کردیا ہے جس کی مثال کراچی سے منتخب ہونے والے حافظ نعیم الرحمن ہیں جنہوں نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ جو جیتے ہیں انہیں جتوائو، ہمیں خیرات میں دی جانے والی سیٹ نہیں چاہیے۔ امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمن کے اس اقدام سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اِس بار بھی انتخابات میں جھرلو چلا اور بڑے پیمانے پر بے ضابطگیاں ہوئیں۔‘‘

’’آپ کی باتوں سے تو مایوسی ظاہر ہورہی ہے اختر صاحب۔ میں مانتا ہوں کہ آپ کا مطالعہ وسیع ہے، اور میں یہ بات بھی اچھی طرح جانتا ہوں کہ آپ کی نظر سیاسی منظرنامے پر بھی خوب ہے، لیکن یہ بھی تو سچ ہے کہ آئین کے مطابق وقت پر ہونے والے انتخابات کے نتیجے میں ہی اچھی اور دیانت دار قیادت ابھر کر سامنے آتی ہے، یعنی انتخابی عمل روکنے سے تبدیلی ناممکن ہے۔‘‘

’’فرقان تمہاری سوچ اچھی ہے، لیکن تم جس تبدیلی اور دیانت دار قیادت کی بات کررہے ہو وہ ہمارے ملک میں رائج نظامِ انتخابات کے تحت آنا ممکن نہیں۔ دیکھو اس نظام کے تحت اگر تبدیلی آسکتی تو آچکی ہوتی۔کون نہیں جانتا کہ ماضی میں برسراقتدارآنے والی جماعت نے تبدیلی کے نعرے لگا کر ہی انتخابات میں کامیابی حاصل کی تھی۔ اقتدار ملنے کے بعد کیا ہوا؟ یہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ وہی پرانے لوگ، وہی مخصوص گھرانے، وہی چودھری اور وڈیرے… یعنی وہی پرانے چہرے نئے کپڑے بدل کر ایک مرتبہ پھر ہم پر مسلط کردیے گئے تھے۔ یہی کچھ 8 فروری کو بھی ہوا۔ میں پھر کہتا ہوں اس نظام کے تحت ایک ہزار مرتبہ بھی انتخابات کروا لیے جائیں عوام کا کچھ بھلا نہیں ہوگا، صرف اقتدار میں آنے والوں کے چہرے تبدیل ہوں گے نظام نہیں بدلے گا۔‘‘

’’تو کیا پھر ہم یونہی ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھے رہیں؟ آپ کی باتوں نے تو ناامید کردیا ہے۔‘‘

’’یہ میری باتیں نہیں، اصل حقائق ہیں۔ انتخابی نظام کی تبدیلی ہی ملک کی ترقی کا واحد راستہ ہے جس کے لیے تمام جماعتوں کو مل کر کوشش کرنا ہوگی۔‘‘

’’اختر صاحب! جمہوریت میں بھی تو یہی کچھ ہوتا ہے، یعنی انتخابات ہوتے ہیں۔ تو پھر آپ کس نظام کی تبدیلی کی بات کررہے ہیں؟‘‘

