شعرو شاعری

168

جگر مراد آبادی
دنیا کے ستم یاد نہ اپنی ہی وفا یاد
اب مجھ کو نہیں کچھ بھی محبت کے سوا یاد
میں شکوہ بلب تھا مجھے یہ بھی نہ رہا یاد
شاید کہ مرے بھولنے والے نے کیا یاد
چھیڑا تھا جسے پہلے پہل تیری نظر نے
اب تک ہے وہ اک نغمۂ بے ساز و صدا یاد
جب کوئی حسیں ہوتا ہے سرگرمِ نوازش
اس وقت وہ کچھ اور بھی آتے ہیں سوا یاد
کیا جانئے کیا ہو گیا ارباب جنوں کو
مرنے کی ادا یاد نہ جینے کی ادا یاد
مدت ہوئی اک حادثۂ عشق کو لیکن
اب تک ہے ترے دل کے دھڑکنے کی صدا یاد
ہاں ہاں تجھے کیا کام مری شدتِ غم سے
ہاں ہاں نہیں مجھ کو ترے دامن کی ہوا یاد
میں ترک رہ و رسم جنوں کر ہی چکا تھا
کیوں آ گئی ایسے میں تری لغزشِ پا یاد
کیا لطف کہ میں اپنا پتہ آپ بتاؤں
کیجے کوئی بھولی ہوئی خاص اپنی ادا یاد
…٭…
افتخار عارف
بکھر جائیں گے ہم کیا جب تماشا ختم ہوگا
مرے معبود آخر کب تماشا ختم ہوگا
چراغِ حجرۂ درویش کی بجھتی ہوئی لو
ہوا سے کہہ گئی ہے اب تماشا ختم ہوگا
کہانی میں نئے کردار شامل ہو گئے ہیں
نہیں معلوم اب کس ڈھب تماشا ختم ہوگا
کہانی آپ الجھی ہے کہ الجھائی گئی ہے
یہ عقدہ تب کھلے گا جب تماشا ختم ہوگا
زمیں جب عدل سے بھر جائے گی نور علیٰ نور
بنامِ مسلک و مذہب تماشا ختم ہوگا
یہ سب کٹھ پتلیاں رقصاں رہیں گی رات کی رات
سحر سے پہلے پہلے سب تماشا ختم ہوگا
تماشا کرنے والوں کو خبر دی جا چکی ہے
کہ پردہ کب گرے گا کب تماشا ختم ہوگا
دلِ نا مطمئن ایسا بھی کیا مایوس رہنا
جو خلق اٹھی تو سب کرتب تماشا ختم ہوگا
قتیل شفائی
کھلا ہے جھوٹ کا بازار آؤ سچ بولیں
نہ ہو بلا سے خریدار آؤ سچ بولیں
سکوت چھایا ہے انسانیت کی قدروں پر
یہی ہے موقعِ اظہار آؤ سچ بولیں
ہمیں گواہ بنایا ہے وقت نے اپنا
بنامِ عظمتِ کردار آؤ سچ بولیں
سنا ہے وقت کا حاکم بڑا ہی منصف ہے
پکار کر سرِ دربار آؤ سچ بولیں
تمام شہر میں کیا ایک بھی نہیں منصور
کہیں گے کیا رسن و دار آؤ سچ بولیں
بجا کہ خوئے وفا ایک بھی حسیں میں نہیں
کہاں کے ہم بھی وفادار آؤ سچ بولیں
جو وصف ہم میں نہیں کیوں کریں کسی میں تلاش
اگر ضمیر ہے بیدار آؤ سچ بولیں
چھپائے سے کہیں چھپتے ہیں داغ چہرے کے
نظر ہے آئنہ بردار آؤ سچ بولیں
قتیلؔ جن پہ سدا پتھروں کو پیار آیا
کدھر گئے وہ گنہ گار آؤ سچ بولیں
…٭…
علی سردار جعفری
خرد والو جنوں والوں کے ویرانوں میں آ جاؤ
دلوں کے باغ زخموں کے گلستانوں میں آ جاؤ
یہ دامان و گریباں اب سلامت رہ نہیں سکتے
ابھی تک کچھ نہیں بگڑا ہے دیوانوں میں آ جاؤ
ستم کی تیغ خود دستِ ستم کو کاٹ دیتی ہے
ستم رانو تم اب اپنے عزا خانوں میں آ جاؤ
