عصا نہ ہوتو کلیمی ہے کارِ بے بنیاد؟

320

علامہ اقبال کی شاعری ہمارے لئے آئینہ ہی نہیں ہمارے اجتماعی شعور اورضمیرکا انکشاف بھی ہے۔ مگرہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم خودبدلتے نہیں قرآن کو بدل دیتے ہیں کے مصداق اقبال کی شاعری سے بھی اپنے مطلب کے معنی برآمد کرتے رہتے ہیں۔ مثال کے طورپر اقبال کا ایک شعرہے۔

رشی کے فاقوں سے ٹوٹا نہ برہمن کا طلسم
عصا نہ ہوتو کلیمی ہے کار بے بنیاد

اس شعرکے مصرعہ اولیٰ میں ایک تاریخی حوالہ ہے۔ اقبال سمیت مفکرین کی بہت بڑی تعداد کی رائے یہ ہے کہ گوتم بدھ کی فکر اور فلسفہ دراصل برہمن ازم کی بالادستی کے خلاف ایک بغاوت تھی۔ اس مصرعے میں رشی کا اشارہ گوتم بدھ کی طرف ہے اوراقبال نے کہا یہ ہے کہ گوتم بدھ کی ساری فاقہ کشی اورروحانی ریاضت ان کے کسی کام نہ آسکی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ برہمنوں کو صرف اورروحانی مرکز کی حیثیت ہی حاصل نہیں تھی ان کے پاس سیاسی طاقت بھی تھی اور ریاستی قوت بھی چنانچہ برہمن ازم کے خلاف گوتم بدھ کی بغاوت کامیاب نہ ہوسکی اور بالآخر برہمنوں نے بدھ ازم اور اس کے پیروکاروں کو اپنے مرکز سے باہر نکال دیااور ذات پات کا جابرانہ نظام اور برہمنوں کی بالادستی اسی طرح برقراررہی ۔ رشی کے فاقوں سے ٹوٹا نہ برہمن کا طلسم کا مطلب یہی ہے اور عصا نہ ہوتو کلیمی ہے کاربے بنیاد کا مفہوم یہ ہے کہ اپنے خیال کو حقیقت بنانے کے لئے قوت نافذہ بھی درکار ہوتی ہے۔

یہ اس شعرکا عمومی مفہوم ہے۔ جو بیان کیاجاتاہے اور اس کی بنیاد پر کہنے والوں نے یہ کہا ہے کہ اقبال کی فکرمیں قوت بالخصوص جسمانی قوت یا Phisical power کو بڑی اہمیت کا حاصل ہے۔ لیکن یہ اقبال کے حوالے سے آدھی ادھوری اورجزوی بات ہے۔

اقبال کے یہاں قوت اور شوکت کے تصورات کا خاص مقام ہے لیکن یہ قوت اخلاقی اصول سے بے نیاز نہیں۔ اقبال کے اس شعر میں تو کلیم اللہ اور ان کے عصا کا ذکرہے ۔ ظاہرہے کہ عصا صرف طاقت نہیں آسمانی طاقت یعنی معجزے کی علامت ہے۔ طاقت آسمانی ہدایت اور اس کی روشنی سے بے نیاز ہوجائے تو اندھی قوت بن جاتی ہے۔ اور اس سے دنیا میں فساد کے سوا کچھ پیدا نہیں ہوتا۔ اقبال کا ایک شعرہے۔

بے معجزہ دنیا میں ابھرتی نہیں قومیں
جو ضربِ کلیمی نہیں رکھتا وہ ہنر کیا

اقبال کے اس شعرمیں معجزہ اور ضرب کلیمی نہ صرف یہ کہ ہم معنی الفاظ کی حیثیت رکھتے ہیں بلکہ اقبال نے انہیں قوموں کے عروج کی بنیاد قراردیاہے۔ یہ عارضی اور مصنوعی عروج نہیں ۔ یہ عروج تو اندھی طاقت سے بھی حاصل کیاجاسکتاہے اور تاریخ ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے ۔ لیکن یہ عروج برقرار نہیں رہتا۔ صرف اندھی طاقت کسی کو دوام نہیں بخشتی۔ سیدنا حضرت بلال ؓ کے بارے میں اقبال کا ایک مصرعہ ہے۔