’’دیکھو، تم بار بار جس جمہوریت کا ذکر کررہے ہو، یہ کیا ہے پہلے اِسے سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اگر تم نے میری بات دھیان سے سن لی تو یقینا اس ناکام نظام اور اس کے تحت ہونے والے انتخابات سے جڑے تمام اصل حقائق تمہارے سامنے عیاں ہوجائیں گے۔ جمہوریت صدارتی اور پارلیمانی نظام کے گرد گھومتی ہے۔ دنیا کے مختلف ممالک میں صدارتی اور پارلیمانی نظام قائم ہے جس میں تمام اختیارات پارلیمنٹ کے پاس ہوتے ہیں۔ جیسا کہ میں پہلے ہی بتا چکا ہوں اس نظام کے تحت ہر سیاسی جماعت ملک کے تقریباً تمام حلقوں میں درجنوں بلکہ سیکڑوں امیدوار کھڑے کرتی ہے، اس نظام کے نتیجے میں کامیاب ہونے والے وہ لوگ ہوتے ہیں جو نسل در نسل سے کامیاب ہورہے ہیں۔ یہ لوگ نہ اتنے ذہین ہوتے ہیں اور نہ ہی اُس منصب کے اہل جس پر وہ براجمان ہوجاتے ہیں، بلکہ ان میں زیادہ تر وہ لوگ ہوتے ہیں جن کے ذاتی تعلقات اور مراسم اُن اربابِ اختیار سے ہوتے ہیں جن کی طاقت اور حیثیت سے ہر کوئی واقف ہے۔ ہار جیت کے اس کھیل میں ہمیشہ ان خاندانوں کی ہی جیت ہوتی ہے، یہی وجہ ہے کہ انتخابات میں ہر سیاسی جماعت نہ چاہتے ہوئے بھی اُن خاندانوں کو اپنے ساتھ رکھنے کی دوڑ میں شامل رہتی ہے جو کسی اکھاڑے میں جیتنے والے پہلوان کی طرح غریب ہاریوں اور معاشرے کے پسے ہوئے لوگوں سے ووٹ لینے کی مہارت رکھتے ہیں۔ اس نظامِ انتخاب کا جائزہ لیا جائے تو یہ انتخاب سے زیادہ دو طاقتوں کے درمیان اپنی اپنی طاقت دکھانے کا وہ کھیل ہے جس میں ایک کے مقابلے میں دوسرا طاقتور اور ظالم ہی منتخب ہوتا ہے۔ ہمارے ملک میں75 سال سے کبھی جمہوری تو کبھی مارشل لا حکومتیں آتی جاتی رہی ہیں، لیکن کسی حکومت نے بھی ملک میں رائج اِس نظامِ انتخاب کی تبدیلی پر کوئی کام نہیں کیا جس کے نتیجے میں اہل اور صاف ستھرے لوگوں کو ایوان میں جانے کا راستہ ملتا۔ اور تو اور اس طریقۂ انتخاب سے ایوان میں پہنچنے والے چاہے جتنے بھی کرپٹ ہوں، اُن کو کسی مؤثر طریقے سے ہٹانا ممکن نہیں ہوتا۔ بڑھتی ہوئی کرپشن، چہروں کی تبدیلی اور خاندانی سیاست کے سوا اس نظامِ انتخاب سے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ اس نظام کے تحت انتخابات میں حصہ لینے والے افراد کروڑوں روپے لگاتے ہیں، یعنی سیکڑوں گاڑیاں، پیٹرول اور کھانے پینے پر آنے والے اخراجات فی سبیل اللہ نہیں ہوتے، یہ طریقۂ انتخاب لگائی گئی رقم کو دگنا کرنے کا وہ اکائونٹ ہے جس سے ڈبل واپسی ہوا کرتی ہے۔ حلقے کے لیے ملنے والے ترقیاتی فنڈز جیب میں، جبکہ منصوبے کاغذوں تک محدود رہتے ہیں۔ ظاہر ہے جو اتنی خطیر رقم لگائے گا وہ سود سمیت واپس بھی لے گا۔ پیسے کے بَل پر ہائی جیک ہونے والے اس نظام نے قوم کو تقسیم کرکے رکھ دیا ہے۔ نہ صرف ملکی ترقی میں کمی آئی بلکہ بے روزگاری، انتہا پسندی اور دہشت گردی میں بھی اضافہ ہوا۔ میرے خیال میں اب وہ وقت آگیا ہے بلکہ یہی وقت کا تقاضا اور پکار ہے کہ ملک میں رائج نظام انتخاب جس کے نتیجے میں صرف چہرے تبدیل ہوں اس روش کو چھوڑ دینا چاہیے، کیوں اس سے حالات نہیں بدلتے بلکہ رات کے بعد سحر نہیں آتی ایک نئی رات آجاتی ہے جس کے نشانات وطنِ عزیز کے چپے چپے میں دیکھے جا سکتے ہیں، دیکھا جا سکتا ہے کہ کہاں معصوم و بے قصور قتل کیے گئے، کہاں عصمتیں لوٹی گئیں، کہاں آئین شکن جرگے ہوئے، کہاں اناج بوتے ہاتھوں سے اناج چھین لیا گیا، اور کہاں رکھیلوں کو پالا پوسا گیا، غریبوں کو بغیر علاج مرنے دیا گیا، اسکولوں کالجوں کے نام سے عمارتیں تو بنائی گئیں لیکن غریبوں کے بچوں کو تعلیم سے محروم رکھا گیا۔ یہی تو وہ غیر انسانی، غیر جمہوری حرکتیں ہیں جنہیں اس نظام کے تحت برسراقتدار آنے والے حکمرانوں نے چہرے بدل بدل کر جاری و ساری رکھا۔ لہٰذا اب وقت آگیا ہے کہ اس گھسے پٹے انتخابی نظام سے چھٹکارا حاصل کرلیا جائے، تاکہ ووٹ کا تقدس بحال ہوسکے، اور ایسا نظام رائج کروانے کی کوشش کی جائے جس میں اثر رسوخ کے بجائے اہلیت کی بنیاد پر حکمرانوں کا انتخاب ہوسکے۔ وہ نظام جس میں ایک عام شہری آزادی کے ساتھ اپنی مرضی سے حقِ رائے دہی استعمال کرسکے، جو برادریوں کے چنگل سے آزاد ہو، جس میں طاقتور اپنی طاقت کے نشے میں کمزور پر ظلم نہ کرسکے۔ میرے نزدیک یہ تبھی ممکن ہوگا جب اہلیت کی بنیاد پر پڑھے لکھے لوگ اسمبلیوں میں پہنچیں گے۔‘‘

