آخر شب کے ہمسفر

201

’’اچھا۔ گوپال سے کہو برساتی میں لگادے۔ جلدی… ایک دم…‘‘ سلومے کی تصویر پر غیر ارادی طور سے ایک اچٹتی ہوئی نظر ڈال کر دیپالی ادما کے ساتھ مورننگ روم سے باہر آئی۔ ہال کے دروازے پر پہنچ کر ادما رائے نے کہا۔ ’’موٹر اپنے گھر سے کچھ فاصلے پر رکوانا‘‘۔ پھر انہوں نے دیپالی کی پیٹھ تھپک کر کامیابی کی اُمید ظاہر کی اور سرجھکائے گیلری میں چلی گئیں۔

دیپالی برآمدے میں نکلی۔ اور برساتی میں اُتر کر موٹر میں بیٹھ گئی۔ موٹر ایک جھونک کے ساتھ طویل ڈرائیور کا چکر کاٹ کر پھاٹک پر پہنچی۔ اب اس لمحے سے مین اپنی نئی ذمے داری کی معیت میں بالکل تنہا ہوں۔ اس نے سوچا۔ موٹر تیزی سے رمنا کی چوڑی، سنسان سڑک پر آئی۔ روشن وُوڈ لینڈز اچانک اندھیرے میں ڈوب گیا۔

دیپالی نے آگے جھک کر ڈرائیور سے کہا۔ ’’ذرا مشن کمپائونڈ کی طرف سے ہوتے چلو‘‘۔

(6)
ریورنڈ پال میتھیوبنرجی
مشن کمپائونڈ کے دیسی گرجا گھر کے اندر کرسمس کی تیاریوں کے سلسلے میں تیز روشنی ہورہی تھی۔ بڑے دن میں صرف چار روزہ رہ گئے تھے۔ کمپائونڈ میں سخت گہما گہمی اور رونق تھی۔ کرسمس ویک کے دوران دیسی مشنریوں کی سالانہ کانفرنس منعقد ہونے والی تھی۔ جس میں شرکت کے لئے الٰہ آباد، سیتاپور، آگرہ، شاہ جہاں پور، لدھیانہ، انبالہ، لاہور اور دوسرے بڑے بڑے مشنری مراکز کے نمائندہ مبلغین ڈھاکے آن پہنچے تھے اور کمپائونڈ میں لگے خیموں میں ٹھہرے ہوئے تھے۔ اس وقت گرجا گھر میں نمائندوں کی ٹولیاں اپنے اپنے کرسمس کیرلز کی مشق میں جُٹی تھیں۔ ڈھاکے مشن کمپائونڈ کے انچارج ریورنڈ پال میتھیو منوموہن بنرجی گرجا گھر کے اندر اپنے دفتر میں بیٹھے دوات میں نب ڈبو ڈبو کر کرسمس کا وعظ لکھنے میں مصروف تھے۔ گرجا کے عقب میں ان کا مکان جو ’’لِلی کاٹج‘‘ کہلاتا تھا۔ غباروں، کاغذی ربنوں اور مصنوعی ستاروں سے سجایا جارہا تھا۔ مسز بنرجی کچن میں فرش پر بیٹھی کرسمس کیک اور کرسمس پڈنگ کے لئے خشک میوہ صاف کرنے میں منہمک تھیں۔ باہر باغ میں باشا کے سائبان کے نیچے کمپائونڈ کی عورتیں اور لڑکے بالے سب مل کرمُنّا سا اصطبل تیار کرنے میں لگے تھے۔ ولادتِ مسیح کے ٹیبلو کے لئے حضرت مریم سینٹ جوزف، چرواہوں اور بیل گاڑیوں کی مُنّی مُنّی مورتیاں سنواری جارہی تھیں۔ ربڑ کا ببوا یسوع مسیح بڑی احتیاط سے بھوسے کے ننھے سے ڈھیر پر رکھ دیا گیا تھا۔

اچانک گرجا کے ہال میں لُدھیانہ مشن کی ٹولی نے اُونچی باریک آواز میں ایک پنجابی حمد شروع کردی۔ ربّ خداوندی بادشاہ اے… او جلال دا بادشاہ اے۔ اے خداوند… اپنی راہ اپنے بندے… نُوں دکھا… آ… آ

