انتخابات اور سوشل میڈیا

181

غزہ تنتصر:
دنیا میں جو کچھ بھی ہورہا ہو، غزہ سے لاتعلق مت ہوئیے گا۔ اس ہفتے عظیم، بابرکت شب معراج بھی گزری ہے۔ 27 رجب کا وہ مبارک وقت جب خالق نے اپنے محبوب کو مسجدِ حرام سے مسجدِ اقصیٰ کا عظیم سفر کرایا۔ انبیاء کرام علیہم السلام کی امامت ہوئی۔ یہ وہ اقصیٰ ہے جس کی حفاظت تمام انبیاء نے فرمائی، اس کا تقدس خالق نے خود بیان کیا۔ اس مسجد سے معراج کا سفر منسوب ہے۔ قیامت تک اس مسجد سے ہر مسلمان کا قلبی تعلق رہے گا کہ خالق نے اس کا نام لے کر قرآن مجید میں محفوظ فرما دیا۔ 130 دنوں سے ناپاک اسرائیل امریکا و برطانیہ سمیت اس خطہ ارضی پر حملہ آور ہے۔ 4 ماہ میں ہمارے 27 ہزار کلمہ گو بھائی، بہنیں، بچے شہید ہوچکے ہیں۔ لاکھوں بے گھر، اور قحط کا شکار ہیں۔ مسجد اقصیٰ کے باہر یہودی فوجی آج بھی بندوقیں تانے کھڑے ہیں۔ پوری امت اپنی بے شمار غلطیوں، کوتاہیوں، معصیتوں کے ساتھ بے حس و حرکت ہے۔ غزہ کے مسلمانوں کی عزیمت کا کوئی مقابلہ نہیں۔ میں تو دعا کرتا ہوں کہ کاش سوشل میڈیا نہ ہوتا، اس طرح ہمیں وہ دل دوز مناظر نہ دیکھنے پڑتے۔ یہودیوں نے وہاں جانے والی امداد بھی روکنا و تباہ کرنا شروع کردی ہے۔ بمباری سے بچ جانے والے معصوم مسلمانوں کو وہ بھوک سے مارنا چاہتے ہیں۔ یہ ساری ناقابلِ بیان آزمائشیں مسلمان جس ایمانی جذبے سے برداشت کررہے ہیں، میں الفاظ میں بیان نہیں کرسکتا۔

الیکشن2024ء اور موبائل سگنل:
یہ بات درست ہے کہ موبائل فون کے سگنل صرف باہمی رابطوں کے لیے ہی استعمال نہیں ہوتے بلکہ ان کو بم دھماکوں میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ اب آپ اس کو ٹیکنالوجی کا کمال کہیں یا اس کا نقص… یہ آپ کے فہم پر منحصر ہے۔ حکومت خوف زدہ ہے مستقل بم دھماکوں اور دھمکیوں کی وجہ سے، اور شاید اُسے لگتا ہے کہ عوام کی جان بچانے اور امن قائم رکھنے کا یہی طریقہ ہے۔ وزارتِ داخلہ کا سوشل میڈیا پر یہی بیان آیا کہ ’’ہمارا صرف ایک کام تھا کہ ہم امن و امان برقرار رکھیں، اور ہم نے یہ کام بخوبی کیا، اس کا کوئی تعلق الیکشن کمیشن کے عمل سے نہیں تھا، یہ صرف عوام کے تحفظ کے لیے تھا۔ 8300 پر عوام کو ضرور مشکل پیش آئی ہوگی لیکن وزارتِ داخلہ کا اصل ہدف خطرات کا مقابلہ کرنا تھا جو ہم نے بخوبی لاکھوں جانوں کو بچا کر کیا۔ ایک پولنگ اسٹیشن کو ڈھونڈنے کے لیے تھوڑی مشکل برداشت کرلینا کسی پولنگ اسٹیشن پر موبائل کے ڈیٹونیٹر سے ہونے والے دھماکے سے بہت بہتر تھا۔‘‘ اس لیے حکومت نے انتخابات ملتوی کرنے کی خبروں کو دفن کرکے صرف موبائل فون کے سگنل بند کیے، الیکشن کے دن انٹرنیٹ بند نہیں کیا گیا۔ مگر ایسا کیوں لگتا ہے کہ موبائل نے ہماری زندگی میں امکانی طور پر آکسیجن و پانی جیسی جگہ بنا لی ہے؟ عجیب سوال ہے نا؟ مگر محسوس تو یہی ہوا ہے کہ ہم پر مشینوں کی حکومت قائم ہے۔