’’آپ نے نظام کے خلاف تو خاصی لمبی بات کی، لیکن کوئی تجویز نہیں دی۔ بات میں وزن تو تب ہو جب حل بتایا جائے۔‘‘

’’ہاں ہاں یہ بھی بتاتا ہوں، اس کے لیے ضروری ہے کہ ملک میں رائج نظامِ انتخاب کی جگہ متناسب نمائندگی کے تحت انتخابات کروائے جائیں۔ دنیا بھر میں اس نظام کے تحت قائم ہونے والی حکومتوں کی کارکردگی سامنے ہے۔ آسٹریلیا، ہنگری، شمالی کوریا، جرمنی، فرانس سمیت کئی ترقی یافتہ ممالک کی کامیابی کا راز یہی طریقہ انتخاب ہے، اور پھر برادر ملک ترکی کی مثال ہمارے سامنے ہے جس کی ترقی کی مثالیں دے دے کر ہمارے حکمرانوں کی زبانیں خشک ہوجاتی ہیں، وہاں پر بھی متناسب نمائندگی کے تحت ہی انتخابات ہوتے ہیں۔ اس طریقۂ انتخاب کی اہم بات یہ ہے کہ عوام شخصیت کو نہیں بلکہ جماعت یا اس کے منشور کو ووٹ ڈالتے ہیں۔ اس نظام میں کسی شخص کی انفرادی حیثیت نہیں ہوتی۔ جب کسی شخص کی کوئی ذاتی حیثیت نہ ہو تو وہ کس طرح کسی بھی دوسرے شخص پر اپنی مرضی مسلط کرسکتا ہے؟ اس نظام میں سیاسی جماعتوں کی جانب سے اپنے اپنے امیدواروں کی فہرست الیکشن کمیشن کو انتخابات سے قبل ہی بھجوا دی جاتی ہے۔ اگر ہم 8 فروری کو ہونے والے انتخابات میں ملنے والے مینڈیٹ کی بات کریں تو ان انتخابات کے نتائج کچھ یوں ہیں:

آزاد حیثیت میں جیتنے والے پی ٹی آئی کے امیدواروں کو ایک کروڑ 68 لاکھ کے لگ بھگ ووٹ ملے، نواز لیگ نے ایک کروڑ33 لاکھ سے زائد ووٹ حاصل کیے جبکہ پیپلز پارٹی تقریباً 76 لاکھ ووٹوں کے ساتھ تیسرے نمبر پر رہی۔ یوں مسلم لیگ (ن) جسے اقتدار سونپنے کی تیاری کی جاری ہے اسے پڑنے والے ووٹوں کی تعداد حزبِ اختلاف میں بیٹھنے والوں کو ملنے والے ووٹوں سے کم رہی۔ چونکہ موجودہ نظام میں کامیاب ہونے والے امیدواروں کی تعداد دیکھی جاتی ہے، اس لیے ڈیڑھ کروڑ سے زائد ووٹ لینے والی جماعت بھی 25 کروڑ لوگوں پر مسلط ہوجاتی ہے۔ اس نظام کی سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ نشست کا فیصلہ ہار جیت پر ہوتا ہے، یعنی اگر کسی شخص نے ایک لاکھ ووٹ حاصل کیے اور دوسرے نے 99999… تو ایک ووٹ کے فرق سے جیت پہلے شخص کی ہوگی۔ ایک ووٹ کم لینے والے کے مینڈیٹ کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔ جبکہ اس کے برعکس متناسب نمائندگی کے تحت ہونے والے انتخابات میں جماعت کو ملنے والے ووٹوں کے تناسب سے نشستیں الاٹ کی جاتی ہیں۔ مثال کے طور پر اگر کسی جماعت نے تیس فیصد ووٹ حاصل کیے تو اسے تیس نشستیں دے دی جاتی ہیں۔ اس نظام میں ایک ایک ووٹ کی اہمیت ہوتی ہے۔ ہر ووٹ اپنی ایک طاقت رکھتا ہے۔ اس نظام میں ووٹ ضائع ہونے کا کوئی خطرہ نہیں ہوتا۔ شمار کیے جانے والے ووٹوں کے تحفظ کے باعث لوگوں کی بڑی تعداد اس نظام کے تحت اپنا حقِ رائے دہی استعمال کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس طریقہ انتخاب کو رائج کرنے کے سلسلے میں دنیا بھر کے بیشتر ممالک سوچنے پر مجبور ہیں۔ پاکستان کے جغرافیائی حالات کو دیکھتے ہوئے صاف طور پر کہا جا سکتا ہے کہ ہمارے ملک میں بھی اسی نظامِ انتخاب کے تحت سیاسی، معاشی اور معاشرتی تبدیلی لائی جا سکتی ہے۔ مجھے امید ہے میری یہ باتیں تمہارے نظریات کو تبدیل کرنے میں خاصی مددگار ثابت ہوں گی۔‘‘

حصہ