پادری بنرجی نے اپنے دفتر میں وعظ لکھتے لکھتے قلم ایک طرف رکھ دیا اور عینک ماتھے پر چڑھا کر چھت کو دیکھنے لگے۔ الماریوں میں مشن کے رجسٹرر اور موٹی موٹی کتابیں رکھی تھیں۔ سامنے دیوار پر ایک بڑی سی سیاہ صلیب آویزاں تھی۔ میز پر پھولوں سے بھرا گلدان رکھا تھا۔ باہر سے گانے، ہارمونیم اور بچوں کے ہنسنے کی آوازیں آرہی تھیں۔ بڑا پرسکون اور سہانا وقت تھا۔ خدا کے خوف سے ہر وقت ڈرنے والے، نیک دل پادری، بنرجی نے آنکھیں بند کیں اور زندگی کی نعمتوں کے لیے خدا باپ کا شکر ادا کیا۔ پھر انہوں نے اُٹھ کر الماری میں سے ایک رجسٹر نکالا اور وعظ کے کاغذات ایک طرف رکھ کر مشنری کانفرنس میں پیش کرنے کے لیے رپورٹ مکمل کرنے کا ارادہ کیا۔ پچھلے چند برسوں میں پبتسہ لینے والوں کی تعداد میں کمی آتی جارہی تھی۔ مسلمان تو خیر یوں بھی شاذ و نادر ہی عیسائی ہوتے تھے۔ یہ بھی بڑی ہٹیلی اور خود پسند قوم تھی۔

پچھلی صدی میں سیرام پورشن نے کلکتے میں بڑا عہد آفریں کام کیا تھا۔ وہ جفادری، دُھن کے پکے عظیم مشنریوں کا دور تھا۔ بشپ ریجنالڈ ہیبر، ولیم یٹیس، کیری اور مارش مین، ان لوگوں نے اس دیس کی کتنی خدمت کی پریس کھولے، کتابیں چھاپیں، تعلیم پھیلائی۔

جواں مرگ بشپ ہیبر، پادری بنرجی کا محبوب کردار تھا۔ وہ انگلستان سے آیا ہوا روحوں کا جیالا رکھوالا، جو اسی سنہرے بنگال کی دھرتی پر گھوما تھا۔ رجسٹر کے درق گردانی کرتے ہوئے پادری بنرجی کو دفعتاً خیال آیا کہ وہ کرسمس کے وعظ میں بشپ ہیبر کی مختصر لیکن درخشندہ زندگی کی مثال پیش کریں۔ انہوں نے بنگلہ میں تحریر شدہ اپنے وعظ کے کاغذات اپنی طرف سرکا کر دوبارہ لکھنا شروع کیا۔ ’’وہ مبارک زمانہ، جب آج سے سوا سو سال قبل، مادر کلیسا کا لاڈلا سپوت، بہ نفس نفیس ڈھاکے آیا تھا۔ وہ جواں سال، خوبصورت، پادری شاعر پدما کے کنارے ٹہل کر، میرے بچو، تمہاری روحانی نجات کی دعائیں مانگتا تھا۔ اور تمہارے غم میں گھلتا تھا‘‘۔

پادری بنرجی نے اُٹھ کر ایک اونچی الماری میں سے ’’ہیروز آف آور انڈین ایمپائر‘‘ نکالی۔ بشپ ہیبر کا باب کھولا۔ اور اس شاعر پادری کی تحریر کا ایک اقتباس پڑھنے لگے…’’دریا کے کنارے سے بندھی میری نائو… رات میں مہکنے والے پھول… تاڑ کے پتوں کی مدھم سرسراہٹ۔ کویل کی پکار۔ بانس کے تاریک جنگلوں میں جگمگاتے جگنو… عظیم دریا کی سطح پر منعکس استوائی چاند… اور میں نے محسوس کیا کہ اس دیس میں موجود ہونا بہت خوب ہے‘‘۔

پادری بنرجی نے ورق اُلٹا… اور ان کی بشپ ہیبر کی ایک نظم پر پڑی۔ ’’اپنی بیوی سے‘‘۔
اگر تم میرے ساتھ ہو
تو سر سبز بنگال کے آنند کانن میں
شام کا اندھیرا بڑی تیزی سے چھا جائے