8 فروری کو پاکستان میں 12ویں قومی انتخابات ہوئے ہیں۔ 12 میں سے 8 انتخابات بغیر موبائل فون اور بغیر انٹرنیٹ کے ہوچکے ہیں، یعنی اِن مشینوں اور ٹیکنالوجی کے بغیر الیکشن، رابطے، نتائج سب کچھ گزشتہ 8 الیکشن میں ملک بھر میں ہوا ہے۔ یقین مانیں کہ امسال الیکشن کمیشن نے خود بتایا کہ بہت زبردست قسم کا الیکٹرانک مینجمنٹ سسٹم لایا گیا ہے، مگر ہم نے دیکھا کہ باوجود تمام وسائل و ذرائع کے، کوئی ٹیکنالوجی کام نہ کرسکی۔ ان سارے نتائج کے باوجود ہم پر مشینیں ہی حکومت کررہی ہیں اور ہم نے عملاً اپنے آپ کو مکمل ان کے حوالے کردیا ہے۔ تادم تحریر پولنگ ختم ہوئے 20 گھنٹے ہوچکے ہیں لیکن مکمل نتائج سامنے نہیں آسکے ہیں۔ اب جو اِس مصنوعی بلبلے میں ذرا سی سوئی چبھی تو سب نے چیخ مار دی۔ اب بھی وقت ہے اپنی حقیقت کو سمجھیں، انسان بطور عبد اس کائنات کو چلائے گا، مشینیں انسان کو نہیں چلائیں گی۔ محض چند مشینوں کی ایجاد سے ہماری معاشرت، ہمارا فہم اور تصورات سب کچھ اتنے کیسے بدل سکتے ہیں؟ اس لیے میں ہمیشہ ان واقعات پر یہ بات دہراتا ہوں اور یاد کراتا ہوں کہ یہ مشینیں، یہ ٹیکنالوجی غیر اقداری (value neutral)نہیں ہوتیں، یہ آسانی کے نام پر دھوکہ ہے، فریب ہے، دجل ہے۔ یہ اپنی نہاد میں بھی اتنی زہریلی اور خطرناک ہیں کہ انسان کی قوتِ مدافعت کمزور کردیتی ہیں۔ ایک امریکی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ موبائل فون کے استعمال سے جان لیوا ٹیومرز (گلیوما) میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔اس کے علاوہ کئی ایسے اثرات ہیں جو روزانہ آپ کو اند ر ہی اندر موت کے قریب لے جارہے ہیں۔

الیکشن نتائج میں دھاندلی :
بہرحال ہم چلتے ہیں الیکشن کی طرف۔ عوام بخوبی دیکھ رہے ہیں کہ یہ سب غیر اعلانیہ اقدامات حکومت کیوں کررہی ہے، مگر الیکشن کے 22گھنٹے بعد تک کے نتائج پر سوال اٹھتے رہے۔ شہزاد رائے نے ٹوئٹ کی کہ ’’انتخابات کے نتائج میں دیر کرنے کی تکنیکی بحث شاید آپ جیت جائیں، دل نہیں جیت سکیں گے“۔ ٹوئٹر پر ”مینڈیٹ پر ڈاکا نامنظور۔ RiggingAgainstPTI،MassiveTurnout، ریحانہ ڈار، ووٹ چوری نامنظور“ سمیت کئی ٹرینڈ بھی بتارہے تھے کہ عوام نے نمایاں طور پر آزاد اُمیدواروں یعنی سابقہ تحریک انصاف کے پلڑے میں اپنا وزن ڈالا ہے، پورا ملک ایک طرف، اور کراچی کے نتائج میں بہرحال الگ سوال اٹھائے جارہے ہیں کیوںکہ ایم کیو ایم کی کامیابی سب کے لیے سوالیہ نشان بنی ہوئی ہے۔ جماعت اسلامی کی جارحانہ مہم اپنی جگہ، مگر تمام تر سروے میں ایم کیو ایم بہرحال کہیں نہیں تھی۔ ساری ٹیلی فونک بندش کے باوجود سوشل میڈیا پر انتخابی دھاندلی کی وڈیوز وائرل رہیں۔ کراچی سے بالخصوص اتنی زبردست وڈیوز تھیں کہ ہمیں تو2013ء یاد آگیا۔ اِس بار ایم کیو ایم اور پی پی پی کی جانب سے باقاعدہ بیلٹ پیپرز پر ٹھپے لگے ہوئے تھیلے کے تھیلے پکڑے گئے۔ جماعت اسلامی کے کارکنان نے ایک رات قبل ہی واقعات کی نشاندہی کی جو سوشل میڈیا پر وائرل رہے۔ پھر اگلے دن تک یہ وڈیوز خوب شوق و ذوق سے دیکھی گئیں۔