یہ کب تک سرد لاشیں بے حسی کے برف خانوں میں
چراغِ درد سے روشن شبستانوں میں آ جاؤ
یہ کب تک سیم و زر کے جنگلوں میں مشقِ خونخواری
یہ انسانوں کی بستی ہے اب انسانوں میں آ جاؤ
کبھی شبنم کا قطرہ بن کے چمکو لالہ و گل پر
کبھی دریاؤں کی صورت بیابانوں میں آ جاؤ
ہوا ہے سخت اب اشکوں کے پرچم اڑ نہیں سکتے
لہو کے سرخ پرچم لے کے میدانوں میں آ جاؤ
جراحت خانۂ دل ہے تلاشِ رنگ و نکہت میں
کہاں ہو اے گلستانو گریبانوں میں آ جاؤ
زمانہ کر رہا ہے اہتمام جشن بے داری
گریباں چاک کر کے شعلہ دامانوں میں آ جاؤ
…٭…
محسن احسان
لباس تن پہ سلامت ہیں ہاتھ خالی ہیں
ہم ایک ملک خدا داد کے سوالی ہیں
نہ ہم میں عقل و فراست نہ حکمت و تدبیر
مگر ہے زعم کہ جمعیتِ مثالی ہیں
منافقت نے لہو تن میں اتنا گرمایا
کہ گفتگو میں ریا کاریاں سجا لی ہیں
خود اپنے آپ سے کد اس قدر ہمیں ہے کہ اب
روایتیں ہی گلستاں کی پھونک ڈالی ہیں
ہمارے دل ہیں اب آماج گاہِ حرص و ہوس
کہ ہم نے سینوں میں تاریکیاں اگا لی ہیں
نشیمنوں کو اجاڑا کچھ اس طرح جیسے
کہ فاختائیں درختوں سے اڑنے والی ہیں
کسی غریب اپاہج فقیر کی محسنؔ
کسی امیر نے بیساکھیاں چرا لی ہیں
…٭…
امیر قزلباش
مرے جنوں کا نتیجہ ضرور نکلے گا
اسی سیاہ سمندر سے نور نکلے گا
گرا دیا ہے تو ساحل پہ انتظار نہ کر
اگر وہ ڈوب گیا ہے تو دور نکلے گا
اسی کا شہر وہی مدعی وہی منصف
ہمیں یقیں تھا ہمارا قصور نکلے گا
یقیں نہ آئے تو اک بات پوچھ کر دیکھو
جو ہنس رہا ہے وہ زخموں سے چور نکلے گا
اس آستین سے اشکوں کو پوچھنے والے
اس آستین سے خنجر ضرور نکلے گا
ہر آدمی میں ہوتے ہیں دس بیس آدمی
جس کو بھی دیکھنا ہو کئی بار دیکھنا
(ندا فاضلی)
نئے کردار آتے جا رہے ہیں
مگر ناٹک پرانا چل رہا ہے
(راحت اندوری)
ایک آنسو بھی حکومت کے لیے خطرہ ہے
تم نے دیکھا نہیں آنکھوں کا سمندر ہونا
(منور رانا)
کانٹوں سے گزر جاتا ہوں دامن کو بچا کر
پھولوں کی سیاست سے میں بیگانہ نہیں ہوں
(شکیل بدایونی)
دھواں جو کچھ گھروں سے اٹھ رہا ہے
نہ پورے شہر پر چھائے تو کہنا
(جاوید اختر)
دیکھو گے تو ہر موڑ پہ مل جائیں گی لاشیں
ڈھونڈوگے تو اس شہر میں قاتل نہ ملے گا
(ملک زادہ منظور احمد)
عشق میں بھی سیاستیں نکلیں
قربتوں میں بھی فاصلہ نکلا
(رسا چغتائی)
سمجھنے ہی نہیں دیتی سیاست ہم کو سچائی
کبھی چہرہ نہیں ملتا کبھی درپن نہیں ملتا
(نامعلوم)
ان سے امید نہ رکھ ہیں یہ سیاست والے
یہ کسی سے بھی محبت نہیں کرنے والے
(نادم ندیم)
یہ سچ ہے رنگ بدلتا تھا وہ ہر اک لمحہ
مگر وہی تو بہت کامیاب چہرا تھا
(عنبر بہرائچی)

حصہ