آخر شب کے ہم سفر

215

سیرام پور والوں کو راجہ رام موہن رائے کی طرف سے بڑی امیدیں تھیں۔ مگر انہوں نے عیسائی ہونے کے بجائے اُلٹے اُن سے مناظرے شروع کردیے کہ آخر گوڈ کو برہما ہی کیوں نہ کہا جائے؟ مشنری اُن کی روح کو بالآخر نہ بچا سکے۔

یہ انگریز مشنری، واقعی بہت بھولے۔ بشپ ہیبر 1825ء میں ہندوستان کے دورے کے بعد لنکا گئے اور کینڈی کے شاہی محل کے دربا ہال میں ڈیوائن سروس منعقد کی۔ اور ان کے ساتھی مسٹر روبنسن نے اس موقع کے متعلق بعد میں لکھا۔ ’’سروس کے بعد میں اور بشپ ہیبر گھر لوٹے اور میں نے بشپ سے کہا۔ عبادت کے دوران مجھے خیال آیا کہ صرف چند سال قبل اسی ہال میں ایک جابر ایشیائی بادشاہ اپنی مظلوم رعایا کو درشن دیتا تھا۔ اور آج اس میں ایک عیسائی بشپ سچے دین کا پیغام سنارہا تھا، جب میں نے یہ کہا تو بشپ ہیبر نے سرجھکالیا۔ اور روپڑے‘‘۔

ان مشنریوں نے کالے مبلغ اور پادری تیار کیے۔ 1857ء کے بعد عیسائیت کو حکومت کا مکمل تعاون حاصل ہوچکا تھا۔ (انگریزوں کا عبادت خانہ… گِر… جا… بے چارے مسلمان جل کر کہتے تھے) کالا پادری چوراہوں اور سڑکوں پر تبلیغ کرتا پھر رہا تھا۔ اور مولویوں سے مناظرے کر رہا تھا۔ ہندو اور مسلمان دیسی عیسائیوں کو کالٹین، چمریشین اور پلپلی صاحب کہہ کر خوش ہولیتے تھے۔ لیکن تبدیلی مذہب کے بعد مظلوم اچھوتوں اور افلاس زدہ تعلیم یافتہ افراد کی زندگی بدل جاتی تھی۔ سری رام کرشن کے چیلے اور سوانح نگار مہندر ناتھ گپتا نے اپنی کتاب میں لکھا تھا کہ ایک مرتبہ انہوں نے مائیکل مدھو سو دن سے دریافت کیا کہ وہ عیسائی کیوں ہوگئے۔ تو انہوں نے اپنے پیٹ پر ہاتھ رکھ کر کہا تھا… اس کی خاطر۔

بھوک کے علاوہ ذہنی بے چینی بھی بنگال میں عیسائیت کے فروغ کی ایک وجہ تھی اٹھارویں صدی میں بنگال اور سارے ہندوستان کا ہندو سماج تنزل کی آخری حدود تک پہنچ چکا تھا۔ رام موہن رائے نے 1818ء میں ہندو کالج قائم کیا۔ اس کے طلبا اپنے مذہب سے برگشتہ ہوتے جارہے تھے۔ متعدد انگریزی تعلیم یافتہ برہمن خاندان عیسائی ہوگئے۔ عیسائیت ایک فاتح، عقلیت پرست، حیرت انگیز، شاندار قوم کا بڑا معقول مذہب تھا۔ نئے بنگالی مصلحین، ہندو، برہمو، عیسائی سبھی انگریز کے حامی تھے، جو اس اندھیرے ملک میں نئی روشنی پھیلا رہا تھا۔ صرف بنگالی مسلمان، جن کو انگریز نے کچل دیا تھا اور جو اس کے باوجود مجاہدین کی صفوں میں شامل ہو کر اس سے لڑے جارہے تھے۔ انگریزی دور اور انگریزی تعلیم کے دشمن تھے۔ اور بنگال کا پسماندہ طبقہ بن چکے تھے۔