مینڈیٹ کاراز:
پاکستانی جامعات میں الیکشن نتائج اور سوشل میڈیا کے اثرات پر 2013ء سے سروے و تحقیق ہونا شروع ہوئی۔ یہ سلسلہ 2018ء تک بخوبی چلا۔ اس میں امریکی و بھارتی الیکشنز نے مزید رنگ ڈالا۔ تحریک انصاف نے یہ کام یعنی سوشل میڈیا کا استعمال شعوری کوشش سے شروع کیا، اس کے بعد جماعت اسلامی، پھر نون لیگ، پھر پیپلز پارٹی اور پھر باقی سب اس لائن میں لگ گئے۔ سب نے دیکھا کہ تحریک انصاف کے لیے 2023-24ء کے درمیان عملاً حالات ایسے کردیے گئے کہ اُس کے لیے ماسوائے سوشل میڈیا کے کوئی ذریعہ نہیں بچا تھا۔ ایسے حالات کہ، نام تک لکھنے پر ایسی غیر اعلانیہ پابندی تھی کہ آپ تصور نہیں کرسکتے۔ یہی عمران خان تھے جنہوں نے جب ٹک ٹاکرز اور یوٹیوبرز کے ساتھ ملاقات کی تو مجھے یاد ہے کہ شدید مذاق بنا تھا، کئی صحافیوں نے اس پر شدید تنقید کی تھی، مگر یقین مانیں کہ پھر تمام سیاسی لیڈروں نے یہی کام کیا۔ وقت نے، اور اب تک کے الیکشن نتائج نے یہی ثابت کیا ہے کہ عمران خان بلاشبہ سوشل میڈیا کے کنگ ثابت ہوئے ہیں۔ بغیر کسی جلسے، بغیر کسی کارنر میٹنگ، کسی قسم کی لیول پلیئنگ فیلڈ کے بغیر عمران خان کے نامزد کردہ نمائندوں کی ایسی نمایاں کامیابی میں بہرحال سوشل میڈیا تختہ مشق بنارہا۔ قارئین کو یاد ہوگا کہ گزشتہ 20 دنوں میں جب بھی عمران خان کے نمائندوں نے کوئی سوشل میڈیا اجلاس کرنے کی کوشش کی تو سارے ملک کو انٹرنیٹ بندش جھیلنی پڑی۔ اس سب کے باوجود عمران خان کا بیانیہ عوام کے دلوں میں جگہ بنانے میں کامیاب رہا۔ میں نے بھی کراچی میں الیکشن کے دن کئی پولنگ اسٹیشنوں کے دورے میں عوام کا جم غفیر دیکھ کر اندازہ کرلیا تھا کہ ساری کوششوں کے بوجود کس کا بیانیہ کامیاب ہوگیا ہے۔

فیس بک کی 20ویں سالگرہ:
4فروری 2004ء سے شروع ہونے والے فیس بُک کو اس ہفتے 20 سال مکمل ہوگئے۔ فیس بُک دنیا کا مقبول ترین سوشل میڈیا پلیٹ فارم بن چکا ہے اور اپنے یہودی نوجوان مالک کو ارب پتی بنا چکا ہے۔ اس پلیٹ فارم نے پوری دنیا کی تہذیبوں کو تیزی سے دفن کرڈالا اور اس خوبصورتی سے کہ لوگوں کو احساس ہی نہیں کہ اُن کے پاس سے کیا چیز یکسرختم ہوگئی۔ اب کسی کو یاد بھی دِلاؤ تو وہ ایسے دماغ پر زور دے کر کہتا ہے کہ ’’ اوہ ہاں،مجھے یاد ہے ایک زمانے میں ایسا ہوتا تھا۔‘‘ ایسا بولتے وقت وہ یہ بھول جاتا ہے کہ ’’یہ زمانہ‘‘ محض 10-15سال ہی کا ہے،کوئی صدیوں کی بات نہیں۔