رومی فنا ہوا حبشیؓ کو دوام ہے

سلطنت روما مٹ گئی فنا ہوگئی لیکن حضرت بلالؓ پوری امت مسلمہ کے دلوں میں زندہ ہیں۔ حالانکہ وہ حبشی بھی تھے اور ایک عرصے تک غلام بھی رہے۔ اقبال کے یہاں اگرصرف طاقت کا تصور اہم ہوتا تو اقبال کبھی یہ کہہ ہی نہیں سکتے تھے۔

تاریخ امم کا یہ پیامِ ازلی ہے
صاحب نظراں ‘ نشۂ قوت ہے خطرناک

یہاں اقبال نے قوت اورانسانوں کیا اقوام سے اس کے تعلق کو متعین کردیاہے اور خبردارکیاہے کہ اے نظررکھنے والے لوگو طاقت کا نشہ خطرناک ہے۔ طاقت کا نشہ؟

اصول ہے کہ جو طاقت اخلاقی اصولوں سے بے نیازہوگی وہ نشہ ضروربنے گی۔ اورنشہ حواس کیا عقل کو بھی معطل اورکمزورکردیتاہے۔ اور اس کا نتیجہ اندھی طاقت کے علمبرداروں کے لئے ہی نہیں اس کے پرستاروں اوراس کا نشانہ بننے والوں کے لئے بھی ضرررساں ہوتاہے اور اس سے تہذیب واخلاق کی بنیادیں ہل کر رہ جاتی ہیں۔

اسلام میں طاقت کا اصول یہ ہے کہ باطل کے مقابلے کے لئے جسمانی طاقت بھی ضروری ہوتی ہے۔ اس لئے کہ باطل جسمانی طاقت پریقین رکھتاہے اور اس کی زبان سمجھتاہے۔ چنانچہ اس کے لئے جسمانی طاقت اوراس کا اظہار بھی ضروری ہے۔ لیکن یہ اس کا اصل اصول نہیں ہے۔ یہ اصول بھی اخلاقی تصورات کے تابع ہے۔

آج پوری دنیا میں جو فساد برپاہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ نہ کسی کے پاس عصا ہے اور نہ کلیمی کا کوئی تصور۔ طاقت اورصرف طاقت دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک اپنا کھیل کھیل رہی ہے۔ اور اخلاقی طاقت منہ چھپائے پھررہی ہے۔ لیکن اس موضوع کا ایک اور حوالہ ہے۔

صرف طاقت‘ اخلاقی اصول سے بے نیاز طاقت انسانوں کو متاثر یا Inspire نہیں کرسکتی ۔ ان کی روح کو حرکت نہیں دے سکتی۔ ان کو بہت دیر تک اپنی گرفت میں نہیں رکھ سکتی۔ انسانوں کی تخلیقی قوتوں کو بیدارنہیںکرسکتی۔ اور ان سے دنیا کا کوئی معاشرہ بالخصوص اسلامی معاشرہ حیات ِنوحاصل نہیں کرسکتا۔

