اسلامی جمعیت طالبات کے زیر اہتمامدی کوئسٹ فیملی اسٹوڈنٹس ایکسپو

142

مجھے ڈرا نہیں سکتی فضا کی تاریکی
مِری سرشت میں ہے پاکی و دُرخشانی
تُو اے مسافرِ شب! خود چراغ بن اپنا
کر اپنی رات کو داغِ جگر سے نْورانی

اقبال کے ان معرکہ آرا اشعار کو عنوان بنا کر اسلامی جمعیت طالبات پاکستان نے ملک بھر ’’دی کوئسٹ‘‘ کے نام سے رواں برس کی سب سے بڑی دعوتی سرگرمی فیمیلز اسٹوڈنٹس ایکسپو منعقد کی۔ اب تک ملک کے کئی شہروں میں کامیابی سے منعقد ہونے والا یہ ایکسپو 6 جنوری 2024کو پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کے مقامی نز بینکویٹ میں منعقد ہوا جہاں تقریبا ًپانچ ہزار طالبات نے شرکت کی۔ ان مستفید ہونے والی طالبات کا تعلق شہر کے ہر علاقے اور طبقے کے اسکولوں، کالجوں اور اعلیٰ تعلیمی اداروں سے تھا۔ اسلامی جمعیت طالبات کے اس تاریخ ساز، منفرد اور شاندار ایکسپو کا مقصد اپنی دعوت کی تشہیر کے ساتھ ساتھ طالبات کو مثبت تفریح ، صحت مند اور تعمیری سرگرمیوں کا موقع فراہم کرنا، طالبات کی صلاحیتوں کی حوصلہ افزائی کرنا اور نوجوانوں کو مقصدِ زندگی سے روشناس کرانا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اس سرگرمی کا عنوان’’دی کوئسٹ‘‘ رکھا گیا یعنی اپنی ذات اور مقصدِ زندگی کی تلاش اور جستجو میں لگے رہنا ہے۔

اس کا آغاز مقررہ وقت گیارہ بجے ’’سورہ ملک‘‘کی تلاوت سے کیا گیا۔ پھر نعت رسول مقبولؐ پیش کی گئی جس نے ہال کی چار دیواری میں اک پرسکوں سماں باندھ دیا تھا۔

اس کے بعد ناظمہ کراچی،اسلامی جمعیت طالبات پاکستان محترمہ عائشہ رضوان نے شرکا سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آج کے نوجوان کل کے مستقبل کے معمار ہیں لہٰذا اپنے مقصد وجود کو پہچانیں، اس کے زریعے رب کی رضا حاصل کرنے کی جدوجہد کریں۔ ساتھ میں انہوں نے تعارفِ جمعیت بھی دیا۔

اگلی مہمان خصوصی ناظمہ اعلیٰ محترمہ اسما اعجاز تھیں جو کراچی کے اس ایکسپو میں شرکت کے لیے خصوصی طور پہ پنجاب سے تشریف لائی تھیں۔ ناظمہ اعلیٰ نے طالبات سے مخاطب ہو کر پیغام دیا کہ مقصد وجود کو پہچاننے کی جستجو ہمارے اندر ہمیشہ رہنی چاہیے اور اس جسجتو کے ذریعے انفرادی و اجتماعی زندگی میں اسلام کو رائج کرنے کی کوشش کرتے رہنا چاہیے۔

اس کے بعد طالبات کے لیے نہایت ہی دلچسپ اوراہم ” پینل ٹاک بعنوان Youthful Resilience کا انعقاد ہوا جس کے مہمان اسپیکرز میں ماہر تعلیم اور محقق جناب معروف بن رؤوف صاحب، نائب امیر جماعت اسلامی کراچی اسامہ رضی ، بانی اور ڈائریکٹر ERDC سلمان آصف صدیقی تھے۔

پینل ٹاک میں کئی اہم موضوعات پہ بات ہوئی تھی جن میں سے ایک اہم بات یہ کہ دور حاضر میں لڑکیوں کا معاشرے میں کیا کردار ہونا چاہیے؟ سر سلمان آصف نے بتایا کہ ہماری زندگی میں دو بنیادی نظریے ہیں۔ پہلا یہ کہ ہمیں پیدا کیوں کیا؟اور دوسرا زندگی کا مقصد کیا ہے؟ہمیں ان دو مقاصد کو پہچاننا ہے۔