کلکتہ میں بھدرا لوگ، کرانی اور بابو لوگ کی ایک نئی دنیا آباد ہوچکی تھی۔ اور انگریز بنگالی بابو کا بے طرح مذاق اُراتا تھا۔ انیسویں صدی کے آخر مین ایک انگریز طنز نگار نے انڈین ایمپائر کے متعلق اپنی ایک کتاب ’’سرعلی بابا کا سفر نامہ‘‘ میں لکھا تھا۔ ’’ہم بابو ازم کو ایمپائر میں کتنا ہی فروغ دیں۔ بابو کے وجود پر ہمیں آنسو بہانا چاہئے کہ بابو ایک سخت قابل رحم شے ہے۔ یہ بابو نئے مذہب، انگریزی موسیقی، آرٹ اور سائنس سے خوب پیٹ بھر کے جب موٹا ہوجائے گا تو اسی دولتی جھاڑے گا کہ ہم اس کا مذاق اڑانا بھول جائیں گے۔ اس کے پئٹنٹ لیدر جوتے، اس کی رشمی چھتری، اس سے ہزار ہارس پادر کے انگریز الفاظ اور جملے… اس کی مغربی خیالات کی جگالی… یہ سب ایک روز بے حد خطرناک ثابت ہوسکتے ہیں۔ سائنس، مغربی فلسفے اور مشنریوں نے اس کے دماغ کو اتنا چکا چوند کردیا ہے کہ اب اس کا اپنی پرانی حیثیت پر واپس جانا مشکل ہے…‘‘

’’سرعلی بابا کے سفرنامے‘‘ کا یہ مضمون پادری بنرجی کو ایک مرتبہ ارجمند منزل میں نواب قمرالزماں چودھری نے اپنے کتب خانے کی ایک الماری سے نکال کر دکھلایا تھا۔

’’یہ دیکھئے بنرجی بابو… ہمارا صاحب بہادر ہم ہندوستانیوں کا کس بے پناہ حقارت سے ذکر کرتا ہے‘‘۔ نواب صاحب نے کہا تھا۔

ارجمند منزل
پادری بنرجی ارجمند منزل میں سیاسی بحث مباحثے سے ہمیشہ احتراز کرتے تھے۔ لیکن جب کبھی وہاں جاتے ڈرائنگ روم میں مسلم لیگ اور صوبجاتی سیاست کا تذکرہ چھڑا ملتا۔ اور ریورنڈ بنرجی چپکے بیٹھے سنا کرتے۔ ارجمند منزل ڈھاکے کی پرانی مسلم تہذیب، اردو شاعری، تھیٹر، راگ رنگ کے جلسوں، قدامت پرستی اور مسلم سیاست کا مرکز تھی۔ اور پادری بنرجی کو مسلم سیاست یا ہندو سیاست سے کوئی دلچسپی نہ تھی۔ وہ صدق دل سے انگریزی حکومت کے وفادار تھے۔

ارجمند منزل… یہ بھی کیا اتفاق تھا کہ ان کی قابل قدر لائقِ احترام اور نیک بخت بیوی ایستھر اُن کو ارجمند منزل کے وسیلے سے ملی۔ خداوند خدا کے وسیلوں کے اسرار کوئی نہیں سمجھ سکتا۔

