بچوں کے بعد زندگی میں تبدیلیاں

161

انسانی زندگی میں تغیرات رونما ہوتے رہتے ہیں اور ان کا دارومدار گزرتی زندگی کے مختلف حصوں پر ہوتا ہے۔ بچپن، لڑکپن، جوانی، بڑھاپا، غرض زندگی یکساں نہیں گزرتی بلکہ ہر آنے والا دن ہمیں کچھ نہ کچھ سکھاتا ضرور ہے۔ ان چھوٹی چھوٹی تبدیلیوں اور آزمائشوں سے گزر کر انسان تجربے کی بھٹی میں تپ کر کندن بنتا ہے۔ اگر ہم طائرانہ نظر ڈالیں تو زندگی کے دو حصے ہوتے ہیں۔ ازدواجی زندگی اور غیر ازدواجی زندگی۔ غیر ازدواجی زندگی ازدواجی زندگی کی نسبت آسان سمجھی جاتی ہے کیوں کہ اس میں ذمہ داریوں کا تناسب نسبتاً کم ہوتا ہے۔ اسلامی معاشرے میں ازدواجی زندگی میں میاں بیوی دونوں کا کلیدی کردار ہوتا ہے۔ شوہر نان نفقے کے ساتھ ساتھ بیوی بچوں کی بیشتر چیزوں کی ذمہ داری اپنے کاندھوں پر رکھتا ہے۔ اسی طرح بیوی نہ صرف اپنے گھر کی بلکہ شوہر کے گھر والوں کی خدمت بھی اپنی ذمہ داری اور فرضِ عین سمجھتی ہے۔

لیکن اس بات سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ والدین بننے کے بعد انسان کی سوچ کا زاویہ اور ذمہ داریوں کا احساس یکسر تبدیل ہوجاتا ہے۔ وہ اپنی ذات سے پہلے اپنی اولاد کے بارے میں سوچتا ہے۔ اپنے منہ میں نوالہ ڈالنے سے پہلے اپنے بچوں کو کھلاتا ہے۔ بچوں کی تربیت میں کسی قسم کی کمی نہیں رکھتا۔ چاہے وہ ماں ہو یا باپ… اولاد دونوں کی آنکھوں کا تارا ہوتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اولاد کے بعد زندگی ویسی نہیں رہتی جیسے پہلے ہوتی ہے۔ انسان کے نظامِ الاوقات اپنی اولاد کے حساب سے چلتے ہیں۔ بہ حیثیت مسلمان ہمارے معاشرے میں والدین بچوں کو نہ صرف اچھا انسان بنانے کی کوشش کرتے ہیں بلکہ ایک بہترین مسلمان کے روپ میں بھی دیکھنا چاہتے ہیں۔ اس کے لیے وہ دن رات کوشاں رہتے ہیں اور نہ صرف ان کو بہترین ماحول دیتے ہیں بلکہ ان کی نظر میں اپنے آپ کو بھی بہترین انسان بناکر پیش کرتے ہیں، اور اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اسلامی معاشرے میں ماں اور باپ کے درجات بہت بلند ہیں۔ ان کی ہر نیکی کے بدلے نہ صرف ان کو اخروی اجر ملتا ہے بلکہ ان کی اولاد کی بہترین تربیت کی شکل میں ان کو دنیاوی اجر بھی ملتا رہتا ہے، اور یہی نیک اولاد ان کے لیے صدقۂ جاریہ بن جاتی ہے۔

والدین کی انتھک محنت اور قربانیوں کا کوئی نعم البدل نہیں۔ قرآن شریف نے ماں باپ کے حق میں آیات نازل کرکے ان کے مرتبے کو اور اونچا کردیا ہے۔ احادیث کی روشنی میں بھی ماں باپ کا بہت بلند مقام ہے۔

عمومی طور پر شادی سے پہلے انسان صرف اپنے بارے میں سوچا کرتا ہے۔ شادی کے بعد زندگی رنگینیوں اور ر عنائیوں سے بھر جاتی ہے۔ سنت کے مطابق کیے گئے ہر عمل میں بے شک برکت ہوتی ہے اور نکاح بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ شادی کے بعد اور بچوں کی پیدائش سے پہلے تک کا ایک مختصر عرصہ ہوتا ہے جو انسان شاید اپنے لیے جیتا ہے، اس کے بعد اُس کی زندگی اپنے بچوں کی تربیت کے لیے وقف ہوجاتی ہے۔ وہ اپنے بچوں کو دیکھ دیکھ کر خوش ہوتا ہے اور اپنی اور ان کی آخرت کی فکر میں لگا رہتا ہے۔ اسی بات کو مدنظر رکھتے ہوئے وہ سارے کام چھوڑنے ہوتے ہیں جو اللہ کی ناراضی کا سبب بنتے ہیں یا اس کے بچوں کی تربیت پر اثرانداز ہوسکتے ہیں۔

جو عادتیں انسان کو اپنے اندر اچھی نہیں لگتیں وہ اپنے بچوں میں کبھی بھی منتقل نہیں ہونے دینا چاہتا، اس کے لیے وہ اپنے آپ کو یکسر تبدیل کرلیتا ہے۔

غرض بچوں کے بعد زندگی بالکل ویسی نہیں رہتی جیسی پہلے ہوتی ہے، لیکن یہ بھی ایک مسلمان کے لیے بہت بڑا شکر گزاری کا عمل ہوتا ہے کہ اللہ پاک نے اس کو صاحبِ اولاد بنایا اور بہترین ساخت پر اولاد سے نوازا۔ اس لیے ایک مسلمان کا بھی فرض بنتا ہے کہ وہ اپنی زندگی کی غلطیوں پر نظر رکھے، کوشش کرے کہ ان غلطیوں اور خامیوں کو دور کرے، اس کے لیے اللہ سے مدد مانگے کہ بہترین ماں باپ کے روپ میں اپنی اولاد کی تربیت کرنے والا بنائے تا کہ یہ اولاد ان کے لیے صدقۂ جاریہ بن سکے ۔

حصہ