نظام تعلیم پر بھی اچھی خاصی بات چیت ہوئی جس پر معروف بن رؤوف صاحب نے کہا کہ آج ہماری زندگی کا مقصد مال کے گرد ہی گھوم رہا ہے۔ ہم نے تعلیم کا حصول مال کا حصول بنایا ہوا ہے۔ 94فیصد اسکولز پاکستان میں صرف سائنس سے میٹرک کروا رہے ہیں۔ آرٹس کوئی لینا پسند نہیں کرتا۔ دنیا کی بڑی یونیورسٹیوں میں سوشل سائنس کو پروموٹ کیا جاتا ہے کیوں کہ یہ انسانوں سے ڈیل کرتی ہے۔ انھوں نے یکساں نصاب تعلیم کی اہمیت پر بھی بات کی۔

پینل ٹاک کے بعد مہمان فلسطینی خاتون محترمہ صبرین عبدالحق صاحبہ کا سیشن تھا جوکہ اب پاکستان میں مقیم ہیں۔

آغاز سیشن غزہ کے حالات کے متعلق ایک ڈاکیومینٹری سے کیا گیا جو ہال کی مین اسکرین پر پیش کی گئی۔

اس سیشن کا موضوع’’زیتون کے درخت کی بیٹیاں: فلسطین سے طاقت کی کہانیاں‘‘ تھا۔ صبرین عبدالحق نے بتایا کہ مقدس سرزمین کے باشندے کے طور پر ان کی پرورش کیسے ہوئی۔ مغربی کنارے میں گزارے اپنے دنوں کے بارے میں ہمیں روشناس کیا۔ ساتھ ہی یہ بھی بتایا کہ غزہ کے لوگ کیسے مختلف ہیں۔ بچپن سے ان کی پرورش کیسے ہوئی ہے۔ کیا چیز انہیں جوانوں سے لے کر بوڑھے تک اپنے عقیدے, ایمان اور زمین کے لیے اس قدر لچکدار، اور وفادار بناتی ہے۔

اس کے بعد مہمان خصوصی امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمن کا خطاب تھا جس میں انھوں نے فلسطین کی صورتحال پر بات کی کہ وہاں کا بچہ بچہ جدوجہد کی زندہ مثال ہے۔ یوتھ کیا کرسکتی ہے؟ ایک ملک کی strength دراصل اس کی یوتھ ہی ہوتی ہے۔ ہمیں کیسے کام کرنا ہے اور ہم کیسے اپنے ملک کو فائدہ دے سکتے ہیں یہ یوتھ کے سوچنے کا کام ہے۔ یہی یوتھ کل پاکستان کو ترقی کی شاہراہ پر گامزن بھی کرے گی۔

اگلا سیشن میں آئی ٹی ایکسپرٹ ملیحہ مسعودنے سوشل میڈیا کے مثبت استعمال اور دوران استعمال احتیاطوں پر بات کی۔

’’دی کوئسٹ‘‘ میں مختلف کارنز بنائے گئے تھے۔ ان کارنرز میں سے ایک “فلسطین کارنر” تھا۔ جس میں حماس اور طوفان الاقصیٰ کی تاریخ دکھائی جارہی تھی۔ یہاں فلسطینی جھنڈے اور کوفیاز وغیرہ تھے۔ اس کے علاوہ ’’جمعیت کارنر‘‘ بنایا گیا تھا۔ جس میں جمعیت کا انسگنیا نمایاں تھا۔اس کے علاوہ ’’سائنس کارنر‘‘ اور ’’حجاب کارنر‘‘ بھی بنائے گئے۔

“دی کوئسٹ” میں طالبات کے درمیان ان کی صلاحیتوں کو نکھارنے کیلیے مختلف مقابلہ جات کروائے گئے تھے۔ جس میں مصوری، پینٹنگ، خطاطی، فوٹوگرافی، ریل میکنگ، پلیٹر ڈیکوریشن، جرنلنگ وغیرہ شامل تھے۔ مقابلہ جات کے نتائج کا اعلان پروگرام کے آخری وقت میں کیا گیا اور جیتنے والیافراد کو شیلڈز سے نوازا گیا۔

بلاشبہ “دی کوئسٹ” نے شہر کراچی میں ایک نئی تاریخ رقم کی۔ اس میں طالبات ناصرف لطف اندوز ہوئیں بلکہ ایک مثبت پیغام اور مقصد زندگی کو پانے کی جستجو کو لے کر اپنے گھروں کو روانہ ہوئیں۔ ’’دی کوئسٹ‘‘ کی جھلکیاں جمعیت طالبات کراچی کے آفیشل فیس بک اور انسٹاگرام پیج پر بھی اپ لوڈ کی گئیں۔ اس ایکسپو کے ذریعے جمعیت طالبات نے یہ ثابت کیا کہ اسلامی جمعیت طالبات پاکستان، طالبات کی واحد نمائندہ تنظیم ہے اور یہ اس پرفتن دور میں طالبات کو کہفی زندگی کی جدوجہد (رب کی رضا) کی طرف گامزن کرتی ہے!!

حصہ