نواب قمر الزماں چودھری ضلع فرید پور کے زمیندار تھے۔ اور گری بالا چٹو پادھیائے ان کے علاقے کے ایک غریب برہمن کی لڑکی تھی۔ اور پانچ برس کی عمر میں بیوہ ہوگئی تھی۔ باپ کے مرنے کے بعد پندرہ سال کی عمر تک اس نے سسرال میں ہر طرح کے ظلم سہے۔ اور ایک رات چپکے سے نائو میں بیٹھ کر ڈھاکے بھاگ آئی۔ اور ارجمند منزل پہنچ کر نواب قمرالزماں کی والدہ بیگم نور الزماں سے فریادی ہوئی۔ بڑی بیگم صاحبہ نے اسے فوراً اپنی پناہ میں لے لیا۔ اور کچھ عرصے تک اسے ارجمند منزل کے زنان خانے میں رکھا۔ جب نوجوان نواب زادے نے اس میں دلچسپی لینا شروع کی تو بیگم صاحبہ نے سوچا کہ کلمہ پڑھا کر زمینداری کے کسی اہلکار کے ساتھ اس کا نکاح کروادیں۔ مگر تقسیم بنگالہ کے بعد ہندو مسلم تعلقات بے حد کشیدہ ہوچکے تھے۔ اور گِری بالا کے تبدیلی مذہب سے فوراً فرقہ وارانہ فساد کا خدشہ تھا۔ (گو یہ بات بے حد دلچسپ تھی کہ عیسائی ہوجانے پر ہندو عیسائی فساد نہیں ہوتے تھے) اس موقع پر ڈھاکے کے انگریز بڑے پادری رائٹ ریورنڈر والفرڈ برائون کی میم آڑے آئیں۔ میم صاحبہ ہفتے میں دو مرتبہ نواب زادیوں کو انگریزی پڑھانے ارجمند منزل آیا کرتی تھیں۔ بڑی بیگم نے گری بالا کو میم صاحب کے ذریعے اُن کے مشن اسکول میں داخل کروادیا۔ بڑے پادری دالفرڈ برائون صاحب نے اُسے بپتسمہ دے کر اپنی بیوی کے نام پر اس کا نام ایستھر میرین رکھا اور جب اس نے میٹرک کرلیا تو اس کی شادی پال میتھیو من موہن بنرجی سے کردی۔ پال بنرجی ایستھر سے عمر میں بیس سال بڑے تھے۔ مگر ایستھر بے حد خوشی کیوں کہ اسے عمر میں پہلی بار عزت اور آرام ملا تھا۔

رنگ پور میں بپتسمہ لینے کے بعد من موہن بنرجی ایک ہونہار مبلغ ثابت ہوئے تھے۔ انہیں مشن کی طرف سے برٹش اینڈ فارن بائیبل سوسائٹی میں ٹریننگ کے لیے لندن بھیجا گیا تھا۔ واپس آکر وہ صوبے کے مختلف دیسی پروٹسٹنٹ گرجائوں میں کیوریٹ رہے تھے اور اب ڈھاکہ میں اس دیسی گرجا کے پادری تھے۔

ریورنڈ بنرجی نے کھڑکی کے شیشے میں اپنا عکس دیکھا۔ شمالی بنگال کے ایک گائوں کا وہ سولہ سالہ برہمن لڑکا۔ گھسا ہوا سیاہ کوٹ پتلون پہنے، بغیر فریم کی عینک لگائے، سنجیدہ، نوجوان مبلغ، جو کبھی اپنی سائیکل پر مسلم بستیوں کی طرف نکل جاتا تو لونڈے اس کے پیچھے دوڑ کر تالیاں بجاتے اور وہ یسوع کی خاطر یہ سب ذلتیں سہتا… اور آج، 20 دسمبر 1939ء کی رات، ڈھاکہ چرچ کا یہ بزرگ پادری… خداوند خدا کی برکتوں کا مشکور پال میتھیو بنرجی… راستہ طے کرتے کرتے ایک وقت ایسا آتا ہے، جب انسان پیچھے مڑ کر اپنی زندگی کا جائزہ لیتا ہے۔ اور اپنے ماضی کو سکھ اور دکھ کے ترازو میں تولتا ہے اور کتنے لوگ ہیں جن کے ہاں سکھ کا پلڑا بھاری ہو؟

ریورنڈ بنرجی نے عینک اُتار کر پلکوں پر انگلیاں پھیریں۔ خداوند خدا نے مجھے کیا کچھ نعمتیں نہیں دیں۔ ایک سعادت مند گلہ، ایک محبت شعار بیوی۔ ایک پیاری اور فرمانبردار بیٹی۔

انہوں نے ایک گہرا سانس لے کر دوبارہ قلم اُٹھایا اور نب ددات میں ڈبو کر کرسمس کا وعظ لکھنا شروع کردیا۔

