کیوں نہیں

165

’’آپ آج شناختی کارڈ دراز میں سے ڈھونڈ کر والٹ میں رکھ لیں۔ کل الیکشن ہے، شناختی کارڈ کی ضرورت پڑے گی۔‘‘سویرا نے چائے کا کپ میرے ہاتھ میں دیتے ہوئے کہا۔

’’نہیں! کل تو سنڈے ہے، بچوں کے ساتھ کہیں گھومنے چلیں گے۔‘‘ میں نے چائے کی چسکیاں جلدی جلدی لیتے ہوئے آفس کا بیگ سنبھالا۔

’’کیا مطلب…؟ اور الیکشن کا کیا ہوگا؟‘‘سویرا نے حیرانی سے پوچھا۔

’’میں کیا کروں گا ووٹ ڈال کر! کوئی اس قابل نہیں ہے کہ اُس کے ہاتھ میں اپنا ملک دوں۔ خیر، کل سونے اور گھومنے کا دن ہے، اپنی امی کو بتادو کل ہم اُن کے گھر چلیں گے، اس بہانے ابو کی خیریت بھی لے لوں گا میں۔‘‘

میں نے کپ واپس سویرا کے ہاتھ میں دیا اور جلدی جلدی جوتے پہن کر آفس کے لیے نکل گیا۔
…٭…

’’تمہارے خیال میں ووٹ ڈالنا اہم کیوں نہیں ہے؟ کیا تم پاکستان کا مستقبل کسی کے ہاتھ میں نہیں دینا چاہتے؟‘‘

’’ارے بھائی! کیوں نہیں چاہتا‘ بالکل چاہتا ہوں کہ ہمارا ملک محفوظ ہاتھوں میں جائے اور خوب ترقی کرے… مگر کوئی اس قابل کہاں ہے؟‘‘

’’کیوں نہیں ہے؟ اگر تم تمام جماعتوں کا جائزہ لو تو کوئی ایک جماعت ضرور اس قابل ہوگی جو پاکستان کے حق میں بہتر ہوگی۔ ورنہ ووٹ نہ دے کر تو تم کھوٹے سکوں کی راہ ہموار کرو گے۔‘‘

آفس میں شاہ زیب اور سکندر صاحب بحث میں مصروف تھے۔ میں اپنی ٹیبل پہ بیٹھا اُن کی باتیں غور سے سن رہا تھا۔

’’نہیں بھائی! کوئی فائدہ نہیں، اور ویسے بھی کون سا ہمارے ووٹ سے ہماری پسند کی جماعت آجائے گی۔ ہونا وہی ہے جو دھاندلی سے ہمیشہ ہوتا ہے۔‘‘

’’مگر اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ تم کسی ایک جماعت کا انتخاب نہ کرو۔‘‘سکندر صاحب نے کہا۔

’’آپ کی نظر میں کون سی جماعت اس قابل ہے؟‘‘

’’اگر میری نظر سے دیکھیں، اگر یقین کریں تو ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی بظاہر سیاسی بیان بازی مصروف ہیں مگر عملاً یہ دونوں ایک ہی سکے کے دو رُخ ہیں۔ اس ماحول میں انسان کیسے پہچانیں!‘‘ شاہ زیب ماتھے پر بل ڈالتے ہوئے بولا۔

’’کیا تمہیں وہ جماعت نظر نہیں آرہی جو عوام کے ہر مسئلے میں ان کے شانہ بشانہ کھڑی رہتی ہے۔ کراچی کی سڑکیں ہوں یا بجلی اور گیس کے مسائل، پانی کی پائپ لائنوں کا مسئلہ ہو یا گٹر ابلنے کے مسائل، ٹرانس جینڈر کا بل ہو یا اسمبلی میں اسلام کے خلاف پاس ہونے والے قانون، جماعت اسلامی ہر جگہ اپنا بہترین کردار ادا کررہی ہے۔ وہ عوام کے جذبات کو سمجھتی اور ہمارے مسائل کو حل کرنے کا عزم رکھتی ہے۔ آج سے پہلے میں نے کبھی جماعت اسلامی کو ووٹ نہیں دیا، مگر مسائلِ فلسطین کے وقت اس جماعت کی جدوجہد دیکھ کر میں نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ کیوں نا ایک بار اس جماعت کا جائزہ لیا جائے۔

اور شاہ زیب! بات یہ ہے کہ ہم یہ بول کر پیچھے نہیں ہٹ سکتے کہ ہمارا ووٹ ضائع ہوگا یا کوئی اس ووٹ کے قابل نہیں ہے، یہ ہمارے وطن عزیز کا معاملہ ہے۔ ہم اگر ایمان دار لوگوں کو لانے میں اپنا کردار ادا نہیں کریں گے تو یوں ہی لٹیرے حکومت میں آتے رہیں گے۔ پھر سب سے بڑھ کر ووٹ ایک ذمہ داری ہے جس کی ہم سب مسلمانوں سے پوچھ گچھ ہوگی۔‘‘
سکندر صاحب کی بات بلاشبہ درست تھی۔
’’زلزلہ آئے تو جماعت اسلامی، سیلاب آئے تو جماعت اسلامی، بیوائوں کی مدد کرنی ہو یا بے سہاروں کا سہارا بننا ہو تو جماعت اسلامی، اسکالرشپ دینی ہو تو جماعت اسلامی، ختم ِ نبوت کا تحفظ ہو یا فلسطین میں امداد پہنچانی ہو، یا سود کے خلاف لڑنا… گویا عوام کے حقوق کا تحفظ ہو تو جماعت اسلامی۔ تو پھر ووٹ جماعت اسلامی کو کیوں نہ دیں۔‘‘

حصہ