پادری بنرجی نے کتاب ایک طرف سرکا دی اور بھوئوں پر انگلیاں رکھ کر آنکھیں بند کرلیں۔ بشپ، ہیبر کو بھول کر وہ یکایک دور شمال کے رنگ پور ضلع میں اپنے دور افتادہ گائوں پہنچ گئے تھے۔ جہاں بانس کے جھنڈ میں چھپے کالی کے مندر کے پیچھے کوئیلیں چلا رہی تھیں۔ اور ان کی پڑوسن اور محبوبہ شونا اُن کے ماں کے ساتھ پوجا کے لیے مندر آتی تھی۔ اور وہ سامنے دریا پر اپنے نوکے میں چھپے اس کے منتظر رہتے تھے۔

وہ وقت اور یہ آج کی رات… یہ مطمئن بڑھاپا… یہ محفوظ خانہ خدا… سکون قلب… انہوں نے پرانے خواب جھٹک کر اپنی ماں کو یاد کیا۔ نجات جس کی قسمت میں نہ تھی…ماں… تُو تو بت پرستی کی گمراہی میں مبتلا ہی دوسری دنیا چلی گئی۔ اب تیری روح اس اندھیرے میں۔ اس اندھیرے میں جانے کہاں ہوگی۔ یہ سب کیا ہے؟

اسرارِ الٰہی۔
پادری بنرجی پھر کام کی طرف متوجہ ہوئے۔ مگر سرسن کے الفاظ اور سالانہ رپورٹ کے علاوہ شمار میں ان کا دل نہ لگا… روحوں کے اعداد و شمار، نجات یافتہ روحیں، گمشدہ روحیں۔

انہوں نے رجسٹر زدر سے بند کیا۔ اور قریب کی الماری میں سے ایک اور پرانی کتاب اپنی طرف کھینچی۔ ’’انگلستان میں راجہ رام موہن رائے کے آخری ایام۔ ازمیری کارپینٹر‘‘ انہوں نے بے دھیانی سے ورق گردانی کرتے ہوئے ضمیمے کے آخری صفحات کھولے۔

’’چار قابل قدر ینٹو کرسچین‘‘۔

۱۔ سُرجوکمار چکر برتی۔ اونچی ذات کا برہمن۔ خود اپنی درخواست پر لندن میں بپتسمہ حاصل کیا۔ لندن یونیورسٹی سے ڈگری لینے کے بعد کلکتہ میڈیکل کالج سے وابستہ ہوا۔ ۱۸۵۵ء میں لندن واپس گیا۔ وہ پہلا نیٹو تھا جو کمپنی کی نئی کودنینٹڈ میڈیکل سروس میں شامل کیا گیا۔

۲۔ بھولو ناتھ داس۔ معرکہ ستلج کے موقع پر کمپنی کی افواج کا اسسٹنٹ سرجن تھا۔ بعد میں ڈھاکا کا سول سرجن بنا۔

۳۔ دوار کا ناتھ بوس۔ کلکتہ میں ڈاکٹر تھا۔

۴۔ گوپال چندرسیل۔

آخری نام پر پہنچ کر پادری بنرجی ٹھٹھک گئے۔ اور گزشتہ صدی میں مس کارپنٹر کی لکھی ہوئی کتاب (جس میں مصنفہ نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی تھی کہ رام موہن بابو دراصل عیسائی ہوگئے تھے) آہستہ سے بند کردی۔

یہ محض اتفاق تھا یا اسی کو ہندو کرم اور سنسکار کہتے ہیں۔ اور مسلمان نوشتہ تقدیر۔ لیکن ہم عیسائی اُس حسنِ اتفاق کو گریس آف گوڈ کہیں گے۔

لیکن… زندگی کا دھارا اچانک، ایک دم کس طرح اپنا رُخ بدل لیتا ہے۔ ایک انسان کے کسی ایک مخصوص سمت قدم اُٹھانے سے اُس کی ساری آنے والی نسلوں کا مستقبل مختلف ہوجاتا ہے۔ اور مستقبل کیا ہے؟

اس غیر اہم، بھُولے ہوئے نام ’’گوپال چندرسیل‘‘ کو دیکھو۔ یہ آج سے سو برس قبل میرے گائوں میں پیدا ہوا تھا۔ وہ عیسائی ہو کر ڈاکٹری پڑھنے ولایت گیا اور وطن واپس آکر بے چارہ نوجوان دریا میں ڈوب کر مر گیا۔