پادری بنرجی کی اکلوتی لاڈلی بیٹی روزی لِلی کاٹج کے سِٹنگ روم میں بیٹھی مریمؑ کی مورتی کے لیے مُنّی سی نیلی ساری پر سچا لچکا ٹانک رہی تھی۔ جو وہ کالج سے لوٹتے ہیں جہاں آرا کے گھر سے لیتی آئی تھی کہ ارجمند منزل کے زنان خانے کی الماریوں میں سچے کوٹے لچکے کی افراط تھی یوں وہ ارجمند منزل بہت کم جاتی تھی۔ وہ جہاں آرا کی بڑی پکی سہیلی تھی۔ مگر جب سے وہ بڑی ہوئی تھی اور اس کی ایک پھوپھی نے اسے اس کی ماں کی زندگی کی داستان سنائی تھی اُسے ارجمند منزل جاتے ہوئے جھینپ سی آتی تھی۔ جہاں آرا نے کبھی اس سے اس داستان کا ذکر نہیں کیا تھا اور وضعداری کی وجہ سے کالج میں بھی اس نے روزی کی ماں کا وہ المناک پس منظر کسی کو نہیں بتایا۔ اس کے باوجود روزی کا لاشعوری طور پر نوابوں اور زمینداروں کے مسلمان معاشرے اور قدیم وحشیانہ رسوم سے جکڑے تنگ نظر ہندو سماج سے نفرت تھی۔ ساتھ ہی اسے اپنے دیسی عیسائی طبقے کی مضحکہ خیز حیثیت کا بھی خاصا احساس تھا۔ ہندو سماج نے اُس کی بھولی ماں کو تین سال کی عمر میں بیاہ کر اور پانچ سال کی عمر میں بال ودھوا بنا کر اس پر ظلم توڑے تھے۔ مسلمان زمینداروں کے نونہالوں نے یعنی خود جہاں آرا کے باپ اور ان کے دوستوں نے اس کی بے سہارا ماں کو اپنا کھلونا بنانا چاہتا تھا۔ لیکن اس کے برعکس عیسائی سوسائٹی نے اُس کی ماں کو عزت، تعلیم و تربیت اور گھر عطا کیا تھا۔ ان سارے آپس میں الجھے ہوئے حقائق کے باوجود بیس سالہ حساس اور ذہین روزی بنرجی جذباتی اور ذہنی طور پر خود کو ایک دوراہے پر موجود پا رہی تھی۔ وہ خود کو خالص ہندوستانی کلچر اور قومی سیاسی عزائم سے مماثل کرنا چاہتی تھی۔ لیکن اس کا عیسائی سماج انگریز کا تخلیق کردہ تھا۔ اور انگریز کا نمک حلال تھا۔ اور یہ باتیں وہ اپنے شفیق اور نیک طینت باپ سے کسی طرح نہ کہہ سکتی تھی۔ کسی سے نہ کہہ سکتی تھی۔ اور اس کی ماں ایستھر گری بالا بنرجی عیسائی ہونے کے باوجود ایک خالص بنگالی پتی ورتا گھریلو عورت تھی۔ جسے ان مسائل سے کوئی دلچسپی نہ تھی۔

تبدیلی مذہب کے باوجود جنوبی ہند کے عیسائیوں کی مانند بنگالی عیسائیوں پر بھی اپنے صوبے کی کلچر کا گہرا اثر باقی تھا۔ مسز ایستھر بنرجی کی سسرالی عورتیں بنگال کی بیشتر برہمن اور دوسری اونچی ذات کی عیسائی خواتین کی طرح مانگ میں سیندور لگاتی تھیں اور مذہبی رسوم کے علاوہ ساری پرانی ریت رسموں کی پابند تھیں۔

روزی اسکول کی آٹھویں کلاس سے دیپالی سرکار کی ہم جماعت تھی۔ بڑی ہونے پر چھٹی کے گھنٹوں میں درختوں کے نیچے بیٹھ کر وہ سینئر لڑکیوں سے سیاسی گفتگو سنتی۔ تحریک آزادی کا ہر طرف چرچا تھا۔ بہت سی باتیں ابھی پلے نہیں پڑتی تھیں۔ لیکن بنگال انقلابی تحریک کا پرانا گڑھ تھا اور ان نو عمر لڑکیوں کی سمجھ میں یہ بات آگئی تھی کہ انگریز کو مار مار کر بھوسہ بھر کے دیس سے نکال دو۔