بیسویں اور اکیسویں صدی میں اخلاقی اور جسمانی طاقت کی یکجائی سے کئی معجزے رونما ہوئے ہیں۔ 1940ء کی دہائی میں قائداعظم پاکستان کے قیام کا مطالبہ لے کر کھڑے ہوئے تو اُن کا مقابلہ وقت کی واحد سپر طاقت برطانیہ اور عظیم ہندو اکثریت سے تھا۔ ان دو طاقتوں کے مقابلے پر مسلمان کچھ بھی نہیں تھے۔ لیکن قیامِ پاکستان کا نظریہ عظیم تھا۔ دوسری طرف برصغیر کے مسلمانوں کو قائداعظم جیسی شخصیت کی قیادت نصیب تھی۔ قائداعظم بلا کے ذہین تھے مگر قائداعظم کے پاس ذہانت سے بھی بڑی قوت تھی‘ اخلاقی قوت۔ دنیا کی کوئی طاقت نہ قائداعظم کو ڈرا سکتی تھی نہ انہیں خرید سکتی تھی۔ ان دو چیزوں کی یکجائی نے قائداعظم کو عظیم شخصیت میں ڈھال دیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ قائداعظم One Man Army بن گئے تھے۔ چنانچہ بالآخر انگریزوں اور ہندو قیادت کو قائداعظم کا مطالبۂ پاکستان تسلیم کرنا پڑا۔ پاکستان کی تخلیق اخلاقی اور جسمانی طاقت کی یکجائی کا حاصل تھی۔

1979ء میں جب سوویت یونین افغانستان میں آیا تو عام خیال یہ تھا کہ اب افغانستان میں وہی ہوگا جو سوویت یونین چاہے گا۔ سوویت یونین وقت کی دو سپر پاورز میں سے ایک تھا۔ اس کی عسکری اور تکنیکی قوت بے پناہ تھی۔ اس کے وسائل کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا۔ سوویت یونین کی تاریخ یہ تھی کہ وہ جہاں گیا وہاں سے کبھی واپس نہیں لوٹا۔ چنانچہ سوویت یونین کے خلاف جہاد شروع ہوا تو بائیں بازو کے لوگ مجاہدین کا مذاق اڑاتے تھے۔ وہ کہتے تھے کہ مجاہدین سوویت یونین کو قیامت تک شکست نہیں دے سکیں گے۔ لیکن مجاہدین کے پاس کلمے اور جہاد کے عظیم تصور اور جاں نثاری کی بے مثال قوت کی یکجائی موجود تھی۔ چنانچہ انہوں نے صرف دس سال میں سوویت یونین کو افغانستان میں اس طرح منہ کے بل گرا دیا کہ سوویت یونین بکھر گیا اور اس کا نظریہ سوشلزم اس طرح تحلیل ہوا جیسے وہ کبھی دنیا میں موجود ہی نہیں تھا۔ مگر یہاں سے اسلام دشمن طاقتوں نے ایک نئی دلیل ایجاد کی۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان میں مجاہدین کی فتح اسلام کی نہیں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی فتح ہے۔ اس لیے کہ امریکہ اور یورپی ممالک مجاہدین کو مالی اور عسکری وسائل مہیا کر رہے تھے۔

چنانچہ جب نائن الیون کے بعد امریکہ اور اس کے 48 اتحادی افغانستان میں داخل ہوئے تو دنیا نے کہا کہ اب افغانستان میں وہی ہوگا جو امریکہ چاہے گا۔ لیکن طالبان امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے خلاف نظریے اور جاں نثاری کے جذبے کی یکجائی لے کر کھڑے ہوگئے۔ فریقین کے درمیان طاقت کا ہولناک عدم توازن موجود تھا۔ امریکہ اور طالبان کی سیاسی طاقت میں ایک اور ایک لاکھ کی نسبت تھی۔ امریکہ اور طالبان کی معاشی طاقت میں ایک اور ایک کروڑ کی نسبت تھی۔ امریکہ اور طالبان کی عسکری طاقت میں ایک اور ایک ارب کی نسبت تھی۔ مگر اس کے باوجود طالبان نے امریکہ اور اس کے 48 اتحادیوں کو منہ کے بل گرا دیا اور امریکہ جن طالبان کو تہذیب کے دائرے سے باہر کی طاقت کہتا تھا وہی امریکہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھا نظر آیا۔ یہ ایک معجزہ تھا۔ اخلاقی اور جسمانی طاقت کی یکجائی کا معجزہ۔

حصہ