فیس بک کے ڈیزائن میں ایک درجن سے زائد مرتبہ تبدیلی آچکی ہے۔ 2004ء میں جب تیز رفتار انٹرنیٹ عام ہورہا تھا اور موبائل فون مقبول ہورہے تھے، مارک زکربرگ اور ہارورڈ یونیورسٹی میں ان کے کالج کے چند دوستوں نے 4 فروری کو ’دی فیس بک‘ کے نام سے ایک سوشل نیٹ ورک شروع کیا۔ چند سالوں کے اندر یہ پلیٹ فارم دنیا کے سب سے بڑے سوشل میڈیا نیٹ ورک کے طور پر سامنے آگیا اور مقبول ہوتا چلا گیا، آج فیس بُک کو 3 ارب سے زائد لوگ استعمال کررہے ہیں، جو دُنیا کے نصف سے زیادہ انٹرنیٹ صارفین اور دنیا کی ایک تہائی سے زیادہ آبادی ہے۔ اِس میں بھارت اور امریکا کے صارفین کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ فیس بک کو پہلے سال ہی 10 لاکھ صارفین مل گئے تھے۔ 2007ء میں صارفین کی تعداد 5 کروڑ تک پہنچ گئی، جو 2008 کے آخر تک دگنی ہو کر 10 کروڑ ہو گئی۔2012 میں جس سال فیس بک ایک ارب صارفین تک پہنچ گیا تھا، مارک زکر برگ نے اسے 104 ارب ڈالرز میں فروخت کرنا چاہا۔ 29 اکتوبر2021ء کو زکربرگ نے اعلان کیا کہ فیس بک کمپنی کا نام تبدیل کرکے میٹا رکھ دیا ہے۔ یاد رہے کہ میٹا کمپنی فیس بک، انسٹاگرام، تھریڈز، واٹس ایپ اور دیگر سروسز کی مالک ہے۔

ان 20 سالوں کا جائزہ لیں تو یہ پلیٹ فارم بنانے والا کہنے کو تو یہودی لڑکا ہے، مگر پیسہ کمانے کے سوا اس کی اپنی کوئی اخلاقیات نہیں۔ ہاں کمیونٹی اسٹینڈرڈ کے نام پر جو پیمانے اس نے بنائے ہیں، وہ تو یہی پیغام دیتے ہیں کہ کم ازکم یہودیوں سے محبت، امریکی مفادات و اسرائیلی مفادات کا تحفظ اُس کی ناگزیر ترجیحات میں سے ہے۔ اسلام سے اس کو ویسی ہی نفرت ہے جیسی قرآن مجید نے یہودیوں سے متعلق بیان کی ہے۔ آپ کو یقین نہیں آرہا تو آپ چند نام مثلاً ممتاز قادری، جہاد، حماس، طالبان، برہان وانی، ہولوکاسٹ یا سفید فام قوم پرستی پر کچھ لکھیں تو پتا لگ جائے گا۔ یہ بات واضح کرتی ہے کہ یہ سب پلیٹ فارم نیوٹرل نہیں، یہ آپ کو وہی اسلام، ویسا ہی اسلام پھیلانے کی اجازت دیتے ہیں جو اُن کے لیے تکلیف دہ نہ ہو، خواہ آپ کا ریٹنگ لیول انتہائی زیادہ کیوں نہ ہو۔ ہاں اس کے ساتھ فحاشی و عریانی کو پھیلنے سے روکنے کے لیے بھی فیس بک نے معیارات رکھے ہیں مگر وہ کسی طور رُکتی نظر نہیں آرہی۔

انٹرنیٹ کی اسپیڈ 3جی، 4جی اور 5 جی کی جانب جیسے جیسے گئی ہے، ویسے ہی سوشل میڈیا نے بھی اپنی جگہ بنائی ہے۔اِس دوران اسمارٹ فون کا ایک سیلاب تھا جو سرمایہ دارانہ نظام میں انسانوں کو ٹھونسنے کے لیے استعما ل ہوا۔ میں کئی بار بتا چکا ہوں کہ یہ سارا سوشل میڈیا ’’اٹینشن اکانومی ‘‘ ہے جو آپ کی توجہات،خواہشات، طلب، پسند، ناپسند کو مستقل فروخت کررہا ہے۔آپ اَپنے تئیں اس کے استعمال کنندہ ہوں یا خریدار.. مگر وہ آپ کو آگے بیچ رہا ہوتا ہے۔اس خریدنے بیچنے کی کوئی اخلاقیات نہیں ہوتی،صرف پیسہ کمانا ہوتا ہے، وہ آپ کا ہر نج، آپ کی ہر ذاتی چیز بیچ کر کیا جارہا ہوتا ہے۔یہ ایک انتہائی ہولناک، گھناؤنا اور شرمناک عمل ہے۔فیس بک کے گروپس،انسٹا گرام کے ساتھ مل کر ایک ایسی آن لائن منڈی بن چکے ہیں کہ اس کی حقیقت دیکھ کر انسانیت شرما جائے۔اس لیے آپ اس تحریر کو قطعاً سوشل میڈیا کی جانب رغبت مت سمجھیے گا، اس تحریر کا ایک ہی مقصد ہے کہ آپ کو ہر ہفتے اس سیلاب سے روکنا ہے، اس زہر سے بچانا ہے،اور براہِ کرم یاد رکھیں کہ کسی زہر کا، کسی سیلاب کا کوئی متبادل نہیں ہوتا، آپ کو اُس سے صرف بچنا ہوتا ہے۔

حصہ