پرانی دہشت پسند پارٹی انوشیلن کے ہیڈ کوارٹرز بردوان ضلع سے آئی ہوئی ابانی اپنے ماں باپ سے سنے ہوئے اور بندوگھوش اور سوامی دویکانند کے انقلابی بھائی بھوپندردت کے قصے چھیڑتی۔ اس صدی کے شروع میں ہندوستانی انقلابی آئرلینڈ کے SIN FEIN روس کے سوشل ڈیموکریٹس اور میزنی کے ’’ینگ اٹلی‘‘ سے متاثر ہوئے تھے۔ جنہوں نے اسی زمانے میں تہلکہ مچا رکھا تھا وہ ڈبلیو بی ایٹس کا آئرلینڈ… ایٹس جو اپنے ملک کی آزادی کا نقیب تھا۔ اور ساتھ ہی عارفانہ نظمیں لکھتا تھا۔ اور جو ہندوستانی روحانیت کا مداح تھا۔ دویکانند، ٹیگور، ایٹس… وہ بھی کیا زمانے تھے۔ رومینٹک اور ولولہ خیز اور دلکش۔ روزی ان سب باتوں کو سن کر سوچا کرتی۔ اور 1905ء کے ان انقلابیوں نے لیفٹیننٹ گورنر کو مارنے کے ارادے سے ریلوے لائن پر ایک چھوڑ تین تین بار بار ود بچھائی تھی۔ اور علی پور سازش شروع ہوئی تھی۔ اور سی آر داس نے اور بندوگھوش کا مقدمہ لڑا تھا۔ اور اسی وقت برین گھوش نے کہا تھا ہم انگریزوں کو مار کر آزادی حاصل کرنے کے خواب نہیں دیکھ رہے۔ ہم صرف یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ ہم میں مارنے اور مرنے کی ہمت ہے۔ یورپ میں ہندوستانی طلبا نے انقلابی گروہ بنائے تھے۔ سکھ کسانوں نے امریکا اور کینیڈا میں غدر پارٹی قائم کی تھی۔ 1909ء میں سرکرزن ولیؔ کو جو ہندوستان کے خلاف قانون بنا رہا تھا۔ لندن میں ایک ہندوستانی طالب علم مدن لال نے گولی کا نشانہ بنادیا تھا اور پھانسی پر چڑھا تھا۔ دہلی میں لارڈ ہارڈنگ پر بم پھینکا گیا تھا۔ اور چار نوجوان دار پر جا لٹکے تھے۔ آج سے پچیس سال پہلے مغربی سامراجیوں نے آپس میں اسی طرح کی ایک بھیانک جنگ لڑی تھی۔ اور اس زمانے میں ہندوستانی انقلابیوں نے برلن کمیٹی بنائی تھی۔ جس میں سرد جنی دیوی کے بھائی دیربندر چٹوپادھیائے اور راجہ مہندر پرتاب اور بھوپندر ناتھ دت اور سوہن سنگھ اور برکت اللہ اور چمپک رمن پلّے اور ایم این رائے شامل تھے۔ بنگالی، پنجابی، مدراسی، ہندو، مسلمان، سکھ، کون کہتا ہے کہ ہندوستانی قوم متحد نہیں ہوسکتی…؟ اور غدر پارٹی کے اراکین امریکا سے ہندوستان پہنچے تھے۔ اور 21 فروری 1915ء نئے غدر کی تاریخ مقرر ہوئی تھی۔ اور فوجی سپاہی، یوپی اور پنجاب میں غدر شروع کرنے والے تھے۔ جب کسی میر جعفر نے پھر حکومت سے مخبری کردی۔ پھر کتنوں کو پھانسی لگی۔ کتنے کالے پانی گئے۔  (جاری ہے)

حصہ