اور ایک روز میں، منوموہن بنرجی۔ ایک مفلس سولہ سالہ طالب علم لال منیر ہاٹ سے اپنے گائوں جارہا تھا۔ جب اسٹیم پر ایک بوڑھا انگریز مشنری مجھے ملا۔ اور اس نے مجھ سے میرے گائوں کا نام پوچھا اور بڑی مسرت سے بتایا کہ اسی گائوں کے ایک قابل فخر نیٹو نوجوان گوپال چندرسیل کو اس کے باپ نے بپتسمہ دیا تھا۔ لیکن میں نے اس نوجوان کا کبھی نام بھی نہ سنا تھا۔ (پادری بنرجی عادتاً دل میں اس انداز میں سوچنے لگے، جس طرح وہ منبر پر وعظ کہتے تھے) برہمپستر کے طویل سفر کے دوران اس مہربان مشنری نے پہلے صفحہ پر اپنا پتہ لکھ کر انجیل مقدس مجھے دی اور جب میں گائوں پہنچا، میری ماں بستر مرگ پر پڑی تھی… اور دیکھو اس کے بُت اسے بچا نہ سکے۔ اور میں، جو انجیل مقد سے بے حد متاثر ہوچکا تھا۔ میں نے اپنے باپ کو بنگلہ انجیل پڑھنے کو دی۔ اور سال بھر بعد میں، میرا باپ، چچا، بہن بھائی، سارا کنبہ رنگ پور اس انگریز مشنری کے ہاں پہنچ کر اس کے ہاتھ پر ایمان لائے۔ چنانچہ پادری بنرجی نے کرسی پر پہلوبدلا اور اپنے غیر مرئی سامعین سے مخاطب رہے۔ ایک سچا نیٹو کرسچین جو آج سے مدتوں قبل مُوا ایسے اَن دیکھے اور بالواسطہ طریقہ سے میرے خاندان کے یسوع تک پہنچنے کا وسیلہ بنا۔

اگر میں اس روز اس اسٹیمر پر اس مشنری سے نہ ملتا۔ یہ کرم کا کھیل تھا…؟ یا محض اندھا اتفاق… ریونڈر بنرجی نے سر ہلایا اور متحیر سے بیٹھے دروازے سے باہر مشن کمپائونڈ کا نظارہ کرنے لگے۔

ہندوستان کے ہر ضلع میں ایک مشن کمپائونڈ موجود ہے۔ بلکہ مختلف کلیسائوں کے مختلف مشن کمپائونڈ موجود ہیں۔ جس میں ڈیڑھ دو سو سال سے سفید فام مشنری خواتین خواتین سفیدی سائے اور سفید سولا ہیٹ پہنے ہاتھ میں بائیبل لئے نیٹو لوگوں کی روحوں کو بچانے کے لئے دن رات کوشاں رہی ہیں۔ اور کالا پادری ہندوستانی معاشرے کے ایک کنارے پر اپنی انجیل لئے کھڑا ہے۔

شروع شروع میں ایسٹ انڈیا کمپنی کی حکومت مشنریوں کو ایک نیوسنس سمجھتی تھی۔ سیرام پور میں بیٹسٹ مشن کی طرف سے شائع ہونے والا انتہائی دلآزار لٹریچر پہلے فورٹ ولیم میں سنسر کیا جاتا تھا کہ ابھی ہندوستان میں مسیحی مشن کو یونین جیک کی سرپرستی حاصل نہیں ہوئی تھی۔ لارڈ منٹو نے سیرام پور کے لٹریچر کے متعلق کمپنی کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کو مطلع کیا تھا۔ کہ یہ ہندوئوں کے لئے بے حد اشتعال انگیز ثابت ہورہا ہے۔ اس کے جواب میں سیرام پور کے مشہور مشنری ڈاکٹر مارش ئین نے لکھا تھا کہ ہندوستانی انتہائی کمزور اور احمق کردار کا مالک ہے۔ اور اس کمزوری کی وجہ سے ہمیشہ کسی نہ کسی گیر قوم کا محکوم رہے گا۔ اور اس کے اس بودے پن کو عیسائیت بھی دور نہیں کرسکتی۔ لیکن برطانیہ کے زیر سایہ زندہ رہنا اس کے لئے برکت الٰہی کا موجب ہے۔ اس وجہ سے جو ہندو یامحمڈن عیسائی ہوجائے وہ اپنے تحفظ کی خاطر برطانیہ کا انتہائی وفادار ثابت ہوگا۔ کیونکہ محض اس ایمپائر کی سلامتی اور توسیع پر اس کے وجود کا انحصار ہے۔

(جاری ہے)

حصہ